Pages

Sunday, April 22, 2012

جناب سیدہ [ع] کے گھر پر حملہ اور روایت ِبلاذری پر اعتراض کا جواب

عبد الرحمن دمشقيه، دور حاضر کے وهّابي رائٹر ، اپنے مقالہ « قصة حرق عمر رضى الله عنه لبيت فاطمة رضى الله عنها» میں جو «فيصل نور» کی سائٹ میں درج ہوا ہے ، احمد بن يحيى بلاذرى کی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
3. أحمد بن يحيى البغدادي، المعروف بالبلاذري، وهو من كبار محدثيكم، المتوفي سنة 279، روى في كتابه أنساب الأشراف 1/586، عن سليمان التيمي، وعن ابن عون: أن أبا بكر أرسل إلى علي عليه السلام، يريد البيعة، فلم يبايع. فجاء عمر ومعه فتيلة أي شعلة نار فتلقته فاطمة على الباب، فقالت فاطمة: يا بن الخطاب! أتراك محرقا علي بابي؟ قال: نعم، وذلك أقوى فيما جاء به أبوك!
هذا إسناد منقطع من طرفه الأول ومن طرفه الآخر. فإن سلميان التيمي تابعي والبلاذري متأخر عنه فكيف يروي عنه مباشرة بدون راو وسيط؟ وأما ابن عون فهو تابعي متأخر وبينه وبين أبي بكر انقطاع.
فيه علتان:
أولا: جهالة مسلمة بن محارب. ذكره ابن ابي حاتم في (الجرح والتعديل8/266) ولم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا ولم أجد من وثقه أو ذمه.
ثانيا: الانقطاع الكبير من بن عون وهو عبد الله بن عون توفي سنة 152 هجرية. ولم يسمع حتى من أنس والصديق من باب اولى الحادثة مع التذكير بأن الحادثة وقعت في السنة الحادية عشر من الهجرة.
وكذلك سليمان التيمي لم يدرك الصديق توفي سنة 143 هجرية.

یعنی" احمد بن يحيى بغدادى جو بلاذری کے نام سے مشہور آپ کے بڑے محدث میں سے ہیں کتاب انساب الاشراف میں نقل کرتے ہیں :
ابن عون کہتے ہیں ابو بکر نے کسی کو علی [ع] کے پاس بھیجا تاکہ بیعت کریں لیکن علی [ع] نے قبول نہیں کیا تب عمر آگ[ مشعل] لیکر آئے جب جناب فاطمہ[س] نے عمر کو دیکھا تو کہا اے خطاب کے بیٹے کیا میرے گھر کو جلانا چاہتے ہو؟ عمر نے کہا ہاں جلانا چاہتا ہوں "
اس حدیث کی سند اول اور آخر سے  منقطع ہے کیونکہ سلیمان تیمی تابعی ہیں  اور بلاذری ان سے متاخر ہیں کیسے ہو سکتا ہے بلاذری سلیمان سے بلا واسطہ روایت کر سکیں اسی طرح اسکے ایک اور راوی ابن عون تابعی ہیں انکے اور ابو بکر کے درمیان فاصلہ ہے
پس اس روایت میں دو نقص پائے جاتے ہیں "
1. مسلمة بن محارب مجہول ہیں ؛ اس لئے کہ ابن أبي حاتم نے كتاب جرح و تعديل میں نہ انکی توثیق کی اور نہ ہی تضعیف کی اور ابن ابی حاتم کے علاوہ کسی اور کو بھی نہیں دیکھا جس نے اس کی توثیق یا تضعیف کی ہو۔
2. عبد الله بن عون (متوفى 152هـ) نے تو انس سے بھی روایت نہیں کی چہ جائے اس کے ابو بکر سے روایت کریں [یعنی فاصلہ بہت زیادہ ہے] کیونکہ یہ واقعہ 11 ہجری میں ہوا ہے ۔اسی طرح سلیمان نے بھی ابو بکر کو درک نہیں کیا ہے اس لئے کہ سلیمان کی وفات 143 ہجری میں ہوئی ہے

اعتراض کا خلاصہ
اولاً: مسلمة بن محارب مجهول ہے ، ثانياً: ابن عون و سليمان تيمى تابعى ہیں اور خود اس واقعہ کے دیکھنے والے نہیں ہیں
ہمارا جواب

اصل روايت:

المدائني، عن مَسْلَمَة بن محارب، عن سليمان التيمي وعن ابن عون إن أبابکر ارسل إلي علي يريد البيعة، فلم يبايع، فجاء عمر و معه قبس. فتلقته فاطمة علي الباب فقالت فاطمة: يابن الخطاب! أتراک محرّقا عليّ بابي؟! قال: نعم، و ذلک أقوي فيما جاء به أبوک.
ابن عون کہتے ہیں ابو بکر نے کسی کو علی [ع] کے پاس بھیجا تاکہ بیعت کریں لیکن علی [ع] نے قبول نہیں کیا تب عمر آگ[ مشعل] لیکر آئے جب جناب فاطمہ[س] نے عمر کو دیکھا تو کہا اے خطاب کے بیٹے کیا میرے گھر کو جلانا چاہتے ہو؟ عمر نے کہا ہاں جلانا چاہتا ہوں "

البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 252.

سند روايت کی تحقیق:




المدائني:
ذهبى نے ان کے بارے میں لکھا ہے :
المدائني * العلامة الحافظ الصادق أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف المدائني الاخباري. نزل بغداد، وصنف التصانيف، وكان عجبا في معرفة السير والمغازي والأنساب وأيام العرب، مصدقا فيما ينقله، عالي الاسناد.
علامہ حافظ صادق ، ابوالحسن علی بن محمد ۔۔۔۔۔ مدائنی اخباری بغداد میں سکونت رکھتے تھے کافی کتابیں تصنیف کی اور عجیب استعداد تاریخ کی معرفت میں جنگوں ، نسب اور زمانے عرب میں رکھتے تھے جو بھی نقل کرتے تھے اس میں مصدق تھے اور بہترین سند سے نقل کرتے تھے انکی ولادت 132 ہجری میں ہوئی

ذھبی اس کے آگے یحیی بن معین کا قول نقل کرتے ہیں :
قال يحيى: ثقة ثقة ثقة. ( قال احمد بن أبي خثيمة ) سألت أبي: من هذا؟ قال: هذا المدائني.
یحیی بن معین انکے بارے میں تین بار کہتے ہیں ثقہ ہیں احمد بن ابی خثیمہ کہتے ہیں کہ : میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ یہ کس کے بارے میں کہا ہے ، کہا : مدائنی ہیں
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 10، ص 400، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
و ابن حجر نے بھی لکھا :
قال أبو قِلابة: حدثت أبا عاصم النبيل بحديث فقال عمن هذا قلت: ليس له إسناد ولكن حدثنيه أبو الحسن المدائني قال لي سبحان الله أبو الحسن أستاذ. ( إسناد )
أبو قِلابة کہتے ہیں کہ میں نے ابو عاصم النبیل کے لئے ایک حدیث کو پڑھا تو ابو عاصم نے کہا کس سے یہ حدیث کو سنا ہے میں نے کہا: میرے پاس اسکی سند نہیں ہے لیکن اس حدیث کو مجھے ابو الحسن مدائنی نے نقل کی ہے ۔ ابو عاصم نے کہا : سبحان اللہ ابو الحسن مدائنی علم حدیث میں استاد ہیں، استاد ہیں

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، لسان الميزان، ج 4، ص 253، تحقيق: دائرة المعرف النظامية - الهند، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1406 - 1986 .

اس کتاب کے بعض نسخوں میں استاد کی جگہ اسناد آیا ہے یعنی ابو الحسن مدائنی خود سند ہیں اور انکی روایت کو نقل کرنا کافی ہے
ا


سْلَمَة بن محارب:
ابن حبان نے اسے کتاب ثقات میں ذکر کیا ہے لھذا مجھول ہونے کا اعتراض قابل قبول نہیں ہے
مَسْلَمَة بن محارب الزيادي يروى عن أبيه عن معاوية روى عنه إسماعيل بن علية.
التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، الثقات، ج 7، ص 490، رقم: 11108، تحقيق السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ – 1975م.
سليمان التَيْمي:
مزى نےتهذيب الكمال میں لکھا ہے :
قال الربيع بن يحيى عن شعبة ما رأيت أحدا أصدق من سليمان التيمي كان إذا حدث عن النبي صلى الله عليه وسلم تغير لونه.
ربيع بن يحيى نے شعبة بن حجاج سے نقل کیا ہے کہ : میں نے سلیمان تمیمی سے بڑھ کر کوئی سچا نہیں دیکھا ، جب بھی کوئی حدیث رسول اکرم ص سے نقل کرتے تھے تو چہرے کا رنگ اڑجاتا تھا.
قال أبو بحر البكراوي عن شعبة شك ابن عون وسليمان التيمي يقين.
ابوبحر بکراوی نے شعبہ بن حجاج سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ : سلیمان تمیمی اور ابن عون کا شک یقین کے برابر ہے یعنی بہت قابل اعتماد ہیں

وقال عبدالله بن احمد عن أبيه ثقة.
عبدالله بن احمد بن حنبل نےاپنے والد سے نقل کیا ہے کہ سلیمان تمیمی قابل اعتماد اور وثوق انسان ہیں
قال ابن معين والنسائي ثقة.
يحيى بن معين و نَسائى نے بھی انھیں ثقه و مورد اطمينان قرار دیا ہے .
قال العجلى تابعي ثقة فكان من خيار أهل البصرة.
عِجلى ( عالم رجالى اهل سنت) انکے بارے میں کہتے ہیں : یہ تابعی اور ثقہ ہیں اہل بصرہ کے نیک اور بہترین افراد اور علماء مین سے ہیں

المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 12، ص 8، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
محمد بن سعد صاحب کتاب الطبقات الکبرى نے سليمان التيمى کے بارے میں کہا ہے :
كان ثقة كثير الحديث وكان من العباد المجتهدين وكان يصلي الليل كله يصلي الغداة بوضوء عشاء الآخرة.

سليمان تيمى نے کافی احادیث کو نقل کیا اور ثقہ تھے عبادت گزار و کوشان افراد میں سے ہیں تمام رات عشاء کے وضو سے صبح تک نماز ادا کیا کرتے تھے

الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 7، ص 252، ناشر: دار صادر - بيروت.
انقطاعِِ سند:
دمشقيه کہتے ہیں کہ :
هذا إسناد منقطع من طرفه الأول ومن طرفه الآخر. فإن سلميان التيمي تابعي والبلاذري متأخر عنه فكيف يروي عنه مباشرة بدون راو وسيط؟ وأما ابن عون فهو تابعي متأخر وبينه وبين أبي بكر انقطاع.
جواب




جواب
دمشقيه نے جو یہ کہا کہ سلیمان تمیمی تابعی ہیں اور بلاذری اس سے روایت نقل نہیں کر سکتے ہیں یہ ایک اعترض نہیں ہے بلکہ یہ ایک مذاق ہے
اس لئے کہ بلاذری سلیمان سے بلا واسطہ روایت نقل نہیں کرتے ہیں بلکہ دو واسطوں سے سلیمان تیمی سے نقل کرتے ہیں لگتا یہ ہے کہ عبد الرحمن دمشقیہ نے اصل کتاب اٹھا کر دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کی ہے ؟ اورنہ ایسا اعتراض ایک عالم سے بعید لگتا ہے
اعتراض دوم : ابن عون اور سلیمان تیمی اس واقعہ گواہ نہیں تھے بلکہ کسی صحابی سے بھی روایت نقل نہیں کر سکتے ہیں؟
اول : یہ بات کہ کسی صحابی سے روایت نقل نہیں کر سکتے ہیں کلام باطل ہے اس لئے صفدی جو علماء اہلسنت سے ہیں ابن عون کے بارے میں کہتے ہیں کہ :
الحافظ المزني عبد الله بن عون أرطبان أبو عون المزني مولاهم البصري الحافظ أحد الأئمة الأعلام... وكان يمكنه السماع من طائفة من الصحابة وكان ثقة كثير الحديث عثمانيا
انکے لئے ممکن تھا کہ بعض اصحاب سے حدیث سنے اور نقل کرے
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 17، ص 211، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.
مرسل تابعی جمہور اہلسنت کے نزدیک حجت ہے :
ثانياً: صفدی کے بقول وہ تابعی ہیں اور دوسری طرف سے ایک بڑی تعداد اہل سنت کے علماء کی مرسل تابعی کے حجت ہونے کے قائل ہیں بلکہ انکی مرسل ، مسند سے زیادہ قوی اور مستحکم ہیں خصوصا اگر تابعی ابن عون جیسا ہو جس کا شک اہلسنت کے نزدیک دوسروں کے یقین سے بالاتر ہے ۔

ابن حجر عسقلانى تابعی [و ہ افراد جنھوں نے رسول اکرم ص سے ملاقات نہیں کی ہو لیکن اصحاب سے ملاقات کی ہو] کے سنی ہوئی احادیث جو بغیر نسبت کے ذکر کی ہو اسے سماع اور حضور کی منزلت پر سمجھا جائے گا بشرط کہ وہ تدلیس نہ کرتا ہو

وأما الأمور التي يدركها (اي التابعي) فيحمل على أنه سمعها أو حضرهالكن بشرط أن يكون سالما من التدليس والله أعلم.
ہر وہ چیز جسے تابعی مرسل کی صورت میں نقل کرے اسے سماع اور حضور پر حمل کیا جائے گا بشرط یہ کہ وہ تدلیس کے مرض سے دور ہو
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 8، ص 716، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
اتفاق کی بات ہے کہ تمام راویان اہلسنت میں سے فقط دو آدمی تدلیس سے سالم ہیں اس میں سے ایک ابن عون ہیں چنانچہ ابن جعد اپنی مسند / نسائی ذکر اسماء المدلسین میں مزی تھذیب الکمال میں ذھبی سیر اعلام البلاء میں /ابن حجر عسقلانی تھذیب التھذیب میں اور بدر الدین عینی مغانی الاخبار میں لکھتے ہیں

عن شعبة قال: ما رأيت أحدا من أصحاب الحديث إلا يدلس إلا عمرو بن مرة، وابن عون.
اصحاب حدیث میں کسی کو نہیں دیکھا جو تدلیس نہ کرتا ہو سوائے عمرو بن مرہ اور ابن عون کے
الجوهري البغدادي، علي بن الجعد بن عبيد أبو الحسن (متوفاي230هـ)، مسند ابن الجعد، ج 1، ص 24، تحقيق: عامر أحمد حيدر، ناشر: مؤسسة نادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1410هـ – 1990م؛
النسائي، أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علي الخراساني، (متوفاى303هـ) ذكر المدلسين، ج 1، ص 59؛
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 22، ص 235، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م؛
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 5، ص 197، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ) طبقات المدلسين، ج 1، ص 58، تحقيق: د. عاصم بن عبدالله القريوتي، ناشر: مكتبة المنار - عمان، الطبعة: الأولى، 1403هـ – 1983م وتهذيب التهذيب، ج 8، ص 89، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404هـ – 1984م؛
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي855هـ)، مغانى الأخيار، ج 3، ص 468.

ملا علي قارى اس بحث میں کہ "مرسل صحابی قابل قبول نہیں" لکھتے ہیں :

قلت: مرسل التابعي حجة عند الجمهور، فكيف مرسل من اختلف في صحة صحبته.
مرسل تابعی تمام علماء کے نزدیک حجت ہے چہ جائے اس کی مرسل جس کے صحابی ہونے کے بارے مں اختلاف ہو۔
القاري، علي بن سلطان محمد (متوفاي1014هـ)، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 9، ص 434، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2001م.
شمس الدين سخاوى فتح المغيث میں لکھتے ہیں:

صرح الحاكم في علومه بأن مشايخ الحديث لم يختلفوا أنه هو الذي يرويه المحدث بأسانيد متصلة إلى التابعي ثم يقول التابعي قال رسول الله ووافقه غيره على حكاية الاتفاق ( واحتج ) الإمام مالك هو ابن أنس في المشهور عنه ( وكذا ) الإمام أبو حنيفة ( النعمان ) بن ثابت وتابعوهما المقلدون لهما والمراد الجمهور من الطائفتين بل وجماعة من المحدثين والإمام أحمد في رواية حكاها النووي وابن القيم وابن كثير وغيرهم به أي بالمرسل ودانوا بمضمونه أي جعل كل واحد منهم ما هو عنده مرسل دينا يدين به في الأحكام وغيرها وحكاه النووي في شرح المهذب عن كثيرين من الفقهاء أو أكثرهم قال ونقله الغزالي عن الجماهير
وقال أبو داود في رسالته وأما المراسيل قفد كان أكثر العلماء يحتجون بهافيما مضى مثل سفيان الثوري ومالك والأوزاعي حتى جاء الشافعي رحمه الله فتكلم في ذلك وتابعه عليه أحمد وغيره انتهى.
حاکم نے علوم میں صراحت سے بیان کردیا ہے کہ حدیث کے مشائخ ان روایات میں اختلاف نہیں کرتے ہیں جسے کسی محدث نےسند متصل سے تابعی سے نقل کیا ہو پھر تابعی کہے کہ رسول اکرم ص نے فرمایا اور اس عدم اختلاف میں دوسرے افراد نے بھی حاکمکی تائید کی ہے
امام مالک بنا بر نقل مشہور اسی طرح ابو حنیفہ اور ان دونوں کے پیروکار بلکہ ایک جماعت محدثین میں سے اور امام احمد بناء پر قول کہ جسے نووی اور ابن قیم ، ابن کثیر اور دیگر افراد نے بیان کیا ہے خبر مرسل صحابی پر اعتماد اور باب احکام اور دیگر باباب میں اس سے استنباط کیا ہے
أبو داوود نے اپنے رسالہ میں کہا ہے کہ : : اكثر علماء مثل سفيان ثوري، امام مالك و اوزاعى روايات مرسل سے احتجاج اور استناد کرتے تھے
یہاں تک امام شافعی نے اس پر اعتراض کیا اور اس کی پیروی احمد اور دیگران نے
السخاوي، شمس الدين محمد بن عبد الرحمن (متوفاي902هـ)، فتح المغيث شرح ألفية الحديث، ج 1، ص 139، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان، الطبعة: الأولى، 1403هـ.


سراج الدين انصارى لکھتے ہیں:
ونقل الآمدي قبوله (مرسل التابعي) عن أحمد أيضا واختاره. وبالغ بعضهم فجعله أقوى من المسندلأنه إذا أسنده فقد وكل أمره إلى الناظر ولم يلتزم صحته.
وذهب ابن الحاجب إلى قبوله من أئمة النقل دون غيرهم وذهب عيسى بن أبان إلى قبول مراسيلهم ومراسيل تابعي التابعين وأئمة النقل مطلقا.

آمدی نے امام احمد کی طرف سے مرسل تابعی کی روایت کو قبول کرنے کو نقل کیا بعض نے مبالغہ کیا کہ تابعی کی مرسل خبر مسند سے مضبوط اور اقوی ہے اس لئے جب خبر مسند بیان کی جاتی ہے تو پڑھنے والے پر اس کی صحت اور ضعف کو چھوڑ دیا جاتا یے [برخلاف مرسل ] لیکن ابن حاجب نے مرسل اخبار تابعی کو اہل نقل کے قبول تک محدود کیا ہے یعنی مرسل تابعی فقط اہل حدیث لوگ حجت مانتے ہیں بلکہ عیسی بن ابان نے دوسرے سے بڑ کر یہ بات کر دی ہے کہ تابعین کی مرسل اخبار اور تبع تابعین کی مرسل اخبار کو قابل قبول جانتے ہیں اسی طرح تمام "امامان نقل "کی مرسل قابل قبول ہیں
الأنصاري، سراج الدين عمر بن علي بن أحمد (متوفي 804هـ)، المقنع في علوم الحديث، ج 1، ص 139 - 140، تحقيق: عبد الله بن يوسف الجديع، ناشر: دار فواز للنشر - السعودية، الطبعة: الأولى، 1413هـ .


جمال الدين قاسمى نے قرافى سے نقل کیا ہے کہ :
قال القرافي في شرح التنقيح: «حجة الجواز أن سكوته عنه مع عدالة الساكت، وعلمه أن روايته يترتب عليها شرع عام، فيقتضى ذلك أنه ما سكت عنه إلا وقد جزم بعدالته؛ فسكوته كإخباره بعدالته، وهو لو زكاه عندنا، قبلنا تزكيته، وقبلنا روايته؛ فكذلك سكوته عنه، حتى قال بعضهم: إن المرسل أقوى من المسندبهذا الطريق، لأن المرسل قد تذمم الراوي وأخذه في ذمته عند الله تعالى وذلك يقتضى وثوقه بعدالته؛ وأما إذا أسند فقد فوض أخره للسامع، ينظر فيه، ولم يتذممه؛ فهذه الحالة أضعف من الإرسال» انتهى.
خبرِ مرسل کی حجت سکوتِ راویاِن ہے پس راویان کا سکوت راوی مرسل کی عدالت و قبول کی خبر دینا کی طرح ہے
کیونکہ ساکت فرد کو معلوم ہے کہ ایسی روایات احکام شرعی کے حصول میں رائج ہوجاینگے پس اسکا سکوت بتاتاہے کہ وہ راوی کی عدالت اور اسکی روایت مرسل کو دل جان سے قبول کرتا ہے اگر ایسا راوی کی توچیق کرتا ہے تو وہ ہمارے لئے حجت ہے اسی طرح اس کی روایت کو قبول کرے اور سکوت کرے وہ بھی ہمارے لئے حجت ہے یہاں تک کہ بعض نے یہ تک کہ دیا ہے کہ مرسل مسند سے زیادہ قوی ہے اس لئے کوئی مرسل کو نقل کرے گویا ایسا ہے کہ اس نے مرسل کی ضمانت لے لی ہے اور اسکی وثاقت اللہ کے نزدیک اپنی گردن پر لے لیا ہے اور یہ تمام بات تقاضہ کرتی ہیں کہ راوی موثق ہے
القاسمي، محمد جمال الدين (متوفي1332 هـ)، قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث، ج 1، ص 134، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1399هـ - 1979م.

اعتراف ابن عون و سليمان تيمي ہمارے لئے کافی ہے :
ثانياً: اگر ہم فرض بھی کر لیں کہ سند مقطوع ہے تب بھی اس روایت کی صحت پر اثر نہیں پڑتا ہے اسلئے کہ پہلی صدی کے ابن عون اور سلیمان تیمی جیسے بڑی بزرگ شخصیت کا اعتراف ہمارے لئے کافی ہے اگر چہ وہ خود اس واقعہ کے دیکھنے والے نہ ہوں اسلئے امکان نہیں ہے کہ یہ افراد جھوٹ بولیں اس لئے اعتقاد اہلسنت کے مطابق ابن عون کا شک دوسروں کے یقین سے بڑ کر ہے

وقال ابن المبارك ما رأيت أحدا أفضل من ابن عون وقال شعبة شك ابن عون أحب إلي من يقين غيره
ابن مبارك کہتے ہیں: ابن عون سے بڑ کر میں نے کسی کو نہیں دیکھا ہے اور شعبہ نے کہا ابن عون کا شک میرے نزدیک دوسروں کے شک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 6، ص 365، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

مزى نے بھی تهذيب الكمال لکھا ہے :
سمعت عمر بن حبيب يقول: سمعت عثمان البتي يقول: ما رأت عيناي مثل ابن عون.
عمر بن حبيب کہتے ہیں: عثمان بتی سے سنا ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے فضیلت میں ابن عون کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیکھا ہے
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 15، ص 399، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
بخارى ،تاريخ كبير میں لکھتے ہیں :
قال ابن المبارك: ما رأيت أحدا أفضل من ابن عون.
عبدالله بن مبارک کہتے ہیں ابن عون سے بڑ کر کسی کو صاحب فضیلت نہیں دیکھا ہے

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، التاريخ الكبير، ج 5، ص 512، تحقيق: السيد هاشم الندوي، ناشر: دار الفكر.
اگر ہم راویت کو منقطع بھی فرض کریں اور ابن عون کی ذاتی بات بھی مان لیں تب بھی ہمارے مدعی کے اثبات کے لئے کافی ہے ۔

نتيجه:
مسلمة بن محارب، مجهول نہیں ہیں اسلئے ابن حبان نے انکی توثیق کی ہے
ابن عون اور سلمیان تیمی کی مرسل حجیت پر اشکال نہیں لاتی ہے اس لئے اولمرسل تابعی اہلسنت کے علماء کے نزدیک اور ائمہ اربعہ کے نزدیک حجت ہے دوم :اعتراف بزرگان اہلسنت اول صدی میں کہ مثل ابن عون کا شک یقین سے بالاتر ہے اور سلمیان تیمی ، ہمارے لئے کافی ہے

No comments:

Post a Comment

براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.