• Misyar Marriage

    is carried out via the normal contractual procedure, with the specificity that the husband and wife give up several rights by their own free will...

  • Taraveeh a Biad'ah

    Nawafil prayers are not allowed with Jama'at except salatul-istisqa' (the salat for praying to Allah to send rain)..

  • Umar attacks Fatima (s.)

    Umar ordered Qunfuz to bring a whip and strike Janabe Zahra (s.a.) with it.

  • The lineage of Umar

    And we summarize the lineage of Omar Bin Al Khattab as follows:

  • Before accepting Islam

    Umar who had not accepted Islam by that time would beat her mercilessly until he was tired. He would then say

Sunday, November 15, 2015

کیا حضرت عمر نے جھوٹی حدیثیں گھڑ نے کی وجه سے ابوهریره کو ڈانٹا هے؟

سوال
میں نے سنا هے که حضرت عمر نے جھوٹی حدیثیں گھڑنے کی وجه سے ابوهریره کو کهلم کهلا ڈانٹا هے اور اس کی پٹائی کی هے ، کیا یه سچ هے ؟ ممکن هو تو اس سلسله میں کتاب کا حواله بھی بیان فرما یئے؟

جواب
بخاری، مسلم ، ذهبی ، امام ابو جعفر اسکافی ، متقی هندی اور دوسرے محدثین نے نقل کیا هے که خلیفه دوم  حضرت عمر نے ابو هریره کو بے بنیاد روایتوں کو پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے منسوب کر نے کے جرم میں کوڑے لگائے هیں اور اپنی حکومت کے آخر تک اسے حدیث نقل کر نے سے منع کیا هے-
درج ذیل عوامل میں ابوهریره کے بارے میں حضرت عمر کی بے اعتمادی کو تلاش کیا جاسکتا هے:
اول : کعب الاحبار نامی یهودی کے ساتھـ اس کی مصاحبت اور اس سے حدیث نقل
کر نا-
دوم : ایسی روایتوں کا نقل کر نا جو بے بنیاد هو تی تهیں اور اکثر اسرائیلیات کے مطابق بلکه اسرا ئیلیات کا جزو هوتی تھیں اور اس کے علاوه کچھـ نهیں هو تی تھیں –
سوم : صحابیوں کی طرف سے نقل کی گئی روایتوں کے برخلاف روایتوں کو نقل
کر نا-
چهارم : حضرت علی(ع) اور حضرت ابو بکر جیسے صحابیوں کی طرف سے اس کی مخالفت کر نا-
تفصیلی جواب
اسلام سے قبل ابوهریره کی زندگی کے بارے میں کوئی اطلاع نهیں هے ، مگر یه که اس نے خود نقل کیا هے که بچپن سے هی ایک چهوٹی بلی کے ساتھـ کهیلتا تھا اور ایک یتیم اور فقیر شخص تھا اور بهوک سے بچنے کے لئے لوگوں کی خد مت کرتا تھا- دینوری نے اپنی کتاب " المعارف" میں لکها هے که وه یمن کے "دوس "نامی ایک قبیله سے تعلق رکهتا تھا ، یتیمی کی حالت میں زندگی بسرکرتا تھا اور اس نے خالی هاتھـ مهاجرت کی ، تیس سال کی عمر میں مدینه آگیا اور تنگ دستی کی وجه سے صفه کی طرف راهی هوا چونکه فقیر مها جرین وهاں پر اکٹھا تھے[1]-
خود ابو هریره نے اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) پر ایمان لانے کی علت واضح طور پر پیٹ بهر نا اور فقر و تنگدستی سے نجات حاصل کر نا بیان کیا هے، نه کوئی اور وجه [2]– وه خود کهتا تھا که میں همیشه پیٹ بھر نے کی فکر میں هوا کرتا تھا ، یهاں تک که بعض صحابی ، جن کے گهر ، میں کهانا کهانے کے لئے جاتا تھا ، مجھـ سے فرار کرتے تھے – وه جعفر بن ابو طالب کو اس کی مهمان نوازی کر نے کی وجه سے رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے بعد تمام صحابیوں سے برتر جانتا تھا اور ان کے حق میں بهترین جملات بیان کئے هیں [3]–
تعالبی نے اپنی کتاب " ثمار القلوب " میں لکها هے که ابوهریره معاویه کے ساتھـ کهانا کهاتا تها اور علی (ع) کے پیچهے نماز پڑهتا اور اس کام کی علت خود بیان کرتا تھا که معاویه کے هاں کهانا پر چرب اور مزه دار هے لیکن علی (ع) کے پیچھے نماز پڑهنا افضل هے[4]-
لیکن کیا خلیفه دوم نے ، ابو هریره کو حدیث گهڑ نے کے الزام میں تازیانے لگائے هیں اور اسے حدیث نقل کر نے سے منع کیا هے ؟ اس سلسله میں کهنا چاهئے :
اس بات پر اتفاق نظر هے که ابوهریره صرف ایک سال اور نو ماه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے همراه تھے، لیکن دوسرے اصحاب کی به نسبت آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم سے زیاده احادیث نقل کی هیں [5]–
ابن حزم ، نے اس کی نقل کی گئی احادیث کی ایک تعداد کے بارے میں لکها هے : " مسند بقیّ بن مخلد نے ابو هریره سے ٥٣٧٤احادیث نقل کی هیں اور بخاری نے اس سے ٤٤٦ احادیث نقل کی هیں [6]–
جیسا که بخاری نے ابو هریره سے نقل کیا هے که خود اس نے کها هے: " پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے اصحاب میں سے کسی ایک نے آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم سے اتنی احادیث نقل نهیں کی هیں ، جتنی میں نے نقل کی هیں مگر یه که عبدالله بن عمرو نے که وه احادیث کو لکهتے تھے اور میں نهیں لکهتا تھا-[7]"
ابو هریره کے ذریعه بڑی تعداد میں روایتیں نقل کر نے پر عمر بن خطاب کو ڈر لگ گیا یهاں تک که اسی وجه سے اس کو کوڑے مارے اور کها : اے ابو هریره حد سے زیاده روایتیں نقل کرتے هو، مجهے ڈر لگتا هے که کهیں رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم پر جھوٹ اور افترا باندهو گے ، اس کے بعد اس کو انتباه کیا که اگر رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سے روایتیں نقل کر نے کو ترک نه کرے تو اسے اپنے وطن لوٹا دے گا[8] – اسی وجه سے اس کی نقل کی گئی روایتیں زیاده تر حضرت عمر کی وفات کے بعد کے زمانه سے مر بوط هیں چونکه اس کے بعد وه کسی سے نهیں ڈرتا تھا[9]- ابو هریره خود کهتا تھا : میں آپ کے لئے ایسی احادیث نقل کر تا هوں که اگر عمر کے زمانه میں نقل کرتا تو وه مجهے تازیانه لگاتے[10]-
زهری نے ابن سلمه سے نقل کیا هے که میں نے سنا که ابو هریره کهتا تھا:
"جب تک عمر اس دنیا سے چلے گئے ،میں نهیں کهه سکتا تھا که رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم نے یوں فر مایا هے- اگر عمر زنده هو تے تو کیا هم یه احادیث آپ کے لئے نقل کر سکتے تھے ؟ خدا کی قسم اس وقت بھی میں اپنی پیٹھـ پر پڑے عمر کے کوڑوں کو یاد کر کے گهبراتا هوں[11] –"
ابو هریره پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے اتنی روایتیں نقل کر نے کے سلسله میں ایک تو جیه بیان کرتا تھا اور کهتا تھا : " جب کوئی روایت ، کسی حلال کو حرام اور حرام کو حلال نه کرے ، اس روایت کو پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم سے نسبت دینے میں کوئی مشکل نهیں هے –" اس نےاپنے اس خیالی اصول کے ذریعه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے نسبت دی گئی اپنی احادیث کو شرعی حیثیت بخشی هے ، من جمله اس کی نقل کی گئی ایک حدیث هے جسے طبرانی نے ابو هریره سے اور اس نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا هے که : " جب تک کسی حلال کو حرام اور حرام کو حلال نه کرو گے اور حق پر پهنچ گئے اس کو میری طرف نسبت دینے میں کوئی حرج نهیں هے –" اس کے علاوه نقل کیا هے که اس نے پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے سنا هے که آپ (ص) فر ماتے تھے : " جو بهی کوئی ایسی حدیث نقل کرے جس میں خدا کی رضا هو، پس میں نے اسے کها هے اگر چه میں نے اسے نه کها هو"[12]-
جبکه حقیقت یه هے که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے جو چیز ثابت هے ، وه یه هے که آپ (ص) نے فر مایا هے : " جو بھی کوئی ایسی حدیث مجھـ سے نقل کرے جسے میں نے نه کها هو اس کی جگه جهنم میں هے [13]–"
حضرت عمر نے چونکه حدیث نقل کر نے میں ابوهریره کی افراط کا مشاهده کیا تھا اس لئے انهوں نے تاکید کی تھی که مذ کوره حدیث کے بارے میں اس کو یعنی ابو هریره کو همیشه متوجه کرتے رهیں [14]-
ابو هریره اور تدلیس ( فریب کاری )
تد لیس (فریب کاری) کے معنی یه هیں که کسی ایسے شخص سے کوئی چیز نقل کر نا ، جس کو نه دیکها هو اور اس سے نه سنا هو یا اپنے کسی هم عصر سے کوئی مطلب نقل کرنا  که اس نے وه مطلب نه کها هو اور نقل کر نے میں ایسا ظاهر کرے که اس سے وه مطلب سنا هے اور اس نے یه بات کهی هے [15]– واضح هے که تدلیس ( فریب کاری ) کی تمام قسمیں قابل مذمت اور حرام هیں اور اسے جھوٹ کا مترادف کها گیا هے[16]-
حدیث کے ماهرین نے کها هے که اگر ثابت هو جائے که کسی نے ایک ایسی روایت تدلیس ( فریب کاری ) کے ذریعه نقل کی هے، تو اس شخص سے کوئی روایت قبول نهیں کر نی چاهئے اگر چه هم جانتے هوں که اس نے صرف ایک بار تدلیس ( فریب کاری ) سے کام لیا هے [17]- دینوری اور ابن کثیر نے ابن سعید کے بیٹے سے نقل کیا هے که وه کهتے تھے: " خداوند متعال سے ڈریئے اور حدیث نقل نه کر نا ، خدا کی قسم میں ابو هریره کے پاس بیٹها تھا که اس نے رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سے ایک روایت نقل کی اور ایک روایت کعبه احبار سے ، اس کے بعد جو لوگ همارے ساتھـ تھے ان میں سے بعض کو کها که میں رسول خدا صلی الله علیه ٶآله وسلم کی حدیث کو کعب سے نسبت دیتا هوں اور کعب کی حدیث کو رسول خدا (ص) سے نسبت دیتا هوں [18]–" علمائے حدیث نے متفقه طورپر کها هے که : " ابوهریره ، عبادله ، معاویه اور انس نے کعب الاحبار یهودی سے روایتیں نقل کی هیں ، کعب الاحبار وه شخص هے جس نے مسلمانوں کو دهوکه دینے کے لئے بظاهر اسلام لایا تھا لیکن باطن میں یهودی تھا ، مذکوره افراد میں سے ابوهریره نے دوسروں کی به نسبت کعب الاحبار سے زیاده روایتیں نقل کی هیں اور اس پر اعتماد کیا هے [19]– حقیقت میں کعب الاحبار کی چالبازی ابو هریره پر مسلط هو چکی تھی اور وه دین اسلام میں خرافات اور توهمات داخل کرنا چاهتا تھا-کعب کے بارے میں بیان کئے گئے اقوال سے واضح هو تا هے که کعب کا اپنا ایک خاص طریقه کار تھا، ذهبی نے " طبقات الحفاظ " میں ابو هریره کے بارے میں لکها هے: " کعب ابوهریره کے بارے میں کهتا تھا که میں نے کسی کو نهیں دیکها هے- جو تورات پڑهے بغیر اس کے بارے میں ابوهریره سے عالم تر هو[20]-" ذرا دیکهئے که اس جادو گر نے کیسے ابو هریره کو اپنے شیشے میں اتارا هے ، ابو هریره کیسے سمجھـ چکا تھا که که تورات میں کیا هے جبکه وه تورات کو نهیں پهچانتا تھا اور اگر پهچانتا بھی هو اسے پڑھـ نهیں سکتا تھا چونکه تورات عبرانی زبان میں تھی اور ابو هریره ، عربی لغت بهی نهیں جانتا تھا ، کیو نکه وه ان پڑھـ تھا[21]-
بخاری نے ابو هریره سے نقل کیا هے که اهل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے هیں اور اسے اهل اسلام کے لئے عربی میں تفسیر کرتے هیں اور اگر میں عبرانی زبان جانتا تو میں بهی اس کے مفسرین میں شامل هوتا[22]-
دینوری نے ابو هریره کے بارے میں لکها هے : " چونکه ابو هریره نے کچھـ ایسی روایتیں نقل کی هیں که اس کے هم عصرساتهیوں اور اصحاب کبار میں سے کسی نے ان کو نقل نهیں کیا هے بلکه اس پر الزام لگاکر اس کی روایتوں سے انکار کیا هے اور کها هے که تم نے کیسے تنهائی میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے ان روایتوں کو سنا هے جبکه تم کبهی اکیلے آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی خدمت میں نهیں هوتے تھے[23]-"
دینوری کهتے هیں : "عائشه سختی سے اس (ابو هریره ) کا انکار کرتی تھیں[24] اور ابو هریره کو جهوٹ کا الزام لگانے والوں میں عمر ، عثمان اور علی (ع) وغیره تھے-"
ابو هریره نے رسول اکرم (ص) سے نقل کیا تها که " عورت، حیوان اور گهر کے بارے میں طیره (بد شگونی ) صحیح هے- " جب اس حدیث کو عائشه کے پاس نقل کیاگیا تو انهوں نے کها: " قسم اس خدا کی جس نے قرآن مجید کو ابو القاسم (ص) پر نازل کیا هے ، جو کوئی اس حدیث کو پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے نسبت دیدے ، اس نے جهوٹ بولا هے ، بلکه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا هے: " اهل جاهلیت کهتے تھے ، طیره (بد شگو نی ) حیوان ، عورت اور گهر میں هے –"
حضرت علی علیه السلام فر ماتے تهے : " ابوهریره سب سے جهوٹا انسان هے –" اور ایک دوسری جگه پر فر مایا : " رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم پر جهوٹ کی نسبت دینے والوں میں سب سے جهوٹا شخص ابوهریره تها- " کهتے هیں که ایک دن ابوهریره نے کها : " حدثنی خلیلی، میرے دوست نے میرے لئے حدیث نقل کی – " حضرت علی علیه السلام نے فوراً اس کے جواب میں فر مایا : " متی کان النبی خلیلک ، رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کب تیرے دوست تهے"[25] ؟ !
ابو جعفر اسکافی نقل کرتے هیں : " معاویه نےصحابیوں اور تابعین کے ایک گروه کو اکسایا تاکه علی علیه السلام کے خلاف قبیح اور منفی احادیث گهڑلیں ، صحابیوں میں سے ابو هریره ، عمر بن عاص ، مغیرۃ بن شعبه اور تابعین میں سے عروۃ بن زبیر تھے جنهوں نے یه کام اپنے ذمه لیا [26]–"
اس سلسله میں ابو هریره کے بارے میں دو الگ کتا بیں تالیف کی گئی هیں :
١- " ابو هریره "، تالیف سید شرف الدین عاملی – مذکوره سوال کے سلسله میں اس کتاب کے صفحه نمبر ١٣٦، ١٦٠ اور ١٨٦کی طرف رجوع کیا جاسکتا هے-
٢- " شیخ المضیره ابو هریره " تالیف ، محمود ابوریه مصری-

[1] - الشیخ محمود ابو ریه ، شیخ المضیره ابو هریره ، ص١٠٣; الشیخ محمود ابوریه ، اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ، ص١٩٥; سید شرف الدین موسوی عاملی ،ابوهریره ،ص١٣٦-
[2] - ایضاً-
[3] - فتح الباری ،ج٧،ص٦٢-
[4] - ثعالبی ، ثمار القلوب فی المضاف والمنسوب ،ص ٨٧- ٧٦-
[5] - محمود ابوریه ، اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠٠-
[6] - الشیخ محمود ابو ریه ، شیخ المضیره ، ابو هریره ، ص١٢٠-
[7] - ابن حجر ، فتح الباری ، ج٢،ص١٦٧اس نے کها هے که ابوهریره نه حدیث لکهتاتها اور نه حافظ قرآن تھا)
[8] - صحیح بخاری ، ج٢، کتاب بدی الخلق ص ١٧١; مسلم بن حجاج نیشا بوری ، صحیح مسلم ، ج١،ص٣٤; ابن ابی الحدید معتزلی ، شرح نهج البلاغه ، ص٣٦٠; ذهبی ، سیر اعلام النبلاء ، ج٢، ص ٤٣٣و ٤٣٤; متقی هندی ، کنز العمال ، ج٥، ص٢٣٩ ;ح ٤٨٥٧;امام ابو جعفر اسکافی ، به نقل از شرح نهج الحمیدی ، ج١،ص٣٦٠-
[9] - ایضاً-
[10] - محمود ابو ریه ،اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠١-
[11] - ایضاً-
[12] - شاطبی ،الموا فقاتف ج٢،،ص٢٣-
[13] - محمود ابو ریه ،اضواء السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠٢-
[14] - سید شرف الدین موسوی عا ملی ،ابو هریره ،ص١٤٠-
[15] - شیخ احمد شاکر،شرح الفیۃ السیوطی ،ص٣٥-
[16] - ایضاً-
[17] - محمود ابو ریه اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠٢ و٢٠٣-
[18] - ابن کثیر ، البدایۃ والنهایۃ ،ج٨،ص١٠٩; ابن قتیبه دینوری ،تاویل مختلف الحدیث ،ص٥٠و ٤٨-
[19] - محمود ابو ریه اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠٧-
[20] - ذهبی طبقات الحفاظ ، به نقل از محمود ابوریه، اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠٧-
[21] - محمود ابو ریه اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠٧-
[22] - ایضاً-
[23] - دینوری تاویل مختلف الحدیث ،ص٥٠-
[24] - ایضاً ،ص٤٨-
[25] - اضواء علی السنۃ المحمدیۃ ،ص٢٠٤-
[26] - محمد عبده ،شرح نهج البلاغه ،ج١،ص٣٥٨-

عمر بن خطاب نے کچھ پتھر جمع کئے اور مسجد کے صحن میں رکھ کر ان پر نماز پڑھی

سجده کی حقیقت وهی خضوع،تزلیل، رجحان وغیره هے- سجده واجبات میں سے هے، کیونکه ارشاد الهیٰ هے: " اے ایمان والو؛ رکوع و سجود بجا لاو۔ ۔ ۔ ۔ "
یهاں پر ایک نکته پر توجه کرنا ضروری هے ، وه یه هے که شیعه خاک پر سجده کرتا هے نه خاک کے لئے، کیونکه شیعه علماء کا اس بات پر اتفاق هے که خدا کے علاوه کسی کے لئے سجده کرنا جائز نهیں هے بلکه شرک هے۔
بعض اوقات سوال کیا جاتا هے که صرف خاک پر کیوں سجده کرتے هو؟ اس کا جواب یه هے که هم اس مسئله میں پعغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی سیرت کی پیروی کرتے هیں، کیونکه اهل سنت کی قابل اعتبار کتابوں اور مصادر میں آیا هے که سجده خاک پر کرنا چاهئیے اس کے بعد ان چیزوں پر سجده کرنا چاهئیے جو خاک سے اگتی هیں- - - البته ان چیزوں کے علاوه جو عام طور پر پهننے اور کھانے میں استعمال هوتی هیں – لیکن اضطراری حالت میں لباس اور پهننے کی چیزوں پر بھی سجده کیا جا سکتا هے-
یهاں پر هم هر قسم کے لئے ایک ایک روایت بیان کرنے پر اکتفا کرتے هیں اور اس کی  وضاحت، تفصیلی جواب پر چھوڑتے هیں-
۱۔ خاک پر سجده:
امام مسلم اپنی کتاب "صحیح مسلم " میں نقل کرتے هیں: " خداوند متعال نے تمام زمین کو همارے لئے سجده گاه اور اس کی خاک کو پانی دستیاب نه هونے کے وقت همارے لئے پاک کرنے والی چیز قرار دیا هے-"
۲۔ زمین سے اگنے والی چیزوں پر سجده:
امام بخاری اپنی کتاب "صحیح بخاری" میں یوں نقل کرتے هیں: " ام سلیم نے رسول خدا (ص) سے درخواست کی که ان کے گھر آکر وهاں پر نماز پڑھیں، تاکه وه اس جگه کو همیشه کے لئے نماز کی جگه قرار دے- رسول خدا (ص) نے ام سلیم کی درخواست کو منظور فرمایا اور ان کے گھر تشریف لائے، ان کے گھر میں موجود ایک چٹائی کو پانی سے تر کر کے اس پر نماز پڑھی، ام سلیم نے پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ نماز پڑھی اور اس جگه کو اپنے لئے نماز کی جگه قرار دیا-
۳۔ اضطراری حالت میں لباس پر سجده:
امام بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا هے که : " هم (مسلمان) پیغمبر (ص) کے ساتھ نماز پڑھ رهے تھے اور سجده کے جگه کے گرم هونے کی وجه سے اپنے پیراهن کے ایک حصه کو سجده کی جگه پر رکھ کر اس پر سجده کرتے تھے-"
اس بنا پر معلوم هوتا هے که شیعه، اهل سنت کی قابل اعتبار کتابوں میں درج سنت رسول الله (ص) پر عمل کرتے هیں-
جو سوال باقی رهتا هے وه یه هے که شیعه کیوں تربت امام حسین علیه السلام پر سجده کرنے کی تاکید کرتا هے؟
اس سوال کے جواب میں کهنا چاهیئے: اولاً: امام حسین علیه السلام کی تربت اور خاک دوسری تربتوں کے مانند هے اور یه خاک دوسری خاکوں کی به نسبت من حیث خاک کوئی خصوصیت نهیں رکھتی هے-
ثانیاً : تربت امام حسین علیه السلام پر سجده کرنا واجب نهیں هے، بلکه مستحب هے-
ثالثاً : اهل بیت علیهم السلام نے تاکید فرمائی هے که تربت امام حسین علیه السلام پر سجده کرنے میں ثواب هیں-
رابعاً: امام حسین علیه السلام کی خاک اور تربت بهت سے اعتقادی، جهادی اور تاریخی مسائل کی علامت هے اور اس لحاظ سے اس سے استفاده کرنا سزاوار هے-
خاک پر سجده کرنے کے فلسفه کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام سے روایت نقل کی گئی هے: "سجده خداوند متعال کے لئے خضوع هے، اس بنا پر مناسب نهیں هے که کھانے اور پهننے کی چیزوں پر سجده کیا جائے، کیونکه دنیا کے لوگ کھانے اور پهننے کی چیزوں کے بندے هوتے هیں، جبکه سجده کرنے والا سجده کی حالت میں خدا کی عبادت اور بندگی میں هوتا هے، اس لئے مناسب نهیں هے که خدا کے بنده کی پیشانی دنیا کے بندوں کے معبود پر پڑے- خاک پر سجده کرنے کی فضیلت زیاده هے، کیونکه اس قسم کا سجده خداوند متعال کے حضور تواضع اور خضوع کا مظاهره کرنے کے لئے بهتر و سزاوار تر هے-"
تفصیلی جواب
جهالت یا دشمنی کی وجه سے شیعوں کے خلاف دشمنوں کی طرف سے هونے والا ایک زبردست الزام اور پروپیگنڑا خاک پر سجده کرنے کا مسئله هے- جبکه اگر اس مسئله کے بارے میں ، حقیقت پسندانه، انصاف پر مبنی اور هر قسم کے تعصب سے بالاتر تحقیق کی جائے، تو اس کا نتیجه بالکل اس کے برعکس نکلے گا جس کا شیعوں پر الزام لگایا جاتا هے، کیونکه شیعه خاک پر سجده کرتے هیں ، نه خاک کے لئے- سجده دو قسم کا هوتا هے، ایک کسی چیز کے لئے سجده اور دوسرا کسی چیز پر سجده-
بیشک سجده کی پهلی قسم شرک کی حالات میں سے ایک حالت هے اور شیعه اس قسم کے سجده کو حرام جانتے هیں، کیونکه اس قسم کا سجده غیر خدا کے لئے هوتا هے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے زیاده برهان و دلیل کی ضرورت نهیں هے- اس سلسله میں هم آپ کو شیعه علماء کے فتاویٰ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے هیں-
مسئله اور موضوع کی حقیقت واضح هونے کے لئے هم اس پر آگے بحث و تحقیق کریں گے-
سجده کی تعریف:
لغت میں سجده کے معنیٰ فروتنی اور انکساری هے شرع مقد میں اس کے معنی اپنی پیشانی کے ایک حصه کو اس حالت میں زمین یا کسی چیز پر رکھنا هے که پیشانی اور اس چیز کے درمیان کوئی فاصله یا چیز حائل نه هو جس پر سجده کیا جاتا هے- اس کی دلیل ایک روایت هے، جس میں کها گیا هے که: " سجده کرتے وقت اپنی پیشانی کو زمین پر رکھنا چاهئیے اور تیزی کے ساتھ ( صرف کوے کی زمین پر چونچ مارنے کے مانند [1] ) زمین سے چھونے پر اکتفا نهیں کرنا چاهئیے-
اس کے علاوه اس سلسله میں روایت نقل کی گئی هے که: " هم نے رسول خدا ( ص ) کی خدمت میں اپنے هاتھ اور پیشانی کے بارے میں مکه اور مدینه کی زمین کی حرارت اور گرمی کے بارے میں شکایت کی اور رسول خدا ( ص ) نے هماری شکایت کا کوئی مثبت جواب نهیں دیا [2] –"
تمام فقها اور علماء کے مطابق سجده واجب هے، کیونکه خداوند متعال کا ارشاد هے: " ایمان والو؛ رکوع کرو، سجده کرو۔ ۔ ۔ ۔ [3] "
مسئله کا فقهی هونا:
واضح هے که یه موضوع ( سجده ) فقهی مسائل میں سے هے اور یه کلامی مسائل میں سے نهیں هے، کیونکه سجده کا تعلق اور رابطه مکلف کے فعل سے هے- فقهی مسائل میں ( شیعوں اور سنیوں کے هاں ) بهت سے اختلاف پائے جاتے هیں- اس کی بهترین دلیل یه هے که خود مزهب اهل سنت چار مزاهب میں تقسیم هوتا هے اور یه چار مزاهب بهت سے فرعی اور فقهی مسائل میں آپس میں گونا گوں اختلاف رکھتے هیں [4] -
سجود کے باب کی روایات:
سجود کے باب میں نقل کی گئی روایتوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا هے:
۱۔ وه روایتیں، جو زمین پر سجده کرنے کی تاکید کرتی هیں-
۲۔ وه روایتیں جو گھاس ، جیسے چٹائی وغیره پر سجده کرنے کی طرف اشاره کرتی هیں-
۳۔ وه روایتیں، جو پیراهن ( کپڑے ) روئی یا اون پر سجده کرنے کی طرف اشاره کرتی هیں [5] -
الف- زمین پر سجده کرنے کی تاکید کرنے والی روایتیں:
اس سلسله میں کافی روایتیں موجود هیں جو احادیث کی کتابوں میں مختلف عبارتوں میں نقل هوئی هیں- هم یهاں پر ان میں سے نمونه کے طور پر چند روایتوں کو پیش کرتے هیں:
۱۔ " جعلت لی الارض مسجدا و طھوراً " " زمین میرے لئے سجده گاه اور پاک کرنے والی چیز قرار دی گئی هے- یه روایت کتاب " مسلم" میں یوں نقل هوئی هے:
" پوری زمین همارے لئے سجده کرنے کی جگه قرار دی گئی هے اور اس کی خاک همارے لئے پاک کرنے والی چیز هے، جبکه پانی دستیاب نه هو-"
سنن ترمزی میں یوں آیا هے " تمام زمین میرے لئے مسجد اور طهور قرار دی گئی هے-"
بیهقی کے کلام میں یوں نقل کیا گیا هے: " زمین میرے لئے طهور ( پاک کرنے والی ) اور مسجد ( سجده کرنے کی جگه ) قرار دی گئی هے-"
بیهقی کے کلام میں یه عبارت بھی پائی جاتی هے : " زمین میرے لئے پاک اور مسجد قرار دی گئی هے، جهاں پر نماز کا وقت آئے میں نماز پڑھتا هوں، جس طرح بھی هو [6] -"
۲۔ ابوذر نقل کرتے هیں که رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا: " زمین تیرے لئے سجده کرنے کی جگه هے- پس جهاں پر بھی نماز کا وقت پهنچے، نماز کو پڑھنا [7] -"
۳۔ ابن عباس کهتے هیں که : پیغمبر ( ص ) نے پتھر پر سجده کیا [8] -"
۴۔ ابو سید خدری نقل کرتے هیں: " میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا که رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کی پیشانی اور بینی پر مٹی کے آثار تھے [9] -"
۵۔ جابر بن عبد الله کهتے هیں: " میں رسول خدا ( ص ) کے ساتھ ظهر کی نماز پڑھ رها تھا، گرمی اور حرارت کی شدت کی وجه سے میرے هاتھ میں پتھر کا ایک ٹکڑا تھا تاکه سرد هو جائے اور میں اس پر سجده کروں-"
۶۔ انس بن مالک کهتے هیں: " هم سخت گرمی میں پیغمبر اکرم ( ص ) کے ساتھ نماز پڑھ رهے تھے، هم میں سے هر ایک، ایک پتھر اٹھا کے هاتھ میں رکھتا تھا تاکه یه پتھر ٹھنڈا هو جائے، جب یه ٹھنڈا هوتا تھا، اس کو زمین پر رکھ کر اس پر سجده کرتے تھے [10] -"
۷۔ عمر بن خطاب کهتے هیں: " هم ایک برسات کی رات کو فجر کی نماز کے لئے گھر سے نکلے، چونکه زمین پر کیچڑ تھی، اس لئے هم میں سے هر ایک نے کچھ پتھر جمع کئے اور مسجد کے صحن میں رکھ کر ان پر نماز پڑھی، جب پیغمبر ( ص ) اس مسئله کے بارے میں متوجه هوئے تو آپ ( ص ) نے فرمایا: کیا اچھی چیز هے، اس کے بعد پتھر پر سجده کر کے نماز پڑھنا شروع هو گیا [11] -"
۸۔ عیاض بن عبد الله قرشی نقل کرتے هیں: " جب پیغمبر ( ص ) نے دیکھا که ایک شخص اپنے سر پر رکھے عمامه کے ساتھ سجده کر رها هے، آپ ( ص ) نے اس سے اشاره فرمایا که عمامه کو پیچھے هٹا کر پیشانی کو سجده کی جگه پر رکھیں [12] -"
یه ان بیشمار روایتوں سے چند نمونے هیں، جن میں خاک اور زمین پر سجده کرنے کی تاکید کی گئی هے [13] -
بیهقی کهتے هیں: " ۔ ۔ ۔ ۔ اگر سجده کپڑے اور لباس پر جائز هوتا، تو اس کی طرف روایتوں میں اشاره هوتا، کیونکه اس پر سجده کرنا، پتھر اٹھا کر اسے ٹھنڈا کرکے اس پر سجده کرنے کی به نسبت آسان تر تھا [14] -
ب- وه روایتیں، جو کسی عزر کے بغیر زمین کے علاوه دوسری چیزوں پر سجده کرنے کو جائز قرار دیتی هیں:
۱۔ انس بن مالک نقل کرتے هیں که ان کی جدّه ( ملیکه ) نے رسول خدا ( ص ) کے لئے ایک کھانا پکایا اور آپ ( ص ) کو دعوت دیدی- پیغمبر ( ص )   نے دعوت قبول فرمائی اور وه کھانا تناول فرمانے کے بعد فرمایا: " اٹھئے اور میرے ساتھ نماز پڑھئے-" انس بن مالک کهتے هیں : " میں اٹھا اور چٹائی، جو زمانه گزرنے کے ساتھ سیاه هو چکی تھی، پر پانی چھڑک کر اسے مرطوب کیا- پیغمبر ( ص ) اس پر کھڑے هوئے- میں آنحضرت ( ص ) کے پیچھے اور میرے پیچھے وه بوڑھی عورت ( یعنی میری جده ) نماز کے لئے کھڑی هو گئی [15] -
اس کے علاوه انس بن مالک سے ایک اور روایت اس مضمون سے نقل هوئی هے: " میری پھپھیوں میں سے ایک نے پیغمبر ( ص ) کے لئے کھانا پکایا اور آنحضرت ( ص ) کی طرف مخاطب هو کر کها: " میں چاهتی هوں که آپ میرے گھر میں کھانا تناول فرمائیے اور وهاں پر نماز پڑھیں؛ انس کهتے هیں: " پیغمبر ( ص ) تشریف لاے، همارے گھر میں ایک بڑی چٹائی تھی، آنحضرت ( ص ) نے حکم دیا اور هم نے اس چٹائی کو کمرے کے ایک کونے میں پھیلایا اور اس پر پانی چھڑکایا اور پھر جاڑو دے دیا، اس کے بعد پیغمبر ( ص ) اس پر نماز کے لئے کھڑے هوئے اور هم نے آپ ( ص ) کے پیچھے نماز پڑھی [16] -"
اس کے علاوه انس بن مالک نے روایت نقل کرتے هوئے کها هے: " ام سلیم نے رسول خدا ( ص ) سے درخواست کی تاکه اس کے گھر تشریف لا کر نماز پڑھیں اور وه اس جگه کو همیشه کے لئے نماز پڑھنے کی جگه قرار دے؛ رسول خدا ( ص ) نے ام سلیمه کی دعوت قبول کی، اور اس کے گھر تشریف لائے، وهاں موجود ایک چٹائی کو پانی سے مرطوب کیا اور آنحضرت ( ص ) نے اس پر نماز پڑھی، ام سلیمه نے پیغمبر ( ص ) کے ساتھ نماز پڑھی اور اس جگه کو اپنے لئے نماز کی جگه قرار دیا [17] -"
۲۔ ابن عباس نقل کرتے هیں: " رسول خدا ( ص ) ایک چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے [18] -"
۳۔ ابو سعید خدری کهتے هیں: " میں پیغمبر ( ص ) کی خدمت میں حاضر هوا، دیکھا که آنحضرت ( ص ) چٹائی پر نماز پڑھتے تھے اور اسی چٹائی پر سجده کرتے تھے [19] -"
۴۔ پیغمبر ( ص ) کی بیوی میمونه نقل کرتی هیں: " رسول خدا ( ص ) نماز کی حالت میں تھے اور میں آپ ( ص ) کے پاس اس طرح تھی که آپ ( ص ) کا پیراهن مجھ سے لگ جاتا تھا، جب آپ ( ص ) سجده بجا لاتے تھے، چٹائی پر نماز پڑھتے تھے [20] -"
اس سلسله میں بهت سی روایتیں نقل کی گئی هیں، خلاصه کے پیش نظر هم ان هی روایتوں پر اکتفا کرتے هیں-
ج۔ وه روایتیں جو عزر کی حالت میں زمین کے علاوه دوسری چیزوں پر سجده کرنا جائز بتاتی هیں:
اس سلسله میں هم انس بن مالک کی صرف ایک حدیث بیان کرنے پر اکتفا کرتے هیں۔ انس کهتے هیں: " هم رسول خدا ( ص ) کے ساتھ نماز پڑھ رهے تھے- اگر هم میں سے کوئی گرمی کی شدت کی وجه سے اپنی پیشانی کو زمین پر نهیں رکھ سکتا تھا، تو هم اپنے پیراهن کو زمین پر پھیلاتے تھے اور اس پر سجده کرتے تھے-"
یه روایت اهل سنت کی مختلف کتابوں میں، من جمله صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مختلف الفاظ اور عبارتوں میں نقل هوئی هے [21] -"
هر محقق اور تلاش و کوشش کرنے والا ان احادیث کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد واضح طور پر یه نتیجه حاصل کر سکتا هے که یه تمام روایتیں اس مسئله پر متمرکز هیں که پهلے مرحله میں سجده خاک پر کیا جانا چاهئیے ، اس کے بعد زمین سے اگنے والی ان چیزوں پر کیا جانا چاهئیے جو کھا نے اور پینے میں استعمال نهیں هوتی هیں اور اس کے بعد ( اضطرار اور عزر کی حالت میں ) پیراهن ( کپڑے ) پر سجده کیا جا سکتا هے-
اس لئے ان روایات کے مطابق مکتب اهلبیت۴ کے شاگرد علماء اور فقها اهل بیت علیهم السلام کی روایتوں پر عمل کرتے هوئے کهتے هیں: " واجب هے که نماز کی حالت میں سجده کی جگه زمین یا زمین سے اگنے والی وه چیزیں هوں جو کھانے اور پهننے میں استعمال نهیں هوتی هیں [22] - "
لیکن یه که هم شیعه کیوں تھوڑی سی خاک و کیچڑ کو خشک کر کے اسے سجده گاه بنا کر اس پر سجده کرتے هیں؟ اس کی کچھه وجوهات هیں جن میں سے چند حسب ذیل هیں:
۱۔ پاک اور طاهر هونے کے سلسله میں اطمینان حاصل کرنے کے لئے هے، کیونکه سجده کرنے کی جگه کی شرائط میں سے ایک اس کا پاک هونا هے- اس کے علاوه اس کے مباح هونے کے بارے میں اطمینان حاصل کرنے کے لئے هے، کیونکه سجده کرنے کی جگه کی شرائط میں سے ایک اس کا مباح هونا هے-
۲۔ چونکه آج کل گھروں اور مسجد میں فرش بچھا هوا هوتا هے اور خاک مهیا نهیں هوتی هے، اس لئے هم سجده گاه پر سجده کرتے هیں-
تربت امام حسین۴ پر سجده کرنے کا فلسفه:
اس سوال کے سلسله میں که، شیعه کیوں تربت امام حسین۴ یعنی خاک کربلا پر سجده کرتے هیں؟ کهنا چاهئیے:
۱۔ شیعه فقها میں کسی فقیه کو نهیں پایا جا سکتا هے، جو اس بات کا قائل هو که خاک کربلا پر سجده کرنا واجب هے، بلکه وه کهتے هیں که هر پاک و مباح خاک پر سجده کرنا صحیح هے۔ جیسا که بیان هوا- البته وه کهتے هیں که خاک کربلا پر سجده کرنا مستحب هے [23] -
۲۔ تربت کربلا پر سجده کرنا، خاک پر سجده کرنے کا ایک نمونه هے اور خاک پر سجده کرنے کے صحیح هونے پر مسلمانوں کا بصورت اجماع اتفاق هے، لهٰزه خاک کربلا کو  زمین اور خاک سے الگ کرنے کے لئے کوئی وجه باقی نهیں رهتی هے، تاکه یه کها جائے که شیعه کیوں تربت امام حسین علیه السلام پر سجده کرنے کی بهت تاکید کرتے هیں-  حضرت امام سجاد علیه السلام پهلے امام تھے، جنھوں نے تربت امام حسین۴ پر سجده کیا- تمام ائمه اطهار علیهم السلام تربت امام حسین۴ پر سجده کرتے تھے اور اس کے مستحب هونے کی تاکید فرماتے تھے- چناچه امام جعفر صادق علیه السلام فرماتے هیں : " سید الشهدا ۴ کی تربت پر سجده کرنا ، سات پردوں کو هٹاتا هے [24] -"
۴۔ تربت سید الشهداء۴ پر سجده کرنے کے رحجان کی دلالت کے بارے میں بهت سی وجوهات هیں جو اهل علم سے پوشیده نهیں هیں- مثلاً:
الف- اعتقادی درس: عمر بن سعد نے، عاشور کے دن فجر کی نماز اپنے لشکر کے ساتھه با جماعت پڑھی لیکن اسی دن ظهر کو امام حسین علیه السلام کو شهید کر ڈالا- شیعه نماز میں تربت امام حسین۴ پر سجده کر کے اعلان کرتا هے که وه عمر بن سعد اور اس کے حاکم کی جیسی مرده اور بے روح نماز نهیں پڑھتا هے بلکه شیعه کی نماز، امام حسین۴،ان کے نانا اور باپ کے مانند هے- یه وهی چیز هے جو شیعوں میں اهل بیت۴ کی ولایت کے مفهوم کو مستحکم و پائدار بنا دیتی هے-
اس وجه سے ائمه اطهار۴ نے تربت امام حسین ۴ پر سجده کرنے کی تاکید فرمائی هے، یعنی تربت امام حسین۴ پر سجده کرنا وهی بارگاه الٰهی میں خدا کے لئے اس کے اولیاء کی پیروی کرتے هوئے تسلیم و خضوع هے-
ب۔ تاریخی درس: تاریخ گواه هے که بعض لوگوں نے انتھک کوشش کی هے تاکه غدیر کے سبق--- جس میں حضرت علی۴ کی، امام اور خلیفه کے عنوان سے بیعت کی گئی--- اور بنی امیه کے زمانه میں رونما هونے والے حادثه عاشورا کو نابود کر کے رکھه دیں-
تربت امام حسین۴ ، عاشور کے دن بنی امیه کے ظلم و بربریت کی ایک زنده تاریخی سند هے- جبکه ظالموں نے پوری تاریخ میں آج تک، سر توڑ کوشش کی هے تاکه غدیر اور عاشور کی تعلیمات اور درس کو نابود کر کے رکھدیں-
لیکن ائمه اطهار و اهل بیت علیهم السلام نے عاشورائے حسینی کے حادثه کو مرثیه خوانی، عزاداری، گریه و زاری اور زیارت وغیره کے ذریعه لوگوں کے دل و جان میں مستحکم و پائیدار بنا کر ان کے اور قیام عاشورا کے درمیان رابطه برقرار کیا هے- اس طرح تربت امام حسین۴ کے مسئله کی اهمیت اور تاکید واضح هو جاتی هے-
ج- جهاد و شهادت کا درس: تربت امام حسین۴ ایک ایسی چیز هے جو اکثر مسلمانوں میں انقلاب و جهاد کے جوش و جزبه کو ابھار سکتی هے اور یه وهی چیز هے، جس کی امت اسلامیه کو ضرورت هے- خاص کر آج کی دنیا میں، جس میں هم زندگی بسر کرتے هیں اور اسلامی معاشره مختلف جنگوں سے دوچار هے- تربت امام حسین۴ سے رابطه برقرار کرنا خاک کے ایک ٹکڑے سے رابطه نهیں هے بلکه ایک متحرک طاقت اور جهاد و انقلاب کے مفهوم سے واسطه اور رابطه برقرار کرنا هے-
اس کے علاوه تربت امام حسین۴ سے همیں گوناگوں اخلاقی، سیاسی، عقیدتی اور دینی سبق حاصل هوتے هیں- اس سلسله میں مفصل بحث و تحقیق کی گئی هے، جسے امام حسین علیه السلام کی تحریک اور قیام سے مربوط کتابوں میں پایا جا سکتا هے [25] -"
آخر پر هم کهتے هیں که: شیعه نے رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کی تعلیمات اور آپ ( ص ) کی سنت اور طریقه کار اور آپ ( ص ) کے قابل یقین افعال و کردار پر پابند رکھه کر اور دین میں مشکوک چیزوں، جیسے عزر کے بغیر پیراهن اور فرش پر سجده کرنے سے پرهیز کر کے کونسا گناه کیا هے؟
اس موضوع کے بارے میں بهت سی روایتیں نقل کی گئی هیں، جن میں کھانے اور پهننے کی چیزوں پر سجده کرنے کی ممانعت کے فلسفه کی طرف اشاره کیا گیا هے، ان میں سے ایک هشام بن حکم کی مندرجه ذیل روایت هے:
هشام کهتے هیں که: میں نے امام صادق۴ سے پوچھا: " مهربانی کر کے همیں ان چیزوں کے بارے میں مطلع فرمائیے، جن پر سجده کرنا جائز هے اور جن پر سجده کرنا جائز نهیں هے-" امام صادق۴ نے فرمایا: " زمین اور زمین سے اگنے والی چیزوں—جو کھانے اور پهننے میں استعمال نهیں هوتی هوں--- کے علاوه کسی چیز پر سجده جائز نهیں هے-"
هشام کهتے هیں: " میں نے عرض کی : میری جان آپ پر قربان هو، اس امر کی علت کیا هے؟ " امام۴ نے فرمایا: " کیونکه سجده خدا کے لئے خضوع هے، لهٰزا سزاوار نهیں هے که کھانے اور پهننے کی چیزوں پر سجده کیا جائے، کیونکه لوگ کھانے اور پهننے کی چیزوں کے بندے هوتے هیں، جبکه سجده کرنے والا اپنے سجده میں خدا کی عبادت اور بندگی میں مشغول هوتا هے، پس سزاوار نهیں هے که وه اپنی پیشانی کو دنیا کے مغرور بندوں کے مادی معبود پر رکھے- خاک پر سجده کرنے کی زیاده فضیلت هے، کیونکه اس قسم کا سجده خداوند متعال کے تواضع و خضوع کے لئے سزاوار تر هے [26] -

[1]   ابن حبان، صحیحه، ج 1، ص 264.
[2]   مسلم، صحیح، ج 3، ص 312؛ ابن ماجه سنن، ج 2، ص 360.
[3]   حج، 77.
[4]   مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ملاخطه هو : الفقه علی المذاهب الاربعة، الجزیری، عبدالرحمن.
[5]   علامه امینی، السجود علی التربة الحسینیة، ص 13.
[6]   صحیح البخاری، ج 1، ص 113؛ صحیح مسلم، ج 2، ص 64؛ صحیح النسائی، ج 2، ص 32؛ صحیح ابی داود، ج 2، ص 114؛ السنن الکبری، ج 2، 433، 435.
[7]   صحیح النسائی، ج 2، ص 37.
[8]   حاکم نے اپنی مستدرک میں اس روایت کو نقل کیا هے اور ذهبی نے اس کی تصحیح کی هے ، ج 3، ص 473.
[9]   صحیح البخاری، ج 1، ص 2، 198، 163، 253، 256، 258، 259؛ سنن ابی داود، ج 1، ص 143 – 144؛ السنن 10 لکبری، ج 2، 106.
[10]   السنن الکبری، ج 2، 106.
[11]   سنن ابوداود؛ ج 1، ص 75؛ السنن الکبری، ج 2، ص 440.
[12]    السنن الکبری، ج 2، ص 105.
[13]   مزید معلومات حاصل کرنے حاصل کرنے کے لئے ملاخطه هو اس عنوان میں   "ما هی فلسفة السجود علی التربة"؟ سؤال 508 عربی (سایت: 554).
[14]   مسند احمد حنبل، ج 1، ص 321؛ السنن الکبری، ج 2، ص 105.
[15]   بخاری، صحیحه، ج 1، ص 101؛ صحیح النسائی، ج 2، ص 57.
[16]   ابن ماجه، سنن، ج 1، ص 255.
[17]   صحیح النسائی، ج 2، ص 57.
[18]   ترمذی، صحیح، ج 2، ص 126.
[19]   صحیح مسلم، ج 2، ص 62، 126.
[20]   بخاری، صحیح، ج 1، ص 101؛ مسلم، صحیح، ج 2، ص 128.
[21]   بخاری، صحیح، ج 1، ص 101؛ مسلم، صحیح، ج 2، ص 109؛ ابن ماجه، السنن، ج 1، ص 321؛ ابوداود، السنن، ج 1، ص 106.
[22]   ملاخطه هو : عروة الوثقی، ج 1، باب السجود، مایصح السجود علیه.
[23]   ملاخطه هو : تحریر الوسیلة، امام خمینی، ج 1، باب مایصح السجود علیه.
[24]   وسائل الشیعة، ج 6، ص 23.
[25]   عبدالمنعم حسن، بنور فاطمة اهتدیت، ص 203 – 204؛ به نقل از الفریفی، سید عبدالله، التشیع، ص 206
[26]   من لایحضره الفقیه، ج 1، ص 273.

کیا حضرت علی علیه السلام کا یه کلام که: " مجھے چھوڑئےاورمیرے علاوه کسی دوسرے کی تلاش کیجئے-" منصب امامت کے الهی هو نے کے اعتقاد سےتضاد نهیں رکھتا هے؟

جواب
یه بات مضبوط اور مستحکم دلائل سے ثابت هو چکی هے که حضرت علی علیه السلام کی امامت وولایت کا منصب خداوند متعال کی طرف سے منتخب کیا گیا هے – لیکن امیرالمٶمنین علی علیه السلام کے اس کلام کے بارے میں که آپ (ع) نے فر مایا : " مجھے چھوڑ دیجئے اور میرے علاوه کسی اور کی تلاش کیجئے-" قابل ذکر بات هے که اگر چه امامت کا شرعی هو نا نصب الهی کے ذریعه هو تا هے، لیکن اس کو  عملی جامه پهنانے اور مقبولیت کے لئے بیعت اور لوگوں کی طرف سے قبول کیا جانا شرط هے- امام علیه السلام اس خطبه میں (جس کے ابتدائی حصه کا صرف تھوڑا سا حّصھ آپ نے نقل کیا هے)اشاره فر ماتے هیں که خلافت کے لئے ابھی عملی جامه پهنانے اور مقبولیت کے شرائط پورے نهیں هوئے هیں اور کچھـ رکاوٹیں پائی جاتی هیں ، اور کچھـ مطلب بیان کر کے لو گوں پر حجت تمام کر نا چاهتے هیں، رکاوٹوں کو دور کر نا چاهتے هیں تاکه لوگوں میں مکمل آماد گی پیدا هو جائے اور مخالفین کے لئے کوئی عذر و بهانه باقی نه رهے-
حضرت علی علیه السلام نے بعد والے جملے میں فرمایا هے –" چونکه همیں کچھـ ایسے حوادث وواقعات کا سامنا هے جو مختلف هیں اور گونا گوں فتنوں پر مشتمل هیں اور مختلف چهرے هیں جن کے دل اس بیعت پر ثابت قدم نهیں هوں گے اور عقلیں اس عهد و پیمان پر مستحکم نهیں رهیں گی –حقیقت کے چهرے پر فساد کے کالے بادل چھائے هوئےهیں اور حق کی صراط مستقیم منهدم هو چکی هے –هوشیار رهئے !اگر میں آپ کی  دعوت کو قبول کرلوں گا تو میں اپنے علم کے مطابق عمل کروں گا اور کسی کی بات اور سرزنش کر نے والوں کی سرزنش پر کان نهیں دهروں گا-"
تفصیلی جوابات
منصب امامت کا الهی هو نا:
شیعوں کا اعتقاد هے که امامت ایک دینی منصب هے اور الهی تشریع و انتصاب کے تابع هے نه کھ  ایک دنیوی سلطنت اور اجتماعی عوامل کے تابع هے-
مسلمان مورخین اور سیرت لکھنے والوں نے لکھا هے که :" رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم جب قبیله " بنی عامر بن صعصعه" کے پاس تشریف لے گئے تاکه انھیں دین خدا کی طرف دعوت دیدیں اور ان سے رسالت کے نفاذ میں مدد طلب کریں تو اس قبیله کے " بحیره بن فراس" نامی ایک شخص نے پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے جواب میں کها:" اگر هم آپ (ص) کی پیروی کریں اور خدا وند متعال آپ (ص) کو اپنے دشمنوں پر فتح و کامیابی عطا کرے، تو کیا آپ (ص) اپنے بعد اپنی خلافت کو همارے لئے چھوڑ دیں گے؟
پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: "الا مر الله یضعه حیث یشاء" [1]
" امرخدا، خدا کےهاتھـ میں هے ( نه کھ  میرے اختیار میں ) جهاں چاهے اسے قرار دے گا-"
پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے اس کلام سے صاف ظاهر هے که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی جانشینی ایک الهی منصب هے اور یه خدا اور اس کے رسول صلی الله علیه وآل وسلم کے حقوق میں سے هے ، نه کھ  لوگوں کا حق هے – اس بناپر خود پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کو اپنے جانشین معین کر نے میں براه راست کوئی اختیار نهیں تھا،بلکه آپ(ص) نے اسے خدا وند متعال کے حکم  سے انجام دیا هے- اور حقیقت میں ختم نبوت کے فلسفه کا امام معصوم کے انتصاب سے رابطه هے اور ایسے هی امام کی موجود گی کے پیش نظر پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآل وسلم کے بعد اسلامی معاشره کی مصلحتیں پوری هوتی هیں- [2]
یهاں پر اس امر کو تفصیلی طور پر ثابت کر نے کی گنجائش نهیں هے لیکن اجمالی طورپر اس کی طرف اشاره کر نے پر اکتفا کیا جاتا هے- اس کی تفصیلات علامه امینی کی کتاب " الغدیر" اور علامه سید شرف الدین کی کتاب " المراجعات" میں موجود هیں –
اب هم یهاں پر قرآن مجید کی چند ایسی آیات کی طرف اشاره کرتے هیں جو اس منصب کے الهی هو نے اور حضرت علی علیه السلام کا انتصاب خدا وند متعال کے حکم سے انجام پانے پر دلالت کرتی هیں:
١- الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا-" [3]
" آج میں نے تمھارے لئے دین کو کامل کر دیا هے اور اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا هے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیده بنادیا هے-"
شیعه دانشوروں اور مفسرین کے علاوه ، اهل سنت محدثین اور مفسرین کی ایک تعداد نےبھی پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے کئی صحابیوں کے سلسلے سے چند احادیث نقل ک ی هیں جن سے معلوم هوتا هے که مذکوره آیه شریفه غدیر خم کے دن، رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کے ذریعه حضرت علی علیه السلام کی ولایت کا اعلان کر نے کے بعد نازل هوئی هے-
خطیب بغدادی نے صحیح سند کے ساتھـ صحابی پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم ابوهریره سے نقل کیا هے که انهوں نے کها: " جوشخص ١٨ ذی الحجه کو روزه رکھے گا اس کے نام ساٹھـ دن کے روزے لکھے جاتے هیں – اور وه دن غدیر خم کا دن هے ، جب پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے حضرت علی علیه السلام کے هاتھـ کو پکڑ کر فر مایا : " الست ولی المٶمنیں؟ " قالوا بلی یا رسول الله – قال : " من کنت مولاه فعلی مولاه" فقال عمر بن الخطاب : بخ بخ لک یا ابن ابی طالب اصبحت مولای و مو لا کل مسلم ، فانزل الله :الیوم اکملت لکم دینکم-" [4]
" کیا میں مومنوں کا پیشوا اور سر پرست نهیں هوں ؟ انهوں نے کها: جی هاں یا رسول الله (ص) پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا : " جس کا میں مولاهوں اس کے علی بھی مولا هیں – اس کے بعد عمر بن خطاب نے کها : " مبارک هو اے فرزند ابیطالب که آپ میرے اور تمام مسلمانوں کے مولا هو گئے- اس کے بعد بلا فاصله خدا وند متعال نے یه آیت نازل فر مائی: " الیوم اکملت لکم دینکم ---"
مذکوره حدیث کو حاکم حسکانی حنفی ، ابن عساکر دمشقی ، خوارزمی ، ابن مغازلی ، سبط ابن جوزی حنفی اور ابراهیم بن محمد جو بنی نے بھی نقل کیا هے- [5]
پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے ایک اور صحابی ابو سعید خدری سے بھی  مذکوره مضمون پر مشتمل ایک صحیح حدیث نقل کی گئی هے- وه کهتے هیں : " پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے لوگوں کو علی علیه السلام کی ولایت کی دعوت دی اور ان کے بازو کو پکڑ کر بلند کیا – ابھی لوگ متفرق نهیں هوئے تھے که یه آیت نازل هوئی : " الیوم اکملت لکم دینکم ---" اس کے بعد رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا : "دین کے کامل هو نے اور نعمت کے تمام هو نے پر اور میری رسالت اور میرے بعد علی علیه السلام کی ولایت پر الله اکبر!" [6]
جیسا که هم نے مشاهده کیا که ابو هریره اور ابو سعید خدری کی حدیث میں اس بات کی وضاحت کی گئی هے که اکمال دین کی آیت غدیر خم میں اور حضرت علی علیه السلام کی امامت و ولایت کے بارے میں نازل هوئی هے-
٢- " یاایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته-" [7]
" اے پیغمبر!آپ اس حکم کو پهنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا هے اور اگر آپ نے یه نه کیا تو گو یا ا ُ س کے پیغام کو نهیں پهنچایا-"
اس آیه شریفه کے بارے میں بھی شیعه اور اهل سنت نے بعض روایتیں نقل کی هیں که یه آیت غدیر کے دن حضرت علی علیه السلام کی ولایت کے بارے میں نازل هو ئی هے- [8]
٣-انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوه ویٶتون الزکوه وهم راکعون- [9]
" ایمان والو! بس تمهارا ولی الله هے اور اس کا رسول(ص) اور وه صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے هیں اور حالت رکوع میں زکوه دیتے هیں-"
شیعوں کی صحیح روایت کے مطابق ، یه آیه شریفه بھی حضرت علی علیه السلام کی شان میں نازل هوئی هے اور اهل سنت نے بھی اس سلسله میں بهت سی روایتیں نقل کی هیں اور اس کی  شان نزول کو قبول کیا هے- [10] خاص کر مذکوره آیت میں جو لفظ "ولی" استعمال هوا هے، اسے دوست کے معنی میں نهیں لیا جاسکتا هے، کیونکه دوستی اور یاری تمام مسلمانوں سے متعلق هے، نه کھ اس شخص سے  جو رجوع کی حالت میں زک ٰ وه دیتا هے-
مذکوره آیتوں کے پیش نظر اور ان کو پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم ک ی اس حدیث متواتر " من کنت مولاه فهذا علی مولاه" کے ساتھـ منسلک کر نے سے واضح هو جاتا هے که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی جانشینی اور امامت کا مقام ایک الهی منصب هے اور یه منصب خدا وند متعال کے ذریعه معین هو نا چاهئے نه یه که اس کا صرف ظاهری اور دنیوی حکومت کا پهلو هو- [11]
امیرالمٶمنین حضرت علی علیه کے کلام " دعونی والتمسوا غیری "کے معنی:
امیرالمٶمنین حضرت علی علیه السلام کے اس کلام که" مجھے چھوڑیئے اور کسی دوسرے کی تلاش کیجئے-"کے معنی کے بارے میں قابل ذکر بات هے که اگر چه امامت کا شرعی جواز خداوند متعال کی طرف سے معین هو تا هے لیکن اس کو عملی جامه پهنانے اور مقبو لیت حاصل کر نے کے لئے لوگوں کی بیعت شرط هے –امام علی علیه السلام اس خطبه میں (جس کے ابتدائی مطالب میں سے ایک مختصر حصه نقل کیا گیا هے) اشاره فر ماتے هیں که خلافت کو عملی جامه پهنانے اور اس کی مقبولیت کے شرائط ابھی پورے نهیں هوئے هیں اور کچھـ رکاوٹیں موجود هیں –آپ(ع) ان مطالب کو بیان کر کے لوگوں پر حجت تمام کر نا چاهتے هیں  اور رکاوٹوں کو هٹانا چاهتے هیں تاکه لو گوں میں مکمل طور پر آماد گی پیدا هو جائے اور مخالفین کے لئے کوئی عذر و بهانه باقی نه رهے-
کیونکه حضرت (ع)بعد والے جمله میں فر ماتے هیں: " چونکه همیں کچھـ ایسے حوادث اور واقعات کا سامنا هے جو مختلف هیں اور گونا گوں فتنوں پر مشتمل هیں اور مختلف چهرے هیں جن کے دل اس بیعت پر ثابت قدم نهیں هوں گے اور عقلیں اس عهد و پیمان پر مستحکم نهیں رهیں گ ی – حقیقت کے چهرے پر فساد کے کالے بادل چھائے هو ئے هیں اور حق کی صراط مستقیم منهدم هو چکی هے- هوشیار رهئے! اگر میں آپ کی  دعوت کو قبول کر لوں گا تو میں اپنے علم کے مطابق عمل کروں گا اور کسی کی بات اور سرزنش کر نے والوں کی سر زنش پر کان نهیں دهروں گا-" [12]
عالِم اهل سنت ، ابن ابی الحدید نے نهج البلاغه کی شرح میں لکھا هے : " امامیه نے اس جمله کے بارے میں کها هے : جو لوگ علی(ع) کی بیعت کر نے کے لئے حضرت(ع) کے پاس آگئے تھے، یه وهی لوگ تھے جنهوں نے پهلے والے خلفاء کی بیعت کی تھی اور عثمان نے انھیں تنخواه اور تحفه تحائف سے بهره مند نهیں کیا تھا ، چونکه عثمان کے زمانه میں بنی امیه نے بیت المال کو لوٹ لیا تھا – لهذا عثمان کے قتل کے بعد ان لوگوں نے علی علیه السلا سے کها که هم آپ کی بیعت کرتے هیں ، اس شرط پر که آپ ابو بکر اور عمر کی سیرت پر عمل کریں ، کیو نکه انهوں نے بیت المال کو اپنے اور اپنے خاندان کے لئے صرف نهیں کیا هے – اسی لئے وه علی علیه السلام کی بیعت کر نا چاهتے تھے ، اس شرط پر که حضرت علی علیه السلام  بیت المال کو ابو بکر اور عمر کے مانند ان میں تقسیم کریں – اور علی علیه السلام نے اس شرط کو قبول نهیں کیا اور ان سے کها که وه کسی ایسے شخص کی بیعت کریں جو مذکوره دوخلیفوں کی سیرت پر عمل کرے گا-" [13]
ابن ابی الحدید ایک جگه پر امامیه کے قول کو نقل کر کے اپنی طرف سے تشریح کر تے هوئے کهتے هیں :" علی علیه السلام نے یهاں پر اس منصب کے لئے اپنی صلاحیت سے انکار نهیں کیا هے ، لیکن فتنه سے دوری اختیار کی هے ، تا ھم ابو بکر نے ایک جگه پر کها هے که: میں آپ لوگوں میں اس منصب کے لئے بهترین اور سزوارترین فرد نهیں هوں- [14]
علامه مجلسی نے بھی حضرت علی علیه السلام کے مذکوره قول کے بارے میں یوں فر مایا هے:
" جو شخص اس کلام کے ذره ذره پر غور وخوض کرے گا تو اسے واضح طور پر معلوم هو گا که اس کلام کے معنی کیا هیں ، چونکه حضرت علی علیه السلام نے بعد والے جملے میں فر مایا هے: " ایک ایسا امر در پیش هے که دل اسے بر داشت نهیں کر تا اور راسته نامعلوم هے –" پس حضرت علی علیه السلام کا(خلافت کو) قبول نه کر نے کا سبب رکاوٹ کا هو نا هے نه یه که وه امامت کے لئے منصوب نهیں هوئے هیں یا اس منصب و مقام کے سزاوار نهیں تھے-" [15]
وه اس روایت کی تشریح میں کهتے هیں : " اس کلام کے مخاطب وه لوگ هیں جو اس لالچ میں آکر حضرت علی علیه السلام سے حکو مت هاتھـ میں لینے کی درخواست کرتے تھے که آپ(ع) انھیں مقام و منزلت اور تنخواه و عطیات دینے میں ترجیح دیں گے ، اوریهی وجه هے که طلحه وزبیر نے دوسرے هی دن اپنی بیعت کو توڑ کر حضرت علی علیه السلام  کی  اس لئےسرزنش کی که آپ(ع) نے تمام لوگوں سے مساوی برتاٶ کیا تھا اور اسی طرح عبدالله بن عمر اور سعید بن العاص اور مروان نے اس چیز کو لینے سے انکار کیا، جو ان کے در میان تقسیم کی گئی تھی – اور حضرت علی علیه السلا م  نے ان هی افراد کو جواب دیتے هوئے فر مایا که:" مجھے چهو ڑ یئے اور کسی دوسرے سے مطالبه کیجئے " ،کیونکه حضرت علی علیه السلام ان پر اتمام حجت کر نا چاهتے تھے اور آپ (ع) نے ان کے لئے اعلان کیا که وه مسقبل میں ایسے امور سے دوچار هوں گے جو گوناگوں اور رنگ برنگ ے هوں گے اور انهیں برداشت نهیں کر سکیں گے اور آپ(ع) نے اعلان کیا که بیعت کے بعد وه ان کی لالچ کو پورا نهیں کریں گے اور کسی بھی سرزنش کر نے والے کی پروا نهیں کریں گے-" [16]
مذکوره بحث کے علاوه ، ایک اور نکته جو شیعه امامیه کے نظریه کی تائید کرتا هے ، وه امیرالمٶمنین علی بن ابیطالب کا وه کلام هے جو نهج البلاغه  میں نقل کیا گیا هے- حضرت علی علیه السلام نے اپنے اس کلام میں واضح الفاظ میں صراحت سے فر مایا هے که خلافت ان کا حق هے – مذکوره کلام کے چند نمو نے حسب ذیل هیں:
" خاندان رسالت سے کسی کا موازنه نهیں کیا جا سکتا هے اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے اهل بیت علیه السلام کی هدایت نعمت میں پرورش پائے هوئے افراد کا کوئی برابر نهیں هو سکتا هے- پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآل وسلم کے اهل بیت علیه م السلام  دین کی بنیاد اور ایمان کے مستحکم ستون هیں  - آگے بڑھے هوئے لوگوں کو پلٹنا چاهئے اور پیچھے رهے لوگوں کو ان سے جا ملنا چاهئے ،کیو نکه ولایت کے حق کی خصوصیت ان سے مخصوص هے ، اور مسلمانوں کی خلافت اور رسالت کی میراث سے متعلق پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی وصیت بھی ان هی سے متعلق هے، اس وقت ( جبکه آپ لوگوں نے خلافت کو میرے حواله کیا) حق اهل حق کو ملا هے ، اب پھر سے حق ، جو اپن ی حقیقی جگه سے دور هو چکا تھا، دوباره اپنی جگه پر لوٹ آیا هے-" [17]
امام علی علیه السلام نے مذکوره کلام میں واضح الفاظ میں فر مایا که خلافت ان کا حق هے ، لیکن یه حق اب تک اپنی جگه پر قرار نهیں پایا تھا اور اب جبکه خلافت انهیں ملی هے ، حق اپنی اصلی جگه پر قرار پایا هے-
نهج البلاغه میں ایک اور جگه پر آیا هے که:
" (شور ٰ ی کے دن) ایک شخص نے کها : فرزند ابیطالب ! تم خلافت کے لالچی بن گئے هو! میں نے اس کے جواب میں کها : " خدا کی قسم ، تم لوگ باوجودیکه پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم سے دور تر هو، زیاده لالچی هو ، بیشک میں صرف اپنے حق کا مطالبه کر تا هوں ، که تم لوگ میرے اور اس حق کے درمیان حائل اور رکاوٹ بن گئے هو، اور مجھے مسترد کر گئے هو- " [18]
مذ کوره خطبه میں ایک اور جگه پر آیا هے:
" خداوندا! میں قریش اور ان تمام لوگوں کی تیرے حضور شکایت کر تا هوں ، جنهوں نے ان کی مدد کی هے، کیونکه قریش نے میرے ساتھـ اپنے خاندانی رشتوں کوتوڑ دیا اور میرے بلند مقام و منزلت کو حقیر شمار کیا هے اور میرے حق، یعنی خلافت کا مسئله جو صرف مجھـ سے مر بوط تھا ، سے چشم پوشی کر نے میں ایک دوسرے کے ساتھـ متحد هوئے هیں-" [19]
مذکوره مطالب اور اس قسم کے دوسرے مطالب جو نهج البلاغه اور امت مسلمه کی درجه اول کی کتابوں میں درج هوئے هیں ، سے واضح طور پ ر معلوم هو تا هے که حضرت علی علیه السلام خلافت کو اپنا مسلم اور بجا حق جانتے تھے- یه وه اعتقاد هے جو خدا کی کتاب ، رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کی متواتر سنت اور علی علیه السلام کے کلام سے حاصل هو تا هے – لیکن امام علی علیه السلام کا عثمان کے بعد خلافت ک ے قبول کر نے سے  تنفر ک ے اظهار میں خاص وجوهات تھے که ان میں سے اکثر کی طرف اشاره کیا گیا-

[1]   - سیره ی ابن هشام ،ج٢، ص٦٦: البدایه والنهایه ، ابن کثیر ، ج٣،ص١٣٩-١٤٠: کتاب الثقات ، ابن حبان ، ج١، ص٨٩-٩٠: سیره حلبیه ، علی بن برهان الدین حلبی ، ج٢ ،ص٣: حیات الصحا به، محمد یوسف کاندهلوی ،ج١،ص٦٩-
[2]   - محمد تقی مصباح یزدی ، آموزش عقائد ،ج٢،ص ٣٠٤ و ٣٠٣( تھوڑی سی تغیر ک ساتھـ)
[3]   - سوره مائده، ٣-
[4] - تاریخ بغداد ، خطیب بغدادی ،ج٨،ص٢٩٠ قابل ذکر بات هے که خطیب بغدادی نے مذکوره حدیث کو دو صحیح سندوں سے نقل کیا هے –
[5]   - شواهد التنزیل ،حاکم حسکانی ،ج١،ص٢٠٠: تاریخ مدینه ی دمشق ، ابن عساکر ،ج٤٢، ص ٢٣٣و ٢٣٤و٢٣٧: مناقب خوارزمی ،ص١٣٥، مناقب ابن مغازلی ، ص١٩، تذکره الخواص ، سبط ابن جوزی ، ص٣٦ : فرائد السمطین ، جوینی ،ج١،ص٧٢-
[6]   - شواهد التنزیل ج١،ص٢٠٠ :مناقب خوارزمی ،ص١٣٥ ،فرائد السمطین ،ج١ص ٧٢: محاسن التاویل ، القاسمی ،ج٦،ص٤و٥٠-
[7]   - سوره مائده،٦٧-
[8]   - الکافی ،ج١،ص٢٨٩،حدیث ٤،الدر المنثور ،ج٢،ص٢٩٨،شواهد التنزیل ،ج١،ص٢٤٩-
[9]   - سوره مائده ٥٥-
[10]   - شواهد التنزیل ،ج١،ص٢٠٩و محمود زمخشری ،الکشاف ،ج١،ص٦٤٩والدر المنثور ،ج٢،ص٢٩٣و الکافی ،ج١،ص٢٨٩،حدیث ٤-
[11]   - مزید معلو مات کے لئے ملاحظه هو :  مشخصا ت ویزگیھای شیعه"
[12]   - نهج البلاغه،خ٩٢-
[13]   - عبدالحمید ابن ابی الحدید معتزلی ، شرح نهج البل;اغه ،ج٧،ص٣٤-
[14]   - شرح نهج البلاغه (ابن ابی الحدید)، ،ج١،ص١٧٠-
[15]   - علامه مجلسی ،بحار الانوار ،ج٣٢،ص٣٨-
[16]   - ایضاً، ص٣٦-
[17]   - لا یقاس یآ ل محمد ص من هذه الامه احد ولا یسوی بهم من جرت نعمتهم علیه ابداً هم اساس الدین و عماد الیقین الیهم یفی الغالی وبهم یلحق التالی ولهم خصائص حق الولا یه و فیهم الوصیه والوراثه الان اذ رجع الحق الی اهله و نقل الی منتقله : نهج البلاغه ،خطبه٢-
[18]   - وانما طلبت حقا لی وانتم تحولون بینی و بینه، نھج البلاغه، خطبه ١٧٢-
[19]   - ایضاً-

کیا شیعوں کا یہ اعتقاد ہے کہ خلیفہ دوم عمر بن خطاب خنثی تھے؟

شیعہ علماء کا اعتقاد ہے کہ عمر بن خطاب خنثی تھے اور اپنے معالجہ کے لئے کوئی دوائی تلاش نہ کرسکے اور آب منی سے علاج کرتے تھے؛
ایک مختصر
خلفائے راشدین خاص کر عمر بن خطاب کے بارے میں شیعہ علماء کا نظریہ، وہی ائمہ اطہار{ع} کا نظریہ ہے- شیعوں کی کسی معتبر احادیث کی کتاب میں ائمہ اطہار{ع} سے کوئی ایسی روایت نقل نہیں کی گئی ہے، جس سے معلوم ھوجائے کہ عمر بن خطاب خنثی تھے- اس قسم کی بہت سے تہمتیں شیعوں پر لگائی جاتی ہیں جو بے بنیاد ہیں اور یہ شیعہ علماکا اعتقاد نہیں ہے-
تفصیلی جواب
رسالت کا دور شروع ھونے اور اسلام کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ، پیغمبر اکرم {ص} کی احادیث درج اور نقل ھونے کا سلسلہ بھی شروع ھوا- پیغمبر اسلام {ص} کی رحلت کے بعد، اور مسلمانوں کے باہمی اختلافات سے دوچار ھونے والے حالات کے دوران، بعض مسلمانوں نے اس گراں قیمت گنجینہ کو جمع کرنے کا اقدام کیا- اس دوران خلیفہ دوم کی خلافت کے زمانہ میں کچھ خاص سیاسی حالات کے پیش نظر حدیث لکھنے کی ممانعت کی گئی- یہ ممانعت مسلمانوں کے معاشرہ کے لئے ایک نقصان شمار کی جاتی تھی- اس وقتی لیکن موثر ٹھہراو کے بعد حدیث لکھنے اور نقل کرنے کا سلسلہ پھر  سے شروع ھوا- کمیت کے لحاظ سے حدیث درج و نقل کرنے کے کام کو وسعت حاصل ھونے کے نتیجہ میں ایسے محدث میدان میں آگئے جن کا دینی لحاظ سے سالم ھونا مشکوک تھا- ایسے افراد میں زیادہ تر تازہ مسلمان شدہ یہودی قابل توجہ تھے- احادیث کے بعض مجموعوں پر تھوڑا سا غور کرنے سے ان احادیث کے مجموعوں میں اسرائیلیات، جھوٹی روایات اور تحریف شدہ احادیث پائی جاسکتی ہیں- اس امر کے مختلف دلائل تھے، من جملہ تازہ مسلمان ھوئے یہودی راویوں کا وجود، جو ابھی اپنے سابقہ دین سے رابطہ بر قرار کئے ھوئے تھے اور اپنے عقیدہ کو نہیں چھوڑ پائے تھے، اس گروہ سے متعلق راویوں نے اپنی شدید اسلام دشمنی کی وجہ سے روایتوں میں ہیر پھیر، روایتیں جعل کرنے اور مسلمانوں کے درمیان عقائد کی گمراہی پھیلانے کا اقدام کیا- اس کے علاوہ حدیث نقل اور درج کرنے میں منافقین، غلات، مقصرہ اور مختلف مذہبی طائفوں کے انتہا پسندوں نے روایات کی تحریف، حدیث جعل کرنے اور انھیں حدیث کی کتابوں میں داخل کرنے یا بعض احادیث [1]کو حذف کرنے میں اپنا کام انجام دیا- شیعہ، ہمیشہ مختلف مناسبتوں سے ان گمراہ کن قضایا کی طرف اشارہ کرتے، انھیں جھٹلا تے اور ان پر لعنت بھیجتے رہے ہیں-[2]
   ان حالات کے دوران شیعوں اور اہل سنت نے روایات کے کچھ مجموعے مرتب کئے اگرچہ ان میں بھی مذکورہ موارد پائے جاسکتے ہیں-
   یہی وجہ ہے کہ شیعوں میں ابتداء سے ہی احادیث کو نقل اور جمع کرنے کے ساتھ ساتھ حدیث شناسی کا کام بھی شروع ھوا- ائمہ اطہار{ع} اپنے مخاطبین سے مختلف مواقع پر روایات بیان فرماتے اور ان کی تفسیر پیش کرتے تھے تاکہ روایات کو انحرافات سے بچایا جائے-
 ۱۰اور۱۱ویں صدی ہجری میں وسیع پیمانے پر احادیث جمع کی جانے لگیں، جس کے نتیجہ میں اخباریوں کا سلسلہ شروع ھوا- لیکن اس کے ساتھ ساتھ علم رجال، درایہ اور فقہ الحدیث کی صورت میں علوم حدیث کا سلسلہ بھی منظم صورت میں ظاہر ھوا-
   شیعوں کی احادیث کے مولفین نے حدیث جمع کرنے اور حدیث کی کتابیں تدوین کرنے میں بڑی کوششیں کیں تاکہ صحیح روایتوں کو جمع کریں- اس کے باوجود شیعوں نے ان تمام روایتوں کے صحیح ھونے کا کبھی دعوی نہیں کیا ہے اور نہ ایسا دعوی کرتے ہیں، اسی وجہ سے شیعہ علماء ان مجموعوں کی روایات سے استفادہ کرتے وقت علوم حدیث { علم رجال، علم درایہ اور فقہ الحدیث} کی کسوٹی پر صحیح اور غلط روایتوں کی چھان بین کرتے ہیں، اور اس کے بعد ان سے استناد کرتے ہیں- اس بنا پر جو کچھ بیان کیا گیا اس کے مطابق شیعوں اور اہل سنت کی احادیث کے مجموعے اشکا لات اور اعتراضات سے خالی نہیں ہیں اسی وجہ سے دونوں گروہ یہ کوشش کر رہے تھے کہ احادیث کی صحیح کتابیں تدوین کرکے اس مشکل کو دور کریں- اس کے باوجود قابل توجہ ہے کہ ابھی بھی بعض معدود غیر صحیح روایتیں، حتی کہ شیعوں کی کتب اربعہ اور اہل سنت کی صحاح میں موجود ہیں کہ ان پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے-
اس کے نتیجہ میں کہنا چاہئے کہ:
   اسلام، ہر قسم کی زیادتی کا، حتی کہ اپنے دشمنوں کے بارے میں مخالف ہے،[3] لیکن مختلف مذاہب کے افراطی اور انتہا پسند، من جملہ تشیع نما غالیوں نے، ان سفارشات پر توجہ کئے بغیر اپنے مذہب کے لئے مشکلات پیدا کی ہیں-
۲-ائمہ اطہار {ع} کے زمانے میں بھی ان کے دشمنوں کے ذریعہ بعض روایتین جعل کی گئی کہ ان میں سے بعض روایتین ائمہ اطہار {ع} کے فضائل میں غلو کی صورت میں یا ان کے مخالفوں کے خلاف انتہا پسند طعنہ زنی پر مشتمل تھیں، اور اس قسم کی دونوں روایتیں عام لوگوں کے افکار کو ائمہ معصومین{ع} کے بارے میں گمراہ کرتی تھیں اور اسی وجہ سے ہمارے ائمہ معصومین {ع} ایسی روایتوں پر اعتراض کرتے تھے اور ان کی مذمت کرتے تھے-[4]
۳-شیعوں کی احادیث کی کتابوں میں تحقیق کرنے کے بعد معلوم ھوتا ہے کہ کسی بھی قابل اعتبار سند کے ساتھ خلیفہ دوم کے خنثی ھونے کی بات نہیں کی گئی ہے اور شیعہ علماء بھی اس کا اعتقاد نہیں رکھتے ہیں، اگر چہ بعض مصنفین شیعوں پر تہمت لگاتے ہیں، انھیں اپنی بات کو مستند طور پر پیش کرنی چاہئے-
۴-کتاب" انوار النعمانیہ" میں خلیفہ دوم کے بارے میں اہل سنت کی چند روایتیں ہیں کہ ان کے صحیح یا غلط ھونے پر تحقیق کی جانی چاہئے- ان روایتوں میں خلیفہ دوم کے خنثی ھونے کے موضوع کے بارے میں اہل سنت کی بعض شخصیتوں کے بیانات پیش کئے گئے ہیں اور مصنف نے ان کی طرف اشارہ کرکے ان کی مذمت کی ہے-[5]
   قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس قسم کی باتیں اہل سنت کی کتابوں میں ملتی ہیں جن سے خلفاء یا بعض صحابیوں کا معیوب ھونا معلوم ھوتا ہے، ان پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے-
۵-علمائے شیعہ نے، اہل سنت کے ساتھ تاریخی اور کلامی اختلافات رکھنے کے باوجود اہل بیت{ع} کی حقانیت کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں کبھی اس قسم کے ناپسند اور غیر اخلاقی وسائل کا سہارا نہیں لیا ہے بلکہ اپنے مناقشات اور مباحث میں جدال احسن کا انتخاب کیا ہے-
۶-اگر دونوں فرقوں {شیعہ و سنی} میں ایسے افراد موجود ھوں جو کسی تحقیق کے بغیر اور غیر موثق و مجہول راویوں سے نقل کی گئی ضعیف احادیث کا سہارا لے کر، کسی بے بنیاد اور خلاف حقیقت موضوع کو پیش کرنے کی کوشش کریں، تو اس امر کو شیعہ یا سنی علماء سے نسبت دے کر ان کا اعتقاد شمار نہیں کرنا چاہئے-
نتیجہ:
   اگر چہ ہم نے آپ کے سوال میں پیش کئے گئے موضوع کو کسی معتبر حدیث کی کتاب میں نہیں پایا، لیکن اس کے باوجود کہنا ہے کہ: ہم شیعوں کا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ جوبھی حدیث، حدیث کی کتابوں میں درج ھو، وہ صحیح ہے- جیسا کہ اشارہ کیا گیا، بہت سی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں، جن کی مختلف دلائل کی وجہ سے شیعہ علماء تائید نہیں کرتے ہیں،  اسی وجہ سے روایتوں کے صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لئے کچھ معیار مقرر کئے گئے ہیں-
 

[1] کشی، محمد بن عمر، رجال‏الكشي، ص 250‏، انتشارات دانشگاه مشهد ،مشهد مقدس، 1348 هـ .‏
[2] حلی، حسن بن یوسف، الخلاصة، ص 35، طبع دوم، دار الذخائر، قم‏، 1411 هـ .‏
[3] مائده، 8.
[4] صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا (ع)، ج 1، ص 304، انتشارات جهان ، 1378 هـ .‏
[5] جزائری، سید نعمة الله، الانوار النعمانیة، ج 1، ص 52، طبع اول، دار القارئ، بیروت، 1429 هـ -
 
منبع: اسلام کوئیسٹ

Popular Posts (Last 30 Days)

 
  • Recent Posts

  • Mobile Version

  • Followers