1 - شیعہؑ کا کلمہؑ اور اذان جاری کیوں نہیں کروائ ؟
2 - ( نماز ) تراویح کیوں ختم نہیں کروائ ؟
3 - مسجدیں بنوائیں ، امام باڑے کیوں نہیں بنواۓ ؟
4 - مُتعہ کو جاری کیوُں نہیں کیا ؟
5 - باغ فِدک کو بی بی فاطمہؑ ( سلام اللہ علیہا ) اور حسنین کریمین ( علیہم السّلام ) کو واپس کیوں نہیں کیا ؟
یہ کُل 5 سوال ھیں
اور آئیۓ آج آپکو پتا چلے گا کہ ان سوالوں کا جواب کسی مولوی یا مجتہد نے نہیں بلکہ خود مولا علی علیہم السّلام نے دیۓ ھیں ۔
کیونکہ یہ تمام سوال نۓ نہیں ھیں ۔۔
1436 سال سے نسل اُمیّہ و مروان و بنوُ عباس یہی سوال کرتی آئ ھے ۔۔ !!
سرکا جناب باب العلم علیہم السّلام سے جب یہی سوال پوچھے گۓ تو آپ علیہ السّلام منبر کوفہؑ پر تشریف لے گۓ اور ایک بلیغ خطبہؑ ارشاد فرمایا ۔۔ اسکے اقتباس درج کر رھا ھوں ۔۔
.
( حوالہؑ : کتاب الاحتجاج ۔۔ جلد نمبر 1 )
( حولہؑ : کتاب نہج الاسرار ۔۔ جلد نمبر 1 )
( حوالہؑ : کتاب فضائل امیرالمومنین ابن عقده کوفی (333 )
( حوالہؑ : علل الشرائع شیخ صدوق ( 381 )
(حوالہؑ : کفایه الاثر خزاز قمی ( 400 )
( حوالہؑ : احتجاج طبرسی ( 548 )
( حوالہؑ : مناقب آل ابی طالب ابن شهر آشوب ( 588 )
( حوالہؑ : الروضه فی فضائل امیر المومنین شاذان ابن جبرئیل قمی (660)
۔
خطبہؑ بعنوان :
معاویہ سے جنگ کرنے اور ابوبکر و عمر سے جنگ نا کرنے کا سبب :
جنگ نہروان ( خوارجین سے جنگ ) سے فارغ ھونے کے بعد سرکار جناب امیر المُومنین علیہم السّلام ایک محفل میں کچھ ارشاد فرما رھے تھے کہ " اشعث " نے سوال کردیا ۔
جسکے جواب میں سرکار جناب امیرالمومنین علیہ السّلام نے فرمایا :
" اے اشعث ۔۔۔
توُ نے اپنی بات تو کہہ دی اب اسکا جواب بھی سُن اور اسکو یاد رکھ ۔۔
اور حُجّت کو اپنا شُعار بنا لے کہ ۔۔
میرا یہ اقتدار ( خلافت ظاھری ) چھ پیغمبروں
کی طرح ھے ۔۔
1 - نوُح علیہ السّلام
2 - لوُط علیہ السّلام
3 - ابراھیم علیہ السّلام
4 - مُوسیٰ علیہ السّلام
5 - ھاروُن علیہ السّلام
6 - مُحمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نوُح علیہ السّلام کی تاسئ کی جیسا انہوں نے کہا :
" فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ " (سورۃ القمر ۔۔ آئیت نمبر 10)
ترجمہؑ :
اے میرے ربّ میں مغلوُب ھوگیا میری نصُرت فرما "
۔
اب اگر تمُ یہ کہو کہ اُنہوں نے بلا وجہ ایسا کہا تو تم نے کُفر کیا اور اگر کہو کہ اُنکی اُمت نے اُنکے ساتھ حالات ایسے بنا دیۓ تھے تو پھر تمہارے نبی ﷺ کا وصی ( علی علیہ السّلام ) نوح سے زیادہ مجبوُر تھا ۔
۔
لوُط علیہ السّلام کی تاسئ کی جیسا کہ اُنہوں نے کہا :
" لو أن لي بكم قوة أو آوي إلى ركن شديد " ( سورۃ ھوُد ۔۔ آئیت نمبر 80 )
ترجمہؑ :
" کاش تم سے بچنے کی مجھ میں قوّت ھوتی یا میں کسی زبردست پناہ میں جاکر بیٹھ جاتا "
۔
اب اگر تمُ یہ کہو کہ اُنہوں نے بلا کسی خوف کے یہ کہا تو تمُ نے کُفر کیا اور اگر تمُ یہ کہو کہ اُنکی قوم نے انکے ساتھ یہ حال کیا کہ وہ تنہا رہ گۓ تو تمہارے نبی ﷺ کا یہ وصی اُس سے زیادہ مجبوُر تھا ۔
۔
ابراھیم علیہ السّلام کی تاسئ کی جیسا کہ اُنہوں نے کہا :
" وَأَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ " ۔۔ سورۃ مریم ۔۔ آئیت نمبر 49 )
ترجمہؑ :
میں تم سے اور جن جن کو تم اللہ کے سوا پُکارتے ھو علیحدہ ھوتا ھوُں
۔
اب اگر تمُ کہو کہ ابراھیم علیہ السّلام بنا کسی وجہؑ کے اپنی قوم سے الگ ھوگۓ تو تم نے کفر کیا اور اگر کہو کہ انکی قوم نے انکو ایسا مجبوُر کیا تو تمہارے نبی ﷺ کا وصی اس سے زیادہ مجبوُر ھے ۔
۔
موُسیٰ علیہ السّلام کی تاسئ کی جیسا کہ اُنہوں نے کہا :
" فَفَرَرْتُ مِنکُمْ لَمَّا خِفْتُکُم " ۔۔۔۔ ( سورۃ الشعراؑ ۔۔ آئیت نمبر 21 )
ترجمہؑ :
میں تم سے ڈرا تو میں خود ھی تمُ سے بھاگ گیا تھا
۔
اب اگر تمُ کہو کہ اُنہوں نے بلا کسی خوف کے قوم کو چھوڑا تو تمُ نے کُفر کیا اور اگر کہو کہ واقعی قوم اُنکی جان کے درپے ھوگئ تھی اسلیۓ وہ وھاں سے چلے گۓ تو تمہارے نبی ﷺ کا وصی اُن سے زیادہ مجبوُر تھا
۔
ھاروُن علیہ السّلام کی تاسئ کی جیسا کہ اُنہوں نے کہا :
" یابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِی وَکَادُواْ یَقْتُلُونَنِی " ( سورۃ الاعراف آئیت 151 )
ترجمہ :
" اے میرے ماں جاۓ ، تحقیق کہ قوم نے مجھے ( تیرے بعد ) ضعیف سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کردیتے "
۔
اب اگر تم کہو کہ انہوں نے بلاوجہ ایسا کہا اور گئو سالہ کی پرستش سے بنا کسی وجہ کے نہیں روکا تو تم نے کُفر کیا اور اگر کہو کہ اُن کو مجبوُر اور کمزور کردیا گیا تھا تو تمہارے نبی ﷺ کا وصی اس سے زیادہ مجبوُر تھا ۔
۔
مُحمّد ﷺ کی تاسئ کی جب انہوں نے ھجرت کی :
اور جاتے ھوۓ مجھے اپنے بستر پر سُلا کر گۓ ۔۔
اب اگر تُم کہو کہ اُنہوں نے بلا کسی وجہ کے ھجرت کی تو تُم نے کُفر کیا اور اگر کہو کہ اُنکو مجبوُر کردیا گیا تھا تو تمہارے نبی ﷺ کا یہ وصی اُن سے زیادہ مجبوُر تھا ۔
کچھ اندازہ ھوُا ؟؟
کتنا مجبوُر کردیا گیا تھا میرا مولا علی علیہ السّلام ؟
کُچھ سمجھ میں آیا کہ کیوُں جو بدعتیں دین میں داخل ھوُئیں اُنکو بند نہیں کیا میرے مولا علی علیہ السّلام نے ؟؟
ان چھ انبیاؑ میں سے چار اولوالعزم پیغمبر ھیں ۔۔
جو جو وجوھات ان آیات میں ان سب کی اپنی اپنی قوم سے علیحدگی کی بنی وہ تمام وجوھات اکیلۓ میرے مولا علی علیہ السّلام کو روکے ھوۓ تھیں ۔۔
۔
اب ایک اور سرکار جناب امیر علیہ السّلام کا خطبہؑ سُنو ۔۔
اور یاد رکھنا ۔۔ کہ کیوں سرکار نے تلوار نہیں اُٹھائ اور بپہت کُچھ برداشت کیا ۔۔
چاھے وہ گلے میں رسّی ڈال کر حرامیوں کا میرے مولا کو کھینچنا ھو
چاھے وہ دروازے کو آگ لگانا ھو
چاھے وہ میری مخدومہؑ کونین سلام اللہ علیہا کا پہلوُ شکستہ کرنا ھو
چاھے وہ فدک کا حق غصب کرنا ھو
چاھے وہ خلافت کا حق چھیننا ھو
اس سب پر خاموشی کی سب سے بڑی وجہ ۔۔۔
حوالہؑ :
کتاب : استیعاب عبد البرجلد ا صفحہ۱۸۳طبع حیدر آباد
۔
حضرت علیؑ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ دیکھو رسول اللہ کا انتقال ہو چکا ہے اور خلافت کے بارے میں مجھ سے کوئی نزاع نہ کرے کیوں کہ ہم ہی ا س کے وارث ہیں ۔لیکن قوم نے میرے کہنے کی پرواہ نہیں کی ۔
" خدا کی قسم اگر دین میں تفرقہ پڑ جانے اور عہد کفر کے پلٹ آنے کا اندیشہ نہ ہوتا تومیں ان کی ساری کاروائیاں پلٹ دیتا ۔"
۔
(2) حوالہؑ :
کتاب : معالم التنزیل صفحہ۴۱۲ ، صفحہ۴۱۴،
کتاب : احیاء العلوم جلد۴ صفحہ ۸۸ سیرت محمدیہ صفحہ۳۵۶
کتاب : تفسیر کبیر جلد۴ صفحہ۶۸۶
کتاب : تاریخ خمیس جلد۲ صفحہ ۱۱۳۹
کتاب : سیرت جلبیہ صفحہ۳۵۶
کتاب : شواہد النبوت اور فتح الباری
۔
" میں ہے کہ آنحضرت نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ ۔۔۔۔
" اے عائشہ ”لوَ لاَ حدَ ثَانِ قَومُک بالکَفرِ لَفَعلتُ “
ترجمہؑ
اگر تیری قوم تازی کفر سے مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں اس کے ساتھ وہ کرتا جو کرنا چاہیے تھا۔
۔
اور اب مجھے یہ بتانے کی ضرورت تو ھے نہیں کہ " جنگ بدر سے خیبر و خندق تک " پورا عرب گواہ ھے کہ کس کی تلوار سینوں کو چیرتی رھی اور گردنوں کو کاٹتی رھی ؟؟
بڑے بڑے " بہادروں " کو پہاڑوں پر بکری کی طرح اچھلتے دیکھا ھے
بڑے بڑے " بہادروں " کو جو ھنٹر ھاتھ میں لیۓ گھوما کرتے تھے تاریخ نے کوئ ایک نام بھی محفوظ نہیں کیا جو انکے ھاتھوں قتل ھوا ھو کسی بھی جنگ میں ؟؟
( یہ چیلنج بھی ھے کہ دکھاؤ اگر کوئ نام مل جاۓ ؟ )
مکہّ و مدینہ کے بسنے والے نا تو عمرو بن عبدود کا مارے جانا بھولے تھے اور نا ھی خیبر کا دروازہ اکھاڑے جانا ۔۔
جنگ خندق میں عمرو بن عبدود نے جب گستاخی کی اور مولا علی علیہ السّلام کے چہرہ مبارک پر لعاب دھن پھینکا تو آپ علیہ السّلام اُس کی چھاتی سے نیچے اُتر آۓ جس پر وہ جو بہُت زیادہ " غصّیلہ " تھا وہ بے اختیار بولا بھی تھا ۔۔۔" یا رسول اللہ یہ دیکھیۓ علی علیہ السّلام نے کیا کیا ؟ اتنا اچھا موقع گنوا دیا ۔۔ اس پر تو قابوُ پالینا ھی بڑا کام تھا ۔۔ "
قتل عمرو بن عبدود کے بعد جب مولا علیہ السّلام سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ۔۔
اگر اس وقت میں اسے قتل کردیتا تو میرا ذاتی غصّہ شامل ھوجاتا
( جبکہ میں تو " یدّ اللہ " ھوں اسلیۓ لڑتا ھی صرف اللہ اور اسکے رسول اور اسکے دین کیلیۓ ھوں )
ھاں یہ ضرور پتا چل گیا تھا کہ " یہ محمّد وآل محمّد ﷺ اپنا حق چھن جانے پر نہیں بولتے لیکن اگر اسلام و دین پر کچھ بن جاۓ تو پھر یہ اُٹھ کھڑے ھوتے ھیں "
تو بس اُنہوں نے طے کرلیا کہ ۔۔۔
" کہ دین کی بنیادوں کو فی الحال چھیڑو نہیں اور ان کو چھوڑو نہیں "
چنانچہ جن " چڑی ماروں " کی ٹانگیں کانپتی تھیں مولا علی علیہ السّلام کو آتے دیکھ کر ۔۔
" انکی ھمّت اتنی بڑھ گئ کی گلے میں رسّی ڈال کر کھینچتے رھے "
۔
(3) حوالہؑ :
کتاب : تاریخ اعثم کوفی ۸۳ طبع بمبئی
" میں حضرت علیؑ کی وہ تقریر موجود ہے جو آپ نے خلافت عثمان کے موقع پر فرمائی ہے۔ ہم اس کا ترجمہ اعثم کوفی اردو طبع دہلی کے صفحہ۱۱۳ سے نقل کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
" خدا ئے جلیل کی قسم ......
اگر محمد رسول اللہ ﷺ ہم سے عہد نہ لے لیتے اور ہم کو اس امر سے مطلع نہ کر چکے ہوتے جو ہونے والا تھا تو میں اپنا حق کبھی نہ چھوڑتا ۔ اوراپنا حق کسی شخص کو نہ لینے دیتا ۔ اپنے حق کے حاصل کرنے کے لیے اس قدر کوشش بلیغ کرتا کہ حصول مطلب سے پہلے معرض ہلاکت میں پڑنے کا بھی خیال نہ کرتا ۔ "
.
اب کچھ سمجھ میں آئ ؟؟
یہ وہ جواب ھیں جو مولا علی علیہ السّلام نے از خود ارشاد فرماۓ اور مجھے پورا یقین ھے کہ آپ میں سے اکثر نے یہ پڑھنا تو دور کی بات سُنے بھی نہیں ھونگے !!
اور اب باری ھے میرے تبصرے کی ۔۔۔
تو اب دل پر ھاتھ رکھو اور جواب سُنو ۔۔۔
ابوُ جہل کی جاھل اولادو ۔۔ !!
۔
پہلے اور دوسرے سوال کا جواب :
اسلیۓ بند دوبارہ شروع نہیں کروایا کہ " جو پروانے اپنی شمع رسالت ﷺ کا جنازہ چھوڑ کر تین دن واپس نہیں آۓ وہ کیا یہ بات مانتے ؟؟ جنہوں نے نبی ﷺ کا لحاظ نہیں کیا وہ علی علیہ السّلام کا کیا کرتے ؟؟
۔
تیسرا سوال :
پہلی بات تو یہ کہ اس وقت تک واقعہؑ کربلا ھوا ھی کب تھا جاھل ؟؟
دوسری بات یہ کہ پہلا امام بارگاہ " بیت الحزن " کے نام سے شمع رسالت کے پروانوں نے " رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو بنا کر دیا تھا جنت البقیع میں " ۔۔۔
کیونکہ اس وقت بھی تمہارے باپ دادا کو رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کا رونا ۔۔۔ پسند نہیں تھا ۔۔
جہاں تک بات ھے رونے کی ۔۔۔
تو کیا بھول گۓ کہ رونے کیلۓ جگہ کی قید نہیں ھوتی ؟؟
" کسی کو غار میں رونا آگیا تھا ۔۔ یاد نہیں کیا ؟ "
۔
چوتھا سوال :
مُتعہ کو جاری تو تب کرتے جب اُنہوں نے وہ بند کیا ھو ؟
اُن کے پیروکار تو " کسی کی بہن کے مُتعہ کرنے کی خبر کے بعد بند کرنے کے فیصلے کو اور فیصلہ کرنے والے کو مانتے ھی نہیں "
اسلیۓ مولا علی علیہ السّلام کے پیروکاروں میں وہ بمطابق حکم قرآن و رسول ﷺ جاری تھا اور ھے ۔
۔
پانچواں سوال :
باغ فِدک ۔۔
کو اسلیۓ واپس نہیں لیا مولا علی علیہ السّلام نے کیونکہ اس کی وارث مخدومہؑ عالیہ سیّدہ فاطمہؑ سلام اللہ علیہا تب دنیا سے پردہ کرچُکی تھیں ۔۔
اور ظاھر ھے جب دعویدار ھی نا ھو تو کس طرح واپس لیتے ؟؟
۔
یہ تو تھے تمہارے سوالوں کے جواب ۔۔۔ اب میرے کچھ سوال ھیں تمہارے انہی سوالوں کے جواب میں ۔۔
اگر واقعی حق پر ھو تو دو اسکا جواب ۔۔
میں بھی تو دیکھوں کہ " شیعہ نے تو چیلنج کا جواب دے دیا "
اب شیعہ کے چیلنج کا جواب کون دے گا ۔۔۔ !!
۔
سوال نمبر ایک :
رسوُل اللہ ﷺ کے جنازے میں " بڑے ستارے " کیوں نہیں تھے ؟
۔
سوال نمبر دو :
" الصّلوٰۃ خیراً من النوم " رسول اللہ ﷺ کے دور میں جزو اذان نہیں تھا نا ھی خلیفہؑ اؤّل کے دور میں تو پھر اس کو اذان کا جزو بنانے کی بدعت کیوں کیگئ ؟؟
۔
سوال نمبر تین :
نماز تراویح نا عہد رسالت ﷺ میں پڑھی گئ اور نا ھی خلیفہ اوّل کے دور میں ۔۔ تو پھر یہ بدعت کیوں اپنائ گئ ؟؟
۔
سوال نمبر چار :
قرآن نے کہا " نبی کی بیبیو گھروں میں قرار پکڑو "
تو پھر نبی کی جو بی بی گھر سے باھر نکلی اور صرف باھر نہیں نکلی بلکہ لشکر کی سربراہ بھی بن کر میدان میں آئ اس کے بارے میں کیا کہتے ھو ؟؟
اور اگر وہ ٹھیک تھا تو پھر آج عورت کی حکمرانی پر فتوے کیوں لگاتے ھو ؟
۔
سوال نمبر پانچ :
مُتعہ ۔۔۔ کو قرآن کی آئیت اور رسوُل اللہ ﷺ کی حدیث نے حلال کیا تھا
خلیفہؑ اوّل کے دور میں بھی حلال ھی تھا
پھر قرآن و حدیث کیخلاف اسکو بند کرکے زناؑ سے بچنے کا راستہ بند کرنے کا اختیار کس نے دیا تھا بند کرنے والے کو ؟؟
کیونکہ اسکے علاوہ اور کوئ طریقہ ھے ھی نہیں ایک شادی شدہ مرد کیلیۓ جو گھر سے دور ھو کہ وہ حرام کاری سے بچ سکے ۔
۔
سوال نمبر چھ :
حضرت عمر بن عبدالعزیز ( رح ) نے باغ فِدک
" اولاد فاطمہؑ سلام اللہ علیہا " کو یہ کہہ کر واپس کر دیا تھا کہ ۔۔۔۔۔
" یہ تمہارا حق تھا اور پہلے اس معاملے میں فیصلہ کرنے والے سے اجتہادی غلطی ھوئ " ۔۔
اب یہ بتاؤ کہ ان دونوں میں سے کون صحیح تھا ؟؟
خلیفہؑ اوّل یا پھر عمر بن عبدالعزیز ؟؟؟
۔
اب مجھے دیکھنا ھے کہ ان سوالوں کے کیا جواب دیتے ھو ۔۔
منتظر ھوں
( حجّت تمام ھوئ ۔۔۔ الحمد للہ رمی
2 - ( نماز ) تراویح کیوں ختم نہیں کروائ ؟
3 - مسجدیں بنوائیں ، امام باڑے کیوں نہیں بنواۓ ؟
4 - مُتعہ کو جاری کیوُں نہیں کیا ؟
5 - باغ فِدک کو بی بی فاطمہؑ ( سلام اللہ علیہا ) اور حسنین کریمین ( علیہم السّلام ) کو واپس کیوں نہیں کیا ؟
یہ کُل 5 سوال ھیں
اور آئیۓ آج آپکو پتا چلے گا کہ ان سوالوں کا جواب کسی مولوی یا مجتہد نے نہیں بلکہ خود مولا علی علیہم السّلام نے دیۓ ھیں ۔
کیونکہ یہ تمام سوال نۓ نہیں ھیں ۔۔
1436 سال سے نسل اُمیّہ و مروان و بنوُ عباس یہی سوال کرتی آئ ھے ۔۔ !!
سرکا جناب باب العلم علیہم السّلام سے جب یہی سوال پوچھے گۓ تو آپ علیہ السّلام منبر کوفہؑ پر تشریف لے گۓ اور ایک بلیغ خطبہؑ ارشاد فرمایا ۔۔ اسکے اقتباس درج کر رھا ھوں ۔۔
.
( حوالہؑ : کتاب الاحتجاج ۔۔ جلد نمبر 1 )
( حولہؑ : کتاب نہج الاسرار ۔۔ جلد نمبر 1 )
( حوالہؑ : کتاب فضائل امیرالمومنین ابن عقده کوفی (333 )
( حوالہؑ : علل الشرائع شیخ صدوق ( 381 )
(حوالہؑ : کفایه الاثر خزاز قمی ( 400 )
( حوالہؑ : احتجاج طبرسی ( 548 )
( حوالہؑ : مناقب آل ابی طالب ابن شهر آشوب ( 588 )
( حوالہؑ : الروضه فی فضائل امیر المومنین شاذان ابن جبرئیل قمی (660)
۔
خطبہؑ بعنوان :
معاویہ سے جنگ کرنے اور ابوبکر و عمر سے جنگ نا کرنے کا سبب :
جنگ نہروان ( خوارجین سے جنگ ) سے فارغ ھونے کے بعد سرکار جناب امیر المُومنین علیہم السّلام ایک محفل میں کچھ ارشاد فرما رھے تھے کہ " اشعث " نے سوال کردیا ۔
جسکے جواب میں سرکار جناب امیرالمومنین علیہ السّلام نے فرمایا :
" اے اشعث ۔۔۔
توُ نے اپنی بات تو کہہ دی اب اسکا جواب بھی سُن اور اسکو یاد رکھ ۔۔
اور حُجّت کو اپنا شُعار بنا لے کہ ۔۔
میرا یہ اقتدار ( خلافت ظاھری ) چھ پیغمبروں
کی طرح ھے ۔۔
1 - نوُح علیہ السّلام
2 - لوُط علیہ السّلام
3 - ابراھیم علیہ السّلام
4 - مُوسیٰ علیہ السّلام
5 - ھاروُن علیہ السّلام
6 - مُحمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نوُح علیہ السّلام کی تاسئ کی جیسا انہوں نے کہا :
" فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ " (سورۃ القمر ۔۔ آئیت نمبر 10)
ترجمہؑ :
اے میرے ربّ میں مغلوُب ھوگیا میری نصُرت فرما "
۔
اب اگر تمُ یہ کہو کہ اُنہوں نے بلا وجہ ایسا کہا تو تم نے کُفر کیا اور اگر کہو کہ اُنکی اُمت نے اُنکے ساتھ حالات ایسے بنا دیۓ تھے تو پھر تمہارے نبی ﷺ کا وصی ( علی علیہ السّلام ) نوح سے زیادہ مجبوُر تھا ۔
۔
لوُط علیہ السّلام کی تاسئ کی جیسا کہ اُنہوں نے کہا :
" لو أن لي بكم قوة أو آوي إلى ركن شديد " ( سورۃ ھوُد ۔۔ آئیت نمبر 80 )
ترجمہؑ :
" کاش تم سے بچنے کی مجھ میں قوّت ھوتی یا میں کسی زبردست پناہ میں جاکر بیٹھ جاتا "
۔
اب اگر تمُ یہ کہو کہ اُنہوں نے بلا کسی خوف کے یہ کہا تو تمُ نے کُفر کیا اور اگر تمُ یہ کہو کہ اُنکی قوم نے انکے ساتھ یہ حال کیا کہ وہ تنہا رہ گۓ تو تمہارے نبی ﷺ کا یہ وصی اُس سے زیادہ مجبوُر تھا ۔
۔
ابراھیم علیہ السّلام کی تاسئ کی جیسا کہ اُنہوں نے کہا :
" وَأَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ " ۔۔ سورۃ مریم ۔۔ آئیت نمبر 49 )
ترجمہؑ :
میں تم سے اور جن جن کو تم اللہ کے سوا پُکارتے ھو علیحدہ ھوتا ھوُں
۔
اب اگر تمُ کہو کہ ابراھیم علیہ السّلام بنا کسی وجہؑ کے اپنی قوم سے الگ ھوگۓ تو تم نے کفر کیا اور اگر کہو کہ انکی قوم نے انکو ایسا مجبوُر کیا تو تمہارے نبی ﷺ کا وصی اس سے زیادہ مجبوُر ھے ۔
۔
موُسیٰ علیہ السّلام کی تاسئ کی جیسا کہ اُنہوں نے کہا :
" فَفَرَرْتُ مِنکُمْ لَمَّا خِفْتُکُم " ۔۔۔۔ ( سورۃ الشعراؑ ۔۔ آئیت نمبر 21 )
ترجمہؑ :
میں تم سے ڈرا تو میں خود ھی تمُ سے بھاگ گیا تھا
۔
اب اگر تمُ کہو کہ اُنہوں نے بلا کسی خوف کے قوم کو چھوڑا تو تمُ نے کُفر کیا اور اگر کہو کہ واقعی قوم اُنکی جان کے درپے ھوگئ تھی اسلیۓ وہ وھاں سے چلے گۓ تو تمہارے نبی ﷺ کا وصی اُن سے زیادہ مجبوُر تھا
۔
ھاروُن علیہ السّلام کی تاسئ کی جیسا کہ اُنہوں نے کہا :
" یابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِی وَکَادُواْ یَقْتُلُونَنِی " ( سورۃ الاعراف آئیت 151 )
ترجمہ :
" اے میرے ماں جاۓ ، تحقیق کہ قوم نے مجھے ( تیرے بعد ) ضعیف سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کردیتے "
۔
اب اگر تم کہو کہ انہوں نے بلاوجہ ایسا کہا اور گئو سالہ کی پرستش سے بنا کسی وجہ کے نہیں روکا تو تم نے کُفر کیا اور اگر کہو کہ اُن کو مجبوُر اور کمزور کردیا گیا تھا تو تمہارے نبی ﷺ کا وصی اس سے زیادہ مجبوُر تھا ۔
۔
مُحمّد ﷺ کی تاسئ کی جب انہوں نے ھجرت کی :
اور جاتے ھوۓ مجھے اپنے بستر پر سُلا کر گۓ ۔۔
اب اگر تُم کہو کہ اُنہوں نے بلا کسی وجہ کے ھجرت کی تو تُم نے کُفر کیا اور اگر کہو کہ اُنکو مجبوُر کردیا گیا تھا تو تمہارے نبی ﷺ کا یہ وصی اُن سے زیادہ مجبوُر تھا ۔
کچھ اندازہ ھوُا ؟؟
کتنا مجبوُر کردیا گیا تھا میرا مولا علی علیہ السّلام ؟
کُچھ سمجھ میں آیا کہ کیوُں جو بدعتیں دین میں داخل ھوُئیں اُنکو بند نہیں کیا میرے مولا علی علیہ السّلام نے ؟؟
ان چھ انبیاؑ میں سے چار اولوالعزم پیغمبر ھیں ۔۔
جو جو وجوھات ان آیات میں ان سب کی اپنی اپنی قوم سے علیحدگی کی بنی وہ تمام وجوھات اکیلۓ میرے مولا علی علیہ السّلام کو روکے ھوۓ تھیں ۔۔
۔
اب ایک اور سرکار جناب امیر علیہ السّلام کا خطبہؑ سُنو ۔۔
اور یاد رکھنا ۔۔ کہ کیوں سرکار نے تلوار نہیں اُٹھائ اور بپہت کُچھ برداشت کیا ۔۔
چاھے وہ گلے میں رسّی ڈال کر حرامیوں کا میرے مولا کو کھینچنا ھو
چاھے وہ دروازے کو آگ لگانا ھو
چاھے وہ میری مخدومہؑ کونین سلام اللہ علیہا کا پہلوُ شکستہ کرنا ھو
چاھے وہ فدک کا حق غصب کرنا ھو
چاھے وہ خلافت کا حق چھیننا ھو
اس سب پر خاموشی کی سب سے بڑی وجہ ۔۔۔
حوالہؑ :
کتاب : استیعاب عبد البرجلد ا صفحہ۱۸۳طبع حیدر آباد
۔
حضرت علیؑ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ دیکھو رسول اللہ کا انتقال ہو چکا ہے اور خلافت کے بارے میں مجھ سے کوئی نزاع نہ کرے کیوں کہ ہم ہی ا س کے وارث ہیں ۔لیکن قوم نے میرے کہنے کی پرواہ نہیں کی ۔
" خدا کی قسم اگر دین میں تفرقہ پڑ جانے اور عہد کفر کے پلٹ آنے کا اندیشہ نہ ہوتا تومیں ان کی ساری کاروائیاں پلٹ دیتا ۔"
۔
(2) حوالہؑ :
کتاب : معالم التنزیل صفحہ۴۱۲ ، صفحہ۴۱۴،
کتاب : احیاء العلوم جلد۴ صفحہ ۸۸ سیرت محمدیہ صفحہ۳۵۶
کتاب : تفسیر کبیر جلد۴ صفحہ۶۸۶
کتاب : تاریخ خمیس جلد۲ صفحہ ۱۱۳۹
کتاب : سیرت جلبیہ صفحہ۳۵۶
کتاب : شواہد النبوت اور فتح الباری
۔
" میں ہے کہ آنحضرت نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ ۔۔۔۔
" اے عائشہ ”لوَ لاَ حدَ ثَانِ قَومُک بالکَفرِ لَفَعلتُ “
ترجمہؑ
اگر تیری قوم تازی کفر سے مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں اس کے ساتھ وہ کرتا جو کرنا چاہیے تھا۔
۔
اور اب مجھے یہ بتانے کی ضرورت تو ھے نہیں کہ " جنگ بدر سے خیبر و خندق تک " پورا عرب گواہ ھے کہ کس کی تلوار سینوں کو چیرتی رھی اور گردنوں کو کاٹتی رھی ؟؟
بڑے بڑے " بہادروں " کو پہاڑوں پر بکری کی طرح اچھلتے دیکھا ھے
بڑے بڑے " بہادروں " کو جو ھنٹر ھاتھ میں لیۓ گھوما کرتے تھے تاریخ نے کوئ ایک نام بھی محفوظ نہیں کیا جو انکے ھاتھوں قتل ھوا ھو کسی بھی جنگ میں ؟؟
( یہ چیلنج بھی ھے کہ دکھاؤ اگر کوئ نام مل جاۓ ؟ )
مکہّ و مدینہ کے بسنے والے نا تو عمرو بن عبدود کا مارے جانا بھولے تھے اور نا ھی خیبر کا دروازہ اکھاڑے جانا ۔۔
جنگ خندق میں عمرو بن عبدود نے جب گستاخی کی اور مولا علی علیہ السّلام کے چہرہ مبارک پر لعاب دھن پھینکا تو آپ علیہ السّلام اُس کی چھاتی سے نیچے اُتر آۓ جس پر وہ جو بہُت زیادہ " غصّیلہ " تھا وہ بے اختیار بولا بھی تھا ۔۔۔" یا رسول اللہ یہ دیکھیۓ علی علیہ السّلام نے کیا کیا ؟ اتنا اچھا موقع گنوا دیا ۔۔ اس پر تو قابوُ پالینا ھی بڑا کام تھا ۔۔ "
قتل عمرو بن عبدود کے بعد جب مولا علیہ السّلام سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ۔۔
اگر اس وقت میں اسے قتل کردیتا تو میرا ذاتی غصّہ شامل ھوجاتا
( جبکہ میں تو " یدّ اللہ " ھوں اسلیۓ لڑتا ھی صرف اللہ اور اسکے رسول اور اسکے دین کیلیۓ ھوں )
ھاں یہ ضرور پتا چل گیا تھا کہ " یہ محمّد وآل محمّد ﷺ اپنا حق چھن جانے پر نہیں بولتے لیکن اگر اسلام و دین پر کچھ بن جاۓ تو پھر یہ اُٹھ کھڑے ھوتے ھیں "
تو بس اُنہوں نے طے کرلیا کہ ۔۔۔
" کہ دین کی بنیادوں کو فی الحال چھیڑو نہیں اور ان کو چھوڑو نہیں "
چنانچہ جن " چڑی ماروں " کی ٹانگیں کانپتی تھیں مولا علی علیہ السّلام کو آتے دیکھ کر ۔۔
" انکی ھمّت اتنی بڑھ گئ کی گلے میں رسّی ڈال کر کھینچتے رھے "
۔
(3) حوالہؑ :
کتاب : تاریخ اعثم کوفی ۸۳ طبع بمبئی
" میں حضرت علیؑ کی وہ تقریر موجود ہے جو آپ نے خلافت عثمان کے موقع پر فرمائی ہے۔ ہم اس کا ترجمہ اعثم کوفی اردو طبع دہلی کے صفحہ۱۱۳ سے نقل کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
" خدا ئے جلیل کی قسم ......
اگر محمد رسول اللہ ﷺ ہم سے عہد نہ لے لیتے اور ہم کو اس امر سے مطلع نہ کر چکے ہوتے جو ہونے والا تھا تو میں اپنا حق کبھی نہ چھوڑتا ۔ اوراپنا حق کسی شخص کو نہ لینے دیتا ۔ اپنے حق کے حاصل کرنے کے لیے اس قدر کوشش بلیغ کرتا کہ حصول مطلب سے پہلے معرض ہلاکت میں پڑنے کا بھی خیال نہ کرتا ۔ "
.
اب کچھ سمجھ میں آئ ؟؟
یہ وہ جواب ھیں جو مولا علی علیہ السّلام نے از خود ارشاد فرماۓ اور مجھے پورا یقین ھے کہ آپ میں سے اکثر نے یہ پڑھنا تو دور کی بات سُنے بھی نہیں ھونگے !!
اور اب باری ھے میرے تبصرے کی ۔۔۔
تو اب دل پر ھاتھ رکھو اور جواب سُنو ۔۔۔
ابوُ جہل کی جاھل اولادو ۔۔ !!
۔
پہلے اور دوسرے سوال کا جواب :
اسلیۓ بند دوبارہ شروع نہیں کروایا کہ " جو پروانے اپنی شمع رسالت ﷺ کا جنازہ چھوڑ کر تین دن واپس نہیں آۓ وہ کیا یہ بات مانتے ؟؟ جنہوں نے نبی ﷺ کا لحاظ نہیں کیا وہ علی علیہ السّلام کا کیا کرتے ؟؟
۔
تیسرا سوال :
پہلی بات تو یہ کہ اس وقت تک واقعہؑ کربلا ھوا ھی کب تھا جاھل ؟؟
دوسری بات یہ کہ پہلا امام بارگاہ " بیت الحزن " کے نام سے شمع رسالت کے پروانوں نے " رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو بنا کر دیا تھا جنت البقیع میں " ۔۔۔
کیونکہ اس وقت بھی تمہارے باپ دادا کو رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کا رونا ۔۔۔ پسند نہیں تھا ۔۔
جہاں تک بات ھے رونے کی ۔۔۔
تو کیا بھول گۓ کہ رونے کیلۓ جگہ کی قید نہیں ھوتی ؟؟
" کسی کو غار میں رونا آگیا تھا ۔۔ یاد نہیں کیا ؟ "
۔
چوتھا سوال :
مُتعہ کو جاری تو تب کرتے جب اُنہوں نے وہ بند کیا ھو ؟
اُن کے پیروکار تو " کسی کی بہن کے مُتعہ کرنے کی خبر کے بعد بند کرنے کے فیصلے کو اور فیصلہ کرنے والے کو مانتے ھی نہیں "
اسلیۓ مولا علی علیہ السّلام کے پیروکاروں میں وہ بمطابق حکم قرآن و رسول ﷺ جاری تھا اور ھے ۔
۔
پانچواں سوال :
باغ فِدک ۔۔
کو اسلیۓ واپس نہیں لیا مولا علی علیہ السّلام نے کیونکہ اس کی وارث مخدومہؑ عالیہ سیّدہ فاطمہؑ سلام اللہ علیہا تب دنیا سے پردہ کرچُکی تھیں ۔۔
اور ظاھر ھے جب دعویدار ھی نا ھو تو کس طرح واپس لیتے ؟؟
۔
یہ تو تھے تمہارے سوالوں کے جواب ۔۔۔ اب میرے کچھ سوال ھیں تمہارے انہی سوالوں کے جواب میں ۔۔
اگر واقعی حق پر ھو تو دو اسکا جواب ۔۔
میں بھی تو دیکھوں کہ " شیعہ نے تو چیلنج کا جواب دے دیا "
اب شیعہ کے چیلنج کا جواب کون دے گا ۔۔۔ !!
۔
سوال نمبر ایک :
رسوُل اللہ ﷺ کے جنازے میں " بڑے ستارے " کیوں نہیں تھے ؟
۔
سوال نمبر دو :
" الصّلوٰۃ خیراً من النوم " رسول اللہ ﷺ کے دور میں جزو اذان نہیں تھا نا ھی خلیفہؑ اؤّل کے دور میں تو پھر اس کو اذان کا جزو بنانے کی بدعت کیوں کیگئ ؟؟
۔
سوال نمبر تین :
نماز تراویح نا عہد رسالت ﷺ میں پڑھی گئ اور نا ھی خلیفہ اوّل کے دور میں ۔۔ تو پھر یہ بدعت کیوں اپنائ گئ ؟؟
۔
سوال نمبر چار :
قرآن نے کہا " نبی کی بیبیو گھروں میں قرار پکڑو "
تو پھر نبی کی جو بی بی گھر سے باھر نکلی اور صرف باھر نہیں نکلی بلکہ لشکر کی سربراہ بھی بن کر میدان میں آئ اس کے بارے میں کیا کہتے ھو ؟؟
اور اگر وہ ٹھیک تھا تو پھر آج عورت کی حکمرانی پر فتوے کیوں لگاتے ھو ؟
۔
سوال نمبر پانچ :
مُتعہ ۔۔۔ کو قرآن کی آئیت اور رسوُل اللہ ﷺ کی حدیث نے حلال کیا تھا
خلیفہؑ اوّل کے دور میں بھی حلال ھی تھا
پھر قرآن و حدیث کیخلاف اسکو بند کرکے زناؑ سے بچنے کا راستہ بند کرنے کا اختیار کس نے دیا تھا بند کرنے والے کو ؟؟
کیونکہ اسکے علاوہ اور کوئ طریقہ ھے ھی نہیں ایک شادی شدہ مرد کیلیۓ جو گھر سے دور ھو کہ وہ حرام کاری سے بچ سکے ۔
۔
سوال نمبر چھ :
حضرت عمر بن عبدالعزیز ( رح ) نے باغ فِدک
" اولاد فاطمہؑ سلام اللہ علیہا " کو یہ کہہ کر واپس کر دیا تھا کہ ۔۔۔۔۔
" یہ تمہارا حق تھا اور پہلے اس معاملے میں فیصلہ کرنے والے سے اجتہادی غلطی ھوئ " ۔۔
اب یہ بتاؤ کہ ان دونوں میں سے کون صحیح تھا ؟؟
خلیفہؑ اوّل یا پھر عمر بن عبدالعزیز ؟؟؟
۔
اب مجھے دیکھنا ھے کہ ان سوالوں کے کیا جواب دیتے ھو ۔۔
منتظر ھوں
( حجّت تمام ھوئ ۔۔۔ الحمد للہ رمی
Abu bakkar o umer o usman yarane nabi nam hy olady ali wh muhbt thi
ReplyDelete