• Misyar Marriage

    is carried out via the normal contractual procedure, with the specificity that the husband and wife give up several rights by their own free will...

  • Taraveeh a Biad'ah

    Nawafil prayers are not allowed with Jama'at except salatul-istisqa' (the salat for praying to Allah to send rain)..

  • Umar attacks Fatima (s.)

    Umar ordered Qunfuz to bring a whip and strike Janabe Zahra (s.a.) with it.

  • The lineage of Umar

    And we summarize the lineage of Omar Bin Al Khattab as follows:

  • Before accepting Islam

    Umar who had not accepted Islam by that time would beat her mercilessly until he was tired. He would then say

Thursday, January 17, 2013

متعہ يا ازدواج موقت

تمام علمائے اسلام اس بات كے قائل ہيں كہ متعہ پيغمبر اكرم(ص) كے زمانے ميں ايك عرصہ تك رائج تھا_ ايك گروہ قائل ہے كہ يہ خليفہ ثانى كے دور ميں خود اس كے توسط سے اور دوسرا گروہ قائل ہے كہ خودپيغمبر اكرم(ص) كے زمانے ميں متعہ كو دوبارہ حرام كرديا گيا تھا_ اور ہم مكتب اہلبيتكے پيروكاروں كا اس بات پر اتفاق ہے كہ متعہ ہرگز حرام نہيں ہوا ہے اور اس كا جواز باقى ہے ( البتہ مخصوص شرائط كے ساتھ)


اس عقيدہ ميں بہت كم اہلسنت ہمارے ساتھ متفق ہيں جبكہ انكى اكثريت اس مسئلہ ميں ہمارے مخالف ہے _ بلكہ ہميشہ ہميں اس بات كا طعنہ ديتے اور اعتراض كرتے ہيں حالانكہ اس مسئلہ ميں نہ صرف اعتراض كا مقام نہيں بلكہ يہ بہت سى اجتماعى مشكلات كے حل كرنے ميں ايك اہم كردار ادا كرتا ہے_


اس مطلب كى وضاحت آئندہ ابحاث ميں بيان كى جائيگي_

ضرورت اور نياز
بہت سے لوگ ( بالخصوص جوان لوگ) دائمى نكاح اور شادى كى قدرت نہيں ركھتے ہيں كيونكہ عام طور پر شادى كرنے كے ليئے مقدمات، اخراجات اور بہت سى ذمہ داريوں كو قبول كرنے كى ضرورت ہوتى ہے اور ايك بڑى تعداد كے ليے شرائط ابھى آمادہ اور ميسر نہيں ہيں_


مثال كے طور پر :
1_ بہت سے جوان اپنے تعليمى دور ميں شادى كرنے كى قدرت نہيں ركھتے ہيں (بالخصوص ہمارے زمانے ميں تو تعليمى دورانيہ طولانى ہوچكا ہے) كيونكہ نہ تو ان كى كوئي ملازمت و غيرہ ہے اور نہ ہى رہائشے كے ليئے كوئي مناسب مكان اور نہ ديگر اخراجات، جس قدر بھى سادگى كے ساتھ شادى كرنا چاہيں پھر بھى بنيادى وسائل فراہم نہيں ہيں_


2: بعض افراد شادى شدہ ہيں ليكن بيرون ممالك سفر پر جاتے ہيں اور انكے سفر لمبے ہوجاتے ہيں_ وہاں وہ جنسى محروميّت كا شكار ہوجاتے ہيں كيونكہ نہ تو اپنى بيويوں كو ساتھ لے جاسكتے ہيں اور نہ ہى اس ملك ميں دوسرى شادى كر سكتے ہيں_

3: بعض لوگ ايسے ہيں جنكى بيوياں مختلف بيماريوں يا مشكلات كا شكار ہوجاتى ہيں اور اس وجہ سے وہ اپنے شوہروں كى جنسى خواہشات كو پورا نہيںكرسكتى ہيں_

4: بہت سے فوجى ايسے ہيں جو بارڈر و غيرہ كى حفاظت كے ليے يا كسى اور مناسبت سے لمبى ڈيوٹى پر اپنے گھر سے دور چلے جاتے ہيں اور وہاں جنسى مشكلات سے دوچار ہوتے ہيں_

اور جيسا كہ آئندہ بيان كيا جائيگاپيغمبر اكرم (ص) كے زمانے ميں بھى بہت سے اسلامى فوجيوں كے ليئےہى مشكل پيش آئي اور اسى وجہ سے متعہ كو حلال كيا گيا_

5: بعض اوقات حمل كے دوران يا بعض ديگر وجوہات كى بناء پر انسان مجبور ہوجاتا ہے كہ كچھ عرصہ كے ليئےپنى بيوى كے ساتھ جنسى روابط ترك كردے اور ممكن ہے شوہر جو ان بھى ہو اور اس محروميت ميں گرفتار ہو_

اس قسم كى اجتماعى ضروريات اور مشكلات ہميشہ تھيں اور ہميشہ رہيں گى اور يہ مسائل صرف

پيغمبر اكرم(ص) كے زمانے كے ساتھ مخصوصنہيں ہيں بلكہ ہمارے زمانے ميں تحريك جنسى كے عوامل كى زيادتى كى وجہ سے يہ مسائل شدت اختيار كرچكے ہيں_
ايسے موقع پر لوگوں كے سامنے دو راستے كھلے ہيں_ يا تو معاذ اللہ بدكارى اور گناہوں ميں آلودہ ہو جائيں يا ايك سادہ سے نكاح يعنى متعہ سے استفادہ كريں كيونكہ اس ميں شادى كى مشكلات و مسائل بھى نہيں ہيں اور دوسرى طرف يہ وقتى طور پر انسان كى جنسى ضروريات كو پورا كرتا ہے _پارسائي كا مشورہ دينا اور دونوں راستوں سے چشم پوشى كرنا اگرچہ اچھا مشورہ ہے ليكن بہت سے مقامات پر قابل عمل نہيں ہے اور كم از كم بعض افرادكيلئے صرف ايك خيالى راستہ ہے_

نكاح مسيار:
دلچسپ بات يہ ہے كہ حتى متعہ كے منكر علماء ( يعنى اكثر اہلسنت برادران) جب جوانوں اور ديگر محروم لوگوں كى طرف سے دباؤ كا شكار ہوئے تووہ تدريجاً ايك نكاح كے قائل ہوگئے جو متعہ كے مشابہ ہے اور اسے وہ '' ازدواج مسيار'' كا نام ديتے ہيں _ گرچہ اس نكاح كا نام نكاح موقت يعنى متعہ نہيں ہے ليكن عمل ميں يہ متعہ كے ساتھ كوئي فرق نہيں كرتا ہے_
پس اسطرح وہ علماء بھى اجازت ديتے ہيں كہ يہ ضرورت مند انسان اس عورت كے ساتھ دائمى نكاح كر سكتا ہے حالانكہ اس كا ارادہ يہ ہے كہ كچھ مدت كے بعد اسے طلاق دے دے گا اور اس كے ساتھ يہ شرط كرتا ہے كہ وہ نفقہ كا حق نہيں ركھے گى اور نہ ہى رات ساتھ سونے اور وراثت كا حق ركھے گى يعنى بالكل متعہ كے مشابہ ہے_ فرق صرف اتنا ہے كہ اس نكاح مسيار ميں طلاق كے ذريعہ دونوں جدا ہوتے ہيں جبكہ متعہ ميں باقى ماندہ مدت كو بخشنے كے ذريعے يا

نكاح كى مدت ختم ہوجانے كے ذريعے مرد و عورت ايك دوسرے سے جدا ہوتے ہيں كيونكہ انہوں نے ابتداء سے ہى عقد ميں ايك محدود مدت معين كى تھي_
اوراس سے بڑھ كر بھى دلچسپ يہ ہے كہ ماضى قريب ميں ہى بعض اہلسنت جوانوں نے كہ جنہيں شادى كى مشكل تھى اور وہ مسائل سے دوچار تھے، انٹرنيٹ كے ذريعے ہمارے ساتھ رابطہ كيا ہے اور سوال كيا كہ كيا ہم متعہ كے مسئلہ ميں شيعہ مجتہد كے فتوى پر عمل كر سكتے ہيں؟ ہم نے جواب ديا جى ہاں آپ اس مسئلہ ميں شيعہ مسلك كے مطابق عمل كر سكتے ہيں_
جو لوگ متعہ كا انكار كرتے ہيں اور نكاح'' مسيار'' كو اختيار كرتے ہيں در حقيقت وہ متعہ پر عمل كر رہے ہيں صرف اس كا نام نہيں لينا چاہتے ہيں
ہاں '' ضروريات'' انسان كو '' حقائق'' كے تسليم كرنے پر مجبور كر ديتى ہيں اگرچہ اس كا نام زبان پر نہ لائيں_

پس يوں نتيجہ ليتے ہيں كہ جو لوگ متعہ كى مخالفت پر اصرار كرتے ہيں وہ دانستہ يا نادانستہ طور پر برائيوں اور بدكاريوں كے ليئےاہ ہموار كر رہے ہيں مگر يہ كہ متعہ كے مشابہ '' نكاح مسيار'' كا فتوى ديں_ اسى ليے آئمہ اطہار (ع) كى روايات ميں يہ بات بيان ہوئي ہے '' كہ بعض لوگ اسلامى طريقہ كے مطابق نكاح موقت '' كى مخالفت نہ كرتے تو كوئي بھى زنا سے آلودہ نہ ہوتا''(1)

1) امام صادق (ع) فرماتے ہيں '' لو لا ما نہى عنہا عمر ما زنى الاشقيّ'' (وسائل الشيعہ جلد 14 ص 420 حديث 24) اہلسنت كى كتاب ميں بھى يہ حديث كثرت كے ساتھ بيان ہوئي ہے_ قال على _ '' لو لا انّ عمر نہى عن المتعة ما زنى الا شقيّ'' ( تفسير طبرى ،جلد 5 ،ص 119 ; تفسير در المنثور، جلد 2 ،ص 140 و تفسير قرطبى ،جلد 5 ،ص 130)_

اسى طرح جولوگ اس متعہ سے سوء استفادہ كرتے ہيں ( حالانكہ يہ محروم لوگوں كى ضروريات اور مسائل كے حل كے ليئےريعت كى طرف سےتجويز ہوا ہے) اور لوگوں كى نظروں ميں اس كا چہرہ مسخ كرتے ہيں اور اسے اپنى ہوس رانى كے ليئے استعمال كرتے ہيں وہ بھى اسلامى معاشروں ميں برائي اور زنا كى راہ ہموار كرنے ميں مدد كر رہے ہيں اور گناہ ميں آلودہ لوگوں كے ساتھ شريك ہيں كيونكہ يہ لوگ عملا متعہ كے صحيح استعمال كى راہ ميں ركاوٹ ہيں_

بہرحال اسلام كہ جو الہى قانون ہے اور انسان كى فطرت كے عين مطابق ہے اور انسان كى تمام ضروريات كو احاطہ كيے ہوئے ہےممكن نہيں ہے كہ متعہكا مسئلہ اسلام كے احكام ميں بيان نہ ہوا ہو جيسا كہ بعد ميں بيان كيا جائيگا_ نكاح موقت پر قرآن مجيد بھى شاہد ہے اور احاديث نبوى ميں بھى يہ مسئلہ بيان ہوا ہے اور اصحاب كى ايك جماعت كا عمل بھى اس پر رہاہے_ ہاں بعض لوگ اس اسلامى حكم كے منسوخ ہوجانے كے قائل ہيں اور جيسا كہ آپ ملاحظہ فرمائيں گے كہ نسخ كے قائلين كے پاس كوئي معقول اور قانع كنندہ دليل موجود نہيں ہے_

متعہ كيا ہے؟
بعض ناآگاہ لوگ '' نكاح موقت '' كو انتہائي مسخ چہرے كے ساتھ پيش كرتے ہيں اور اسے '' گناہ، فحشاء اور جنسى آزادى كو قانونى شكل دينے'' كے مترادف شمار كرتے ہيں

اگر اس قسم كے لوگ سب كے سب عوام الناس ميں سے ہوتے تو كوئي مشكل نہيں تھى ليكن افسوس يہ ہے كہ اہلسنت كے بعض علماء بھى اس قسم كى نازيبا نسبتيں ديتے ہيں_ يقيناً شديد مذہبى تعصب انہيں اپنے مد مقابل كى كتابوں كا مطالعہ كرنے كى اجازت نہيں ديتا ہے اور شايد

بعض علماء نے تو اس مسئلہ ميں شيعوں كى كتب كى ايك سطر كا بھى مطالعہ نہ كيا ہو اور اسى بات پر ہميں افسوس ہے_

اس ليے ہم اس مختصر سى كتاب ميں نكاح موقت كى شرائط اور اس كا نكاح دائم كے ساتھ فرق واضح الفاظ ميں بيان كريں گے تا كہ سب پر حجت تمام ہوجائے_

نكاح موقت اكثر شرائط و احكام ميں نكاح دائم ہى كى طرح ہے_

1_ مرد و عورت دونوں مكمل رضايت اور اختيار كے ساتھ بغير كسى جبر كے ايك دوسرے كو مياں بيوى بننے اور شادى كے ليئے قبول كريں_

2_ عقد كا صيغہ لفظ''نكاح'' '' ازدواج'' يا '' متعہ'' كے ذريعے جارى كيا جائے اس كے علاوہ دوسرے الفاظ كافى نہيں ہيں_

3_ اگر لڑكى باكرہ ہو تو ولى كى اجازت ضرورى ہے اگر باكرہ نہ ہو تو اجازت شرط نہيں ہے_

4_ عقد كى مدّت اور حق مہر دقيق اور واضح طور پر معين كيا جائے_ اگر مدت كو نكاح كے درميان بيان كرنا بھول جائے تو بہت سے فقہاء كے فتوى كے مطابق يہ عقد، نكاح دائم ميں تبديل ہوجائيگا ( اور يہ خود اس بات كى دليل ہے كہ ہر دو نكاح كى حقيقت ايك ہى ہے صرف مدت كے ذكر كرنے يا نہ كرنے كے اعتبار سے فرق ہے) ( توجہ فرمايئے

5_ مدت كا اختتام، طلاق كى مثل ہے بلافاصلہ عورت كو عدّت گزارنا ہوگى ( البتہ اگر آميزش واقع ہوئي ہے)

6: عقد دائم كى عدت تين مرتبہ ماہوارى كا ديكھنا ہے يعنى تيسرى مرتبہ ماہوارى ديكھنے كے بعد عدت تمام ہوجائيگي_ ليكن عقد موقّت كى عدت دو مرتبہ ماہوارى كا ديكھنا ہے_

7: عقد متعہ سے پيدا ہونے والے بچے شرعى حوالے سے اولاد شمار ہوتے ہيں_ انكے ليئےمام وہى احكام ہيں جو عقد دائم سے پيدا ہونے والے بچوں كے احكام ہيں_ اور اسى طرح يہ بچے ماں، باپ، بھائيوں اور دوسرے رشتہ داروں سے وراثت بھى پائيںگے_ ان بچوں اور دائمى شادى سے پيدا ہونے والے بچوں كے حقوق ميں كوئي فرق نہيں ہے_

يہ بچے بھى ماں،باپ كى كفالت ميں رہيں گے ان كے تمام اخراجات اور نفقہ نكاح دائمى سے ہونے والے بچوں كى طرح لازمى ہے كہ ادا كئے جائيں_

بعض لوگ يہ شرائط سُن كر شايد حيران ہوں _ انكا حق بنتا ہے كيونكہ متعہ كے بارے غلط اور عوامانہ ذہنيت بنائي گئي ہے _شايد لوگ اسے مخفى ، ناجائزاور غير قانونى شادى تصوّر كرتے ہيں ، يعنى ايك لفظ ميں كہا جائے تو اسے جو زنا كے مشابہ خيال كرتے ہيں_ حالانكہ ايسا بالكل نہيں ہے_

ہاں ان دو نكاحوں كے درميان مياں بيوى كے حقوق كے لحاظ سے كچھ فرق ہے_ اس نكاح ميں عقد دائم كى نسبت آپس كے تعہد اور ذمہ دارياں بہت كم ہيں_ كيونكہ اس نكاح كا مقصد ہى سہولت اور قوانين كا بہت سخت نہ ہونا ہے_ من جملہ :

1_ بيوى عقد متعہ ميں نفقہ اور وراثت كى حقدار نہيں بنتي_ البتہ بعض فقہاء قائل ہيں كہ يہ اُس صورت ميں ہے جب نكاح ميں نفقہ اور وراثت كى شرط نہ لگائي جائے يعنى اگر نكاح ميں يہ شرط ركھ دى ہے تو پھر اس شرط كے مطابق عمل كرنا ہوگا_

2_ اس نكاح ميں عورت آزاد ہے كہ گھر سے باہر جاكر كام ( ملازمت) كرسكتى ہے _اس كے ليے شوہر كى اجازت شرط نہيں ہے جب تك يہ كام شوہر كے حقوق كو تلف نہ كرتا ہو_ ليكن عقد دائم ميں بيوى كيلئے شوہر كى رضايت كے بغير باہر ملازمت كرنا جائز نہيںہے_

3: اس نكاح ميں مرد پر واجب نہيں ہے كہ رات كو اپنى بيوى كے پاس رہے_

مذكورہ احكام ميں غور و فكر كرنے سے بہت سے سوالات، غير منصفانہ قضاوت، شبہات اور تہمتوں كا جواب روشن ہوجائيگا_اور اسلام كے اس حكيمانہ اور مقدس حكم كے بارے ميں بنائي گئي غلط ذہنيت خودبخود ختم ہوجائيگي_ اور اس گفتگو سے يہ بات بھى بالكل واضح و روشن ہوجاتى ہے كہ اس نكاح موقّت كا زنا اور ديگر عفت كے منافى اعمال كے ساتھ كوئي واسطہ نہيں ہے_ جو لو گ ان دونوں كا آپس ميں قياس كرتے ہيں وہ يقيناً ناآگاہ ہيں اور انہيں نكاح متعہ كى حقيقت اور شرائط كے بارے ميں بالكل معلومات نہيں ہيں_

سوء استفادہ: ہميشہ مثبت امور سے سوء استفادہ بد زبان لوگوں كى زبان كھولتا اور بہانہ گروں كو بہانہ فراہم كرتا ہے تا كہ اسے بہانہ بنا كر مثبت امور كے خلاف كام كريں اور اپنا زہر اگليں_

نكاح متعہ بھى اس قسم كى بحثوں كا ايك روشن مصداق ہے_

انتہائي افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ بعض ہوس پرستوں نے اس نكاح متعہ كو جو كہ حقيقت ميں ضروريات كى گرہ كھولنے اور اجتماعى مشكلات كو حل كرنے كے ليئے تشريع كيا گيا تھا، بازيچہ بناديا ہے اور بے اطلاع لوگوں كے سامنے اس كا چہرہ مسخ كركے مخالفين كو بہانہ فراہم كيا ہے_ جس كى وجہ سے يہ حكيمانہ حكم تنقيد كا نشانہ بن گيا ہے_

ليكن سوال يہ ہے كہ وہ كونسا حكم ہے جس سے ايك دن ضرور سوء استفادہ نہ كيا گيا ہو اور وہ كونسا نفيس سرمايہ ہے جس سے نا اہل غلط طور پربہرہ مندنہ ہوئے ہوں؟

اگر لوگوں نے ايك دن جھوٹ اور دھوكے سے قرآن مجيد كو نيزوں پر بلند كيا تا كہ اپنى ظالم حكومت كا دفاع كرسكيں تو كيا اس كا يہ مطلب ہے كہ ہم قرآن مجيد كو چھوڑ ديں؟


يا اگر ايك دن منافقين نے مسجد ضرار بنادى جس كے ويران كرنے اور جلانے كا حكم خود پيغمبر اسلام(ص) نے صادر فرمايا تو كيا اس كامطلب يہ ہے كہ ہم مسجد سے كنارہ كشى اختيار كرليں؟

بہرحال ہم اس بات كا اعتراف كرتے ہيں كہ بعض نادان لوگوں نے اسلامى حكم سے سوء استفادہ كيا ہے ليكن چند بے نمازيوں كى وجہ سے مسجد كو تالا نہيں لگايا جاسكتا ہے_

اس كا طريقہ يہ ہے كہ ہوس پرستوں كے ليئے راستہ بند كيا جائے اور اس نكاح متعہ كے ليئےحيح راہ حل نكالا جائے_

بالخصوص ہمارے زمانے ميں يہ كام منظّم اور دقيق راہ حل كے بغير ممكن نہيں ہے_ لہذا ضرورى ہے كہ بعض شائستہ اور ماہر شخصيات اور اہل خبرہ لوگ اس مسئلہ كے ليئےيك كار آمد اور قابل اجراء قانون نامہ لكھ كرشياطين كے ہاتھ قطع كرديں اور اس حكيمانہ حكم كے خوبصورت چہرہ كو آشكار كرديں_ تا كہ دو گروہوں كے ليئےاستہ بند ہوجائے_ ايك ہوس پرست گروہ اور دوسرا تنقيد كرنے والا كينہ توزٹولہ_

نكاح متعہ، قرآن و سنّت اور اجماع كى روشنى ميں:

قرآن مجيد ميں نكاح موقّت كو '' متعہ'' كے عنوان كے ساتھ سورہ نساء كى آيت نمبر 24 ميں بيان كيا گيا ہے_ ارشاد بارى تعالى ہے '' فَمَا استَمتَعتُم بہ منہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجورَہُنَّ فَريضَةً'' پس جن خواتين كے ساتھ تم متعہ كرو انكا حق مہر انہيں ادا كرو''

اور اہم نكتہ يہ ہے كہ رسولخدا(ص) سے نقل شدہ بہت سى احاديث ميں '' متعہ'' كا لفظ، نكاح موقت كے ليئےستعمال كيا گيا ہے ( جيسا كہ آئندہ ابحاث ميں يہ روايات قارئين كى نظروں سے گزريں گي) اس كے علاوہ فقہاء اسلام كى كتابوں ميں چاہے وہ شيعہ ہوں يا سُنّى ہر جگہ نكاح

موقت كو '' متعہ'' كے ساتھ تعبير كيا گيا ہے_ پس اس بات كا انكار مسلّمات كا انكار شمار ہوگا ( فقہاء كے بعض كلمات بھى آئندہ اوراق ميں آپكى خدمت ميں پيش كيے جائينگے)

اس كے باوجود بعض لوگوں كا اصرار ہے كہ اس آيت ميں '' استمتاع'' كا لفظ '' لذت اٹھانے'' اور ہمبسترى كرنے'' كے معنى ميں استعمال ہوا ہے_ اور كہتے ہيں اس آيت كا مفہوم يہ ہے كہ جس وقت تم بيويوں سے جنسى استفادہ كرو تو انكا حق مہر ادا كيا كرو_اس بات ميں دو واضح اعتراض ہيں:

اولاً: حق مہر كى ادائيگى كا وجوب، عقد اور نكاح پر موقوف ہے_ يعنى نكاح ہونے كے فوراً بعد عورت اپنے پورے حق مہر كى ادائيگى كا مطالبہ كرسكتى ہے چاہے ہمبسترى نہ ہى كى ہو حتى خوش فعلى بھى واقع نہ ہوئي ہو ( ہاں اگر ہمبسترى سے پہلے طلاق واقع ہوجائے توطلاق كے بعد حق مہر آدھا ہوجاتا ہے) (غور فرمايئے

ثانيا: جيسا كہ كہا ہے كہ متعہ كى اصطلاح شريعت كى عرف ميں، شيعہ اور سنّى فقہاء كے كلمات اور احاديث كى زبان ميں '' نكاح موقّت'' كے معنى ميں استعمال ہوتى ہے_ اس بات كى ادلّہ مفصل طور پر آپ كے سامنے پيش كى جائيں گي_

مشہور مفسّر مرحوم طبرسي، تفسير مجمع البيان ميں اس آيت كى تفسير كے ذيل ميں وضاحت فرماتے ہيں كہ اس آيت كے بارے ميں دو نظريے ہيں، 1_ ايك اُن لوگوں كا نظريہ ہے جو استمتاع كو '' لذت اٹھانے'' كے معنى ميں تفسير كرتے ہيں_ اس كے بعد انہوں نے بعض اصحاب يا تابعين وغيرہ كو اس نظريہ كے قائلين كے طور پر پيش كيا ہے 2_ دوسرا اُن لوگوں كا نظريہ ہے جو قائل ہيں كہ يہ آيت عقد متعہ اور نكاح موقت كے بارے ميں نازل ہوئي ہے اور اسے انہوں نے ابن عباس و سدى و ابن مسعود اور تابعين كے ايك گروہ كا نظريہ قرار ديا ہے_

اس كےبعد وہتفسير كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ دوسرا نظريہ واضح ہے كيونكہ متعہ اور استمتاع كا لفظ شريعت كى عرف ميں نكاح موقّت كے ليے استعمال ہوتا ہے_ 1 ور اس كے علاوہ دوسرى دليل يہ ہے كہ حق مہر كا وجوب لذت اٹھانے كے ساتھ مشروط نہيں ہے_(1)

قرطبى اپنى تفسير ميں فرماتے ہيں:كہ جمہور كے عقيدہ كے مطابق اس آيت سے مراد وہى نكاح موقت ہے جو صدر اسلام ميں رائج تھا_(2)

اس كے علاوہ سيوطى نے تفسير در المنثور ميں اور ابوحيان، ابن كثير اور ثعالبى نے اپنى تفاسير ميں اس معنى كى طرف اشارہ كيا ہے_

يہ مسئلہ تمام علمائے اسلام ( شيعہ ، سنّي) كے نزديك مسلّم ہے كہ نكاح موقّت ( متعہ) پيغمبر اكرم(ص) كے زمانے ميں موجود تھا_ ليكن فقہائے اہلسنت كى ايك بڑى جماعت قائل ہے كہ يہ حكم بعد ميں منسوخ ہوگيا تھا_ البتہ كس زمانے ميں منسوخ ہوا؟ اس بارے ميں انكا شديد اختلاف ہے_ اور يہ بات توجہ طلب ہے_

من جملہ مشہور عالم '' جناب نووي'' صحيح مسلم كى شرح ميں يوں اقوال نقل كرتے ہيں:

1_ بعض كہتے ہيں كہ ( متعہ كو) غزوہ خيبر ميں پہلے حلال كيا گيا پھر حرام كرديا گيا_


2_ صرف عمرة القضاء ميں حلال تھا_


3_ فتح مكہ كے دن پہلے حلال اور پھر حرام كرديا گيا_


4_ غزوہ تبوك ( سنہ 9 ہجرى ق) ميں حرام كيا گيا_


5_ صرف جنگ اوطاس ( سنہ 8 ہجرى ق) ميں حلال كيا گيا_


1) تفسير مجمع البيان، جلد 3 ،ص 60_


2) تفسير قرطبى ، جلد 5 ،ص 120 وفتح الغدير ، جلد 1 ص 449_


116


6_ حجة الوداع ( سنہ 10 ہجرى ق) ميں حلال كيا گيا_(1)

دلچسپيہ ہے كہ اس بارے ميں متضاد روايات نقل كى گئي ہيں بالخصوص جنگ خيبر ميں اس كى تحريم اور حجة الوداع ميں اس كى تحريم والى روايات مشہور ہيں_ بعض اہلسنت فقہاء نے ان دو احاديث كو جمع كرنے كے ليئےہت كوشش كى ہے ليكن كوئي مناسب راہ حل پيش نہيں كرسكے ہيں_ (2)

اور اس سے زيادہ دلچسپ بات يہ ہے كہ جناب شافعى كا يہ جملہ ہے: وہ فرماتے ہيں''لا اَعلَمُ شَيئاً اَحَلَ الله ثم حرَّمّہ ثم اَحَلَّہ ، ثم حرَّمَہ الا المُتعة'' مجھے متعہ كے علاوہ كس اور چيز كا علم نہيں ہے كہ اسے پہلے اللہ تعالى نے حلال كيا ہو پھر حرام كرديا ہو پھر دوبارہ حلال كيا ہو اور اس كے بعد پھر حرام كرديا ہو''(3)

دوسرى طرف سے ابن حجر، سھيلى سے نقل كرتے ہيں كہ غزوہ خيبركے دن متعہ كى تحريم ايسى چيز ہے جسے راويوں اور ارباب تاريخ ميں سے كسى نے نقل نہيں كيا_(4)

7: ايك اور قول يہ ہے كہ متعہ رسولخدا(ص) كے زمانے ميں حلال تھا، بعد ميں حضرت عمر نے اس سے منع كيا ہے_ جيسا كہ اہلسنت كى معتبرترين كتاب صحيح مسلم ميں يوں آيا ہے '' ابن ابى نضرة'' كہتے ہيں ميں جناب جابر ابن عبداللہ انصارى كى خدمت ميں تھا، وہ كہنے لگے كہ ابن زبير اور ابن عباس كے درميان عورتوں كے ساتھ متعہ اور متعہ حج ( حج تمتع يعنى عمرہ اور حج كے

1) شرح صحيح مسلم جلد 9 ص 191_


2) ايضاً_


3) المغنى ابن قدامہ، جلد 7 ص 572_

4) فتح الباري، جلد 9 ص 138_

درميان فاصلہ ہو) كے مسئلہ ميں اختلاف تھا (ميں نے كہا آپ كى كيا نظر ہے؟) كہنے لگے: ہم نے ہر دو مسئلوں پر رسولخدا(ص) كے زمانے ميں عمل كيا ہے يہانتك كہ حضرت عمر نے ہر دو سے منع كرديا اس كے بعد ہم نے پرہيز كيا''(1)

اس صريح نص كے بعد اور وہ بھى صحيح مسلم جيسى كتاب ميں، كيا اب بھى كہا جاسكتا ہے كہ متعہ رسولخدا(ص) كے دور ميں حرام ہوگيا تھا_

كس نے متعہ كو حرام كيا؟

جس بات كو ہم نے اوپر جناب جابر ابن عبداللہ انصارى سے نقل كيا ہے وہ اس مشہور حديث كى طرف اشارہ ہے جسے اہلسنت كے بہت سے محدّثين ، مفسّرين اور فقہاء نے اپنى كتابوں ميں خليفہ دوم سے نقل كيا ہے_ حديث كا متن يوں ہے:

'' متعتان كانتا مشروعتين فى عَہد رسول الله و أنا اَنہى عَنہما: متعة الحج و متعہ النسائ''

دو قسم كے متعے ،رسولخدا(ص) كے زمانے ميں جائز اور حلال تھے ميں اُن دونوں سے منع كرتا ہوں ايك حج متعہ اور دوسرا متعة النساء ( نكاح موقت )

بعض كتابوں ميں يہ حديث اس جملہ كے اضافہ كے ساتھ نقل ہوئي ہے'' و اُعاقبُ عليہما'' اور ميں ان دونوں پر سزا دوں گا_

متعہ حج سے يہ مُراد ہے كہ حاجى پہلے عمرہ بجالائے اور احرام كھول دے اس كے بعد حج كے دنوں ميں دوبارہ حج كا احرام باندھ لے_

1) صحيح مسلم جلد 4، ص 59 حديث 3307 ، دارالفكر بيروت_

يہ حديث اُن مشہور احاديث ميں سے ہے جو تھوڑے بہت اختلاف كے ساتھ حضرت عمر سے نقل ہوئي ہے كہ انہوں نے منبر سے يہ بات لوگوں كے سامنے بيان كى _ ہم ذيل ميں اہلسنت كى حديث ، فقہ اور تفسير كى كتب ميں سے اس حديث كے سات حوالے ذكر كرتے ہيں_

1 _ مسند احمد، جلد 3 صفحہ 325_

2 _ سنن بيہقي، جلد 7 صفحہ 206_

3 _ المبسوط سرخسى ، جلد 4 صفحہ27_

4 _ المغنى ابن قدامہ، جلد 7، صفحہ 571_

5_محلى ابن حزم ، جلد 7، صفحہ 107_

6_كنز العمّال، جلد 16 صفحہ 521_

7_تفسير كبير فخر رازى جلد 10 صفحہ 52_

يہ حديث متعدّد مسائل سے پردہ اٹھاتى ہے_

الف) خليفہ اول كے دور ميں متعہ كا حلال ہونا:

متعہ ( نكاح موقت) رسول اكرم(ص) كى طول حيات ميں بلكہ خليفہ اول كے دور حكومت ميں بھى حلال تھا اور خليفہ دوم نے بعد ميں اس سے منع كيا_

ب) اجتہاد در مقابل نصّ:

خليفہ اپنى اتنى اتھارٹى سمجھتے تھے كہ پيغمبر اكرم (ص) كى صريح نص كے مقابلے ميں نيا قانون اور اسلامى حكم جعل كريں حالانكہ قرآن مجيد واضح طور پر ارشاد فرماتا ہے كہ:

'' و ما آتاكم الرّسول فَخُذُوہُ و ما نَہاكُم عنہ فانتَہُوا''(1)

پيغمبر (ص) جو كچھ آپ كو ديں اسے لے ليں اور جس چيز سے منع كريں اس سے پرہيز كريں''

كيا پيغمبراكرم(ص) كے علاوہ كسى اور كو احكام الہى ميں تصرّف كرنے كا حق حاصل ہے؟

كيا كوئي بھى شخص يوں كہہ سكتا ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) نے ايسا كيا ليكن ميں يوں كرتا ہوں؟

كيا پيغمبر اكرم(ص) كى صريح نص كے مقابلے ميں كہ جو وحى سے اخذ شدہ ہے اجتہاد كرنا جائز ہے؟

حقيقت تو يہ ہے كہ رسولخدا(ص) كے احكام كو اتنى لاپرواہى كے ساتھ ردّ كرنا واقعاً تعجب آور ہے اور اس سے بڑھ كر اگر نصّ كے مقابل ميں اجتہاد كا دروازہ كھول ديا جائے تو كيا ضمانت ہے كہ دوسرے لوگ ايسا كام نہيں كريں گے؟ كيا اجتہاد صرف ايك آدمى كے ساتھ مخصوص تھا اور دوسرے لوگ مجتہد نہيں ہوسكتے ہيں؟

يہ بہت حسّاس مسئلہ ہے كيونكہ نص كے مقابلے ميں اجتہاد كا دروازہ كھل جانے كے بعد احكام الہى ميں سے كچھ بھى محفوظ نہيں رہے گا; اور اسلام كے جاودانہ احكام ميں عجيب ہرج پيدا ہوجائيگا اور اس طرح تمام اسلامى احكام خطرے ميں پڑ جائيں گے_

حضرت عمر كى مخالفت كا سبب:

كيوں حضرت عمر،ان دو احكام الہى كى مخالفت ميں اٹھ كھڑے ہوئے؟ حج تمتّع كے

1) سورہ حشر آيہ 7_

بارے ميں انكا خيال يہ تھا جو مسلمان حج كے ليے آتے ہيں انہيں حج اور عمرہ ختم كرنے كے بعد احرام كھولنے چاہئيں اور بعد ميں مثلاً اپنى بيويوں كے ساتھ آميزش كرنى چاہيئےاور يہ كہ عمرہ تمتع انجام دينے كے بعد حاجى چند دن كے ليئے احرام كھول دے اور آزاد ہوجائے يہ كوئي اچھى بات نہيں ہے اور روح حج كے ساتھ سازگار نہيں ہے

يہ خيال درست نہيں ہے، كيونكہ حج اور عمرہ دو عليحدہ عمل ہيں اور ممكن ہے ان دو اعمال كے درميان ايك ماہ سے زيادہ فاصلہ ہو_ مسلمان ماہ شوال يا ذى قعدہ ميں مكہ مشرّف ہوتے ہيں اور عمرہ بجالاتے ہيں اس كے بعد آٹھ ذى الحجّہ تك آزاد ہوتے ہيں پھر حج كے موسم ميں دوبارہ احرام باندھتے ہيں اور عرفات چلے جاتے ہيں اس بات پر كيا اشكال ہے جسكى وجہ سے حضرت عمر نے اَپنے سخت ردّ عمل كامظاہرہ فرمايا اور بہرحال متعہ اور نكاح موقّت كے بارے ميں ( بعض لوگوں كے عقيدہ كے مطابق ) انكا خيال يہ تھا كہ اگر متعہ جائز ہو تو پھر نكاح اور زنا كے درميان شناخت مشكل ہوجائيگي_ كيونكہ اس صورت ميں اگر كسى مرد اور عورت كو اكٹھا ديكھا جائے تو وہ كہہ ديں گے كہ ہم نے آپس ميں متعہ كيا ہوا ہے اس طرح زنا كى شرح بڑھ جائيگي
يہ خيال تو اس پہلے خيال سے زيادہ بوگس ہے، چونكہ اتفاقاً مسئلہ الٹ ہے كيونكہ عقد متعہ سے منع كرنا، زنا اور بے عفتى كے بڑھاؤ كا موجب ہے_ جيسا كہ پہلے بھى بيان كيا گياہے كہ بہت سے ايسے جوان جو دائمى ازدواج كى قدرت نہيں ركھتے ہيں يا ايسے لوگ جو اپنى بيويوں سے دور ہيں اور زنا يا نكاح موقت كے علاوہ ان كے پاس كوئي راستہ نہيں ہے واضح سى بات ہے كہ انہيں صحيح راستے اور عقد موقت سے روكنا گناہوں اور بے عفتى كى وادى ميں دھكيلنا ہے_

يہى وجہ ہے كہ اميرالمؤمنين حضرت على _ كى مشہور حديث ميں يوں نقل ہوا ہے كہ اگر

جناب عمر متعہ سے منع نہ كرتے تو سوائے شقى اور بدبخت كے كوئي بھى انسان دنيا ميں زنا سے آلودہ نہ ہوتا'' لو لا ا نّ عمر نہى النّاس عن المتعة ما زنى الَّاشقي''(1)

متعہ كى تحريم كے بعد لوگوں كا ردّ عمل:

مذكورہ بالا روايت سے كہ جسے اہلسنت كے بہت سے محدّثين،مفسّرين اور فقہاء نے نقل كيا ہے بالكل واضح ہوجاتا ہے كہ متعہ كى تحريم حضرت عمر كے زمانے ميں تھى نہ پيغمبر اكرم(ص) كے زمانے ميں، اس كے علاوہ اور بھى بہت سى روايات جو انہى كتب ميں نقل ہوئي ہيں اس بات كى تائيد كرتى ہيں_ نمونہ كے طور پر چند ايك روايات ذكر كرتے ہيں:


1_ مشہور محدّث جناب ترمذى نقل كرتے ہيں كہ اہل شام كے ايك آدمى نے جناب عبداللہ بن عمر سے متعہ نساء كے بارے ميں سوال كيا، انہوں نے كہا _حلال ہے_ سائل نے كہا آپ كے والد حضرت عمر نے اس سے منع كيا ہے_ جناب عبداللہ بن عمر نے كہا :


'' ا را يت إن كان ا بى قد نہى عنہا و قد سَنَّہا رسولُ الله ، ا نترك السنّة و نَتبعُ قولَ ا بي؟'' (2)

1)تفسير كبير فخر رازى جلد 10، ص 50_

2) يہ حديث آجكل كى شائع شدہ صحيح ترمذى ميں اس طرح نہيں ہے بلكہ اس ميں متعة النساء كى جگہ متعة الحج آيا ہے _ ليكن جناب زين الدين المعروف شہيد ثانى نے كہ جو دسويں صدى كے علماء ميںسے تھے كتاب شرح لمعہ ميں اور مشير ابن طاؤوس نے كہ جو ساتويں صدى كے علماء ميں سے تھے كتاب الطرائف ميں اسى حديث كو متعہ النساء كے ساتھ نقل كيا ہے ايسا لگتاہے كہ صحيح ترمذى كے قديمى نسخوں ميں يہ حديث اسى طرح تھى ليكن بعد ميں اس ميں تبديلى كردى گئي ہے ( اس قسم كى مثاليں بہت زيادہ ہے)_

اگر ميرے والد ايك چيز سے منع كريں ليكن رسولخدا(ص) نے اسے سنت قرار ديا ہو تو كيا ہم آنحضرت(ص) كى سنت كو ترك كركے اپنے باپ كى بات پر عمل كريں گے؟
ايك اور حديث ( صحيح مسلم) ميں جناب جابر ابن عبداللہ انصارى سے نقل كيا گيا ہے كہ انہوں نے فرمايا كہ ہم رسولخدا(ص) كے زمانے ميں تھوڑى سى كجھوروں يا آٹے كے حق مہر پر چند دن كے ليئے متعہ كر ليا كرتے تھے اور يہ سنت حضرت ابوبكر كے زمانے ميں بھى جارى تھى يہاں تك كہ حضرت عمر نے '' عمروبن حريث'' والے واقعہ كى وجہ سے اس كام سے منع كرديا_(1)

3_ اسى كتاب ميں ايك اور حديث ميں يوں آيا ہے كہ ابن عباس اور ابن زُبير كا متعة النساء اور متعة الحج كے بارے ميں اختلاف ہوگيا ( اور انہوں نے جناب جابر ابن عبداللہ انصارى كو ثالث بنايا) تو جابر نے كہا ہم نے ان دونوں پر رسولخدا(ص) كے زمانے ميں عمل كيا ہے، اس كے بعد حضرت عمر نے منع كيا اور ہم نے پرہيز كيا(2)

4_ ابن عباس كہ جنہيں ''حبر الامّة'' ( امت كے عالم) كا لقب ديا گيا ہے ، رسولخدا(ص) كے زمانے ميں حكم متعہ كے منسوخ نہ ہونے كے قائل تھے اس بات كى دليل انكے اور جناب عبداللہ بن زُبير كے درميان ہونے والى بحث ہے جسے صحيح مسلم ميں نقل كيا گيا ہے: عبداللہ بن زبير نے مكہ ميں رہائشے ركھى ہوئي تھى ايك دن ( كچھ لوگوں كے سامنے جن ميں جناب ابن عباس بھى تھے) كہنے لگے بعض ايسے لوگ كہ خداوند نے انكے دل كى آنكھوں كو اُنكى ظاہرى آنكھوں كى طرح اندھا كرديا ہے،وہ فتوى ديتے ہيں كہ متعہ جائز ہے_ انكا مقصد ابن عباس كو سنانا تھاجو كہ اس زمانے ميں نابينا ہوچكے تھے_ ابن عباس نے جب يہ بات سُنى تو كہنے لگے

1)صحيح مسلم ، جلد 2،ص 131_

2) صحيح مسلم ، جلد 2،ص 131_

كہ تو ايك بے وقوف اور نادان آدمى ہے، مجھے اپنى جان كى قسم ہم نے رسولخدا(ص) كے زمانے ميں اس سنت پر عمل كيا ہے_ ابن زبير نے ( رسولخدا(ص) كے نام سے لاپرواہى كرتے ہوئے) كہا: تو آزما كر ديكھ لے، خدا كى قسم اگر تو نے اس پر عمل كيا تو تجھے سنگسار كردوں گا_(1)

يعنى منطقى بات كا جواب زور اور دھمكى كے ساتھ ديا

احتمالاً يہ بات اس زمانے كى ہے جب عبداللہ بن زبيرنے مكہ ميں حكومت حاصل كرلى تھى اسى ليے تو اس نے ابن عباس جيسے دانشمند اور عالم كے مقابلے ميںايسى بات كرنے كى جسارت كي_ حالانكہ ابن عباس، سن كے اعتبار سے اس كے باپ كے برابر تھے اور علم كے اعتبار سے تو يہ انكے ساتھ قابل قياس ہى نہيںتھا_ بالفرض اگر علم ميں انكے برابر بھى ہوتا تو اس قسم كى دھمكى كا حق اسے نہيں پہنچتا تھا_ كيونكہ اس قسم كے احكام ميں اگر كوئي اپنے فتوى پر عمل كرے اور بالفرض اس كا فتوى غلط بھى ہو تب بھى '' وطى بالشبہہ'' شمار ہوگى اور معلوم ہے كہ وطى بالشبہہ ميں حد جارى نہيں ہوتى ہے لہذا سنگسار كرنے كى دھمكى دينا ايك بے معنى اور جاہلانہ سى بات ہے_

البتہ اس قسم كى بے ہودہ دھمكى عبداللہ بن زبير جيسے ايك نادان اور گستاخ جوان كى طرف سے بعيد نہيں ہے دلچسپ بات يہ ہے كہ راغب نے كتاب محاضرات ... ميں نقل كيا ہے كہ عبداللہ ابن زبير نے سرزنش كے لہجہ ميں ابن عباس كو كہا كہ تو كيوں '' متعہ'' كو حلال سمجھتا ہے_ ابن عباس نے كہا جا كر اپنى ماں سے پوچھ لے وہ اپنى ماں كے پاس آيا_ ماں نے اس سے كہا '' ما ولدتك الّا فى المتعہ'' تو اس زمانے ميں پيدا ہوا تھا جب ميں تيرے باپ كے متعہ ميں

1) صحيح مسلم، جلد4، ص 59، حديث 3307_ چاپ دار الفكر_
تھي''(1)

5_ مسند احمد ميں '' ابن حصين'' سے نقل كياگيا ہے، وہ كہتے ہيں كہ قرآن مجيد ميں متعہ كى آيت نازل ہوئي اور اس پر ہم نے عمل كيا اور اس كو نسخ كرنے والى آيت نازل نہيں ہوئي يہاںتك كہ رسولخدا(ص) كى رحلت ہوگئي_(2)

يہ ان روايات كے بعض نمونے ہيں جو صراحت كے ساتھ حكم متعہ كے منسوخ نہ ہونے كو بيان كرتے ہيں_

ان روايات كے مقابلے ميں كچھ روايات نقل كى گئي ہيں جو كہتى ہيں كہ يہ حكم رسولخدا(ص) كے زمانے ميں منسوخ ہوچكا تھا_ اے كاش يہ روايات آپس ميں متفق ہوتيں اور ايك ہى زمانے كى نشاندہى كرتيں ليكن افسوس يہ ہے كہ ہر روايت نے دوسرى روايت سے جداگانہ زمانے كو بيان كياہے_

1_ ان روايات ميں سے بعض ميں ذكر ہوا ہے كہ متعہ كى تحريم كا حكم جنگ خيبر والے دن 7 ہجرى ميں) صادر ہوا_(3)

2_ بعض دوسرى روايات ميں آيا ہے كہ رسولخدا(ص) نے عام الفتح ( فتح مكہ والے سال 8 ہجري) ميں مكہ كے اندر متعہ كى اجازت فرمائي اور كچھ عرصہ كے بعد اسى سال منع فرماديا_(4)

3_بعض ديگر روايات ميں آيا ہے كہ غزؤہ اوطاس ميں (فتح مكہ كے بعد )ہوازن كي

1) محاضرات، جلد 2، ص 214 و شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد، جلد 20 ،ص 130_

2) مسند احمد، جلد4 ،ص 436_

3) درّ المنثور جلد 2،ص 486_

4) صحيح مسلم ، جلد4 ، ص 133_

سرزمين پر (مكہّ كے نزديك) تين دن كے ليے اجازت فرمائي اس كے بعد منع فرماديا(1) اگر كوئي مختلف اقوال كى تحقيق انجام دے تو معلوم ہو گا كہ اس مسئلہ ميں اختلاف اس سے كہيںزيادہ ہے كيونكہ اہلسنت كے مشہور فقيہ (جناب نووى )نے صحيح مسلم كى شرح ميں اس مسئلہ كے بارے ميںچھ قول نقل كيے ہيں اورہر قول كسى نہ كسى روايت كے ساتھ سازگار ہے :

1_متعہ جنگ خيبر ميں حلال كيا گيا اور پھر (اس كے چند دن بعد )تحريم ہوگيا

2_عمرة القضاء ميں حلال ہوا (پھر حرام ہوگيا )

3_فتح مكہ كے دن حلال ہوا اس كے بعد حرام ہو گيا

4_رسولخدا ---(ص) نے اسے غزوہ تبوك كے دن حرام كيا

5_جنگ ہوازن ميں (سرزمين اوطاس پر )حلال كيا گيا

6_حجة الوداع ميں پيغمبر اكرم (ص) كى زندگى كے آخرى سال ميں اسے حلال قرار ديا گيا ہے (2)

ان سب اقوال سے تعجب آور امام شافعى كا كلام ہے وہ كہتے ہيں''مجھے متعہ كے علاوہ كوئي چيز ايسى نہيں ملى جسے اللہ تعالى نے پہلے حلال كيا ہو پھر حرام كرديا ہو اس كے بعد دوبارہ حلال كيا ہو اور پھر حرام كرديا ہو ''(3)

ہر محققّ ان متضاد روايات كا مشاہدہ كركے اس بات كا اطمينان حاصل كرليتا ہے كہ يہ روايات جعلى اورايك سياسى منصوبہ بندى كے تحت جعل كى گئي ہيں _

بہترين راہ حل

حقيقت يہ ہے كہ ان مختلف اور متضاد اقوال كو ديكھ كو ہر انسان اس مسئلہ ميں تحقيق و جستجو كي

1)مصدر سابق، ص 131_

2) شرح صحيح مسلم از نووى ، جلد 9، ص 191_

3)المغنى ابن قدامہ، جلد 7 ، ص 572_

طرف مائل ہو تا اور سوچتا ہے كہ ايسا كونسا واقعہ رونما ہو اہے كہ مسئلہ ميں اسقدر متضاد و متناقض روايات بيان كى گئي ہيں اور ہر محدث يا فقيہ نے كيوں اپنا جدا گانہ راستہ اختيار كيا ہے؟

ان متضاد روايات كے در ميان كس طرح جمع كيا جا سكتاہے ؟

كيا يہ سَب اختلاف اس بات كى دليل نہيں ہے كہ اس مقام پر كو ئي نازك سياسى مسئلہ درپيش تھا جس نے حديث گھڑ نے والوں كو اس بات پر ابھاراكہ روايات جعل كريں اور اصحاب رسول (ص) كے نام سے سوء استفادہ كرتے ہوئے ان روايات كوانكى طرف نسبت ديں كہ انہوں نے آنحضر ت (ص) سے اس طرح نقل كيا ہے_ اور وہ سياسى مسئلہ اس كے سوا كچھ نہ تھا كہ خليفہ دوم نے كہا تھا ''دوچيزيں رسولخدا (ص) كے زمانے ميں حلال تھيں اور ميں انہيں حرام كر رہا ہوں ان ميں سے ايك ''متعة النساء ہے '' _اس بات كا ايك عجيب منفى اثر تھا كيونكہ اگر امّت كے افراد يا خلفاء ،اسلام كے احكام كو اس صراحت كے ساتھ تبديل كرديں تو پھر يہ كام صرف خليفہ ثانى كے ساتھ مخصوص نہ رہتا بلكہ دوسروںكو بھى يہ حق مل جاتا كہ رسولخدا(ص) كى نصّ كے مقابلے ميں اجتہاد كريں _اور اس صورت ميں احكام اسلام يعنى واجبات اور محرّمات كے در ميان ہر ج و مرج پيدا ہوجاتا اور زمانہ گزر نے كے ساتھ ساتھ اسلام كے دامن ميں كچھ باقى نہ رہتا _

اس منفى اثر كوختم كرنے كے ليے ايك گروہ نے يہ كام شروع كيا كہ كہنے لگے: ان دو احكام كى حرمت خود رسولخد(ص) اكے زمانے ميں واقع ہوئي تھى _ ہر ايك نے نئي حديث گھڑلى اور اسے

اصحاب رسول(ص) كى طرف نسبت دے دى _كيونكہ كوئي بھى حديث واقعيّت نہيں ركھتى تھى اس ليے ايك دوسرے سے متضاد بن گئيں

ورنہ كيسے ممكن ہے كہ اتنى احاد يث ايك دوسرے كے مخالف ہوں حتى كہ بعض فقہاء كو انكے در ميان جمع كرنے كے ليے كہنا پڑا كہ متعہ ايك زمانے ميں مباح تھا پھر حرام ہو گيا پھر مباح

127

ہوگيا پھر حرام ہوگياكيااحكام الہى كھيل ہيں كہ جو ہر روز تبديل ہوتے رہيں_

ان سب باتوں سے قطع نظررسولخدا(ص) كے زمانے ميں متعہ كا مباح ہونا حتماً ايك ضرورت كى وجہ سے تھا اور وہ ضرورت دو سرے زمانوں ميںبھى موجود ہے _ با لخصوص ہمارے زمانے ميں مغربى ممالك كى طرف طولانى سفر كرنے والے بعض جوانوں كے ليے يہ ضرورت شدّت كے ساتھ موجودہے پس متعہ كيوں حرام ہو ؟

اس زمانے ميں اسلامى معاشر ے ميں جذبات بھڑ كانے كے عوامل اتنے زيادہ نہيں تھے _بے پردہ عورتيں 'فلميں ،ٹيلى وين ،انٹرنيٹ،ڈش، فسا د والى محفليں اور فاسدلٹريچر و غيرہ جو سب كچھ آج كے زمانے ميں بہت سے جوانوں كے دامن گير ہو تے ہيں اُس زمانے ميں نہيں تھے_ اُس زمانے ميں متعہ كو ايك احتياج اور ضرورت كے عنوان سے جائزقرار ديا گيا اور اس كے بعد ہميشہ كے ليے اس سے منع كرديا گيا ہے ؟ كيا يہ بات قابل قبول ہے ؟

ان سب ادلہ سے چشم پوشى كرتے ہوئے فرض كرليتے ہيں كہ بہت سے فقہائے اسلام اس كو حرام شمار كرتے ہيں اور فقہاء كا ايك گروہ اس كوجائز سمجھتاہے_ اور يہ ايك اختلافى مسئلہ ہے_ پس اس صورت ميں يہ سزاوار نہيں ہے كہ حلال كے طرفدار لوگ اسے حرام سمجھنے والوں پراحكام دين كى پابندى نہ كرنے كى تہمت لگائيں_ اسى طرح اسكى حرمت كے قائل افراد كيلئے يہ سزاوار نہيں كہ اسے مباح سمجھنے والوں پر معاذ اللہ زنا كے طرفدار ہونے كى تہمت لگائيں _ اگر ايسا كريں تو قيامت والے دن اللہ تعالى كے حضور كيا جواب ديں گے؟ پس پتہ چلتا ہے كہزيادہ سے زيادہ يہ ايك اجتہادى اختلاف ہے_

جناب فخر رازى اس قسم كے مسائل ميں ايك خاص تعصّب ركھنے كے باوجود اپنى تفسير ميں


فرماتے ہيں كہ '' ذہب السواد الاعظم من الاُمة الى انّہا صارت منسوخة و قال السواد منہم ا نّہا بقيت كما كانت'' امت كى اكثريت قائل ہے كہ يہ حكم منسوخ ہوچكا ہے ليكن ايك گروہ قائل ہے كہ يہ حكم اسى طرح باقى ہے'' (1) يعنى يہ ايك اختلافى مسئلہ ہے_

ہم اس جگہ نكاح موقّت كى بحث كو تمام كرتے ہيں _ اور سب لوگوں سے اميد كرتے ہيں كہ تہمتيں لگانے اور بغير علم كے قضاوت كرنے كى بجائے ايك بار پھر اس مسئلہ پر تحقيق اور اس كے بعد قضاوت كريں_ يقيناً انہيں اطمينان ہوجائيگا كہ متعہ آج بھى ايك حكم الہى ہے اور شرائط كى پابندى كرتے ہوئے يہ آج بھى بہت سى مشكلات كو حل كرتا ہے_

تفسير كبير فخر رازى ، جلد 10، ص  

Categories:

0 comments:

Post a Comment

براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.

Popular Posts (Last 30 Days)

 
  • Recent Posts

  • Mobile Version

  • Followers