ابولولو مزار |
ابولولو کے مزار پر ایک وہابی عالم کے اعتراض کا جواب
پاکستان کے ایک نیشنل ٹی وی چینل پر ایک شو (عامر آن لائن) پر حضرت علیؑ کی شہادت کی مناسبت سے ماہ صیام میں ایک پروگرام نشر ہورہا تھا۔ دوران گفتگو مہمان علماء میں سے ایک وہابی مولوی (قاری خلیل الرحمٰن ) نے شیعہ عالم سے یہ شکایت کی کہ دنیا میں کہیں حضرت علیؑ کے قاتل کا مزار نہیں ہے مگر شیعہ حضرات خلیفہ دوم عمر پر یہ ظلم کرتے ہیں کہ ان کے قاتل ابولولو فیروز کی قبر پر مزار تعمیر کیے ہوے ہیں جو شیعہ ملک ایران میں آج بھی موجود ہے۔ اس بات سے قاری صاحب کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ ایران کے شہر نہاوند میں موجود مزار قاتل عمر ابولولو کا ہے اور چونکہ اس شخص نے عمر کو قتل کیا تھا اس لیے اس ملک کے باشندے جن کی اکثریت شیعہ ہے اس کا احترام کرتے ہیں۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے شو کے ائنکر ڈاکٹر عامر لیاقت کو google (‘wikipedia) کا حوالہ بھی دیا۔
چونکہ قاری خلیل الرحمٰن صاحب نے یہ شکایت پوری ملّت شیعہ سے کی ہے اور شیعوں پر الزام لگا یا ہے اس لیے ہم ان کو جواب دینا اپنے لیے ضروری سمجھتے ہے۔ ان کے سوال کا جواب تھوڑا تفصیلی ہے اس لیے اس کو ہم چار حصّوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔
حصّہ اوّل: قاری صاحب کی غلط بیانی:
پہلی بات یہ ہے کہ قاری خلیل الرحمٰن صاحب نے ٹی وی چینل پر باقاعدہ اہل
تسنّن (سنّی) کی تحریر کردہ کتب کو جھٹلایا ہے. ان کی کتابوں میں یہ درج ہے
کہ قاتل عمر مدینے میں ہی مرچکا تھا۔ قتلِ عمر کے بعد اس کا ایران فرار
کرجانا کسی بھی سنّی کتاب میں موجود نہیں ہے۔ کیا مولوی صاحب کو قتلِ عمر
کی داستان کا علم نہیں ہے؟ یا یہ کہ انھوں نے جان بوجھ کر شیعوں پر الزام
لگایا ہے اور اپنے اس بہتان کی تصدیق کے لیے google جیسے غیر معتبر وسیلے
کا سہارا لیا ہے؟ (جب کہ وہ خود وسیلے کے قائل نہیں ہیں) تاریخ کی کتابوں
میں یہ بات موجود ہے کہ عمر کا قاتل حملہ کرکے جب مسجد سے بھاگنے لگا تو
لوگوں نے اس کا پیچھا کیا اور اسے پکڑ لیا۔ اس کے بعد اس شخص نے خود کشی
کرلی۔ بعض حوالوں میں لکھا ہے کہ جس خنجر سے اس نے عمر پر حملہ کیا تھا اسی
سے اپنے آپ کو ہلاک کرلیا۔ اس واقعے کو سنّی عالمِ دین اور سیرت نگار
علامہ شیبلی نعمانی کی کتاب ‘الفاروق’ میں تفصیل سے پڑھا جاسکتا ہے۔
مزید حوالہ جات:-
•الفاروق (اردو) ص ١٦٦
• تاریخ خلفاء (اردو) ص ٣٠۵-٣٠٦
•طبقات ابن سعد ج ٣ ص ٣٢٢
• المصنّف (اردو) ج ۵ ٩٢
ان تمام معتبر حوالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عمر کا قاتل مدینے میں ہی مارا
گیا تھا اور ظاہر ہے کہ وہیں اس کی قبر بھی ہوگی۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ
مرا وہ مدینے میں اور دفن کیا گیا ایران میں؟؟
لہٰزا یہ بات بے بنیاد اور منگھڑت ہے کہ عمر کے قاتل کا مزار ایران میں
ہے۔ یہ کوئ درویش کا مزار ہے جس کا نام بابا شجاع الدین ابو لولو ہے۔
ممکن ہے اس وہابی مولوی نے اپنے اس چہیتے خلیفہ کے بارے میں ٹھیک سے پڑھا
نہ ہو یا پھر اس کا مقصد صرف یہی ہو کہ بھولے بھالے عوام کو شیعوں کے خلاف
بھڑکایا جائے۔
حصّہ دوم: قاری خلیل رحمان کی دلیل ( reference) نہ صرف تاریخی حوالوں بلکہ خود ان کے عقیدے کے خلاف ہے۔
قاری صاحب نے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ قاتل عمر ابو لولو کا مزار ایران میں ہے wikipedia ویبسائٹ کا سہارا لیا۔ اس ویبسائٹ پر یہ لکھا ہے کہ ابولولو کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئ اور طرز وفات بھی خودکشی ہے. مگر جب آپ اس ویبسائٹ کے مضمون کو پوری طرح پڑھیں گے تو اس میں یہ بات درج ہے کہ ابو لولو مدینے سے جان بچاکر فرار ہوگیا اور ایران جانے میں اس کی مدد حضرت علیؑ نے کی۔ اس میں یہ بھی میں درج ہے کہ عمر کے قاتل کو بچانے کے لیے حضرت علیؑ نے دعا فرمائ جس کی وجہ سے وہ ایران پہنچ گیا جہاں آج اس کا مزار موجود ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ سنّی عقیدے کے مطابق یہ بات جھوٹ اور منگھڑت ہے۔ سنّی علماء و ذاکرین کا ہمیشہ یہی دعویٰ رہا ہے کہ حضرت علیؑ کے خلفاء ثلاثہ سے بہت اچھے تعلّقات تھے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انھوں نے ابولولو کو فرار ہونے میں مدد کی ہو۔ لیکن اگر اِس بیان کو صحیح تسلیم کیا جائے (جیسا کہ اس وہابی عالم نے کیا ہے) تو اس سے دو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت علیؑ نے عمر کے قاتل کی جان بچائ اور دوسرے یہ کہ حضرت علیؑ نے تعاقب کرنے والوں سے تقیّہ کیا تاکہ ابولولو کی جان بچ جائے۔ یہ دونوں باتیں بعینہ شیعہ عقیدے کے مطابق ہیں۔ لہٰذا اگر مولوی صاحب اس روایت کو بطور استدلال پیش کرتے ہیں تو ان کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت علیؑ، عمر کو دوست نہیں رکھتے تھے بلکہ اس کے قتل پر خوش ہوے تھے۔ دوسرے یہ کہ امیرالمومنین کے پاس جناب آصف ابن برخیہ جیسا علم تھا جس کی بنا پر انھوں نے ابولولو کو چشمِ زدن میں ایران پہنچا دیا اور تیسرے یہ کہ اپنی اور کسی مسلمان کی جان بچانے کے لیے تقیّہ جائز یے۔
تیسرا حصّہ:
قاری صاحب کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ایران ہمیشہ سے شیعوں کے ماتحت
نہیں رہا ہے۔ زیادہ تر وہاں سنّی حکومت اور اکثریت رہی ہے۔ اگر یہ مزار
واقعًا قاتلِ عمر کا مزار ہے تو ان سنّی حکومتوں نے کیوں اس کو منہدم نہیں
کیا؟؟ اس مزار کا موجود رہنا یہ بھی بتاتا ہے کہ وہابیوں کا یہ دعویٰ غلط
ہے کہ سلف مزارات تعمیر نہیں کرتے تھے۔ یہ بدعتیں بعد میں رائج ہوئ ہیں۔
اگر مزازات بنانا بدعت ہے تو دورِ سلف سے آج تک ابولولو کا مزار کیسے موجود
ہے؟؟
چوتھا حصّہ:
قاری خلیل الرحمٰن صاحب کی پیشکش ہمیں قبول ہے مگر ایک شرط کے ساتھ:
آخر میں قاری خلیل صاحب اور ائنکر ڈاکٹر عامر نے اس بات کو ختم کرتے ہوئے یہ پیشکش کی کہ شیعہ عالم ایرانی حکومت کو خط لکھ کر سب کی طرف سے التجا کریں کہ ابولولو کے اس مزار کو گرا دیا جائے تاکہ مسلمانوں میں باہمی اتحاد قائم رہے اور سنیّوں کی دل آزاری نہ ہو۔
جواب:
باوجود اس کے کہ یہ مزار عمر کے قاتل کا نہیں ہے تاہم اگر اس کی موجودگی سے
سنیّوں کی دل آزاری ہوتی ہے تو اس کو منہدم کر دینا چاہیے۔ مگر ایک اہم
شرط کے ساتھ اور وہ یہ کہ مدینہ منورہ میں ائمہ طاہرین (رسول اکرم (ص) کے
اہلبیت) کی قبریں، جو وہابی سعودی حکومت کے ذریعہ منہدم کر دی گئی ہیں،
انھیں پھر سے تعمیر کیا جائے، کیونکہ یہ سفاکانہ انہدام تمام شیعوں اور
سنیوں کی اکثریت کی دل آزاری کا سبب ہے۔ قاری خلیل الرحمٰن صاحب سے یہ
گزارش ہے کہ باہمی اتحاد اور مسلمانوں کی خوشنودی کے لیے وہ سعودی حکومت کو
خط لکھ کر ان مزارات کی تعمیر کروا دیں۔ جب ان مزارات کی تعمیر ہو جائے گی
تو ان شاء اللہ اسی دن ابولولو کا یہ مزار منہدم کر دیا جاے گا.
No comments:
Post a Comment
براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.