خلیفہ دوم کا اپنے ایمان میں شک کرنا
سوال 16: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عمر (رض) کو اپنے ایمان میں شک تھا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ منافقین میں سے ہیں .جیسا کہ امام ذہبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ وہ حضرت حذیفہ یمانی(رض) سے عاجزانہ التماس کیا کرتے کہ وہ انہیں بتائیں کہ کہیں ان کا نام منافقین میں تو نہیں ہے ؟
﴿﴿حذیفۃ أحد أصحاب النبیّ أسرّ الیہ أسمائ المنافقین ...وناشدہ، عمر باللہ : أنا من المنافقین...﴾﴾﴿۱﴾
۔کیا حضور (ص) نے خود کشی کرنا چاہی
سوال 17:کیا یہ صحیح ہے کہ جب کبھی پیغمبر پر وحی کے نازل میں تاخیر ہو جاتی تو خود کشی یا ٹیلے سے اپنے آپ کو گرا دینے کا بارہا پروگرام بناتے یا پھر اپنی نبوت میں شک کرنے لگتے اور یہ گمان کر بیٹھتے کہ شاید وحی عمر بن خطاب پر منتقل ہو گئی ہے اور آج کے بعد وہ نبی بن گئے ہیں؟جیسا کہ امام بخاری نے لکھا ہے :
﴿﴿وفتر الوحی فترۃ حتّٰی حزن النبیّ فیما بلغنا حزنا غدا منہ مرارا ، کی یتردّی من رؤوس شواھق الجبال ، فکلّما أوفٰی بذروۃ جبل ،لکی یلقی منہ نفسہ ،تبدّی لہ، جبرائیل فقال: یا محمّد انّک رسول اللہ حقّا .فیسکن لذلک جأشہ وتقرّ نفسہ فیرجع فاذا طالت علیہ فترۃ الوحی غدالمثل ذلک ...﴾﴾﴿۲﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ تاریخ الاسلام ﴿الخلفائ﴾: ۴۹۴؛
۲۔صحیح بخاری ،کتاب التعبیر ،ح ۲۸۹۲؛ کتاب الأنبیائ ،ح ۲۹۳۳؛کتاب التفسیر ،ح ۳۵۹۴؛ الامام البخاری : ۲۴۱
۔کیا حضرت عمر (رض) کند ذہن تھے
سوال 18:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عمر (رض)انتہائی کند ذہن تھے یہاں تک کہ بارہ سال کی مدت میں مشکل سے سورہ بقرہ حفظ کی اور اس کی خوشی میں ایک اونٹ ذبح کیا ؟جیسا کہ امام ذہبی نے لکھاہے:
﴿﴿ قال ابن عمر: تعلّم البقرۃ فی اثنتی عشرۃ سنۃ ، فلمّا تعلّمھا نحر جزورا ﴾﴾ ﴿۱﴾
اسی طرح جصاص اور سیوطی کے بقول حضرت عمر (رض)آخر تک آیت کلالہ کا معنیٰ نہ سمجھ پائے اور پھر خود بھی اس کا اقرار کیا .﴿۲﴾
۔حضرت عمر(رض) کی خلافت پر لوگوں کااعتراض
سوال 19: کیا یہ بھی صحیح ہے کہ حضرت ابو بکر (رض) کے خلافت کیلئے حضرت عمر (رض) کے انتخاب سے لوگ ناراض تھے اور وہ اپنی اس ناراضگی کا اظہار طلحہ بن عبیداللہ کے سامنے کیا کرتے ؟ ﴿۳﴾
۔کیا حضرت عمر (رض) حکم تیمم نہیں جانتے تھے
سوال 20:کیا یہ بھی صحیح کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر (رض) اپنی خلافت کے دوران تک تیمم کے حکم سے آگاہ نہ تھے اور اگر کوئی شخص مسئلہ پوچھ لیتا کہ اگر غسل جنابت کرنا ہو اور پانی بھی نہ ہو تو کیا کرنا چاہئے ؟ تو وہ جواب
میں فرماتے :جب تک پانی میسّر نہ ہو تب تک نماز ترک کر دی جائے ...! اور دوماہ تک پانی نہ ملتا توخلیفہ دوم نماز کے قریب نہ جاتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ تاریخ الاسلام ﴿الخلفائ ﴾: ۷۶۲
۲۔ کنز العمال ۱۱: ۹۷؛ تفسیر الدرّ المنثور ۲:۹۴۲؛ احکام القرآن جصاص حنفی ۲: ۰۱۱. عن سعید بن مسیّب أنّ عمر سأل رسول اللہ کیف یورث الکلالۃ ؟ قال : أو لیس قد بیّن اللہ ذلک ؟ ثمّ قرأ : ﴿﴿وان کان رجل یورث الکلالۃ أو امرأۃ ﴾﴾الی آخر الآیۃ . فکان عمر لم یفھم ، فأنزل اللہ ﴿﴿یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ ﴾﴾الی آخر الآیۃ فکان عمر لم یفھم فقال لحفصۃ : اذا رأیت من رسول اللہ طیب نفس فأسألیہ عنھا! فقال : أبوک ذکر لک ھذا ؟ ما أرٰی أباک یعلمھا أبدا ! فکان یقول : ماأرانی أعلمھا أبدا وقد قال رسول اللہ ما قال.
۳۔ کنزالعمّال ۵: ۸۷۶
امام نسائی نے اس بارے میں یوں روایت نقل کی ہے :
﴿﴿کنّا عند عمر فأتاہ، رجل ،فقال: یاأمیرالمؤمنین ربّما نمکث الشّھر والشّھرین ولانجد المائ ؟ فقال عمر: أمّا أنافاذا لم أجد المائ لم أکن لأصلّی حتّٰی أجد المائ ...﴾﴾﴿۱﴾
کیا حضرت عمر (رض) اور ان کے فرزند کھڑے ہو کر پیشاب کیا کرتے
سوال 21:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عمر (رض) اور ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ہم سلفیوں کے امام کھڑے ہو کر پیشاب کیا کرتے تھے ؟ جیسا کہ امام مالک نے حدیث نقل فرمائی ہے :
﴿﴿ عن عبداللہ بن دینار قال:رأیت عبداللہ بن عمر یبول قائما ﴾﴾
ابن دینار کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمر کو دیکھا وہ کھڑے ہو کر پیشاب کر رہے تھے .
اسی امام ترمذی نقل فرماتے ہیں : ﴿﴿ عن عمر :رآنی النبیّ وأنا أبول قائما. فقال: یا عمر لاتبل قائما ...﴾﴾﴿۲﴾
پیغمبر نے مجھے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اے عمر ! کھڑے ہو کر مت پیشاب کرو.
امام عسقلانی حضرت عمر (رض) کے اس فعل کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
﴿﴿ البول قائما أحفظ للدّبر﴾﴾کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے گانڈ محفوظ رہتی ہے .﴿۳﴾
امام عسقلانی مزید لکھتے ہیں ثابت ہو گیا کہ صحابہ کرام (رض)میں سے کچھ افراد کھڑے ہو کر پیشاب کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔سنن نسائی ۱: ۸۶۱؛ امام بخاری نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے لیکن حضرت عمر (رض) کی عزت بچانے کی خاطر یہ جملہ کاٹ دیا کہ میں جنابت کی حالت میں ہوں اور پانی نہ ملتا تو نمازتر ک کردیا کرتا ہوں .بخاری ۱: ۰۷ ،باب المتیمم ھل ینفح فیھما.
۲۔سنن ترمذی ۱: ۸۱
۳۔فتح الباری شرح صحیح بخاری ۱: ۲۶۲؛ ارشاد الساری شرح صحیح بخار ی ۱: ۷۷۲
کرتے تھے جن میں حضرت عمر (رض) بھی شامل ہیں .
جبکہ ہم یہ حدیث بھی نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: ﴿﴿اقتدوا بالّذین من بعدی﴾﴾﴿۱ میرے بعد آنے والے یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) کی پیروی کرو .تو اس اعتبار سے کیا ہم پر واجب ہے کہ کھڑے ہو پیشاب کریں ؟ یا حضرت عمر (رض) کی اس سیرت سے فقط اس عمل کا جائز ہونا ثابت ہوتا ہے ؟ اور پھر کیا کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے جو چھینٹیں کپڑوںپڑ تی پیں ان سے لباس نجس ہو گا یا نہیں؟ اور حضرت عمر (رض) کا یہ عمل آنحضرت (ص) کے اس فرمان سے کیسے جمع ہو سکتا ہے جس میں فرمایا:
﴿﴿ من الجفائ أن یبول الرّجل قائما ﴾﴾ ﴿۲﴾
کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ظلم ہے .
اب ہم اہل سنّت آنحضرت (ص) کی اس حدیث پر عمل کریں یا حضرت عمر (رض) کی سیرت پر ؟
حضرت ابو ہریرہ(رض) چور تھے
سوال ۲۲: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت ابو ہریرہ(رض) چور تھے اور انہوں نے بیت المال سے بہت زیادہ مال چرایا اور حضرت عمر(رض) بھی انہیں چور اور دشمن خدا کہا کرتے جیسا کہ ہماری معتبر کتب میں نقل کیا گیاہیکہ حضرت عمر (رض) انہیںکہا کرتے :
﴿﴿ یا عدوّ اللہ وعدوّ کتابہ سرقت مال اللہ ﴾﴾﴿۳﴾
اے دشمن خدا و قرآن ! تو نے مال خداکوچرالیا .
کیاحضرت عمر(رض) کا امّ کلثوم سے عقد نہیں ہوا
سوال 23:کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر (رض) کے امّ کلثوم سے نکاح کا ماجرا ایک جھوٹی داستان ہے اس لئے کہ
۱: یہ داستان تفصیل کیساتھ صحاح ستّہ میں سے کسی ایک میں بھی نقل نہیں ہوئی .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔سنن ترمذی ۵: ۰۳۶
۲۔عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ۳: ۵۳۱
۳۔الطبقات الکبرٰی ۴: ۵۳۳؛ سیر اعلام النبلائ ۲: ۲۱۶
۲: بعض محققین کا تو کہنا ہے کہ حضرت علی (رض) کی کسی بیٹی کا نام اُمّ کلثوم نہیں تھا.﴿۱﴾بلکہ یہ حضرت زینب کی کنیت تھی اور ان کی شادی عبداللہ بن جعفر سے ہوئی تھی .
۳: نام میں مغالطہ ہوا ہے اس لئے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کی بیٹی اُمّ کلثوم سے شادی کی خواستگاری کی تھی مگر حضرت عائشہ (رض) کی مخالفت کی وجہ سے شادی واقع نہ ہو سکی .﴿۲﴾
۴: حضرت عمر (رض) کا اُمّ کلثوم نامی خاتون سے عقد تو ہوا لیکن اس کے باپ کا نام جرول تھا جو عبید اللہ بن عمر (رض) کی ماں تھیں .﴿ ۳﴾
۵: تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب ماجرا من گھڑت ہے اس لئے کہ کہتے ہیں امّ کلثوم کی شادی پہلے عمر(رض) سے ہوئی ان کی وفات کے بعد محمد بن جعفر سے ، ان کی وفات کے بعد ان کے بھائی عون بن جعفر سے ہوئی جبکہ ہماری تاریخی کتب اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ دونوں بھائی حضرت عمر (رض) کے دور خلافت میں جنگ تستر شہید ہوگئے تھے .﴿ ۴﴾
اور پھر ہماری کتب میںیہ بھی لکھا جاتاہے کہ ان دونوں بھائیوں کی وفات کے بعد ان کی شادی ان کے تیسرے بھائی عبداللہ بن جعفرسے ہوئی جبکہ ان کی شادی تو حضرت زینب سے ہوئی تھی اور وہ اس وقت تک اسی عبداللہ کے عقد میں ہی تھیں تو کیا اسلام میں ایک زمانہ میں دو بہنوں کے ساتھ شادی جائز ہے ﴿۵﴾یا یہ کہ حقیقت میں ایسا عقد واقع ہی نہیں ہوا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ حیات فاطمہ الزہرائ: ۹۱۲،باقر شریف قرشی؛علل الشرائع ۱: ۶۸۱،باب ۹۴۱
۲۔ الأغانی ۶۱: ۳۰۱
۳۔سیر اعلام النبلائ ﴿ تاریخ الخلفائ﴾: ۷۸
۴۔استیعاب ۳: ۳۲۴اور ۵۱۳؛ تاریخ طبری ۴: ۳۱۲؛ الاکمل فی التاریخ ۲: ۶۴۵
۵۔ الطبقات الکبرٰی ۸: ۲۶۴
۔چار ہزار کلو میٹر کے فاصلے لشکر کو کمانڈ کرنا
سوال24: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عمر (رض) چار ہزار کیلو میٹر کے فاصلے پر بیٹھ کر اپنے لشکر کی نقل و حرکت کو دیکھتے رہتے تھے اور ان سے گفتگو بھی کرتے اور لشکر بھی ان کی باتوں کا جواب دیا کرتا جس کے نتیجہ میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی جیسا کہ ہمارے مؤرخین نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے :
﴿﴿ من کلام عمر قالہ علی المنبرحین کشف لہ، عن ساریۃ وھوبنھاوند من أرض فارس ﴾﴾ ﴿۱﴾
اگر شیعہ ہم سے یہ کہیں کہ تم حضرت عمر (رض) کے بارے میں غلوّ کرتے ہو جیسا کہ محمد بن درویش نے بھی کہا ہے ﴿ ۲﴾ تو ہمارے پاس کیا جواب ہے ؟اس لئے کہ ایسا واقعہ عقل و نقل کے خلاف ہے جیسا کہ عسقلانی نے بھی بیان کیا . اور کیا ایسی بات پیغمبر (ص) کی طرف بھی نسبت دی جاسکتی ہے ؟
۔کیا حضرت علی(رض) ،حضرت عمر(رض) سے متنفر تھے
سوال 25:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت علی (رض)، حضرت عمر (رض) کے ساتھ مل بیٹھنے یا ان سے ملاقات کرنے سے نفرت کرتے تھے یہاں تک کہ جب بھی حضرت ابوبکر (رض) ان سے ملنے کی خواہش کرتے تو وہ یہ شرط لگاتے کہ عمر (رض) کو اپنے ہمراہ نہ لانااس لئے کہ مجھے ان سے نفرت ہے جیسا کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں اسے بیان کیا :﴿﴿ أرسل ۔علیّ(رض)۔ الی أبی بکر أن ائتنا ولا یأتنا أحد معک کراھیۃ لمحضر عمر ...﴾﴾﴿۳﴾
ان تمام تر شواہد کے باوجود کیسے یہ دعوٰی کیا سکتا ہے کہ خلفائ کے اہل بیت رسول (ص) کے ساتھ اچھے روابط تھے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ ابن عساکر : ۷۴؛ البدایۃ والنھایۃ ۷: ۵۳۱؛ الکامل فی الضعفائ ۳: ۵۳۴؛ الجرح والتعدیل ۴: ۸۷۲؛ تہذیب التہذیب ۴: ۹۵۲
۲۔أسنیٰ المطالب : ۷۵۵،ح ۳۶۷۱
۳۔ صحیح بخاری ۳: ۵۵،کتاب المغازی ﴿خیبر﴾
۔حضرت عمر (رض) وحفصہ (رض) کا تورات سے لگاؤ
سوال 26: کیا یہ درست ہے کہ حضرت عمر (رض)اور حضرت حفصہ (رض) کو تورات سے بہت لگاؤ تھا یہاں تک کہ اسے قرآن کی طرح تلاوت کیا کرتے اور اس کی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ؟ جیسا کہ عبدالرزاق نے لکھا ہے :
﴿﴿ انّ عمر بن الخطّاب مرّبرجل یقرئ کتابا، سمعہ ساعۃ فاستحسنہ، فقال للرّجل : أتکتب من ھذا الکتاب ؟ قال : نعم . فاشترٰی أدیما لنفسہ ، ثمّ جائ بہ الیہ ، فنسخہ، فی بطنہ وظھرہ، ثمّ أتٰی بن النّبیّ فجعل یقرأہ، علیہ . وجعل وجہ رسول اللہ یتلوّن،فضرب رجل من الأنصار بیدہ الکتاب وقال : ثکلتک اُمّک یابن الخطاب ألا ترٰی الی وجہ رسول اللہ منذ الیوم . وأنت تقرئ ھذا الکتاب؟! فقال النبیّ عند ذلک : انّما بعثت وفاتحا وخاتما وأعطیت جوامع الکلم وفواتحہ، واختصر لی الحدیث اختصارا فلا یھلکنّکم المتھوکون﴾﴾﴿۱﴾
نیز حضرت حفصہ(رض) کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر (ص) کے حضور میں سابقہ امّتوں کے حالات ان کی کتب سے پڑھا کرتیں جس پر پیغمبر (ص) سخت ناراحت ہوئے یہاں تک کہ چہرہ مبارک کارنگ تبدیل ہوگیا اور فرمایا: اگرآج حضرت یوسف(ع) اس کتاب کو لے کر آئیں اور تم لوگ اس کی پیروی کرنا شروع کر دوتو گمراہ ہو جاؤ گے .
﴿﴿عن الزھری : انّ حفصۃ زوج النبیّ جائت الی النبیّ بکتاب من قصص یوسف ، فی کتف فجعلت تقرئ علیہ والنّبیّ یتلوّن وجھہ،، فقال : والّذی نفسی بیدہ لو أتاکم یوسف وأنا فیکم فاتّبعتموہ، وترکتمونی لضللتم ﴾﴾﴿۲﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ المتحیّرون ؛ المصنّف ۶: ۳۳۱و ۱۱: ۱۱۱
۲۔ المصنّف ۶: ۳۱۱،ح ۶۱۰۱
اور کیا یہ صحیح ہے کہ مد ینہ منورہ میں مسکہ نامی ایک مقام ہے جہاں حضرت عمر (رض) تورات سیکھنے جایاکرتے . جیسا کہ علاّمہ شبلی نعمانی نے اپنی کتاب فاروق اعظم میں لکھا ہے .
۔توہین رسالت (ص) کاجرم
سوال 27: کیا قاضی عیاض کی یہ بات درست ہے کہ جوشخص یہ کہے کہ پیغمبر نے جہاد سے فرار کیا تو وہ شخص توبہ کرے ورنہ اسے قتل کردیا جائے کیونکہ اس نے شان رسالت (ص) گھٹائی اور ان کی توہین کی ہے ؟﴿۱﴾
اسی قرطبی کا کہنا ہے : جو شخص بھی کسی صحابی کی توہین کرے یا اس پر اعتراض کرے تو اس نے خدا کو ٹھکرایا اور مسلمانوں کی شریعت کوابطل قرار دیاہے ۔ ﴿۲﴾
جی ہاں ! اگر یہ جملے توہین رسالت (ص) اور قتل کا باعث بنتے ہیں توکیا ایسے لوگ جنہوں نے پیغمبر (ص) کی طرف ہذیان کی نسبت دی یا مختلف مقامات پر ان کی مخالفت کی .ان کا خون مباح نہیں ہو گا ؟
امام بخاری نے سات مقامات پر اور امام مسلم نے تین مقامات پر لکھا ہے کہ حضرت عمر (ص) نے پیغمبر (ص) کے متعلق یہ جملات کہے تھے .﴿۳ .﴾
اما م غزالی کہتے ہیں : ﴿﴿قال عمر : دعواالرّجل فانّہ، لیھجر ﴾﴾﴿۴﴾
سحضرت عمر (رض) نے کہا : یہ شخص ﴿ پیغمبر (ص) ﴾ہذیان بول رہا ہے اس کی بات پر مت توجہ دو.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔المواہب اللّدنیۃ ۱: ۸۹
۲۔ تفسیر قرطبی ۶۱: ۷۹۲
۳۔ صحیح بخاری ۴: ۷، کتاب المرضیٰ ، باب ۷۱،اور۲: ۸۷۱،کتاب الجہاد ، باب ۲۷۱؛ اور ۲: ۲۰۲، باب ۶ و ۳: ۱۹، کتاب المغازی ، باب ۸۷؛ ۴: ۱۷۲، باب ۶۲؛ صحیح مسلم ۳: ۹۶، کتاب الوصیۃ ، باب۵، ح ۲۲، طبع مصر.
۴۔ سرّ العالمین : ۰۴، طبع دارالآفاق قاہرہ ، سال ۱۲۴۱ھ ؛ الطبقات الکبرٰی ۲: ۳۴۲ و ۴۴۲ ؛ مسند احمد ۳: ۶۴۳؛ مجمع الزوائد ۴: ۰۹۳،و ۱۹۳.
۔حضرت عمر(رض) کاوصیت رسول (ص) کی مخالفت کرنا
سوال 28:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عمر (رض) نے رسول مکر م اسلام کی وصیت کی سخت مخالفت کی تھی اور اسے ردّ کردیا ؟ جیسا کہ حضرت جا بر بن عبد اللہ فرماتے ہیں:
﴿﴿ انّ النبیّ دعا عند موتہ بصحیفۃ لیکتب فیھا کتابا لا یضلّون بعدہ، أبدا قال : فخالف عمر بن الخطاب حتّی رفضھا ﴾﴾﴿۱﴾
ایک اور مقام پر کہا : ﴿﴿ فکرھنا ذلک أشدّ الکراھۃ ﴾﴾﴿۲﴾
ہم ان کی اس وصیت سے سخت متنفر تھے .
۔حضرت عمر(رض) کا کعب الاحبار یہودی سے تعلق
سوال 29:کیا یہ درست کہا جاتا ہے کہ کعب الاحبار جسے خلیفہ دوم اور بنو امیہ کی حکومت میں بہت مقام حاصل تھا وہ اسلام لانے کے بعد بھی ہمیشہ تورات کی ترویج کیا کرتا اور ہماری کتب کے اندر اسرائیلیات کے نفوذ کا سبب بھی وہ تھا جیسا کہ عظیم مفسّر قرآن ابن کثیر ﴿۳﴾،عبدالمنعم حنفی﴿ ۴﴾ اور ان کے علاوہ دیگر مؤلفین نے اس تلخ حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے ۔
امام ذہبی فرماتے ہیں : ﴿﴿کان یحدّثھم عن الاسرائیلیۃ ﴾﴾
وہ لوگوں کو اسرائیلیات سنایا کرتا .﴿۵﴾
یہ وہ کتب تھیں جومعمولا جھوٹ اور افترائ پر مبنی تھیں جن کی وجہ سے اسلامی احادیث کو ناقابل جبران ضرر ہوا اور غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات ایجاد کرنے کا موقع میسر ہوا .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ مجمع الزوائد ۴: ۰۹۳و ۸: ۹۰۶؛ مسند ابی یعلیٰ ۳: ۵۹۳؛ مسند احمد ۳: ۹۴۳
۲۔ حوالہ سابق
۳۔ تفسیر ابن کثیر ۳: ۹۷۳
۴۔موسوعۃ فلاسفۃ ومتصوفۃ الیھودیۃ : ۴۸۱
۵۔ سیر اعلام النبلائ ۳: ۹۸۴
۔فتوحات اسلام کا مقصد
سوال 30: کیا یہ درست نہیں ہے کہ بعض مسلمان خلیفوں کی فتوحات کا مقصد شکم پر کرنااور کنزیں حاصل کرنا تھا جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے﴿ ۱﴾
کیا ان کا یہ مقصد پیغمبر (ص) کے مقصد سے مخالف نہیں ہے جو انہوں نے حضرت علی (رض) کو یمن روانہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿﴿لئن یھدی اللہ بک رجلا خیرالک ممّا طلعت علیہ الشّمس ﴾﴾
اے علی (رض) ! اگر خداوند متعال آپ کے ذریعے ایک شخص کو ہدایت کردے تو وہ تمارے لئے پوری دنیا سے بہتر ہے ؟﴿۲﴾
۔حضرت عمر (رض) کا لوگوں کوحضرت علی(رض) کے خلاف ابھارن
سوال 31:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب (رح)(رض) اپنی غلطیوں پر پردہ پوشی کی خاطر قریش کو حضرت علی (رض) کے خلاف بھڑکایا کرتے کہ انہوں نے ان کے بڑوں کو قتل کیا ہے؟ جیسا کہ موفق الدین مقدسی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے.﴿ ۳﴾
۔حضرت عمر(رض) کتنے باادب تھے
سوال32: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عمر (رض) باادب نہیں تھے اس لئے کہ جب بھی پیغمبر (ص) یا حضرت فاطمہ (رض) کا تذکرہ کرتے تو انہیں نازیبا الفاظ میں یاد کیا کرتے ؟یہی وجہ ہے کہ علمائے اہل سنّت نے حضرت عمر (رض) کو احمق سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ امام ذہبی نے امام عبدالرزّاق سے اس تعبیر کو نقل کیا ہے :
﴿﴿ کان زید بن المبارک قد لزم عبدالرّزاق،فأکثر عنہ ثمّ خرق کتبہ ولزم محمد بن ثور ، فقیل لہ، فی ذلک، فقال: کنّا عند عبدالرزّاق ، فحدثنا حدیث معمر عن الزھری عن مالک بن اوس الحدثان . فلمّا قرئ قول عمر لعلیّ و عبّاس :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔سیر اعلام النبلائ ۳: ۱۳
۲۔ صحیح بخاری ، باب الجھاد : ۲۰۱، کتاب فضائل اصحاب النبی ّ : ۹ ، کتاب المغازی : ۸۳؛ فضائل الصحابۃ : ۵۳؛ مسند احمد ۵ : ۸۳۲
۳۔انساب القریش : ۳۹۱؛ بحار الأنوار ۹۱: ۰۸۲
فجئت أنت تطلب میراثک من ابن أخیہ وھذا یطلب میراث امرأتہ .قال عبدالرزاق : انظروا الی ھذا الأنوکل ۔أی الأحمق۔ یقول تطلب أنت میراثک من ابن أخیک ،ویطلب ھذا میراث زوجتہ من أبیہ ولا یقول : رسول اللہ.﴾﴾﴿۱﴾
۔تدوین احادیث پر پابندی
سوال33:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت عمر (رض) کے دور خلافت میں احادیث رسول (ص) کو نقل کرنے پر سزا دی جاتی تھی جیسا کہ حضرت ابوذر(رض)، ابوالدردائ، ابو مسعود انصاری اور دوسرے صحابہ کرام کو اس قانون کی مخالفت اور احادیث نبوی (ص) کے پھیلانے پر سزا دی گئی .
امام ذہبی لکھتے ہیں: ﴿﴿ھکذا ھو کان عمر یقول : أقلّو الحدیث عن رسول اللہ وزجر غیر واحد من الصحابۃ عن بثّ الحدیث وھذا مذھب لعمر و غیرہ ، فباللّہ علیک اذا کان الأکثار من الحدیث فی دولۃ عمرکانوا یمنعون منہ مع صدقھم وعدالتھم وعدم الأسانید ﴾﴾ ﴿۲﴾
طبری لکھتے ہیں : جب بھی خلیفہ دوم کسی علاقہ میں کوئی گورنر یا حاکم بناکر بھیجتے تو اسے یہ دستور دیتے کہ قرآن سے زیادہ بیان کرو اور محمد سے احادیث کم نقل کرو .﴿۳﴾
قرظہ بن کعب انصاری کہتے ہیں کہ جب ہم کوفہ کی جانب روانہ ہونے لگے توحضرت عمر (رض) نے صرار تک ہماری ہمراہی کی اور پھر وہاں پر الوداع کرتے ہوئے فرمایا:جانتے ہو میں کس لئے تمہیں یہاں تک چھوڑنے آیا ہوں ؟ ہم نے کہا :اس لئے کہ ہم اصحاب رسول (ص) ہیں . فرامایا:تمہارا گذر ایسی ایسی بستیوں سے ہو گا جہاں لوگ قرآن پڑھتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ تم احادیث پڑھ پڑھ کر انہیں قرآن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔سیر اعلام النبلائ ۹: ۳۷۵
۲۔ سیر اعلام النبلائ ۲:۱۰۶
۳۔ تاریخ الأمم والملوک ۳: ۳۷۲
پڑھنے سے دور کر دو .پس جس قدر ممکن ہو پیغمبر (ص) سے کم احادیث نقل کرو.﴿۱﴾
امام ذہبی لکھتے ہیں: حضرت عمر (رض) نے تین صحابہ کرام حضرت ابو مسعود انصاری ، حضرت ابو الدّردائ اورحضرت عبداللہ بن مسعود کو احادیث نبوی نقل کرنے پر قید کردیا.﴿۲﴾
اسی طرح ایک اور مقام پر امام ذہبی اور حاکم سے نقل ہوا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت ابوالدردائ اور حضرت ابو ذر (رض) کو احادیث رسول(ص) نقل کرنے کی وجہ سے سر زنش کی اور اپنی خلافت کے آخری ایّام تک انہیں مدینہ دے باہر نہ نکلنے دیا.﴿۳﴾
۔نام پیغمبر (ص) رکھنے پر پابندی
سوال34:کیا حضرت محمد یا انبیائ علیہم السلام میں سے کسی ایک کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھنا ممنوع اور حرام ہے ؟ اگر حرام نہیں ہے تو پھر کس لئے حضرت عمر (رض) نے ایک نامہ میں اہل کوفہ کو یہ حکم دیا کہ انبیائ کے نام پر نام نہ رکھا جائے اور اسی طرح مدینہ منورہ میں یہ دستور صادر کیا کہ جس بچے کا نامحمد ہے اسے تبدیل کر دیا جائے ؟ جیسا کہ امام عینی فرماتے ہیں :
﴿﴿کان عمر کتب الی أھل الکوفۃ : لا تسمّوا أحدا باسم نبیّ ، وأمر جماعۃ بالمدینۃ بتغییر اسمائ أبنائھم المسمّین بمحمد حتّی ذکر لہ، جماعۃ من الصّحابۃ انّہ، أذن لھم فی ذلک فترکھم ﴾﴾﴿۴﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ الطبقات الکبرٰی ۶ :۷ ؛ المستدرک علی الصحیحین : ۲۰۱.أردنا الکوفۃ فشیّعنا عمر الی صرار وقال: تدرون لم شیّعتکم ؟ فقلنا : نعم ،نحن أصحاب رسول اللہ . فقال انّکمتأتون سأھل قریۃ لھم دوّی بالقرآن کدوّی النحل ، فلا تصدّوھم بالأحادیث ، فتشغلوھم ،جرّدوھم القرآن، وأقلّو االرّوایۃ عن رسول اللہ وامضوا ،وأنا شریککم .
۲۔ تذکرۃ الحفّاظ ۱: ۷
۳۔سیر اعلام النبلائ ۷: ۶۰۲؛ مستدک حاکم ۱: ۰۱۱
۴۔عمدۃ القاری فی شرح صحیح بخاری ۵۱: ۹۳
کیا کہیںبنو اُمیہ کا علی نام رکھنے والوں کو قتل کرنا﴿۱﴾اور حضرت عمر(رض) کا نام پیغمبر(ص) رکھنے سے منع کرنا ایک مشترک ہدف کی تکمیل تو نہیں تھا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ حافظ مزی لکھتے ہیں: کانت بنو اُمیۃ اذا سمعوا بمولود اسمہ ، علیّ قتلہ، .بنو امیہ کو اگر یہ معلوم ہو جاتا کہ فلاں بچے کا نام علی ہے تو اسے قتل کروا دیتے . تہذیب الکمال ۳۱: ۶۶۲
No comments:
Post a Comment
براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.