Written by Hasan Molai
صحابہ میں کچھ ایسے ہیں جن کا نام لیے بغیر اللہ انہیں منافقین کہہ رہا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے جنگ تبوک سے واپسی میں چاہا کہ رسولِ خدا ﷺ کو قتل کر دیں۔
يَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْا ۭوَلَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا ۚ وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ ۚ فَاِنْ يَّتُوْبُوْا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۚ وَاِنْ يَّتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْاَرْضِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ۔ سورہ توبہ آیت 74
یعنی منافقین خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے (تو کچھ بری بات ) نہیں کی، حالانکہ انہوں نے کفر آمیز بات کو کہا ہے اور یہ اسلام لانے کے بعد کافر ہوگئے ہیں اور ایسی بات کا قصد کر چکے ہیں جس کو عملی نہیں کر پائے{رسول خدا ص کا قتل } یہ صرف اسی بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ انہیں (مسلمانوں کو) اللہ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دولتمند کر دیا اگر یہ بھی توبہ کرلیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ موڑے رہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں دنیا و آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور زمین بھر میں ان کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ ہوگا۔
اہلسنت کے اکثر مفسر ین نے«وَهَمُّوا بِما لَمْ يَنالُوا» کی تفسیر میں ،مراد وہ افراد لئے ہیں جن لوگوں نے جنگ تبوک سے واپسی پر رسول اکرم ص کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایاتھا
ان میں سے بیہقی دلائل نبوہ میں اور سیوطی در منثور میں لکھا ہے
عن عروة قال رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم قافلا من تبوك إلى المدينة حتى إذا كان ببعض الطريق مكر برسول الله صلى الله عليه وسلم ناس من أصحابه فتآمروا أن يطرحوه من عقبة في الطريق فلما بلغوا العقبة أرادوا أن يسلكوها معه فلما غشيهم رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبر خبرهم فقال من شاء منكم أن يأخذ بطن الوادي فإنه أوسع لكم وأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم العقبة وأخذ الناس ببطن الوادي الا النفر الذين مكروا برسول الله صلى الله عليه وسلم لما سمعوا ذلك استعدوا وتلثموا وقد هموا بأمر عظيم وأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم حذيفة بن اليمان رضي الله عنه وعمار بن ياسر رضي الله عنه فمشيا معه مشيا فامر عمارا أن يأخذ بزمام الناقة وأمر حذيفة يسوقها فبينما هم يسيرون إذ سمعوا وكزة القوم من ورائهم قد غشوه فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمر حذيفة أن يردهم وأبصر حذيفة رضي الله عنه غضب رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجع ومعه محجن فاستقبل وجوه رواحلهم فضربها ضربا بالمحجن وأبصر القوم وهم متلثمون لا يشعروا انما ذلك فعل المسافر فرعبهم الله حين أبصروا حذيفة رضي الله عنه وظنوا ان مكرهم قد ظهر عليه فأسرعوا حتى خالطوا الناس وأقبل حذيفة رضي الله عنه حتى أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما أدركه قال اضرب الراحلة يا حذيفة وامش أنت يا عمار فأسرعوا حتى استووا بأعلاها فخرجوا من العقبة ينتظرون الناس فقال النبي صلى الله عليه وسلم لحذيفة هل عرفت يا حذيفة من هؤلاء الرهط أحدا قال حذيفة عرفت راحلة فلان وفلان وقال كانت ظلمة الليل وغشيتهم وهم متلثمون فقال النبي صلى الله عليه وسلم هل علمتم ما كان شأنهم وما أرادوا قالوا لا والله يا رسول الله قال فإنهم مكروا ليسيروا معي حتى إذا طلعت في العقبة طرحوني منها قالوا أفلا تأمر بهم يا رسول الله فنضرب أعناقهم قال أكره أن يتحدث الناس ويقولوا ان محمدا وضع يده في أصحابه فسماهم لهما وقال اكتماهم.
ترجمہ
بیہقی نے دلائل النبوہ میں عروہ سے نقل کیا ہے : انھوں نے کہا جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلمانوں کے ہمراہ جنگ تبوک سے لوٹ رہے تھے اور مدینے کی طرف راستے میں اصحاب رسول ص کی ایک جماعت نے یہ سازش اور ارادہ کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو راستے میں ایک دشوار پہاڑی کی گھاٹی سے نیچے پھینک دیں جب مسلمین اس گھاٹی کے پاس پہونچے تو مسلمین بھی آپ کے ساتھ اس گھاٹی سے گزرنے کا ارادہ رکھتے تھےآپ ص نے منافقین کی سازش اور خیانت سے آگاہ ہوئے تو آپ ص نے مسلمین سے فرمایا: جو بھی بیابان کےراستے سے جانا چاہتا ہے جا سکتا ہے کیوں کے گھاٹی کا راستہ بہت تنگ ہے ۔لیکن آپ ص اسی گھاٹی سے جانے لگے اور مسلمین بیابان سے جانے لگےسوائے چند افراد کے جن لوگوں نے آپ ص کے خلاف سازش کی ہوئی تھی جب منافقین کی جماعت نے رسول اکرم ص کی بات سنی تو آمادہ ہو گئے اور اپنے چہروں پر نقاب لگا لی اور بہت برے کام کا ارادہ کر لیا تب آپ ص نے حذيفة بن يمان اور عمار بن ياسر کو ساتھ رہنے کا حکم دیا اور عمار سے فرمایا :تم اونٹ کی لگام تھامے رہوں اور حذیفہ سے فرمایا: تم سواری کو پیچھے سے ہانکتے رہو اسی اثنا میں اچانک ان منافق جماعت کے بھاگنے کی آواز بلند ہوئی اور پیچھے سے آ کر آپ کی سواری کو محاصرہ میں لے لیا تاکہ اپنی سازش کو عملی کریں۔ آپ ص غضبناک ہوئے اور حذیفہ کو حکم دیا ان منافقین کو آپ ص سے دور کریں ۔ چنانچہ حذیفہ انکی طرف حملہ آور ہوئے اور جو عصا ان کے پاس تھی انکے مرکب کے منہ پر مارتے رہے اور ان منافقین کو بھی مضروب کیا اور حذیفہ نے ان لوگوں کو پہچان لیا ۔تب خدا وند نے ان منافقین پر اپنا رعب طاری کر دیا اور سمجھ گئے حذیفہ نے ان لوگوں کو پہچان لیا ہےلھذا منافقین تیزی سے مسلمین سے ملحق ہوگئے اور اپنے آپ کو مجمع میں غائب کر دیا یہاں حذیفہ بھی آپ ص سے ملحق ہوئے تب آپ نے فرمایا سواری کو ہانکوں اور عمار سے فرمایا : عمار تم چلتے رہو اور تیزی سے اپنے آپ کو اس گھاٹی سے نکال کر منتظر رہے تاکہ مسلمین ملحق ہوجائیں آپ ص نے فرمایا : اے حذیفہ کیا تم نے ان لوگوں کو پہچان لیا ؟ عرض فلان فلان کے مرکب کو پہچان لیا ہے اس لئے رات کی تاریکی اور انکے چہرے پوشیدہ تھے انکی شناخت سے عاجز ہوں۔ آپ ص نے فرمایا آیا تمہیں معلوم ہے یہ لوگوں کی کیا سازش تھی ؟کہا مجھے انکے ارادہ کی خبر نہیں ہے۔ تب آپ ص نے فرمایا: ان لوگوں نے کا یہ ارادہ تھا کہ شب کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر مجھے پہاڑ سے پھینک دیں عرض کی : یا رسول خدا حکم فرمائیں تاکہ ان کی گردنیں مار دی جائے ۔آپ ص نے فرمایا :مجھے پسند نہیں ہےکہ لوگ کہیں کہ محمد ص اپنے اصحاب کو متھم کرتے ہیں اور قتل کرتے ہیں پھر آپ نے عمار اور حذیفہ دونوں کو ہر منافق کا نام بتایا اور فرمایا:اس بات کو مخفی رکھیں ۔
يَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْا ۭوَلَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا ۚ وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ ۚ فَاِنْ يَّتُوْبُوْا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۚ وَاِنْ يَّتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْاَرْضِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ۔ سورہ توبہ آیت 74
یعنی منافقین خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے (تو کچھ بری بات ) نہیں کی، حالانکہ انہوں نے کفر آمیز بات کو کہا ہے اور یہ اسلام لانے کے بعد کافر ہوگئے ہیں اور ایسی بات کا قصد کر چکے ہیں جس کو عملی نہیں کر پائے{رسول خدا ص کا قتل } یہ صرف اسی بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ انہیں (مسلمانوں کو) اللہ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دولتمند کر دیا اگر یہ بھی توبہ کرلیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ موڑے رہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں دنیا و آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور زمین بھر میں ان کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ ہوگا۔
اہلسنت کے اکثر مفسر ین نے«وَهَمُّوا بِما لَمْ يَنالُوا» کی تفسیر میں ،مراد وہ افراد لئے ہیں جن لوگوں نے جنگ تبوک سے واپسی پر رسول اکرم ص کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایاتھا
ان میں سے بیہقی دلائل نبوہ میں اور سیوطی در منثور میں لکھا ہے
عن عروة قال رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم قافلا من تبوك إلى المدينة حتى إذا كان ببعض الطريق مكر برسول الله صلى الله عليه وسلم ناس من أصحابه فتآمروا أن يطرحوه من عقبة في الطريق فلما بلغوا العقبة أرادوا أن يسلكوها معه فلما غشيهم رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبر خبرهم فقال من شاء منكم أن يأخذ بطن الوادي فإنه أوسع لكم وأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم العقبة وأخذ الناس ببطن الوادي الا النفر الذين مكروا برسول الله صلى الله عليه وسلم لما سمعوا ذلك استعدوا وتلثموا وقد هموا بأمر عظيم وأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم حذيفة بن اليمان رضي الله عنه وعمار بن ياسر رضي الله عنه فمشيا معه مشيا فامر عمارا أن يأخذ بزمام الناقة وأمر حذيفة يسوقها فبينما هم يسيرون إذ سمعوا وكزة القوم من ورائهم قد غشوه فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمر حذيفة أن يردهم وأبصر حذيفة رضي الله عنه غضب رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجع ومعه محجن فاستقبل وجوه رواحلهم فضربها ضربا بالمحجن وأبصر القوم وهم متلثمون لا يشعروا انما ذلك فعل المسافر فرعبهم الله حين أبصروا حذيفة رضي الله عنه وظنوا ان مكرهم قد ظهر عليه فأسرعوا حتى خالطوا الناس وأقبل حذيفة رضي الله عنه حتى أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما أدركه قال اضرب الراحلة يا حذيفة وامش أنت يا عمار فأسرعوا حتى استووا بأعلاها فخرجوا من العقبة ينتظرون الناس فقال النبي صلى الله عليه وسلم لحذيفة هل عرفت يا حذيفة من هؤلاء الرهط أحدا قال حذيفة عرفت راحلة فلان وفلان وقال كانت ظلمة الليل وغشيتهم وهم متلثمون فقال النبي صلى الله عليه وسلم هل علمتم ما كان شأنهم وما أرادوا قالوا لا والله يا رسول الله قال فإنهم مكروا ليسيروا معي حتى إذا طلعت في العقبة طرحوني منها قالوا أفلا تأمر بهم يا رسول الله فنضرب أعناقهم قال أكره أن يتحدث الناس ويقولوا ان محمدا وضع يده في أصحابه فسماهم لهما وقال اكتماهم.
ترجمہ
بیہقی نے دلائل النبوہ میں عروہ سے نقل کیا ہے : انھوں نے کہا جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلمانوں کے ہمراہ جنگ تبوک سے لوٹ رہے تھے اور مدینے کی طرف راستے میں اصحاب رسول ص کی ایک جماعت نے یہ سازش اور ارادہ کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو راستے میں ایک دشوار پہاڑی کی گھاٹی سے نیچے پھینک دیں جب مسلمین اس گھاٹی کے پاس پہونچے تو مسلمین بھی آپ کے ساتھ اس گھاٹی سے گزرنے کا ارادہ رکھتے تھےآپ ص نے منافقین کی سازش اور خیانت سے آگاہ ہوئے تو آپ ص نے مسلمین سے فرمایا: جو بھی بیابان کےراستے سے جانا چاہتا ہے جا سکتا ہے کیوں کے گھاٹی کا راستہ بہت تنگ ہے ۔لیکن آپ ص اسی گھاٹی سے جانے لگے اور مسلمین بیابان سے جانے لگےسوائے چند افراد کے جن لوگوں نے آپ ص کے خلاف سازش کی ہوئی تھی جب منافقین کی جماعت نے رسول اکرم ص کی بات سنی تو آمادہ ہو گئے اور اپنے چہروں پر نقاب لگا لی اور بہت برے کام کا ارادہ کر لیا تب آپ ص نے حذيفة بن يمان اور عمار بن ياسر کو ساتھ رہنے کا حکم دیا اور عمار سے فرمایا :تم اونٹ کی لگام تھامے رہوں اور حذیفہ سے فرمایا: تم سواری کو پیچھے سے ہانکتے رہو اسی اثنا میں اچانک ان منافق جماعت کے بھاگنے کی آواز بلند ہوئی اور پیچھے سے آ کر آپ کی سواری کو محاصرہ میں لے لیا تاکہ اپنی سازش کو عملی کریں۔ آپ ص غضبناک ہوئے اور حذیفہ کو حکم دیا ان منافقین کو آپ ص سے دور کریں ۔ چنانچہ حذیفہ انکی طرف حملہ آور ہوئے اور جو عصا ان کے پاس تھی انکے مرکب کے منہ پر مارتے رہے اور ان منافقین کو بھی مضروب کیا اور حذیفہ نے ان لوگوں کو پہچان لیا ۔تب خدا وند نے ان منافقین پر اپنا رعب طاری کر دیا اور سمجھ گئے حذیفہ نے ان لوگوں کو پہچان لیا ہےلھذا منافقین تیزی سے مسلمین سے ملحق ہوگئے اور اپنے آپ کو مجمع میں غائب کر دیا یہاں حذیفہ بھی آپ ص سے ملحق ہوئے تب آپ نے فرمایا سواری کو ہانکوں اور عمار سے فرمایا : عمار تم چلتے رہو اور تیزی سے اپنے آپ کو اس گھاٹی سے نکال کر منتظر رہے تاکہ مسلمین ملحق ہوجائیں آپ ص نے فرمایا : اے حذیفہ کیا تم نے ان لوگوں کو پہچان لیا ؟ عرض فلان فلان کے مرکب کو پہچان لیا ہے اس لئے رات کی تاریکی اور انکے چہرے پوشیدہ تھے انکی شناخت سے عاجز ہوں۔ آپ ص نے فرمایا آیا تمہیں معلوم ہے یہ لوگوں کی کیا سازش تھی ؟کہا مجھے انکے ارادہ کی خبر نہیں ہے۔ تب آپ ص نے فرمایا: ان لوگوں نے کا یہ ارادہ تھا کہ شب کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر مجھے پہاڑ سے پھینک دیں عرض کی : یا رسول خدا حکم فرمائیں تاکہ ان کی گردنیں مار دی جائے ۔آپ ص نے فرمایا :مجھے پسند نہیں ہےکہ لوگ کہیں کہ محمد ص اپنے اصحاب کو متھم کرتے ہیں اور قتل کرتے ہیں پھر آپ نے عمار اور حذیفہ دونوں کو ہر منافق کا نام بتایا اور فرمایا:اس بات کو مخفی رکھیں ۔
البيهقي، أبي بكر أحمد بن الحسين بن علي (متوفي458هـ)، دلائل النبوة، دلائل النبوة ج 5، ص256، باب رجوع النبي من تبوك وأمره بهدم مسجد الضرار ومكر المنافقين به في الطريق وعصمة الله تعالى إياه وإطلاعه عليه وما ظهر في ذلك من آثار النبوة،
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، الدر المنثور، ج 4، ص 243، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1993.
لیکن اس روایت سے ظاہر نہیں ہو رہا ہے کہ وہ کونسے اصحاب تھے لیکن کچھ علماء اھل سنت مثلا ابن حزم اندلسی جو اہلسنت کے پایہ کے عالم گزرے ہیں ان افراد کا نام بتاتے ہیں
كتاب المحلي میں لکھتے ہیں :
أَنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَطَلْحَةَ وَسَعْدَ بن أبي وَقَّاصٍ رضي الله عنهم أَرَادُوا قَتْلَ النبي صلى الله عليه وسلم وَإِلْقَاءَهُ من الْعَقَبَةِ في تَبُوكَ.
ترجمہ:
ابوبكر، عمر، عثمان، طلحه، سعد بن أبي وقاص کا ارداہ تھا کہ پيامبر (صلي الله عليه وآله وسلم ) کو قتل کر دیں اور آپ ص کو جنگ تبوک میں پہاڑ سے پھینک دیں
المحلي، ج 11، ص 224، إبن حزم الأندلسي الظاهري، ابومحمد علي بن أحمد بن سعيد (متوفاي456هـ)، تحقيق: لجنة إحياء التراث العربي، ناشر: دار الآفاق الجديدة – بيروت؛
و دار الفكر،: طبعة مصححة ومقابلة على عدة مخطوطات ونسخ معتمدة كما قوبلت على النسخة التي حققها الأستاذ الشيخ أحمد محمد شاكر.
البتہ ابن حزم کا نقل کرتے ہوئے ایک اعتراض یہ ہے کہ سلسلہ سند میں وليد بن عبد الله بن جميع ہے اس کی روایت پر اعتراض کیا ہے لہذا کہتے ہیں کہ روایت موضوع اور کذب ہے اب ہم علماء اہل سنت کے اقوال نقل کرتے ہیں جس میں ابن حزم کے دعوے کے بر خلاف اسے ثقہ بتایاگیا ہے اور اس کی توثیق کی ہے
ابن حجر عسقلانی نے اسے صدوق کا رتبہ دیا ہے
7459 - الوليد بن عبد الله بن جميع الزهري المكي نزيل الكوفة صدوق.
تقريب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 286، وفات: 852، دراسة وتحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، چاپ: الثانية، سال چاپ: 1415 - 1995 م، ناشر: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، توضيحات: طبعة مقابلة على نسخة بخط المؤلف وعلى تهذيب التهذيب وتهذيب الكمال.
اسی طرح ابن سعد الطبقات الكبري ميں اسے ثقہ لکھتے ہیں
الوليد بن عبد الله بن جميع الخزاعي من أنفسهم وكان ثقة وله أحاديث.
الطبقات الكبرى، محمد بن سعد، ج 6 - ص 354، وفات: 230، : دار صادر، بيروت، ناشر: دار صادر، بيروت.
عجلي معرفة الثقات میں خود لکھتے ہیں :
الوليد بن عبد الله بن جميع الزهري مكي ثقة.
معرفة الثقات، العجلي، ج 2 - ص 342، وفات: 261،: الأولى،: 1405، ناشر: مكتبة الدار، المدينة المنورة.
رازي كتاب الجرج و التعديل میں لکھتے ہیں :
نا عبد الرحمن نا عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل فيما كتب إلى قال قال أبى: الوليد بن جميع ليس به بأس. نا عبد الرحمن قال ذكره أبى عن إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين أنه قال: الوليد ابن جميع ثقة. نا عبد الرحمن قال سئل أبى عن الوليد بن جميع فقال: صالح الحديث. نا عبد الرحمن قال سألت أبا زرعة عن الوليد بن جميع فقال: لا بأس به.
الجرح والتعديل، الرازي، ج 9، ص 8، وفات: 327،: الأولى،: 1371 - 1952 م،: مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند، ناشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت، توضيحات: عن النسخة المحفوظة في كوپريلي ( تحت رقم 278) وعن النسخة المحفوظة في مكتبة مراد ملا ( تحت رقم 1427) وعن النسخة المحفوظة في مكتبة دار الكتب المصرية ( تحت رقم 892).
مزي تهذيب الكمال میں لکھتے ہیں :
قال عبد الله بن أحمد بن حنبل عن أبيه، وأبو داود: ليس به بأس. وقال إسحاق بن منصور، عن يحيى بن معين: ثقة. وكذلك قال العجلي وقال أبو زرعة: لا بأس به وقال أبو حاتم: صالح الحديث.
تهذيب الكمال، المزي، ج 31، ص 36 – 37، وفات: 742، تحقيق: تحقيق وضبط وتعليق: الدكتور بشار عواد معروف،: الرابعة، چاپ: 1406 - 1985 م، ناشر: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.
و ذهبي ميزان الاعتدال میں وليد بن جميع کے بارے میں لکھتے ہیں :
وثقه ابن معين، والعجلي. وقال أحمد وأبو زرعة: ليس به بأس. وقال أبو حاتم: صالح الحديث.
ميزان الاعتدال، الذهبي، ج 4، ص 337، وفات: 748، تحقيق: علي محمد البجاوي، چاپ: الأولى، سال چاپ: 1382 - 1963 م، ناشر: دار المعرفة للطباعة والنشر - بيروت – لبنان.
اور سب سے بڑھ کر مسلم نيشابوري صحيح مسلم میں دو روایت وليد بن عبد الله بن جميع سے نقل کرتے ہیں: ایک جلد 5، ص 177 ذيل باب الوفاء بالعهد، میں ذکر کرتے ہیں دوسری روایت ج8، ص 123 كتاب صفات المنافقين و احكامهم. میں پس یہ سب قرینہ اس بات پر ہیں کہ یہ ولید قابل اعتماد شخص ہے یا پھر صحیح مسلم کو صحاح ستہ کی فہرست سے خارج کر دیا جائے
پس اس بناء پر وليد بن عبد الله بن جميع ثقه ہے اور روایت نتجۃ صحیح کہلائےگی اب یہ کام وہابیت کا ہے کہ وہ اپنے ابن جزم کی خیانت علمی کا جواب دیں جو کبھی ممکن نہیں ہے کیوں کے انکا علم اور جہالت دونوں بد تھذیبی اور بد تمیزی کا شعار بن گیا ہے اور ان سے علمی جواب کی توقع بھی نہیں ہے صرف یہ خیال ہے شاید ان میں بھی کوئی ایسا مل جائے جو اپنے اسلاف کی غلطیاں نہ دھرائے ۔شاید
No comments:
Post a Comment
براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.