امِ کلثوم نامی لڑکی کا نکاح جناب عمر سے ہوا مگر یہ
امِ کلثوم کون تھی اس کا تاریخ میں ذکر اختلافات سے بھرپور ہے مگر نواصب
اسے مولا علی (ع) اور بی بی فاطمہ سلام اللہ علیھا کی بیٹی ثابت کرنے کے
لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ اور تو کسی طرح فضیلتِ عمر ثابت ہو
نہ سکی ایک یہی دلیل رہ گئی جس سے کچھ تھوڑی بہت فضیلت نکل سکتی ہے۔ جبکہ
یہ نکاح حقیقت سے زیادہ افسانہ سے قریب تر ہے۔ اس سلسلے میں اہلِ سنت میں
بذاتِ خود بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ جبکہ شیعہ روایات میں امِ کلثوم
کے نکاح کا ذکر تو ملتا ہے مگر اس امِ کلثوم کی ولدیت کا ذکر نہیں اور جن
روایات میں ولدیت کے خانے میں حضرت علی (ع) کا نام* آیا ہے اس روایت کے
متن میں ہی عجیب و غریب قسم کا اختلاف پایا جاتا ہے جسے قبول کرنا اپنے
پیچھے کئی سوالات چھوڑ جاتا ہے۔ چنانچہ ہم ایسی ہی روایات پر بحث کریں گے۔
نا حق چار یار فورم پر فروع کافی کتاب الطلاق کا ایک حوالہ پوسٹ کیا گیا ہے جس کی دو روایتوں کا ترجمہ و تلخیص یہ ہے۔
“ راوی کا بیان ہے کہ میں نے امام (ع) سے پوچھا کہ جس عورت کا شوہر مر جائے وہ عدت وفات کس جگہ گزارے اپنے شوہر کے گھر میں یا جس جگہ چاہے امام نے فرمایا کہ جس جگہ چاہے پھر فرمایا کہ جب عمر مر گیا تو حضرت علی (ع) امِ کلثوم کے پاس آئے اور ہاتھ پکڑ کر اسے گھر لے آئے“
نا حق چار یار فورم پر فروع کافی کتاب الطلاق کا ایک حوالہ پوسٹ کیا گیا ہے جس کی دو روایتوں کا ترجمہ و تلخیص یہ ہے۔
“ راوی کا بیان ہے کہ میں نے امام (ع) سے پوچھا کہ جس عورت کا شوہر مر جائے وہ عدت وفات کس جگہ گزارے اپنے شوہر کے گھر میں یا جس جگہ چاہے امام نے فرمایا کہ جس جگہ چاہے پھر فرمایا کہ جب عمر مر گیا تو حضرت علی (ع) امِ کلثوم کے پاس آئے اور ہاتھ پکڑ کر اسے گھر لے آئے“
فروع کافی کی اس روایت کے راوی حمید بن زیاد اور ابن سماعۃ
ہیں ان دونوں کا تعلق واقفی مذہب سے ہے اور واقفی المذہب کے بارے میں کفر و
زنادقہ کی مماثلت بیان کی گئی ہے جیسا کہ مامقانی میں امام علی رضا علیہ
اسلام کی ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے۔
اس طرح دوسری روایت کا راوی ہشام بن سالم ہے جو فاسد العقیدہ تھا اور اللہ کی صورت مانتا تھا۔ (رجال الکشی)
یہ روایت سلیمان بن خالد سے بھی مروی ہے جو زیدیہ فرقہ سے تھا۔ نجاشی اور شیخ طوسی نے اسے ثقہ تسلیم نہیں کیا ابن داؤد نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ مقیاس الدرایہ میں زیدی، واقفی اور ناصبی کو ایک ہی منزلت پر کہا گیا ہے۔
اس لحاظ سے بھی یہ روایت ہمارے لئے حجت نہیں رکھتی اور جہاں تک ان روایات کو علامہ مجلسی یا علامہ بھبودی کے صحیح کہنے کا تعلق ہے یا علامہ سید الخوئی کا یہ کہنا کہ "نکاحِ امِ کلثوم درست ہے روایات کی روشنی میں" تو اس سے بھی ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ امِ کلثوم حضرت علی (ع) کی ہی بیٹی ہیں جیسا کہ ہم اوپر روایات کی جرح میں یہ بات بیان کر چُکے۔ لہٰذا ہر دو طرف سے یہ روایت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ اسے امِ کلثوم بنتِ علی (ع) کے عمر سے نکاح پر حجت مان لیا جائے۔
اس طرح دوسری روایت کا راوی ہشام بن سالم ہے جو فاسد العقیدہ تھا اور اللہ کی صورت مانتا تھا۔ (رجال الکشی)
یہ روایت سلیمان بن خالد سے بھی مروی ہے جو زیدیہ فرقہ سے تھا۔ نجاشی اور شیخ طوسی نے اسے ثقہ تسلیم نہیں کیا ابن داؤد نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ مقیاس الدرایہ میں زیدی، واقفی اور ناصبی کو ایک ہی منزلت پر کہا گیا ہے۔
اس لحاظ سے بھی یہ روایت ہمارے لئے حجت نہیں رکھتی اور جہاں تک ان روایات کو علامہ مجلسی یا علامہ بھبودی کے صحیح کہنے کا تعلق ہے یا علامہ سید الخوئی کا یہ کہنا کہ "نکاحِ امِ کلثوم درست ہے روایات کی روشنی میں" تو اس سے بھی ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ امِ کلثوم حضرت علی (ع) کی ہی بیٹی ہیں جیسا کہ ہم اوپر روایات کی جرح میں یہ بات بیان کر چُکے۔ لہٰذا ہر دو طرف سے یہ روایت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ اسے امِ کلثوم بنتِ علی (ع) کے عمر سے نکاح پر حجت مان لیا جائے۔
نا حق چار یاروں کا یہ ٹولہ اس روایت سے یہ ثابت کرنے کی
کوشش کر رہا ہے کہ امِ کلثوم بنت علی (ع) کا نکاح عمر سے ہوا۔ جبکہ یہاں
کسی جگہ بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ یہ امِ کلثوم حضرت علی (ع) کی بیٹی تھیں۔
اس کے علاوہ نکاح کے پورے افسانے کا کوئی ثبوت ہی نہیں ملتا اگر ثبوت
موجود ہے تو مہیا کیا جائے۔ جبکہ یہ امِ کلثوم عدت گزارنے کے دوران کہاں
گُم رہیں اور اس کے بچے کہاں رہے اس بارے میں بھی تاریخ مکمل خاموش ہے۔
مزید یہ روایت عقل کی روشنی میں بھی غلط ہے کیونکہ امِ کلثوم بنتِ علی (ع)
بیوہ عمر (یعنی حضرت علی (ع) کی وہ بیٹی جس کا عمر سے نکاح ہوا) کا دنیا
میں وجود ہی نہیں ہے اور اگر کوئی روایت معیارِ عقل پر پوری نہ اترے یعنی
وہ حقیقت و عقل کے منافی ہو تو عقل مند لوگ اسے کلامِ امام یا کلامِ رسول
(ص) ماننے سے معذور ہیں بلکہ اس کی کوئی صحیح تاویل کی جاتی ہے اور اگر
تاویل کے قابل نہ ہو تو اسے راوی کا اشتباہ سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ہاں البتہ یہ امِ کلثوم بیوہ عمر “امِ کلثوم بنتِ ابوبکر“ ہو سکتی ہیں۔ رہی
بات یہ کہ جنابِ امیر (ع) امِ کلثوم کو پکڑ کر گھر کیوں لے آئے؟ تو اس
بات کا جواب یہ ہے کہ حضرت علی (ع) نے زوجہ ابوبکر اسماء بنتِ عمیس سے
نکاح کیا تھا اور اولادِ ابوبکر کے لئے حضرت علی (ع) کا گھر کوئی ممنوعہ
علاقہ نہیں تھا۔ جبکہ یہ امِ کلثوم یا تو اسماء بنت عمیس کی حقیقی بیٹی
تھی یا سوتیلی تو اگر حضرت علی (ع) اسماء یا اس کے بیٹے محمد بن ابی بکر
کی خواہش پر امِ کلثوم کو عدت گزارنے کے لئے گھر لے آئے تو اس سے یہ کہاں
ثابت ہوتا ہے کہ یہ حضرت علی(ع) کی حقیقی بیٹی تھی؟
اسماء بنتِ عمیس امِ کلثوم کی حقیقی ماں ہیں اس بارے میں ہم اہلِ سنت کی کتاب “الانوار کما نقل فی شمشیر مسموم“ کے صفحہ 311 کی عبارت نقل کرتے ہیں۔
“ عن احد آئمۃ الھدیٰ ان عمر خطب امِ کلثوم بنت علی
فردہ ثم خطب امِ کلثوم بنت ابی بکر ربیبۃ علی فاعتل بصغرھا ارتینھا فبعث
بھا امیر المومنین الٰی عمر حاجۃ لہ فاسترناھا عمر وارادان یقبض علی یدھا
منہ و ھربت الی امیر المومنین وقالت لقد ادانی ھذا قال وصبر علیھا حتی
بلغت مبلغ التزویج فتزوجھا وقال الناس تزوج عمر بن علی و امِ کلثوم اخت
ھذا اخت محمد بن ابی بکر لا مد وابیہ“
“آئمہ ہدیٰ سے روایت ہے کہ عمر نے امِ کلثوم بنت علی
کا رشتہ مانگا اور جنابِ امیر نے انکار فرمایا اور ٹھکرا دیا پھر عمر نے
امِ کلثوم بنتِ ابی بکر کا جو کہ حضرت علی(ع) کی پروردہ تھی جنابِ امیر سے
رشتہ مانگا پس آنجناب نے امِ کلثوم بنت ابی بکر کی کم سنی کا عذر پیش
کیا۔ عمر نے کہا کہ آپ امِ کلثوم بنت ابی بکر مجھے دکھائیں پس جنابِ امیر
نے کسی ضرورت کی وجہ سے امِ کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا عمر نے بچی سے کہا
میرے قریب آؤ اور عمر نے ارادہ کیا کہ امِ کلثوم کا ہاتھ پکڑ لے امِ کلثوم
نے ہاتھ چھڑوا لیا اور جناب امیر کی طرف بھاگ گئی۔ اور شکایت کی کہ اس
(عمر) نے مجھے اذیت دی ہے۔ پس عمر کے کچھ مدت صبر کیا حتٰی کہ ابی بکر کی
بیٹی شادی کے قابل ہو گئی پس عمر نے اسی امِ کلثوم بنت ابی بکر سے شادی کی
اور لوگوں نے کہا کہ عمر نے بنت علی سے شادی کی ہے اور یہ امِ کلثوم جو
علی کی بیٹی مشہور ہو گئی یہ محمد بن ابوبکر کی سگی بہن ہے ماں اور باپ کی
طرف سے“
اس کے علاوہ کتاب “اعلام النساء جلد 4 صفحہ 250، اور کتاب رحمت العالمین
جلد 2 صفحہ 409“ پر بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اسماء بنت عمیس
سے ابوبکر کی ایک بیٹی ابوبکر کی وفات سے چند مہینے بعد پیدا ہوئی تھی۔ اور
اعلام النساء میں کہا گیا ہے کہ اس کی کنیت امِ کلثوم تھی۔
اب اگر حضرت علی(ع) اپنی ربیبہ بیٹی کو عدت گزارنے اپنے
گھر میں اس کی والدہ کے پاس لے آئے تو اس کا مطلب یہ کیسے ہو گیا کہ یہ
امِ کلثوم حضرت علی (ع) کی بیٹی تھی؟ نا حق چار یار کے پرستاروں سے یہ
سوال ادھار رہا۔
اب ہم اس تھریڈ کو کھول رہے ہیں اگر کسی نے بحث میں حصہ لینا ہو تو خوش آمدید
اب ہم اس تھریڈ کو کھول رہے ہیں اگر کسی نے بحث میں حصہ لینا ہو تو خوش آمدید
شیعہ کی جہالت:
ReplyDelete1. آپ لوگوں کسی ایک روایت میں یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ جس ام کلثوم کو حضرت علی رضہ ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے آئے تھے وہ ام کلثوم وہی ام کلثوم تھی جو حضرت ابوبکر کی بیٹی تھی۔۔۔
2. دوسری بات یہ کہ کافی شیعہ کی وہ کتاب ہے جس کے بارے میں شیعہ یہ بکواس کرتے آرہے ہیں کہ یہ کتاب مہدی کو غار میں پیش کی جس کو پڑھ کر اس بچے نے کہا کہ ھذا کافی لشیعتنا۔ یہ کتاب میرے شیعہ کے لیے کافی ہے۔ اس دن سے اس کتاب کا نام کافی ہے۔
3. اب اس کتاب سے ایک اور امام کا قول پیش کیا جا رہا ہوں جس کے پڑھنے کے بعد شیعہ کو ڈوب مرنا چاہیے۔۔۔ اور توبہ کرنی چاہیے ۔۔۔ :
۔ ابو جعفر الکلینی نے کہا:
"علی بن ابراھیم عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن ھشام بن سالم و حماد عن زرارۃ عن ابی عبداللہ علیہ السلام فی تزویج ام کلثوم فقال: ان ذلک فرج غصبناہ"
ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر صادق رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے ام کلثوم کی شادی کے بارے میں کہا: یہ شرمگاہ ہم سے چھین لی گئی تھی۔ (الفروع من الکافی 5/ 346)
آخر میں ایک عبرت انگیز واقعہ پیش خدمت ہے:
وزیر معز الدولہ احمد بن بویہ شیعہ تھا۔ (دیکھئے سیر اعلام النبلاء 16/190)
اس کی موت کے وقت ایک عالم اس کے پاس گئے تو صحابہ کرام کے فضائل بیان کئے اور فرمایا: بے شک علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح عمر بن خطاب سے کیا تھا۔
اس (احمد بن بویہ) نے اس بات کو بہت عظیم جانا اور کہا: مجھے اس کا علم نہیں تھا پھر اس نے (توبہ کر کے) اپنا اکثر مال صدقہ کردیا، اپنے غلاموں کو آزاد کر دیا، بہت سے مظالم کی تلافی کر دی اور رونے لگا حتیٰ کہ اس پر غشی طاری ہو گئی۔ (المنتظم لابن الجوزی 14/183 ت 2653)
یہ روایت کہ ام کلثوم بنت علی کا نکاح عمر بن خطاب سے ھوا پہ ایمان رکھنے والے حرامی مجھے بتائیں کہاس صحیح السند حدیث کہ عبداللہ بن عمر بن خطاب کا سن صغیر میں امام حسن و حسین بن علی سے جھگڑاھوا اور انہوں نے اسے غلام ابن غلام کہ کر پکارا تو وہ اپنے والد جو کہ ممتکن خلافت تھے کے پاس شکایت لے کر گئے تو انہوں نےکہاان سے یہ بات تحریر کروا کر رکھ لیں اور جب میں اس دنیا سے رخصت ھوں تو میرے کفن میں وہ تحریر رکھوا دیں کہ ضامن نجات و شفاعت ھوگی. ان ناصبیوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے اسلام کی شرائط نکاح میں سے ایک شرط کفو کا ھم پلہ ھونا ضروری ھے اور سیدہ ام کلثوم سید زادی تھیں کہ جن پر زکواہ اور صدقہ حرام ھے اور ایک غیر سید کہ جس پر صدقہ و زکواہ حرام نہیں ھے سید زادی کا کفو کسطرح قرار دیا جاسکتا ھے اور جس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ خلیفہ دوئم کی سگی بیٹی ھیں اور رشتہ میں سیدہ ام کلثوم کی نانی ھیں ازروئے قرآن و شریعت ان حرام زادوں کو بتاتا چلوں کی اپنی ھی بیٹی کی نواسی سے نکاح حرام ھے یہ ناصبی خود اسطرح کے جاھلانہ دعوے کرکے تشیع کو اپنے خلفائے راشدین پر انگلی اٹھانے اور انکی اھانت کرنے کی دعوت عاِم دیتے ھیں اور ہل انکا وطیرہ ھے کہ دین اسلام میں حلال و حرام سے واقفیت حال نہیں رکھتے اور بغض اھل بیت میں نہ جانے کن کن افعال پہ عمل پیرا ھیں.
Deleteوما علینا الا البلاغ
Usol kafi ki ek rawiyat hai kafi hai shia kilye beta g jis ki sahi sand majod hai hazrat umar mola ali ky damad thy.chelng hai mera sab shio ko
DeleteArshad Ali Bhai,
ReplyDeleteKya aap ne yeh article padha hai?
Usoole kaafi aur doosra jo reference aap ne diya hai uska scan page dikhaen. Yaad rakhein ki ham apni kitabon ke liye Sahih hone ka dawa nahin karte.
Aur is link to bhi dekh lein ki Salafi Hazraat kis tarah shion ke khilaf kaam karte hain
http://www.shiitenews.com/index.php/pakistan/5825-deobandi-press-printing-profane-books-with-shia-scholars-names-busted
Aur mere bhai, jab ye shadi huwi thi do donon ki UMR (Age) kya thi. Yaani dulha aur dulhan hi UMR. Aur donon me shadi se pehle kya rishtedari thi, is par bhi zara Ilmi Roshni dalein...
Dushmanan-e-Ahle Bait par La'nat beshumar.
Janaab Arshad Bhai, zara bataiye kis type ke aadmi the Umar??? pehle inhone Janabe Zehra(sa) ke liye rishta beja , jab reject kar diye gaye to unki beti se aqd ki farmaish ki, astaghfirulla koi aam musalmaan bhi aisa nahi karega.!!!
ReplyDeleteوہ کیا بات ہے جناب کی کہانی اچھی پیش کی ہے رافضی منے نے
ReplyDeleteیہ اصول گھر پر بیٹھ کربنائے ہیں یا رافضی علماء سے ماخذ ہیں
ReplyDeleteیہ روایت بلکل صیحح ہے علامہ باقر مجلسی اور السید الخوئی نے اس روایت کو صیحح کہا ہے اور اس روایت کے کسی ایک راوی پر اعتراض نہیں کیا ۔میں پوچھتا ہوں راوی ناصبی تھے باقر مجلسی کو معلوم نہیں تھا ۔
ReplyDeleteباقی ایک روایت کی بات ہو تو ٹھیک ہے بہت ساری روایات موجود ہیں ۔
جو نئی کہانی حضرت ابوبکر کی بیٹی والی لائے ہو اس کی دھجیاں ابن شھر آشوب شیخ مفید مجلسی اڑا چکے ہیں
یہ ام کلثوم بنت علی ہی نہیں بلکہ ام کلثوم بنت فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھیں
جتنے دلائل چاہیے شیعہ کتابوں سے پیش کر دوں گا کر لو مناظرہ
کیا
ReplyDelete