حضرت ابو بکر کی طرح حضرت عائشہ اورحضرت عمر کے درمیان وسیع تعلقات کا قائم ہونااس احتمال کے قوی ہونے پر مزید دلالت کرتا ہے۔ عمر ی موصلی اور عمر رضا کحالہ نے بھی اس واقعہ کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔۲#
پس معلوم ہونا چاہئے کہ یہ دو ام کلثوم ہیں ایک مادر عبداللہ ابن عمر اور دوسری ابو بکر کی لڑکی ۔ ان دونوں کا رابطہ عمر سے سبب بنا کہ لوگ مشکوک ہو کر سمجھ بیٹھے کہ ام کلثوم بنت علی علیہ السلام کی شادی عمر سے ہوئی جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ ۳#
--------------------------------
۱۔ابن قتیبہ ؛ المعارف ص ۱۷۵۔
۲۔عمر موصلی؛الروضة الفیحاء فی تواریخ النساء ص/ ۳۰۳۔ عمر رضا کحا لہ؛ اعلام النساء ج /۴ ،ص/ ۲۵۰
۳۔ فرید سائل۔ افسانہ ازدواج (بررسی ازدواج حضرت ام کلثوم با عمر در مدرک شیعہ و سنی) ص/۲۰و۲۲
بعض موٴرخین نے زید بن عمر کی ماں ام کلثوم بنت جردل خزاعی لکھا ہے ۔لہٰذا اسم کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ام کلثوم بنت علی ﷼ لکھ دیا گیا ، چنانچہ طبری کہتے ہےں : زید اصغر اور عبیدالله(جو جنگ صفین میں مارے گئے تھے ) کی ماں ام کلثوم بنت جردل خزاعی تھی ، جس کے درمیان اسلام نے عمر سے جدائی کروادی تھی۔ ۱# اکثر موٴرخین ام کلثوم بنت جردل اور عمر کے درمیان شادی زمانہ جاہلیت میں جانتے ہیں ۔۲#بعض کا کہنا ہے کہ یہ ام کلثوم بنت عقبہ بن معیط تھی۔ بعض تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ام کلثوم بنت
عاصم تھی ۔
ماحصل
اگر ہم نفسیاتی اور عقلی طور پر اس واقعہ کے منفی ہونے پر نظر ڈالیں توحسب ذیل باتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے:
۱) ۔ ام کلثوم اسی فاطمہ بنت رسول کے بطن سے تھیں جن سے عقد کرنے
--------------------------------
۱۔تاریخ طبری ج /۳، ص /۲۶۹، کامل ابن اثیر ج /۳، ص /۲۸۔
۲۔الاصابہ ج /۴، ص /۴۹۱۔ صفوة الصفوة، ص /۱۱۶۔ تاریخ المدینہ المنورة، ج/۲، ص/ ۶۵۹۔
کی خواہش پر عمر کو دربار رسالت سے جواب مل چکا تھا ، لہٰذا جس فعل کو رسول نے فاطمہ ﷼ کے لئے مناسب نہ سمجھا علی ﷼ان کی بیٹی کے لئے کس طرح اسے مناسب سمجھیں گے؟
۲)۔ ام کلثوم اسی ماں کی بیٹی تھیں جو جیتے جی عمر سے ناراض رہیں اور مرتے دم بھی وصیت کر گئیں کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ، کیا حضرت علی علیہ السلام اس بات سے غافل تھے کہ اگر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تو فاطمہ ﷼ کی روح کے لئے یہ رشتہ تازیانہ ثابت نہ ہوگی؟
۳)۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحث میں عرض کیا کہ ام کلثوم اور عمر کے سن میں زمین وآسمان کا فرق تھا، نیز روایت کے مطابق ام کلثوم کی شادی ان کے چچا زاد بھائی سے پہلے ہی طے ہوچکی تھی،توپھر ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام عمرسے شادی کر نے کے لئے کیسے راضی ہوگئے؟
۴ )۔ اگر ہم حضرت علی علیہ السلام اور عمرکے درمیان تعلقات پر غور کریں تو اس بات کا فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ رسول کی وفات کے بعد سے ہی حضرت علی ﷼ اور عمرکے درمیان تنازع شروع ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپ کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈالنے والے عمر تھے ، خلافت کا رخ عمرکی وجہ سے اپنے محور سے منحرف ہوا ،فاطمہ﷼ کا پہلو عمر نے شکستہ کیا ،شکم مادر میں محسن کی شہادت عمر کی وجہ سے ہوئی،ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے کیا حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کوئی انسان سوچ بھی سکتا ہے کہ آپ راضی و خوشی اپنی بیٹی عمر سے بیاہ دیں گے ؟!
۵)۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حضرت علی علیہ السلام نے عمر سے خوف زدہ ہوکر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تھی ، تو یہ بات وہی حضرات کہہ سکتے ہیں جو تاریخ اسلام کا مطالعہ نہیں رکھتے ، جس کی تیغ کا لوہا بدر و احد ، خبیرو خندق کے بڑے بڑے شہسوار اور سورما مان چکے ہوں وہ ان للو پنجو لوگوںسے ڈر کر اپنا سارا وقار خاک میں ملاکر بیٹی سے شادی کردےں گے ! حیرت ہے ایسی عقلوں اور سوج بوجھ پر !
البتہ مسئلہ خلافت پر صبر کرتے ہوئے تلوار کا نہ اٹھاناایک دوسری بات ہے ، کیونکہ نبی اکرم کی وصیت تھی کہ علی ﷼اس سلسلہ میں تم صبر کرنا ،اگر علی ﷼ اس موقع پر صبر نہ کرتے اور تلوار اٹھا لیتے تو بہت سے ایسے افراد جو ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اسلام سے پلٹ جاتے ،اور مسلمان اپنی خانہ جنگی کے شکار ہو جاتے ، جس کے نتیجہ میں خارجی طاقتیں اسلام پر غالب ہوجاتیں اور اسلام کا شیرازہ بکھر جاتا، لیکن جہاں تک ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس میں آپ کیوں کسی سے خوف کھاتے ؟یہ کوئی دین اسلام کی نابودی کا مسئلہ تو تھا نہیں کہ اگر آپ ام کلثوم کی شادی عمر سے نہ کرتے تو عمر جنگ پرآجاتے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان تمام نہ ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی !اور جب اس جنگ کے کوئی اسباب دریافت کرتا تو یہ کہا جاتا کہ یہ جنگ عمر کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی !!اور پھر کیا حضرت عمر بھی اس بات کو سوچ رہے ہوں گے کہ اگر شادی نہ ہوئی تو جنگ کریں گے، ہم اس بات کو بعید از عقل سمجھتے ہےں کہ عمر ایک بچی سے شادی کرنے کے لئے اتنا ہلڑ ہنگامہ پسند کرتے !!
لہٰذا جو لوگ عمر سے محبت کا دعوی کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس قضیہ کو طول دے کر برائے خدا ان کی مزید توہین نہ کریں،علامہ سبط ابن جوزی بڑے سمجھدار نکلے کہ انھوں نے اپنے دادا کی بات کو رد کرتے ہوئے فوراً لکھ دیا کہ اس واقعہ سے عمر کی فضیلت نہیں بلکہ ان کی منقصت
ہوتی ہے ۔
۶) ۔ کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ اس شادی میں عمر نے چالیس ہزار درہم مہر رکھا تھا، یہ پہلو بھی عمر کی تنقیص پر دلالت کرتا ہے،کیونکہ اہل سنت کا ہر فرد اس بات کو جانتا ہے کہ عمرنے فقیرانہ زندگی میں خلافت کی چکی چلائی ہے ، آپ کی تنخواہ ایک معمولی انسان کے برابر تھی ، چنانچہ تاریخ ابن خلدون میں آیا ہے: عمر کے کپڑوں میں ہمیشہ پیوند لگے ہوتے تھے، آپ کی قمیص میں ستر پیوند تھے ، اسی طرح ایک مرتبہ آپ نماز عید پڑھانے نکلے تو جوتوں میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے، ایک مرتبہ گھر سے باہر نہیں نکلے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے پاس کپڑے نہیں تھے ، اور آپ کے تہہ بند میں ۱۲ پیوند لگے ہوئے تھے۔
ان تمام باتوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ چالیس ہزار درہم مہر کی روایت من گھڑت اور جعلی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی سرو کا رنہیں ہے ، ممکن ہے یہ روایت دشمنان اسلام کی جانب سے اسلامی راہنماؤں کی توہین کی خاطر سوچے سمجھے پروپیگنڈے کی ایک کڑی ہو۔
اہم واقعہ اہل سنت کی اہم کتابوں نہیں!!!
جناب ام کلثوم کی شادی عمر ابن خطاب سے یہ واقعہ نہ تو صحیح بخاری میں ہے نہ صحیح مسلم میں ،حتی کسی بھی صحاح ستہ میں یہ واقعہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی اہل سنت کی کسی بھی مشہور مسانید و معاجم میں اس قسم کی کوئی روایت موجود ہے ۔
یہاں پر جائے تعجب ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو عمر کی خلافت محکم کرنے کے لئے ضرور اہل سنت کے علماء اپنی مشہور و معروف کتابوں میں تحریر فرماتے۔
اور یہ نا ممکن ہے کہ اتنے بڑے اور اہم واقعہ سے ان لوگوں نے غفلت کی ہو؟ پس معلوم ہوا کہ اس طرح کے واقعہ کی کوئی بنیاد و اساس نہیں ہے۔ ورنہ اتنے آسانی سے اس واقعہ کو ہرگز نظر انداز نہ کرتے۔ اپنی اہم کتابوں صحاح و مسانید میںاس واقعہ کو ضرور تحریر فرماتے۔
صاحب کنز العمال متقی ہندی تحریر فرماتے ہیں : جس وقت عمر نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے ان کی لڑکی ام کلثوم سے خوستگاری کی تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : ابھی وہ چھوٹی ہے اور میں اسے اپنے بھتیجے سے منسوب کر چکا ہوں ۔ ۱#
ایک اور واقعہ
مرحوم محقق شوشتری کی کتاب”ارشاد“ سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں پر بیان کرنا چاہتاہوں کہ حضرت علی علیہ السلام کی دو لڑکیوں کا نام
ام کلثوم تھا۔ایک ام کلثوم کبریٰ جو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے تھیں اور دوسری ام کلثوم صغریٰ جو (ام ولد )کنیزکی لڑکی تھیں۔
اہل سنت والجماعت اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا ﷼ کی بیٹی تھیں جن سے عمر نے شادی کی درخواست کی تھی تاکہ عمر کا رسول خدا ﷺسے سببی رشتہ ہوجائے ، لیکن تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی ایک دوسری لڑکی ام کلثوم نام کی تھیں ، جوجناب فاطمہ ﷼کے بطن سے نہیں تھی ، اسی طرح بعض موٴرخین کا کہنا ہے کہ
--------------------------------
۱۔کنز العمال ، ج/۱۳ ص/ ۶۲۵
حضرت علی علیہ السلام کی دواور لڑکیاں زینب صغری اور ام کلثوم صغری نام کی تھیں اور وہ دونوں ام ولد تھیں ۔۱#
ابن قتیبہ نے بھی ام کلثوم کو صرف امام علی علیہ السلام کی لڑکی جانا ہے جو حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کے بطن سے نہیں تھیں ، کہتے ہیں : اس کی ماں ام ولد اور کنیز تھی ۔ ۲#
صاحب ”ارشاد“ لکھتے ہیں کہ زینب صغریٰ کی کنیت ام کلثوم تھی جو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد سے تھیں۔
شاید اسی وجہ سے مورخین نے اشتباہ کیا ہے کہ ام کلثوم کبریٰ کی شادی عمر بن خطاب سے ہوئی ۔کیوں کہ دونوں ام کلثوم کے باہم مل جانے کی وجہ سے یہ اشتباہات وجود میں آئے۔
--------------------------------
۱۔تاریخ موالید الائمة ص ۱۶۔ نور الابصار ص ۱۰۳۔ نہایة الارب ج ۲، ص ۲۲۳۔
۲۔ابن قتیبة ؛ المعارف ص ۱۸۵۔
آیة اللہ اعظمیٰ مرعشی نجفی کا نظریہ
آیة اللہ مرعشی نجفی ۺکی تحقیق یہ ہے کہ ام کلثوم ابوبکر کی بیوی اسماء بنت عمیس کی لڑکی تھیں جن کی شادی عمر ابن خطاب سے ہوئی تھی ۔ابوبکر کے مرنے کے بعد اسما بنت عمیس نے حضرت علی علیہ السلام سے شادی کرلی ۔ لہٰذا یہ بچی بھی محمد ابن ابوبکر کی طرح حضرت علی علیہ السلام کے گھر آئی اور حضرت علی علیہ السلام کی تربیت میں پلی بڑھی بعد میں عمر بن خطاب نے اس لڑکی سے شادی کر لی ۔
(خلاصہ واقعہ یہ تھا)جس کو لوگوں نے عمر کی اہمیت بڑھانے کے لئے ام کلثوم بنت علی علیہ السلام سے شہرت دے دی۔ ۱#
--------------------------------
۱۔ تاریخ تحلیل و سیاسی اسلام ج/۲،ص/۵۹۔ڈاکٹر علی اکبر محسنی
مختصر تنقیدی تبصرہ
وہ بنیادی اور اہم مطالب جو اس موقع پر بیان کئے جا نے کے قابل ہےں وہ یہ ہےں:
بعض روایات میں یہ داستان ائمہ معصومیں علیہم السلام سے اہل سنت کے راویوں سے نقل ہوئی ہیں ۔ایسی روایتیں الطبقات ابن سعد، المستدرک حاکم ، السنن الکبریٰ بیہقی اور الذریہ الطاہرہ میںموجود ہےں ۔
اس قسم کی روایتوں کے بارے میں ان باتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے :
پہلی بات : اہل سنت کے اس قسم کی روایات اور احادیث کے مطالعہ اور تحقیق سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مخالفین اہلبیت علیہم السلام یا کچھ متعصب اہل سنت حضرات چاہتے ہیں کہ ایسی باتیں اہلبیت علیہم السلام کی طرف منسوب کریں جوان کی شان کے خلاف ہواور جس سے ان کی شخصیت مجروح ہو ۔یہی وجہ ہے کہ ایسی باتیں کسی بھی معصوم علیہ السلام کی طرف نسبت دے کر نقل کردیتے ہیں ۔
مثلا جس وقت چاہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم و ان کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کے بلا فصل خلیفہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیتوں کو مجروح کریں اور ان پر اشکالات واردکریں تو ابو جہل کی بیٹی سے حضرت علی علیہ السلام کی خواستگاری کی داستان کو جعل کر کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف منسوب کر دیا۔
یا اسی طرح جس وقت چاہا کہ صحابہ کی فضیلت میں کوئی حدیث گڑھیںتو ” صحابہ کو ستاروں سے تشبیہ“ دے کر امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے جعل کر دیا۔
بالکل اسی طرح ” جناب ام کلثوم کی شادی عمر سے“کی داستان بھی ان ہی جعل شدہ روایتوں میں سے ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔
پس معلوم ہونا چاہئے کہ یہ دو ام کلثوم ہیں ایک مادر عبداللہ ابن عمر اور دوسری ابو بکر کی لڑکی ۔ ان دونوں کا رابطہ عمر سے سبب بنا کہ لوگ مشکوک ہو کر سمجھ بیٹھے کہ ام کلثوم بنت علی علیہ السلام کی شادی عمر سے ہوئی جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ ۳#
--------------------------------
۱۔ابن قتیبہ ؛ المعارف ص ۱۷۵۔
۲۔عمر موصلی؛الروضة الفیحاء فی تواریخ النساء ص/ ۳۰۳۔ عمر رضا کحا لہ؛ اعلام النساء ج /۴ ،ص/ ۲۵۰
۳۔ فرید سائل۔ افسانہ ازدواج (بررسی ازدواج حضرت ام کلثوم با عمر در مدرک شیعہ و سنی) ص/۲۰و۲۲
بعض موٴرخین نے زید بن عمر کی ماں ام کلثوم بنت جردل خزاعی لکھا ہے ۔لہٰذا اسم کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ام کلثوم بنت علی ﷼ لکھ دیا گیا ، چنانچہ طبری کہتے ہےں : زید اصغر اور عبیدالله(جو جنگ صفین میں مارے گئے تھے ) کی ماں ام کلثوم بنت جردل خزاعی تھی ، جس کے درمیان اسلام نے عمر سے جدائی کروادی تھی۔ ۱# اکثر موٴرخین ام کلثوم بنت جردل اور عمر کے درمیان شادی زمانہ جاہلیت میں جانتے ہیں ۔۲#بعض کا کہنا ہے کہ یہ ام کلثوم بنت عقبہ بن معیط تھی۔ بعض تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ام کلثوم بنت
عاصم تھی ۔
ماحصل
اگر ہم نفسیاتی اور عقلی طور پر اس واقعہ کے منفی ہونے پر نظر ڈالیں توحسب ذیل باتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے:
۱) ۔ ام کلثوم اسی فاطمہ بنت رسول کے بطن سے تھیں جن سے عقد کرنے
--------------------------------
۱۔تاریخ طبری ج /۳، ص /۲۶۹، کامل ابن اثیر ج /۳، ص /۲۸۔
۲۔الاصابہ ج /۴، ص /۴۹۱۔ صفوة الصفوة، ص /۱۱۶۔ تاریخ المدینہ المنورة، ج/۲، ص/ ۶۵۹۔
کی خواہش پر عمر کو دربار رسالت سے جواب مل چکا تھا ، لہٰذا جس فعل کو رسول نے فاطمہ ﷼ کے لئے مناسب نہ سمجھا علی ﷼ان کی بیٹی کے لئے کس طرح اسے مناسب سمجھیں گے؟
۲)۔ ام کلثوم اسی ماں کی بیٹی تھیں جو جیتے جی عمر سے ناراض رہیں اور مرتے دم بھی وصیت کر گئیں کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ، کیا حضرت علی علیہ السلام اس بات سے غافل تھے کہ اگر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تو فاطمہ ﷼ کی روح کے لئے یہ رشتہ تازیانہ ثابت نہ ہوگی؟
۳)۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحث میں عرض کیا کہ ام کلثوم اور عمر کے سن میں زمین وآسمان کا فرق تھا، نیز روایت کے مطابق ام کلثوم کی شادی ان کے چچا زاد بھائی سے پہلے ہی طے ہوچکی تھی،توپھر ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام عمرسے شادی کر نے کے لئے کیسے راضی ہوگئے؟
۴ )۔ اگر ہم حضرت علی علیہ السلام اور عمرکے درمیان تعلقات پر غور کریں تو اس بات کا فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ رسول کی وفات کے بعد سے ہی حضرت علی ﷼ اور عمرکے درمیان تنازع شروع ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپ کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈالنے والے عمر تھے ، خلافت کا رخ عمرکی وجہ سے اپنے محور سے منحرف ہوا ،فاطمہ﷼ کا پہلو عمر نے شکستہ کیا ،شکم مادر میں محسن کی شہادت عمر کی وجہ سے ہوئی،ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے کیا حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کوئی انسان سوچ بھی سکتا ہے کہ آپ راضی و خوشی اپنی بیٹی عمر سے بیاہ دیں گے ؟!
۵)۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حضرت علی علیہ السلام نے عمر سے خوف زدہ ہوکر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تھی ، تو یہ بات وہی حضرات کہہ سکتے ہیں جو تاریخ اسلام کا مطالعہ نہیں رکھتے ، جس کی تیغ کا لوہا بدر و احد ، خبیرو خندق کے بڑے بڑے شہسوار اور سورما مان چکے ہوں وہ ان للو پنجو لوگوںسے ڈر کر اپنا سارا وقار خاک میں ملاکر بیٹی سے شادی کردےں گے ! حیرت ہے ایسی عقلوں اور سوج بوجھ پر !
البتہ مسئلہ خلافت پر صبر کرتے ہوئے تلوار کا نہ اٹھاناایک دوسری بات ہے ، کیونکہ نبی اکرم کی وصیت تھی کہ علی ﷼اس سلسلہ میں تم صبر کرنا ،اگر علی ﷼ اس موقع پر صبر نہ کرتے اور تلوار اٹھا لیتے تو بہت سے ایسے افراد جو ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اسلام سے پلٹ جاتے ،اور مسلمان اپنی خانہ جنگی کے شکار ہو جاتے ، جس کے نتیجہ میں خارجی طاقتیں اسلام پر غالب ہوجاتیں اور اسلام کا شیرازہ بکھر جاتا، لیکن جہاں تک ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس میں آپ کیوں کسی سے خوف کھاتے ؟یہ کوئی دین اسلام کی نابودی کا مسئلہ تو تھا نہیں کہ اگر آپ ام کلثوم کی شادی عمر سے نہ کرتے تو عمر جنگ پرآجاتے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان تمام نہ ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی !اور جب اس جنگ کے کوئی اسباب دریافت کرتا تو یہ کہا جاتا کہ یہ جنگ عمر کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی !!اور پھر کیا حضرت عمر بھی اس بات کو سوچ رہے ہوں گے کہ اگر شادی نہ ہوئی تو جنگ کریں گے، ہم اس بات کو بعید از عقل سمجھتے ہےں کہ عمر ایک بچی سے شادی کرنے کے لئے اتنا ہلڑ ہنگامہ پسند کرتے !!
لہٰذا جو لوگ عمر سے محبت کا دعوی کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس قضیہ کو طول دے کر برائے خدا ان کی مزید توہین نہ کریں،علامہ سبط ابن جوزی بڑے سمجھدار نکلے کہ انھوں نے اپنے دادا کی بات کو رد کرتے ہوئے فوراً لکھ دیا کہ اس واقعہ سے عمر کی فضیلت نہیں بلکہ ان کی منقصت
ہوتی ہے ۔
۶) ۔ کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ اس شادی میں عمر نے چالیس ہزار درہم مہر رکھا تھا، یہ پہلو بھی عمر کی تنقیص پر دلالت کرتا ہے،کیونکہ اہل سنت کا ہر فرد اس بات کو جانتا ہے کہ عمرنے فقیرانہ زندگی میں خلافت کی چکی چلائی ہے ، آپ کی تنخواہ ایک معمولی انسان کے برابر تھی ، چنانچہ تاریخ ابن خلدون میں آیا ہے: عمر کے کپڑوں میں ہمیشہ پیوند لگے ہوتے تھے، آپ کی قمیص میں ستر پیوند تھے ، اسی طرح ایک مرتبہ آپ نماز عید پڑھانے نکلے تو جوتوں میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے، ایک مرتبہ گھر سے باہر نہیں نکلے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے پاس کپڑے نہیں تھے ، اور آپ کے تہہ بند میں ۱۲ پیوند لگے ہوئے تھے۔
ان تمام باتوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ چالیس ہزار درہم مہر کی روایت من گھڑت اور جعلی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی سرو کا رنہیں ہے ، ممکن ہے یہ روایت دشمنان اسلام کی جانب سے اسلامی راہنماؤں کی توہین کی خاطر سوچے سمجھے پروپیگنڈے کی ایک کڑی ہو۔
اہم واقعہ اہل سنت کی اہم کتابوں نہیں!!!
جناب ام کلثوم کی شادی عمر ابن خطاب سے یہ واقعہ نہ تو صحیح بخاری میں ہے نہ صحیح مسلم میں ،حتی کسی بھی صحاح ستہ میں یہ واقعہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی اہل سنت کی کسی بھی مشہور مسانید و معاجم میں اس قسم کی کوئی روایت موجود ہے ۔
یہاں پر جائے تعجب ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو عمر کی خلافت محکم کرنے کے لئے ضرور اہل سنت کے علماء اپنی مشہور و معروف کتابوں میں تحریر فرماتے۔
اور یہ نا ممکن ہے کہ اتنے بڑے اور اہم واقعہ سے ان لوگوں نے غفلت کی ہو؟ پس معلوم ہوا کہ اس طرح کے واقعہ کی کوئی بنیاد و اساس نہیں ہے۔ ورنہ اتنے آسانی سے اس واقعہ کو ہرگز نظر انداز نہ کرتے۔ اپنی اہم کتابوں صحاح و مسانید میںاس واقعہ کو ضرور تحریر فرماتے۔
صاحب کنز العمال متقی ہندی تحریر فرماتے ہیں : جس وقت عمر نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے ان کی لڑکی ام کلثوم سے خوستگاری کی تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : ابھی وہ چھوٹی ہے اور میں اسے اپنے بھتیجے سے منسوب کر چکا ہوں ۔ ۱#
ایک اور واقعہ
مرحوم محقق شوشتری کی کتاب”ارشاد“ سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں پر بیان کرنا چاہتاہوں کہ حضرت علی علیہ السلام کی دو لڑکیوں کا نام
ام کلثوم تھا۔ایک ام کلثوم کبریٰ جو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے تھیں اور دوسری ام کلثوم صغریٰ جو (ام ولد )کنیزکی لڑکی تھیں۔
اہل سنت والجماعت اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا ﷼ کی بیٹی تھیں جن سے عمر نے شادی کی درخواست کی تھی تاکہ عمر کا رسول خدا ﷺسے سببی رشتہ ہوجائے ، لیکن تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی ایک دوسری لڑکی ام کلثوم نام کی تھیں ، جوجناب فاطمہ ﷼کے بطن سے نہیں تھی ، اسی طرح بعض موٴرخین کا کہنا ہے کہ
--------------------------------
۱۔کنز العمال ، ج/۱۳ ص/ ۶۲۵
حضرت علی علیہ السلام کی دواور لڑکیاں زینب صغری اور ام کلثوم صغری نام کی تھیں اور وہ دونوں ام ولد تھیں ۔۱#
ابن قتیبہ نے بھی ام کلثوم کو صرف امام علی علیہ السلام کی لڑکی جانا ہے جو حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کے بطن سے نہیں تھیں ، کہتے ہیں : اس کی ماں ام ولد اور کنیز تھی ۔ ۲#
صاحب ”ارشاد“ لکھتے ہیں کہ زینب صغریٰ کی کنیت ام کلثوم تھی جو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد سے تھیں۔
شاید اسی وجہ سے مورخین نے اشتباہ کیا ہے کہ ام کلثوم کبریٰ کی شادی عمر بن خطاب سے ہوئی ۔کیوں کہ دونوں ام کلثوم کے باہم مل جانے کی وجہ سے یہ اشتباہات وجود میں آئے۔
--------------------------------
۱۔تاریخ موالید الائمة ص ۱۶۔ نور الابصار ص ۱۰۳۔ نہایة الارب ج ۲، ص ۲۲۳۔
۲۔ابن قتیبة ؛ المعارف ص ۱۸۵۔
آیة اللہ اعظمیٰ مرعشی نجفی کا نظریہ
آیة اللہ مرعشی نجفی ۺکی تحقیق یہ ہے کہ ام کلثوم ابوبکر کی بیوی اسماء بنت عمیس کی لڑکی تھیں جن کی شادی عمر ابن خطاب سے ہوئی تھی ۔ابوبکر کے مرنے کے بعد اسما بنت عمیس نے حضرت علی علیہ السلام سے شادی کرلی ۔ لہٰذا یہ بچی بھی محمد ابن ابوبکر کی طرح حضرت علی علیہ السلام کے گھر آئی اور حضرت علی علیہ السلام کی تربیت میں پلی بڑھی بعد میں عمر بن خطاب نے اس لڑکی سے شادی کر لی ۔
(خلاصہ واقعہ یہ تھا)جس کو لوگوں نے عمر کی اہمیت بڑھانے کے لئے ام کلثوم بنت علی علیہ السلام سے شہرت دے دی۔ ۱#
--------------------------------
۱۔ تاریخ تحلیل و سیاسی اسلام ج/۲،ص/۵۹۔ڈاکٹر علی اکبر محسنی
مختصر تنقیدی تبصرہ
وہ بنیادی اور اہم مطالب جو اس موقع پر بیان کئے جا نے کے قابل ہےں وہ یہ ہےں:
بعض روایات میں یہ داستان ائمہ معصومیں علیہم السلام سے اہل سنت کے راویوں سے نقل ہوئی ہیں ۔ایسی روایتیں الطبقات ابن سعد، المستدرک حاکم ، السنن الکبریٰ بیہقی اور الذریہ الطاہرہ میںموجود ہےں ۔
اس قسم کی روایتوں کے بارے میں ان باتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے :
پہلی بات : اہل سنت کے اس قسم کی روایات اور احادیث کے مطالعہ اور تحقیق سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مخالفین اہلبیت علیہم السلام یا کچھ متعصب اہل سنت حضرات چاہتے ہیں کہ ایسی باتیں اہلبیت علیہم السلام کی طرف منسوب کریں جوان کی شان کے خلاف ہواور جس سے ان کی شخصیت مجروح ہو ۔یہی وجہ ہے کہ ایسی باتیں کسی بھی معصوم علیہ السلام کی طرف نسبت دے کر نقل کردیتے ہیں ۔
مثلا جس وقت چاہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم و ان کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کے بلا فصل خلیفہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیتوں کو مجروح کریں اور ان پر اشکالات واردکریں تو ابو جہل کی بیٹی سے حضرت علی علیہ السلام کی خواستگاری کی داستان کو جعل کر کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف منسوب کر دیا۔
یا اسی طرح جس وقت چاہا کہ صحابہ کی فضیلت میں کوئی حدیث گڑھیںتو ” صحابہ کو ستاروں سے تشبیہ“ دے کر امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے جعل کر دیا۔
بالکل اسی طرح ” جناب ام کلثوم کی شادی عمر سے“کی داستان بھی ان ہی جعل شدہ روایتوں میں سے ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔
No comments:
Post a Comment
براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.