Pages

Sunday, April 22, 2012

عمر کا جناب سیدہ[س] کو مارنے اور محسن کو شہید کرنے کا ابن ابی دارم کا اعتراف

شبهه:
ابن أبي دارم اس روایت کے راویوں میں سے ایک ہیں جس کے بارے میں ذھبی نے کتاب«ميزان الاعتدال» میں رافضی کذاب لکھا ہے اگر چہ کہ اپنی پوری زندگی میں اعتقاد میں ثابت قدم تھے لیکن آخر ایام میں شیخین کے مثالب میں زیادہ بات کی ہے اور انھیں گالیاں دی ہیں اس بناء پر اس کی روایت ہمارے لئے حجت نہیں ہے
تحقیقی جواب :
شمس الدين ذهبى نےسير اعلام النبلاء اور ميزان الإعتدال اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانى نے لسان الميزان  میں ،ابن أبي دارم سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :
إنّ عمر رفس فاطمة حتّى أسقطت بمحسن.
عمر نے فاطمہ[س] کو ایسی لات ماری جس کے سبب محسن [ع]سقط ہو گئے.
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ) ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج 1، ص 283، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1995م؛
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 15، ص 578، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ) لسان الميزان، ج 1، ص 268، تحقيق: دائرة المعرف النظامية - الهند، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1406هـ – 1986م.

البتہ جیسا کہ شبھہ میں بیان ہوا ذھبی نے اور ابن حجر نے ابن ابی دارم کو رافضی کہتے ہوئے روایت کو رد کیا ہے اور کہتے ہیں:
احمد بن محمد بن السرى بن يحيى بن أبي دارم المحدث أبو بكر الكوفي الرافضي الكذاب... ثم في آخر أيامه كان أكثر ما يقرأ عليه المثالب حضرته ورجل يقرأ عليه ان عمر رفس فاطمة حتى أسقطت بمحسن.

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ ابن ابی دارم کی وثاقت اور اعتبار اہل سنت کے نزدیک تھی اور انکی تضعیف کا سبب فقط اس جیسی روایت کا نقل کرنا ہے اس کے علاوہ کوئی نقص نہیں رکھتے ہیں اس لئے علماء اہل سنت کا اعتراف اس بات پر قائم ہے اسکی تمام زندگی عقائد اہلسنت پر گزری ہے اور علماء اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ابن ابی دارم امام حافظ اور عالم اہلسنت ہیں لیکن بعض تاریخی حقائق کا نقل کرنا سبب بنا کہ اہلسنت کے قلم انکے خلاف لکھنے پر مجبور ہوئے اورانھیں تضعیف کا سامنا کرنا پڑا
شمس الدين ذهبى نے سير اعلام النبلاء، میں انھیں «امام و پيشوا، حافظ و عالم » کہا ہے:
ابن أبي دارم. الامام الحافظ الفاضل، أبو بكر أحمد بن محمد السري بن يحيى بن السري بن أبي دارم....
آگےلکھتے ہیں:
ابن أبي دارم حفظ اورمعرفت کی صفت سے آرستہ تھے لیکن شیعت کی طرف مائل تھے
كان موصوفا بالحفظ والمعرفة إلا أنه يترفض.
اور یہ بھی لکھا:
وقال محمد بن حماد الحافظ، كان مستقيم الامر عامة دهره.
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 15، ص 577 ـ 579، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
محمد بن حماد کہتے ہیں کہ :اپنی تمام زندگی میں مذھب اور عقیدہ پر ثابت قدم تھے.
اسی طرح وہ روایت جو رسول اکرم ص نقل کی جاتی ہے جس میں ابن ابی دارم روای ہیں
حدیث یہ ہے :
الحلال بين، والحرام بين، وبين ذلك مشتبهات لا يعلمها كثير من الناس. من ترك الشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الشبهات، وقع في الحرام كالراعي إلى جنب الحمى، يوشك أن يواقعه.
حلال وحرام کی حدیں واضح ہیں لیکن ان دونوں میں شباھات پائی جاتی ہیں جسے اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں جس کسی نے مشتبہ کو چھوڑا اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچایا اور جو شبھات میں گرفتار ہوا حرام کا مرتکب ہوگا جس طرح بیمار کا ہمنشین ۔
ذهبى ،اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
الحديث. متفق عليه.
یہ حديث متفق علیہ ہے .
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 15، ص 577، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ؛
لیکن ذھبی آگے لکھتے ہیں اور برے الفاظ استعمال کرتے ہیں
:
شيخ ضال معثر.
بڈھا ،گمراہ ، خطاکار!!!.

عجیب ہے کہ ایک شخص پوری زندگی ثابت قدم رہے اور امام ، حافظ اور فاضل لقب پا لے حافظہ قوی اور صاحب معرفت دینی بھی ہو اور اسکی روایت سب کے لئے قابل قبول ہو لیکن ساتھ میں وہ گمراہ اور خطاکار بھی ہو؟!
کیا امام حافظ فاضل صاحب حفظ و معرفت ،«شيخ ضال معثر» کے ساتھ جمع ہو سکتے ہیں؟
ہاں کیوں نہیں جمع ہو سکتے ہیں جب اپنے خلفاء کی عزت بچانے کے لئے بے جا دفاع کیا جائے تو ضرور ایسا بھی ہو سکتا ہے جسے ذھبی نے انجام دے کر بتا دیا ،اور یہ تاریخ میں ایسے عجوبہ وجود میں لا سکتے ہیں اور ایک ہی صفحہ میں دو مختلف بات کرسکتے ہیں ۔

اس بناء پر سوال ہے کہ :
کس عقلمند نے کہا ہے کسی کو رافضی ہونے کی بناء پر اس کی روایت کو رد کردو اور اسے باطل اعلان کرو ؟ اگر اس طرح ہونے لگا تو اہل سنت کو اپنی متعدد روایت سے جو صحاح کی روایت ہیں باطل کی مہر لگانی ہوگی اس لئے صحاح ستہ کے لکھنے والوں نے بہت سی روایت رافضی افراد سے نقل کی ہے جس میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں

1. عبيد الله بن موسي:

ذهبى لکھتے ہیں:
قال ابن مندة كان أحمد بن حنبل يدل الناس على عبيد الله وكان معروفا بالرفض لم يدع أحدا اسمه معاوية يدخل داره.
ابن منده کہتے ہیں کہ : احمد بن حنبل لوگوں کو انکی طرف رجوع کرنے کا کہتے تھے ، رافضی ہونے میں مشہور تھے اپنے گھر میں ایسے کسی بھی شخص کو آنے نہیں دیتے تھے جس کا نام معاویہ ہو ۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 9، ص 556، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
آگے لکھتے ہیں
وحديثه في الكتب الستة.
انکی روایات صحاح ستہ میں موجود ہیں.
مزى نے تهذيب الکمال میں لکھا ہے کہ : تمام صحاح ستہ میں انکی روایت موجود ہے .
عُبَيد الله بن موسى بن أَبي المختار، واسمه باذام العبيسي، مولاهم أبو محمد الكوفي.
رَوَى عَن: إبراهيم بن إِسماعيل بن مجمع (ق)، وأسامة بن زيد الليثي (م)، واسرائيل بن يونس (خ م ت س)، وإسماعيل بن أَبي خالد (خ)....
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 19، ص 164، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
حرف علامت جو عبارت میں یہ علامتی نشان ہے "خ" سے مراد بخاری ہے "م" سے مسلم "ق" سے ابن ماجہ قزوینی "ت" سے ترمذی اور "س "سے نسائی مراد ہیں

2. جعفر بن سليمان الضبعي:

اهل سنت کے علماء نے انھیں رافضی اور شیعیان غالی میں شمار کیا ہے خطیب بغدادی نے یزید بن رزیع سے نقل کیا ہے :
فان جعفر بن سليمان رافضي.
البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطيب (متوفاي463هـ)، تاريخ بغداد، ج 5، ص 164، ذيل ترجمه أحمد بن المقدام بن سليمان، رقم 2925، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.
مزى نے لکھا : بخارى نے کتاب الأدب المفرد اور صحاح ستہ کے مولفین نے اس سے روایت نقل کی ہے:
روى له البخاري في "الأدب"والباقون.
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 5، ص 50، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

3. عبد الملك بن أعين الكوفي:

انکی بھی روایات صحاح ستہ میں ہے مزی نے سفیان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یہ رافضی ہیں:
عن سفيان: حدثنا عبد الملك بن أعين شيعي كان عندنا رافضي صاحب رأي.
آگے لکھتے ہیں:
حَدَّثَنَا سفيان، قال: هم ثلاثة إخوة: عبدالملك بن أعين، وزرارة بن أعين، وحمران بن أعين، روافض كلهم، أخبثهم قولا: عبدالملك
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 18، ص 283، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
صحاح ستہ میں کافی ایسے راوی ہیں جو رافضیت سے متھم ہوئے ہیں اور انکی تعداد اتنی زیادہ ہے اہلسنت کے علماء کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ اگر ہم راوی کو اس کے رافضی ہونے کی وجہ سے رد کردیں تو اہلسنت کی کتابیں برباد ہوجائینگی جیسا کہ خطیب بغدادی لکھتے ہیں
قال علي بن المديني: « لو تركت أهل البصرة لحال القدر، ولو تركت أهل الكوفة لذلك الرأي، يعني التشيع، خربت الكتب »
اگر ہم اہل بصرہ کو مذھب قدری ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیں اور کوفیوں کو انکی رائےیعنی شیعہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیں تو ہمارے کتابیں برباد ہوجائیں گی
خطیب ، علي بن مدينى کے جملے کی تشریح میں کہتے ہیں :
قوله: خربت الكتب، يعني لذهب الحديث.
كتاب نابود و خراب ہونے سے مراد احادیث ختم ہوجائیں گی ۔
البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطيب (متوفاي463هـ) الكفاية في علم الرواية، ج 1، ص 129، تحقيق: أبو عبدالله السورقي، إبراهيم حمدي المدني، ناشر: المكتبة العلمية - المدينة المنورة.
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
وسئل عن الفضل بن محمد الشعراني، فقال: صدوق في الرواية إلا أنه كان من الغالين في التشيع، قيل له: فقد حدثت عنه في الصحيح، فقال: لأن كتاب أستاذي ملآن من حديث الشيعة يعني مسلم بن الحجاج ».
اس سےفضل بن محمد شعرانی کے بارے میں سوال ہوا ۔ انھوں نے کہا: فضل روایت میں صدوق ہیں لیکن وہ تشیع میں افراط کرتے تھے ان سے کہا گیا آپ نے فضل سے صحیح میں روایت نقل کی ہے ۔ انھوں نے کہا میرے استاد کی کتاب شیعہ افراد سے بھری ہوئی ہے یعنی صحیح مسلم
البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطيب (متوفاي463هـ) الكفاية في علم الرواية، ج 1، ص131، تحقيق: أبو عبدالله السورقي، إبراهيم حمدي المدني، ناشر: المكتبة العلمية - المدينة المنورة.

آيا رافضیت میں افراط کرنا باعث تضیعف راوی ہے ؟
ممکن ہے کوئی اعتراض کرے کہ رافضی ہونا جرح کا سبب نہیں ہوتا ہے لیکن جرح ایسی صورت میں ہے جب کوئی رافضیت میں افراط کرے یعنی امام علی [ع] سے محبت کرے اور انھیں شیخین پر مقدم کرے اور سب شیخین کرے جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے بیان کیا :
والتشيع محبة على وتقديمه على الصحابة فمن قدمه على أبي بكر وعمر فهو غال في تشيعه ويطلق عليه رافضي وإلا فشيعي فإن انضاف إلى ذلك السب أو التصريح بالبغض فغال إلا في الرفض وإن اعتقد الرجعة إلى الدنيا فأشد في الغلو.
تشيع، علی [ع] سے محبت کرنے اور انھیں دوسرے تمام اصحاب پر مقدم جانے کو کہا جاتا ہے اور وہ ابوبکرو عمر پر بھی فوقیت دے تو اپنے تشیع میں افراطی ہے
اور اسے رافضی کہا جاتا ہے لیکن اگر فقط ان سے محبت کرتا ہو ایسا شخص شیعہ ہےاور اگر محبت کے علاوہ صحابہ کو برا بھلا کہتا ہے گالیاں دیتا ہے یا بھر بغض کا اظھار کرتا ہے شیعہ افراطی ہے اور اگر رجعت پر بھی یقین رکھتا ہے تو اس کا افراط شدید تر ہے .
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 1، ص 459، ناشر: دار المعرفة - بيروت - 1379 -، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، محب الدين الخطيب.
محمد بن اسماعيل الأمير الصنعانى ، ابن حجر عسقلانى سے نقل کرتےہوئے کہتے ہیں :
التشيع محبة علي عليه السلام وتقديمه على الصحابة فمن قدمه على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما فهو غال في التشيع ويطلق عليه رافضي وإلا فشيعي فإن انضاف إلى ذلك السب والتصريح بالبغض فغال في الرفض انتهى كلامه.
تشيع،‌ علی[ع] سےمحبت اور انھیں دوسرے اصحاب پر مقدم کرنے کا نام ہے اور اگر کوئی علی [ع] کو ابوبکر و عمر پر مقدم کرے وہ شیعہ افراطی ہے اور اسے رافضی کیا جاتا ہے اور اگر سب و لعن کا اضافہ کرے تو وہ رافضی افراطی ہے .
محمد بن اسماعيل الأمير الصنعانى بات کو آگے بڑاتے ہوئے لکھتے ہیں :
وأما الساب فسب المؤمن فسوق صحابيا كان أو غيره إلا أن سباب الصحابة أعظم جرما لسوء أدبه مع مصحوبه صلى الله عليه و سلم ولسابقتهم في الإسلام. وقد عدوا سب الصحابة من الكبائر كما يأتي عن الفريقين الزيدية ومن يخالف مذهبهم.
مومن کو سب کرنا فسق ہے اگرچہ صحابی ہی کیوں ہو لیکن صحابہ کو سب کرنا بڑا گناہ ہے اس لئے ان لوگوں کی بے ادبی کی ہے جو رسول ص کے ساتھ بیٹھنے والے تھے اور وہ اسلام و مسلمین میں دوسروں کی نسبت سبقت رکھتے ہیں اور سبِصحابہ کو کبائر میں شمار کیا ہے... »
الصنعاني، محمد بن إسماعيل الأمير الحسني (متوفاي1182هـ)، ثمرات النظر في علم الأثر، ج 1، ص 39 ـ 40، : تحقيق: رائد بن صبري بن أبي علفة، ناشر: دار العاصمة للنشر والتوزيع - الرياض - السعودية، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1996م.
لیکن صحاح ستہ کے راویوں پر نگاہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہےاس کی سند میں ایسے افراد ہیں جو افراطی رافضی ہیں کہ اس بات کا اہل سنت کے علماء نے اعتراف کیا ہے مثال کے طور پر :
یہ رجال سنن ترمذی سے ہیں جو ابوبکر و عمر کو گالیاں دیا کرتے تھے
مزی انکے بارے میں لکھتے ہیں :
وقال أبو داود: رافضي خبيث، رجل سوء، يشتم أبا بكر وعمر.
ابو داود نے کہا: یہ رافضى ، خبیث ، برا انسان ہے ابو بکر اورعمر کو گالیاں دیا کرتا ہے
آگے لکھتے ہیں:
وَقَال [عَباس الدُّورِيُّ ] في موضع آخر: كذاب، كان يشتم عثمان، وكل من شتم عثمان، أو طلحة، أو أحدا من أصحاب رسول الله (ص)، دجال، لا يكتب عنه، وعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين.
عباس دوري، نے دوسری مقام پر انکے بارے میں کہا ہے کذاب ہیں عثمان کو گالیاں دیا کرتا تھا اور جو بھی عثمان یا طلحہ یا کسی بھی اصحاب کو گالی دے وہ دجال ہے اس سے حدیث نہیں لی جاتی ہے ، اللہ ، فرشتوں اور لوگوں کی لنعت ہو اس پر ،
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 4، ص 321، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
ابن حجر عسقلانى لکھتے ہیں:
كذّاب كان يشتم عثمان....
جھوٹا اور عثمان کو گالیاں دیتا تھا.
یہ بھی لکھتے ہیں:
وقال ابن حبان: كان رافضيّاً يشتم الصحابة.
ابن حبان نے کہا ہے : وہ رافضی اور صحابہ کو گالیاں دینے والا تھا
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تهذيب التهذيب، ج 1، ص 447، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404هـ – 1984م.
ان تمام باتوں کے با وجود اسی شخص کی ، بزرگ علماء اہلسنت توثیق کرتے ہیں اور ایسی روایات اس سے نقل کرتے ہیں جو اہلسنت کے فائدہ میں ہے ابن حجرنے انکے احوال میں لکھتا ہے :
عن أحمد كان مذهبه التشيع ولم نر به بأسا وقال أيضا كتبت عنه حديثا كثيراً عن أبي الجحاف.
احمد بن حنبل سے نقل ہے کہ وہ ایک شیعہ تھے انکے اندر کوئی عیب نہیں تھا [روایت کے اعتبار سے] اور یہ بھی کہا ہے میں نے اس سےبہت حدیثیں لکھی ہیں
وقال البخاري تكلم فيه يحيى بن معين ورماه وقال العجلي: لا بأس به كان يتشيع ويدلس.
بخارى کہتے ہیں:تلید کے بارے میں يحيى بن معين نے کلام کیا ہے اور انکی مذمت کی ہے لیکن عجلی نے کہا اس میں کوئی نقص نہیں ہے اظھار تشیع کرتا تھا اور نقل تغییر دیتے تھے
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تهذيب التهذيب، ج 1، ص 447، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404هـ – 1984م.
مزى نےتهذيب الكمال میں لکھا ہے :
روى له التِّرْمِذِيّ: حديث أبي الجحاف عن عطية عَن أبي سَعِيد: قال النبي (ص): ما من نبي إلا وله وزيران... الحديث. وَقَال: حسن غريب.
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 4، ص 321، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
البته واضح ہے کہ یہ روایت اہلسنت کے حق میں ہے اور تلید بن سلیمان نے فضائل خلیفہ اول اور دوم میں نقل کی ہے حسن کہی گئی ہے لیکن وہ روایات جو اہلسنت کے خلاف ہے اور شیخین سے پردہ اٹھاتی ہے تلید کے رافضی ہونے کی بناء پر ضعیف شمار ہونے لگتی ہے

ان تمام باتوں کو چھوڑ دیں اہل سنت کے علماء جرح و تعدیل نے ایسے افراد کی بھی توثیق کی ہے جو امیر المومنین علی [ع] کو سب و شتم کیا کرتے تھے اب سوال کرتے ہیں جب سب و شتمِ صحابہ تضعیف کا باعث بنتا ہے تو نواصب، روات کی توثیق کیوں کی ہے ؟؟
آيا جو ابو بکر و عمر کی کو سب کرے وہ ضعیف ہے اور جو امیر المومنین علی [ع] کو سب کرے وہ ثقہ ہے ؟ یہ کیسی منافقت ہے ؟
ذیل میں چند نواصب کو بیان کرتے ہیں جن کی توثیق علماء اہل سنت نے کی ہے

عن أحمد بن سليمان المروزي: حدثنا إسماعيل بن عياش، قال: عادلت حريز بن عثمان من مصر إلى مكة فجعل يسب عليا ويلعنه.
احمد بن سليمان مروزى نے اسماعيل بن عياش سے نقل کیا ہے کہ :میں مصر سے مکہ تک حریز بن عثمان کے ساتھ تھا اس دوران مسلسل علی [ع] کو سب و شتم اور لعن کرتا رہا
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 5، ص 576، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 10، ص 123، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تهذيب التهذيب، ج 2، ص 209، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404هـ – 1984م.
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي855هـ)، مغانى الأخيار، ج 1، ص 187.
ابن حجر عسقلانى نے لکھا ہے :
وقال ابن حبان: كان يلعن عليّاً بالغداة سبعين مرة، وبالعشي سبعين مرة، فقيل له في ذلك، فقال: هو القاطع رؤوس آبائي وأجدادي.
ابن حبان کہتا ہے کہ : حریز علی[ع] کو صبح میں 70 بار اور شام میں 70 بار لعن کیا کرتا تھا میں اس سے علت معلوم کی تو اس نے کہا : علی[ع] نے میرے آباء و اجداد کے سر قلم کئے ہیں
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تهذيب التهذيب، ج 2، ص 209، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404هـ – 1984م.

مزى نے تهذيب الكمال میں ، ابن حجر عسقلانى نے تهذيب التهذيب میں لکھا ہے :
وسألت أحمد بن حنبل عنه فقال ثقة ثقة وقال أيضا ليس بالشام أثبت من حريز... قال: وَقَال أبو داود: سمعت أحمد وذكر له حريز وأبو بكر بن أَبي مريم وصفوان، فقال: ليس فيهم مثل حريز، ليس أثبت منه، ولم يكن يرى القدر، قال: وسمعت أحمد مرة أخرى يقول: حريز ثقة، ثقة.
: میں نے اس کے بارے احمد بن حنبل سے سوال کیا : کہا: ثقہ ہے ثقہ ہے ۔اور کہا شام میں حریز سے زیادہ کوئی نقل میں مورد اطمئنان شخص نہیں ہے معاذ بن معاز کہتے ہیں کہ جب میں میں احمد بن حنبل کے پاس تھا تو حريز، ابوبكر بن مريم اور صفوان کا تذکرہ ہوا تو احمد سے سنا کہ ان میں حریز جیسا کوئی نہیں ہے اور اسکے علاوہ کوئی اور نقل میں معتبر ترین نہیں ہے میں نے ایک بار پھر احمد سے سنا ہے کہ : حریز ثقہ ہےثقہ ہے

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تهذيب التهذيب، ج 2، ص 209، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404هـ – 1984م.
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 5، ص 572، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
ابن حجر نےحریز کے ترجمه کے ابتداء میں لکھا:
[من رجال] البخارى والأربعة.
یہ بخاری کا اور چار صحاح کا راوی ہے [مسلم کے علاوہ].
و بدر الدين عينى نے لکھا:
روى له الجماعة سوى مسلم، وأبو جعفر الطحاوى. وفى التهذيب: روى له البخارى حديثين.
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي855هـ)، مغانى الأخيار، ج 1، ص 187.
اگر سب و شتم ِ صحابہ تضعیف کا باعث بنتا ہے تو بخاری نے کیوں اس سے روایت نقل کی ہے؟ امام احمد بن حنبل کیوں اسکی توثیق کی ہے ؟
مزى نے تهذيب الكمال میں اور ابن حجر نے تهذيب التهذيب میں ، عمر بن سعد بن ابووقاص، جو کربلا میں یزیدیوں کا مشہور سپہ سالار تھا ،بارے میں لکھا ہے :
وَقَال أحمد بن عَبد الله العجلي: كان يروي عَن أبيه أحاديث، وروى الناس عنه. وهو الذي قتل الحسين، وهو تابعي ثقة.
عجلى نے کہا ہے : عمر بن سعد اپنے والد سے روایت نقل کرتا ہے اور دیگر افراد اس سے روایت نقل کرتے ہیں یہ وہی ہے جس نے حسین [علیہالسلام] کو قتل کیا ہے یہ ثقہ ہے اور تابعی ہے
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 21، ص 357، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفي852هـ) تهذيب التهذيب، ج 7، ص 396، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404هـ – 1984م.
عجیب بات ہے اہل سنت کے لئے وہ شخص ثقہ ہے جس نے بیدردی سے فرزند رسول اکرم ص کو قتل کیا ہے اور رسول اکرم ص کی بیٹیوں کو قیدی بنایا ہےاور انکے لئے ایسے افراد کی روایت حجت رکھتی ہو لیکن اگر کوئی علی [ع] سے محبت رکھتا ہو اور انھیں خلفاء ثلاثہ پر مقدم سمجھتا ہو یا کبھی انکی توہین کی ہو اس کی روایت ضعیف اور غیر قابل؛ قبول بن جاتی ہے؟
نتيجه:
روايت ابن أبي دارم، کسی بھی طرح کا نقص نہیں رکھتی ہے اور وہ تھمت جو اسے لگائی گئی ہے مثل رافضی یا رافضی افراطی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی ہے اس لئے ایسی تھمت بخاتی ، مسلم اور دیگر صحاح کے راویوں کے لئے بھی لگائی گئی ہے

اللھم صل علی محمد و آل محمد

No comments:

Post a Comment

براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.