عبد الرحمن دمشقيه،نے
روايت محمد بن جرير طبرى{تاریخ طبری} اور جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر جلانے کی عمر کی دھمکی کے بارے میں کہا ہے کہ:
2
- «حدثنا ابن حميد قال حدثنا جرير عن مغيرة عن زياد بن كليب قال أتى عمر
منزل علي وفيه طلحة والزبير ورجال من المهاجرين فقال والله لأحرقن عليكم أو
لتخرجن إلى البيعة فخرج عليه الزبير مصلتا بالسيف فعثر فسقط السيف من يده
فوثبوا عليه فأخذوه» (تاريخ الطبري2/233).
في الرواية آفات وعلل منها:
جرير بن حازم وهو صدوق يهم وقد اختلط كما صرح به أبو داود والبخاري في التاريخ الكبير (2/2234).
المغيرة
وهو ابن المقسم. ثقة إلا أنه كان يرسل في أحاديثه لا سيما عن إبراهيم.
ذكره الحافظ ابن حجر في المرتبة الثالثة من المدلسين وهي المرتبة التي لا
يقبل فيها حديث الراوي إلا إذا صرح بالسماع.
عمر خانہ علی {علیہ السلام} کے پاس آتے ہیں جبکہ گھر میں طلحہ و زبیر
اور ایک مھاجرین کی جماعت موجود تھی عمر کہتے ہیں اللہ کی قسم میں تم
لوگوں کو گھر کے ساتھ جلا دونگا یا پھر بیعت کے لئے باہر آجاو،زبیر تلوار
لئے ہوئے عمر کی طرف بڑے لیکن اچانک زبیر زمین پر گرتے ہیں اور انکے ہاتھ
سے تلوار گر جاتی ہے تب عمر کے لوگ زبیر پر لپکتے ہیں اور انھیں اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں:
اس روایت میں بہت سی مشکلات اور آفات ہیں جس میں سے ایکجریر بن حازم ہے اگرچہ یہ صدوق اور سچے ہیں لیکن کبھی کبھی وھم کا شکار ہوتے تھے اور صحیح اور غلط کو آپس میں ملا دیتے تھے جیسا کہ اس کی وضاحت ابو داوود اور بخاری نے تاریخ کبیر میں کی ہے۔
دوسری آفت اس روایت کی یہ ہے کہ : مغیرہ بن قسم ہے وہ ثقہ ہے لیکن اپنے بیان کیجانے والی روایت میں ارسال رکھتا ہے خصوصا جب ابراھیم سے روایت کرے ابن حجر نے اسے تدلیس کرنے والوںکے تیسری طبقہ میں شمار کیا ہے جو ایسا طبقہ ہے جس کی روایت قابل قبول نہیں ہوتی ہے ، مگر اس وقت جب سماع کی صراحت سے ذکر کرے
دیگر
اشکال بھی اس روایت پر ہیں ان میں سے سند تاریخ طبری ابتداء و آخر سے دو
نقص رکھتی ہیں اس لئے پہلا روای ابن حمید کذاب کی تھمت رکھتا ہے اور آخری
راوی خود اس واقعہ کا دیکھنے والا نہیں تھا اور واسطہ سے روایت کرتا ہے اس
بناء پر روایت جعلی اور منقطع ہے
تحقیقی جواب :
اصلِِ روايت:
حدثنا
ابن حُمَيْدٍ قال حدثنا جرير عن مغيرة عن زِيَادِ بن كُلَيْبٍ قال أتى عمر
بن الخطاب منزل علي وفيه طلحة والزبير ورجال من المهاجرين فقال والله
لأحرقن عليكم أو لتخرجن إلى البيعة فخرج عليه الزبير مصلتا بالسيف فعثر
فسقط السيف من يده فوثبوا عليه فأخذوه.
یعنی : عمر خانہ علی{ علیہ السلام }کے پاس آتے ہیں جبکہ گھر میں طلحہ وزبیر
اور ایک مھاجرین کی جماعت موجود تھی عمر کہتے ہیں اللہ کی قسم میں تم
لوگوں کو گھر کے ساتھ جلا دونگا یا پھر بیعت کے لئے باہر آجاو زبیر تلوار
لئے ہوئے عمر کی طرف بڑے لیکن اچانک زبیر زمین پر گرتے ہیں اور انکے ہاتھ
سے تلوار گر جاتی ہے تب عمر کے لوگ زبیر پر لپکتے ہیں اور انھیں اپنی تحویل
میں لے لیتے ہیں۔
الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 233، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.
ذھبی انکے بارے میں لکھتے ہیں :
محمد بن حميد. ابن حيان العلامة الحافظ الكبير أبو عبد الله الرازي مولده في حدود الستين ومئة
قال أبو زرعة من فاته محمد بن حميد يحتاج ان ينزل في عشرة آلاف حديث.
وقال عبد الله بن أحمد سمعت أبي يقول لا يزال بالري علم ما دام محمد بن حميد حيا.
وقال أبو قريش الحافظ قلت لمحمد بن يحيى ما تقول في محمد بن حميد فقال ألا تراني أحدث عنه.
وقال
أبو قريش وكنت في مجلس محمد بن إسحاق الصاغاني فقال حدثنا ابن حميد فقلت
تحدث عنه فقال ومالي لا احدث عنه وقد حدث عنه أحمد ويحيى بن معين.
علاّمه ،حافظ اکبر محمد بن حميد کی ولادت
تقریبا 160 ھ میں ہوئی ابو زرعہ نے کہا : جس نے محمد بن حمید کو کو کھو
دیا اس نے دس ھزار احادیث سے ہاتھ دھو لئے ہیں عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں
کہ میں نے اپنے والد احمد بن حنبل سے سنا ہے کہ وہ کہتے ہیں : جب تک محمد
بن حمید شہر ری میں قیدِ حیات تھے علم و دانش وہاں پایدار تھا
ابو
قريش محمد بن جمعه بن خلف کہتے ہیں: میں نے محمد بن يحيى سے کہا : آپ محمد
بن حمید کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ انھوں نے کہا : کیا تمہیں معلوم نہیں
ہے کہ میں ان سے ہی روایت نقل کرتا ہوں ابو قریش مزید کہتے ہیں کہ میں محمد
بن اسحاق صاغانی کی محفل میں تھا تو صاغانی نے کہا: ہمارے لئے ابن حمید نے
روایت بیان کی تو میں نے کہا آپ ابن حمید سے روایت نقل کرتے ہیں ؟ تو
صاغانی نے کہا مجھے کیا ہوگیا ہے جو ابن حمید سے روایت نقل نہ کروں جبکہ
احمد اور یحیی بن معین نے اس سے روایت نقل کی ہیں
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 11، ص 503، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
مزى تهذيب الكمال میں ابن حمید کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَقَال أبو بكر بن أَبي خيثمة: سئل يحيى بن مَعِين عن محمد بن حميد الرازي فقال: ثقة. ليس به بأس، رازي كيس.
وَقَال
علي بن الحسين بن الجنيد الرازي: سمعت يحيى ابن مَعِين يقول: ابن حميد
ثقة، وهذه الاحاديث التي يحدث بها ليس هو من قبله، إنما هو من قبل الشيوخ
الذين يحدث عنهم.
وَقَال
أبو العباس بن سَعِيد: سمعت جعفر بن أَبي عثمان الطيالسي يقول: ابن حميد
ثقة، كتب عنه يحيى وروى عنه من يقول فيه هو أكبر منهم.
... يحيى بن معين سے ابن حمید کے بارے میں سوال کیا : جواب دیا ثقہ ہیں کوئی نقص نہیں رکھتے ہیں وہ ہوشیار رازی ہیں
علي
بن حسين رازى کہتے ہیں کہ : میں نے ابن معین سے سناہے کہ ابن حمید ثقہ ہیں
اور جواحادیث وہ نقل کرتے ہیں اپنے مشائخ اور استاد سے نقل کرتے ہیں نہ کہ
اپنی جانب سے نقل کرتے ہیں
ابو
العباس بن سعيد کہتے ہیں: میں نے جعفر بن عثمان طيالسى سے سنا ہے کہ ابن
حمید ثقہ ہیں اور جس نے بھی ان سے روایت کی ہے وہ ابن حمید سے زیادہ شہرت یافتہ افراد ہیں [مثلا احمد بن حنبل ]
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 25، ص 100، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
محمد
ناصر الباني، دور حاضر کے وهابى عالم نے كتاب صحيح وضعيف سنن الترمذى اور
سلسله احاديث الصحيحه میں ایسی حادیث کو صحیح جانا ہے جس کی سند میں ابن
حمید ہیں
مثال کے طور پر چند احادیث جو البانی کی تصحیح شدہ ہیں بیان کرتے ہیں :
«رضيت لأمتي ما رضي لها ابنُ أمِّ عبدٍ »...
و قد روى الحديث بزيادة فيه بلفظ: " و كرهت لأمتي ما كره لها ابن أم عبد ". قال في " المجمع " ( 9 / 290 ): " رواه البزار و الطبراني في " الأوسط " باختصار الكراهة، و رواه في " الكبير " منقطع الإسناد، و في إسناد البزار محمد بن حميد الرازي و هو ثقة و فيه خلاف و بقية رجاله وثقوا ".
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، سلسلة احاديث الصحيحة، ج3، ص225، ح 1225، ناشر: مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، طبعة جديدة منقحة ومزيدة، 1415 هـ _ 1995 م.
( سنن الترمذي )
606 حدثنا محمد بن حميد الرازي حدثنا
الحكم بن بشير بن سلمان حدثنا خلاد الصفار عن الحكم بن عبد الله النصري عن
أبي إسحق عن أبي جحيفة عن علي ابن أبي طالب رضي الله عنه أن رسول الله صلى
الله عليه وسلم قال ستر ما بين أعين الجن وعورات بني آدم إذا دخل أحدهم
الخلاء أن يقول بسم الله قال أبو عيسى هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا
الوجه وإسناده ليس بذاك القوي وقد روي عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم
أشياء في هذا.
تحقيق الألباني:
صحيح، ابن ماجة ( 297 )
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، صحيح وضعيف سنن الترمذي، ج2، ص106، طبق برنامه المكتبة الشاملة، اصدار الثاني.
( سنن الترمذي )
1762 حدثنا محمد بن حميد الرازي حدثنا
أبو تميلة والفضل بن موسى وزيد بن حباب عن عبد المؤمن بن خالد عن عبد الله
بن بريدة عن أم سلمة قالت كان أحب الثياب إلى النبي صلى الله عليه وسلم
القميص قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب إنما نعرفه من حديث عبد المؤمن بن
خالد تفرد به وهو مروزي وروى بعضهم هذا الحديث عن أبي تميلة عن عبد المؤمن
بن خالد عن عبد الله بن بريدة عن أمه عن أم سلمة.
تحقيق الألباني:
صحيح، ابن ماجة ( 3575 )
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، صحيح و ضعيف سنن الترمذي، ج2، ص262.
( سنن الترمذي )
2478 حدثنا محمد بن حميد الرازي حدثنا
عبد العزيز بن عبد الله القرشي حدثنا يحيى البكاء عن ابن عمر قال تجشأ رجل
عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال كف عنا جشاءك فإن أكثرهم شبعا في
الدنيا أطولهم جوعا يوم القيامة قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب من هذا
الوجه وفي الباب عن أبي جحيفة.
تحقيق الألباني:
حسن، ابن ماجة ( 3350 - 3351 ).
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، صحيح وضعيف سنن الترمذي، ج5، ص478.
( سنن الترمذي )
2936 حدثنا محمد بن حميد الرازي حدثنا
نعيم بن ميسرة النحوي عن فضيل بن مرزوق عن عطية العوفي عن ابن عمر أنه قرأ
على النبي صلى الله عليه وسلم ( خلقكم من ضعف ) فقال ( من ضعف ) حدثنا عبد
بن حميد حدثنا يزيد بن هارون عن فضيل بن مرزوق عن عطية عن ابن عمر عن
النبي صلى الله عليه وسلم نحوه قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب لا نعرفه
إلا من حديث فضيل بن مرزوق.
تحقيق الألباني:
حسن، الروض النضير ( 530 ).
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، صحيح وضعيف سنن الترمذي، ج6، ص406.
( سنن الترمذي )
3533 حدثنا محمد بن حميد الرازي حدثنا
الفضل بن موسى عن الأعمش عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بشجرة
يابسة الورق فضربها بعصاه فتناثر الورق فقال إن الحمد لله وسبحان الله ولا
إله إلا الله والله أكبر لتساقط من ذنوب العبد كما تساقط ورق هذه الشجرة
قال أبو عيسى هذا حديث غريب ولا نعرف للأعمش سماعا من أنس إلا أنه قد رآه
ونظر إليه.
تحقيق الألباني:
حسن، التعليق الرغيب ( 2 / 249 )
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، صحيح وضعيف سنن الترمذي، ج8، ص33.
وھابیوں کے نزدیک جو الالبانی کا مقام ہے اسے دیکھتے ہوئے "الالبانی کی ابن حمید کے بارے میں توثیق" ہمارے لئے کافی ہے
تضعيف نسائي و جوزجاني کا اعتبار نہیں ہے :
بعض علماء جرح و تعدیل نے مثلا نسائی اور ابراھیم بن یعقوب جوزجانی نے محمد بن حمید کی تضیف کی ہے۔
مزی لکھتے ہیں:
وقال النسائي: ليس بثقة. وقال إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني: ردئ المذهب غير ثقة.
نسائى نے کہا ہے کہ :ابن حمید ثقہ نہیں ہے اور جوزجانی نے اسے غیر ثقہ اور پست مذھب کہا ہے
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 25، ص 105،تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
کیا ان دو افراد کی تضعیف اہمیت رکتی ہیں؟
تضعيفِ نسائى و جوزجانى کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے اس لئے نسائی توثیق کے معاملے میں بہت سخت ہیں اس حد تک ہیں احناف کے امام ابوحنیفہ کی بھی تضیعف کردی۔
عبد الحی الرفع والتكميل میں لکھتے ہیں:
نسائی کا ابوحنیفہ کے بارے میں جرح قابل قبول نہیں ہے اس لئے کہ وہ جرح کے معاملے سخت اور شدت رکھتے ہیں
اللكنوي الهندي، أبو الحسنات محمد عبد الحي (متوفاي1304هـ)، الرفع والتكميل في الجرح والتعديل، ج 1، ص 121، تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثالثة، 1407هـ
اس بناء پر تضعیف نسائی کی کوئی اہمیت نہیں ہے سخت گیری کی وجہ سے
ذهبى و ابن حجر نے اسکے بارے میں لکھا ہے :
وكان من الحفاظ المصنفين والمخرجين الثقات، لكن فيه انحراف عن علي.
یہ حفاظ اور مصنفین میں سے تھے روات ثقہ کو معین کیا لیکن علی [علیہ السلام ] سے منحرف تھا
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج 7، ص 272، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1995م
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) لسان الميزان، ج 6، ص 301، تحقيق: دائرة المعرف النظامية - الهند، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1406هـ – 1986م.
اگر
ہم فرض بھی کر لیں کہ نسائی اور جوزجانی کی تضعیف اہمیت رکھتی ہے اس کے با
وجود یہ فرض اس بات کا باعث نہیں بنتا ہے کہ محمد بن حمید کی احادیث کسی
کام کی نہیں ہے اس لئے کہ
اولاً: جن
افراد نے ابن حمید کی توثیق کی ہے مثل یحیی بن معین ، احمد بن معین ۔،
طیالسی جو جرح و تعدیل کے ائمہ شمار ہوتے ہیں انکے مقابلہ میں تضعیفِ نسائی
جو جرح میں شدت مزاج رکھتے ہیں یا تضیف جوزجانی جو دشمن علی [ع] ہے معنی
نہیں رکھتی ہیں یعنی توثیق ابن معین ۔احمد بن حنبل ۔ طیالسی کے مقابلے میں
نسائی کی تضعیف کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور تضعیف نسائی مغلوب ہے
ثانياً:اگر ان
تمام بحث کو جو بیان ہوئی ہے نظر انداز کیا جائے پھر بھی اگر ایک جماعت نے
اسکی توثیق اور ایک جماعت نے اسکی تضیف کی ہو تب بھی اس کی روایت قبول کی
جائے گی اس لئے اہل سنت کے علم رجال کے قوانین کے اعتبار سے ایسے شخص کی
روایت حسن کا مرتبہ رکھتی ہے اور اہل سنت کے نزدیک ایسی روایت حجت شمار
ہوتی ہے
مثال کے طور پر چند ایسی احادیث کو ذکر کرتے ہیں
ابن حجر عسقلانى قزعة بن سويد کے بارے میں لکھتےہیں
أما قزعة بن سويد... واختلف فيه كلام يحيى بن معين فقال عباس الدوري عنه ضعيف وقال عثمان الدارمي عنه ثقة وقال أبو حاتم محله الصدق وليس بالمتين يكتب حديثه ولا يحتج به وقال ابن عدي له أحاديث مستقيمة وأرجو أنه لا بأس به وقال البزار لم يكن بالقوي وقد حدث عنه أهل العلم وقال العجلي لا بأس به وفيه ضعيف.
فالحاصل من كلام هؤلاء الأئمة فيه أن حديثه في مرتبة الحسن والله أعلم.
قزعة
بن سويد کے بارے میں کلام یحیی بن معین مختلف ہے عباس دوری نے تضیعف نقل
کی ہے اور عثمان دارمی نے توثیق ۔۔۔۔ [اسی طرح دیگر علماء نے اختلافی بات
کی ہے ]
بعض نے کہا اس کی حدیث لکھی جائے گی لیکن اس کی حدیث سے احتجاج نہیں کی جائے گا
لیکن ابن حجر خود اس نتیجہ پر پہونچے ہیں :
تمام ائمہ کے کلام کا یہ خلاصہ نکلتا ہے کہ ابن سوید کی حدیث مرتبہ حسن پر
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، القول المسدد في الذب عن المسند للإمام أحمد، ج 1، ص 30، تحقيق: مكتبة ابن تيمية، ناشر: مكتبة ابن تيمية - القاهرة، الطبعة: الأولى، 1401هـ.
ابن حجر ،نے ، تهذيب التهذيب میں عبد الله بن صالح کے احوال میں لکھا ہے کہ :
وقال ابن القطان هو صدوق ولم يثبت عليه ما يسقط له حديثه إلا أنه مختلف فيه فحديثه حسن.
ابن قطان، عبد
الله بن صالح کو صدوق جانتے ہیں کوئی ایسی چیز ثابت نہیں ہوئی ہے جس کی
وجہ سے ابن صالح کی حدیث ترک کردی جائے فقط اتنا ہے کہ اس کے بارے میں
علماء کا اختلاف ہے اس بناء پر اسکی حدیث حسن جانی جائے گی
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تهذيب التهذيب، ج 5، ص 228، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404هـ – 1984م
زركشى نے اللآلئ المنثوره میں لکھا ہے :
وقد أخرجه ابن ماجة في سننه عن كثير بن شنظير عن محمد سيرين... وكثير بن شنظير مختلف فيه فالحديث حسن.
ابن ماجه نے سنن میں حديث عبد الله بن صالح کو اس سند سے كثير بن شنطير عن محمد بن سيرين سے نقل کی ہے اگر چه كثير بن شنطير کے بارے میں اختلاف ہے؛اس بناء پر حدیث حسن ہے .
الزركشي، بدر الدين (متوفاي794 هـ) اللآلئ المنثورة في الأحاديث المشهورة المعروف بـ ( التذكرة في الأحاديث المشتهرة )، ج 1، ص 42، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية ـ بيروت، الطبعة: الأولى، 1406 هـ، 1986م .
حافظ هيثمى نے مجمع الزوائد میں لکھا ہے:
رواه
أحمد وفيه عبدالله بن محمد بن عقيل وهو سيء الحفظ قال الترمذي صدوق وقد
تكلم فيه بعض أهل العلم من قبل حفظه وسمعت محمد بن إسماعيل يعني البخاري
يقول كان أحمد بن حنبل وإسحق بن إبراهيم والحميدي يحتجون بحديث ابن عقيل قلت فالحديث حسن والله أعلم.
عبد
الله بن محمد بن عقيل کا حافظہ اچھا نہیں تھا ترمذی نے اسے صدوق لکھا ہے
اور بعض نے اس پر اعتراض کیا ہے اسکے حافظہ کے اعتبار سے بخاری نے کہا ہے
احمد بن حنبل ، اسحاق بن ابراہیم اور حمیدی نے اسکی حدیث سے استدلال کیا ہے
اس بناء پر اسکی حدیث حسن ہے
الهيثمي، علي بن أبي بكر (متوفاي807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 1، ص 260، ناشر: دار الريان للتراث / دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت – 1407هـ.
حافظ ابن قطان نے" بيان الوهم والإيهام، "میں متعدد موارد میں اسی قانون سے استناد کیا ہے اس میں دو مقام کو بیان کرتے ہیں
وهو إنما يرويه ابن وهب، عن أسامة بن زيد الليثي، عن نافع عنه. وأسامة مختلف فيه، فالحديث حسن. وقد تقدم ذكر أسامة في هذا الباب.
اسامه بن زيد میں اختلاف ہے اس بناء پر حدیث حسن مانی جائے گی
ابن القطان الفاسي، أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الملك (متوفاي628هـ)، بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام، ج 4، ص 420، تحقيق: د. الحسين آيت سعيد، ناشر: دار طيبة ـ الرياض، الطبعة: الأولى، 1418هـ،1997م.
وهو حديث يرويه سلام أبو المنذر، عن ثابت، عن أنس. وهو سلام بن سليمان القارئ، صاحب عاصم، وهو مختلف فيه، فالحديث حسن.
سلام بن سلمان قارى کے بارء میں اختلاف پایا جاتا ہے اس بناء پر اسکی حدیث "حسن" ہے
ابن القطان الفاسي، أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الملك (متوفاي628هـ)، بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام، ج 4، ص 462 ـ 463، تحقيق: د. الحسين آيت سعيد، ناشر: دار طيبة ـ الرياض، الطبعة: الأولى، 1418هـ،1997م.
ملا علي قارى نے ایک حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہ جس کی سند میں ابوالمنيب تھا، لکھا ہے:
ورواه
الحاكم وصححه وقال أبو المنيب ثقة ووثقه ابن معين أيضاً وقال ابن أبي حاتم
سمعت أبي يقول صالح الحديث وأنكر على البخاري ادخاله في الضعفاء وتكلم فيه
النسائي وابن حبان وقال ابن عدي لا بأس به فالحديث حسن.
حاكم نے اس
روایت کو نقل کیا اور اسے صحیح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ابوالمنيب ثقہ
ہے اور ابن معین نے بھی اس کی توثیق کی ہے اور ابن ابی حاتم نے کہا ہے میں
نے اپنے والد سے سنا ہے کہ : ابوالمنيب کی حدیث صحیح ہے اور بخاری پر بات
پر اعتراض کیا ہے کہ بخاری نے اسے ضعفاء میں شمار کیا ہے نسائی نے اس میں
شک کیا ہےاور ابن حبان نے اور ابن عدی نے کہا ہے کہ: ابوالمنيب میں نقص
نہیں ہے اس بناء پر اسکی حدیث "حسن " ہے
القاري، علي بن سلطان محمد (متوفاي1014هـ)، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 3، ص 305، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2001م.
اور مناوى نے فيض القدير میں لکھا ہے :
طب
عن عبد الله بن زيد الأنصاري الأوسي ثم الخطمي كوفي شهد الحديبية قال
الهيثمي: وفيه أحمد بن بديل وثقه النسائي وضعفه أبو حاتم أي فالحديث حسن
احمد بن بديل کی نسائى نے توثيق کی ہے اور ابو حاتم نے تضعیف پس اسکی حدیث حسن ہے
المناوي، عبد الرؤوف (متوفاي1031 هـ)، فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج 1، ص 369، ناشر: المكتبة التجارية الكبرى - مصر، الطبعة: الأولى، 1356هـ.
اور محيى الدين نووي، شوكانى اور مبارك پوری نے ایک کسی روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :
وفي إسْنَادِهِ عبد الرحمن بن حَبِيبِ بن أزدك (أردك) وهو مُخْتَلَفٌ فيه قال النَّسَائِيّ مُنْكَرُ الحديث وَوَثَّقَهُ غَيْرُهُ قال الْحَافِظُ فَهُوَ على هذا حَسَنٌ
اسکی سند میں عبد الرحمن بن حبيب بن ازدك ہے جس کے بارے میں اختلاف ہے اس بناء پر اسکی حدیث حسن ہے
النووي، أبي زكريا محيي الدين (متوفاي676 هـ) المجموع، ج 17، ص 68، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.
الشوكاني، محمد بن علي بن محمد (متوفاي 1255هـ)، نيل الأوطار من أحاديث سيد الأخيار شرح منتقى الأخبار، ج 7، ص 20، ناشر: دار الجيل، بيروت – 1973.
المباركفوري، محمد عبد الرحمن بن عبد الرحيم أبو العلا (متوفاي1353هـ)، تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي، ج 4، ص 304، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.
اور زيلعى نے" نصب الراية " میں کسی روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :
حديث آخر أخرجه الترمذي... وقال غريب ورواه أحمد في مسنده قال بن القطان في كتابه وأبو معشر هذا مختلف فيه فمنهم من يضعفه ومنهم من يوثقه فالحديث من أجله حسن انتهى.
ابو معشرى اس حدیث کی سند میں ہے بعض نے اس کی تضعیف کی ہے اور بعض نے توثیق اس وجہ سے اسکی حدیث حسن ہے
الزيلعي الحنفي، عبدالله بن يوسف أبو محمد الحنفي (متوفاي762هـ)، نصب الراية لأحاديث الهداية، ج 4، ص 121، تحقيق: محمد يوسف البنوري، ناشر: دار الحديث - مصر – 1357هـ.
تمام
بیان کی جانے والی بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ علماء اہل سنت کا کسی راوی کے
بارے میں تضیعف اور تو ثیق میں اختلاف ہونا ،باعث نہیں بنتا ہے کہ اس راوی
کی روایت قابل قبول نہ مانی جائے بلکہ اسکی روایت "حسن " کے مرتبہ پر آجاتی ہے اور اسکی حجیت صحیح حدیث کی طرح رہتی ہے ۔
اسکی قابون پر عمل کرنے والے فقط قدیم علماء اہل سنت نہیں ہے بلکہ اہل سنت کے دور حاضر کے علماء نے بھی اس قانون کو قبول کیا ہے۔
دور
حاضر کے اہل سنت کے علم رجال کے عالم الالبانی جو مکتب وھابیت سے تعلق
رکھتے ہیں انھوں اپنی کتاب سلسلة احاديث الصحيحة میں 50 سے زیادہ مقامات پر
اس قانون سے استدلال کیا ہے اور اس کے ذریعے سے روایت کو صحیح قرا دیا ہے جس میں ہم 15 مثالوں کو بیان کرتے ہیں
1. قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال البخاري غير ابن ثوبان واسمه عبد الرحمن بن ثابت وهو مختلف فيه.
اس حديث کی سند حسن ہے؛ اس لئے اس کے رجال تمام بخاری کے رجال اور ثقہ ہیں سوائے ابن ثوبان کے کہ اسکے بارے میں اختلاف ہے
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، سلسلة احاديث الصحيحة، ح115، طبق برنامه مكتبة الشاملة.
2. وصالح بن رستم وهو أبو عامر الخزاز البصري لم يخرج له البخاري في صحيحه إلا تعليقا، وأخرج له في الأدب المفرد أيضا ثم هو مختلف فيه، فقال الذهبي نفسه في الضعفاء: وثقه أبو داود، وقال ابن معين: ضعيف الحديث. وقال أحمد: صالح الحديث.
وهذا هو الذي اعتمده في الميزان فقال: وأبو عامر الخزاز حديثه لعله يبلغ خمسين حديثا، وهو كما قال أحمد: صالح الحديث .
قلت: فهو حسن الحديث إن
شاء الله تعالى، فقد قال ابن عدى: وهو عندي لا بأس به، ولم أر له حديثا
منكرا جدا. وأما الحافظ فقال في التقريب: صدوق، كثير الخطأ . وهذا ميل منه
إلى تضعيفه. والله أعلم.
ابوعامر
خزّار بصرى سے بخارى نے اپنی کتاب "صحیح" میں حدیث نقل نہیں کی ہے مگر
تعلیق کی صورت ،میں اس کے بارے میں اختلاف ہے ذھبی نے اسے ضعیف روات کے حصہ
میں لکھا ہے : ابوداودنے خزاز کی توثیق کی ہے اور ابن معین نے ضعیف کہا
ہےاور احمد نے صالح الحدیث لکھا ہے ۔۔۔
البانى مزید لکھتے ہیں:
اس بناء پر اسکی حدیث حسن ہے اس
لئے ابن عدی نے کہا ہے کہ میرے نزدیک ابو عامر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور
اس سے حدیث منکر بھی نقل نہیں ہوئی ہے ابن حجر نے اسے صدوق اور کثیر
الخطاء لکھا ہے گویا تضعیف کی طرف رجحان رکھتے ہیں
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ص216.
3. قلت: وهذا إسناد حسن رجاله ثقات معرفون غير سليمان بن عتبة وهو الدمشقي الداراني مختلف فيه، فقال
أحمد: لا أعرفه وقال ابن معين: لا شيء، وقال دحيم: ثقة، ووثقه أيضا أبو
مسهر والهيثم ابن خارجة وهشام بن عمار وابن حبان ومع أن الموثقين أكثر،
فإنهم دمشقيون مثل المترجم فهم أعرف به من غيرهم من الغرباء، والله أعلم.
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح514.
4. وإسناد أحمد حسن رجاله ثقات رجال مسلم غير محمد بن عبد الله بن عمرو وهو سبط الحسن الملقب بـ ( الديباج )وهو مختلف فيه.
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح546.
5. قلت: وإسناده خير من إسناد حديث عياض رجاله ثقات رجال الشيخين غير سنان بن سعد وقيل: سعد بن سنان وهومختلف فيه، فمنهم من وثقه ومنهم من ضعفه. قلت: فهو حسن الحديث.
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح570.
6. وروى منه ابن ماجه ( 3376 ) القضية الوسطى منه من طريق أخرى عن سليمان بن عتبة به. قال البوصيري في الزوائد: إسناده حسن، وسليمان بن عتبة مختلف فيه وباقي رجال الإسناد ثقات .
قلت: وهو كما قال.
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح 675.
7. وإبراهيم بن المهاجر وهو البجلي مختلف فيه، فقال أحمد: لا بأس به وقال يحيى القطان: لم يكن بقوي، وفي التقريب: صدوق لين الحفظ.
قلت: فهو حسن الحديث أن شاء الله تعالى.
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح697 .
________________________
8. قلت: وهذا إسناد حسن،
رجاله ثقات رجال الصحيح غير الأجلح وهو ابن عبد الله الكندي وهو صدوق كما
قال الذهبي والعسقلاني. والحديث قال في الزوائد (131 / 2 ): هذا إسناد فيه
الأجلح بن عبد الله مختلف فيه، ضعفه أحمد وأبو حاتم والنسائي وأبو داود وابن سعد، ووثقه ابن معين والعجلي ويعقوب بن سفيان وباقي رجال الإسناد ثقات.
اسکی سند حسن ہے اور اسکے رجال ثقہ اور صحیح کے رجال ہیں سوئے اجلح کے یہ صدوق ہے جس طرح ذھبی اور ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے۔
مجمع
الزوائد میں کہا ہے کہ اس سند میں اجلح ہے جس کے بارے میں اختلاف ہے احمد،
ابو حاتم، نسائی ، ابوداود اور ابن سعد نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن
معین ،عجلی ، یعقوب بن سفیان نے اس کی توثیق کی ہے اس سند کے باقی رجال ثقہ
ہیں
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، سلسلة احاديث الصحيحة، ح1093.
9. أخرجه ابن ماجه ( 2 / 407 ) من طريق سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف عن معبد الجهني عن معاوية مرفوعا. وفي الزوائد: إسناده حسن لأن معبد الجهني مختلف فيه وباقي رجال الإسناد ثقات.
قلت: وهو كما قال.
[مجمع] الزوائد میں آیا ہے کہ اسکی سند حسن کیونکہ اس سند میں معبد الجهني ہے جس کے بارے میں اختلاف ہے
میں کہتا ہوں : انکی بات درست ہے
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح1284.
10. قلت: ورجاله ثقات رجال مسلم غير الباهلي هذا، وهو مختلف فيه، وقال الحافظ في التقريب: صدوق له أوهام . قلت:فهو حسن الحديث إن شاء الله تعالى.
اس روایت کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں سوائے باهلي کہ اس کے بارے میں حافظ نے صدوق اور خطاکار کہا ہے لیکن اسکی حدیث حسن ہے
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح2841.
11. قلت: وهذا إسناد حسن على
الخلاف المعروف في الاحتجاج برواية عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده، و الذي
استقر عليه عمل الحفاظ المتقدمين و المتأخرين الاحتجاج بها، و حسب القارىء
أن يعلم قول الحافظ الذهبي فيه في كتابه المغني : مختلف فيه، و حديثه حسن، و فوق الحسن.
یہ سند حسن ہے کیونکہ روایت عمرو
بن شعیب /اپنے والد سے /اپنے جد سے استدلال کرنے میں اختلاف ہے حفاظ
متاخرین و متقدمین نے اس کی روایت سے استناد کیا ہے قارئین کے لئے حافظ
ذھبی کا یہ کلام کافی ہے کہ کہتے ہیں عمرو بن شعیب کے بارے میں اختلاف ہے
لیکن اسکی حدیث حسن ہے یا حسن سے بالاتر ہے
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح2980.
12. إسناده حسن رجاله كلهم ثقات غير عمر بن يزيد النصري وهو مختلف فيه كما تقدم آنفا وقد خرجت الحديث في الصحيحة.
اس
کی سند حسن ہے اور تمام اس روایت کے راوی ثقہ ہے سوائے یزید نصری کے اس کے
بارے میں اختلاف ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اسکی حسیث میں نے کتاب
صحیحہ میں ذکر کی ہے
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، ضلال الجنة، ج1، ص131، ح 323، طبق برنامه المكتبة الشاملة.
13. حديث صحيح إسناده حسن ورجاله ثقات غير سكين بن عبد العزيز وهو مختلف فيه والراجح عندي أنه حسنالحديث.
یہ حديث «صحيح» اور اسکی سند «حسن» ہے اور اسکے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے سکین بن عبد العزیز کے اسکے بارے میں اختلاف ہے لیکن میرے نزدیک اسکی حدیث حسن ہے
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، ضلال الجنة، ج2، ص294، 1125.
14. قلت: وهذا سند حسن بما قبله فإن داود هذا مختلف فيه وجزم الذهبي في الميزان بأنه ضعيف. ووثقه ابن حبان ( 1 / 41 ) وقال أبو حاتم: تغير حين كبر وهو ثقة صدوق وقال النسائي: ليس بالقوي ).
اسکی
سند حسن ہے اس لئے کہ اس کی سند میں فقط داود کے بارے میں اختلاف ہے ذھبی
نے المیزان میں اسکے ضیعف ہونے کا حتمی نظریہ بیان کیا ہے لیکن میرے نزدیک
یہ ہے اسکی حدیث حسن ہے
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، ارواء الغليل في تخريج احاديث منار السبيل، ج3، ص402، كتاب الزكاة، تحقيق: إشراف: زهير الشاويش، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية، 1405 - 1985 م.
15. قلت: وهذا إسناده حسن رجاله ثقات رجال الشيخين غير عبد الله بن دكين وهو أبو عمر الكوفي البغدادي مختلف فيه قال الذهبي في المغني : معاصر لشعبة وثقه جماعة وضعفه أبو زرعة وقال الحافظ في التقريب : صدوق يخطئ.
اسکی
سند حسن ہے اور تمام راوی ثقہ اور صحیحین کے راوی ہیں سوائے ابو عمر کوفی
بغدادی عبد اللہ بن دکین کے کہ اسکے بارے میں اختلاف ہے ذھبی کے کتاب
المغنی میں کہا ہے کہ یہ شعبہ کا ہم عصر اسکی ایک گروہ نے توثیق کی ہے اور ابو زرعہ نے تضیعف کی ہے حافظ [ابن حجر] نے اسے صدوق و خطاکار کہا ہے
الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، تحريم آلات الطرب، ج1، ص148، طبق برنامه المكتبة الشاملة.
این تمام نکات سے واضح ہوگیا وہ روایت جس کے راوی کےبارے میں علماء جرح و تعدیل میں اختلاف پایا جاتا ہوں اس روایت کو «حسن» کہا جاتا ہے
پس نتیجہ یہ نکلا کہ اگر جرح نسائی اور جوزجانی کو فرض کریں تب بھی ابن حمید کی روایت اشکال نہیں رکھتی ہے اس لئے ابن حمید«مختلف فيه» ہے اور یہ قانون گزر گیا ہے کہ جو «مختلف فيه» ہو اسکی حدیث «حسن» ہوتی ہے جو صحیح کی طرح اہل سنت کے ہاں قبول کی جاتی ہے
یہ صحيح بخارى و مسلم کے راوی ہیں اور مزى نے تهذيب الكمال میں انکے احوال میں لکھا ہے :
قال محمد بن سعد: كان ثقة كثير العلم، يرحل إليه. و قال محمد بن عبد الله بن عمار الموصلى: حجة كانت كتبه صحاحا.
محمد
بن سعد کہتے ہیں جریر ثقہ علم کثیر کے مالک تھے لوگ ان سے فیض حاصل کرنے
کے لئے رجوع کرتے تھے محمد بن عبد الله موصلى کہتے ہیں وہ حجت تھے اور انکی
تمام کتب صحاح تھیں
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 4، ص 544، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 9، ص 11، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تهذيب التهذيب، ج 2، ص 65، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404هـ – 1984م.
اس بناء پر عبد الرحمن دمشقيه کا اعتراض
جرير بن حازم وهو صدوق يهم وقد اختلط كما صرح به أبو داود والبخاري في التاريخ الكبير (2/2234).
بالکل بے بنیاد ہے اور دو اھم اشکال رکھتا ہے :
اولاً: محمد بن حميد رازي، روایت کو جرير بن عبد الحميد سے نقل کرتے ہیں نا کہ جرير بن حازم سے جو دمشقیہ کی سند میں عدم دقت کی دلیل ہے
[یہ ہے ناصبیت کی اوقات ہے جو اعتراض بھی صحیح نہیں کرپاتے ہیں: مترجم]
ثانياً: اگر
فرض کریں کہ راوی جریر بن حازم ہو تب بھی اسکی توثیق میں شک نہیں ہے اسلئے
یہ بھی بخاری و مسلم اور باقی صحاح کے راوی ہیں اس بناء پر دمشقیہ کا
اعتراض سرے سے فضول اور بے بنیاد ہے
یہ بھی بخاري، مسلم اور باقی صحاح سته کے راوی ہیں۔
مزى نے تهذيب الكمال میں انکے بارے میں لکھا ہے :
عن أبى بكر بن عياش: ما رأيت أحدا أفقه من مغيرة، فلزمته.
وقال أحمد بن سعد بن أبى مريم، عن يحيى بن معين: ثقة، مأمون.
قال عبد الرحمن بن أبى حاتم: سألت أبى، فقلت: مغيرة عن الشعبى أحب إليك أم ابن شبرمة عن الشعبى؟ فقال: جميعا ثقتان.
وقال النسائى: مغيرة ثقة.
ابو
بكر عياش کہتے ہیں میں نے مغیرہ سے بڑا کسی دوسرے کو فقیہ نہیں دیکھا ہے
پس انکے صحبت کو اختیار کرنا ضرور سمجھا ۔ یحیی بن معین نے کہا: وہ ثقہ اور
امین ہیں ابن ابی حاتم نے کہا: میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ آپ کے
نزدیک مغیرہ کی شعبی سے روایت زیادہ پسندیدہ ہے یا ابن شبرمہ کی شعبی سے
روایت زیادہ پسندیدہ ہے ؟ کہا: دونوں ہی ثقہ ہیں ۔ نسائی کہتے ہیں مغیرہ
ثقہ ہے ۔
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 28، ص 399، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
اس بناء پر دمشقیہ کا اعتراض کہ :
المغيرة
وهو ابن المقسم. ثقة إلا أنه كان يرسل في أحاديثه لا سيما عن إبراهيم.
ذكره الحافظ ابن حجر في المرتبة الثالثة من المدلسين وهي المرتبة التي لا
يقبل فيها حديث الراوي إلا إذا صرح بالسماع.
مغيرة
بن مقسم ثقه ہے لیکن روایت کو مرسل نقل کرتا ہے ناکہ مسند خصوصا جب
ابراہیم سے نقل کرے کہ ابن حجر نے اسے مدلسین کے تیسری طبقہ میں شمار کیا
ہے جو کی روایت فقط سماع کی تصریح کی صورت میں قابل قبول ہے
علمی اعتراض نہیں . اگر وہ مدلس ہے تو بخاری نے اور مسلم نے ان سے کیوں روایت نقل کی ہے ؟
یہ بھی صحيح مسلم، ترمذى اور ... کے راوی ہیں
مزى نے تهذيب الكمال میں انکے احوال میں لکھا ہے :
قال أحمد بن عبد الله العجلى: كان ثقة فى الحديث، قديم الموت.
وقال النسائى: ثقة.
وقال ابن حبان: كان من الحفاظ المتقنين، مات سنة تسع عشرة و مئة.
عجلى نے کہا ہے کہ: وہ ثقہ ہیں ۔نسائی نے کہا :ثقہ ہیں ۔ ابن حبان نے کہا : وہ ثابت قدم حفاظ میں سے ہیں 119 ھ میں وفات کی ہے
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج9، ص505، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
اولاً: جیسا کہ روایت بلاذری میں گزر گیاہے {جس کا ہم پہلے ترجمہ کرچکے ہیں] اہل سنت کے اتنے بڑے علماء کا اعراف پہلی صدی ہجری میں ہمارے مدعی کے اثبا کے لئے کافی ہے اگرچہ واقعہ کے دیکھنے والوں میں سے بھی نہ ہوں
ثانياً: ابراہیم جتنی بھی روایت نقل کرتے ہیں وہ ایسے افراد سے نقل کرتے ہیں جو اہل سنت کے بزرگ علماء کی نظر میں قطعی و یقینی ثقہ ہیں
زیاد کے استاد اس طرح ہیں:
1. ابراهيم نخعي: فقیہ اور تقوی و نیکی میں تعجب خیز تھے شہرت پسند نہیں تھے فقط علم و دانش سے انکا واسطہ تھا
ابراهيم النخعي: الفقيه كان عجبا فى الورع و الخير، متوقيا للشهرة، رأسا فى العلم.
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج 1 ص 227، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولى، 1413هـ - 1992م.
2. سعيد بن جبير: ثقہ اور انکا فقیہ ہونا یقینی ہے .
سعيد بن جبير: ثقة ثبت فقيه.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تقريب التهذيب، ج 1 ص 234، رقم: 2278، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406هـ ـ 1986م.
3. عامر شعبي: ثقہ ، شہرت یافتہ ، فقیہ ، فاضل ہیں۔
عامر الشعبي: ثقة مشهور فقيه فاضل.
تقريب التهذيب، ج 1 ص 287، رقم: 3092.
4. فضيل بن عمرو فقيمي: ثقہ ہیں.
فضيل بن عمرو الفقيمي: ثقة.
تقريب التهذيب، ج 1، ص448، رقم: 5430.
نتيجه:
سند
بالکل صحیح ہے اور عبد الرحمن دمشقیہ کے اعتراضات تمام کے تمام بے بنیاد
ہیں اور اس بات کے عکاس ہیں کہ وہ دقت و تحقیق سے کام نہیں لیتے ہیں اور
انقطاع سند حرج نہیں رکھتی ہے بلکہ حجت اور قابل استدلال ہے
No comments:
Post a Comment
براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.