ایک سیدھی اور سچی بات ہے کہ عمر نے بخار کی تکلیف سے مغلوب (جیسا
کہ اہلِ سُنت تاویلات کرتے ہیں حالانکہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) باقاعدہ
عمر کے اس فعل پر آنسو بہایا کرتے تھے۔(احمد بن حنبل) شاید انہیں ھجر کے
زبر والے معنی کا پتہ نہیں ہو گا) تھے تو بھی عمر کا یہ فعل قطعاً
گستاخی کے زمرے میں آئے گا کہ رسول اللہ (ص) کاغذ قلم مانگ رہے ہیں اور یہ
صاحب بہانہ کر رہے ہیں۔ جبکہ آنحضرت (ص) وحی کے سوا کچھ بولتے ہی نہیں تھے
اور پھر عمر کے کہنے کے بعد شور بلند ہونا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا باقاعدہ سب کو اپنے پاس سے چلے جانے کا کہا جو اس بات کو ظاہر
کرتا ہے کہ آپ (ص) عمر کی بات سے خوش نہیں تھے۔۔۔۔۔۔ پورا واقعہ پڑھنے سے
ہی سب کچھ سمجھ آ جاتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے پھر ھجرَ یا ھجرُ کی بحث میں
الجھنے کا فائدہ؟ کیا ابن عباس رضی اللہ عنہ یا جابر بن عبداللہ انصاری
رضی اللہ عنہ اس مطلب سے واقف نہ تھے جن سے آج کے اہلِ سُنت کے علماء واقف
ہو گئے؟
باقی آپ اپنا اصل مقصد واضح کریں کہ آپ کو کیا بات کرنی ہے کیا ھجرَ یا ھجرُ پر بات کرنی ہے یا فقط حوالہ جات درکار ہیں؟
باقی آپ اپنا اصل مقصد واضح کریں کہ آپ کو کیا بات کرنی ہے کیا ھجرَ یا ھجرُ پر بات کرنی ہے یا فقط حوالہ جات درکار ہیں؟
اور ایک بات علامہ شبلی نعمانی نے “الفاروق“ میں ھجر کا
مطلب ہذیان ہی تسلیم کیا ہے اور ھجرَ یا ھجرُ کی بحث میں جانے کی بجائے وہ
دوسری تاویلات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ورنہ وہ بھی ھجرَ اور ھجرُ کی بحث سے
اس واقعہ کو ختم کر دیتے۔
"بیماری کا بڑا مشہور واقعہ قرطاس کا واقعہ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ نے وفات سے تین روز پہلے قلم اور دوات طلب کیا اور فرمایا کہ" میں تمہارے لیے ایسی چيز لکھوں گا کہ تم آئندہ گمراہ نہ ہو گے" اس پر حضرت عمر رض نے لوگوں کی طرف مخاطب ہوکرکہا کہ " آنحضرت ۖ کو درد کی شدت ہے اور ہمارے لیے قرآن کافی ہے" حاضرین میں سے بعض نے کہا کہ" رسول اللہ ۖ بہکی باتیں کررہے ہیں (نعوذ باللہ) روایت میں ھجر کا لفظ ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں-
یہ واقعہ بظاہر تعحب انگیز ہے ایک معترض کہ سکتا ہے کہ اس سے زیادہ اور کیا گستاخی اور سرکشی ہوگی کہ رسول اللہ ۖ بستر مرگ پر ہیں اور امت کے درد و غمخوری کے لحاظ سے فرماتے ہیں کہ " لاؤ میں تمہیں ھدایت نامہ لکھ دوں جو تم کو گمراہی سے محفوظ رکھے" یہ طاہر ہے کا گمراہی سے بچانے کے لیے جو ھدایت ہوگی وہ منصب نبوت کے لحاظ سے ہوگی اور اس لیے اس میں سہو و خطا کا احتمال نہیں ہوسکتا، باوجود اس کے حضرت عمر رض بے پروائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ ضرورت نہیں ہم کو فرآن کافی ہے- طرہ یہ کہ بعض راویتوں میں ہے کہ حضرت عمر رض ہی نے رسول اللہ ۖ کے اس ارشاد کو ہذیان سے تعبیر کیا تھا- (نعوذ باللہ)"
“الفاروق“علامہ شبلی نعمانی سے اقتباس
"بیماری کا بڑا مشہور واقعہ قرطاس کا واقعہ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ نے وفات سے تین روز پہلے قلم اور دوات طلب کیا اور فرمایا کہ" میں تمہارے لیے ایسی چيز لکھوں گا کہ تم آئندہ گمراہ نہ ہو گے" اس پر حضرت عمر رض نے لوگوں کی طرف مخاطب ہوکرکہا کہ " آنحضرت ۖ کو درد کی شدت ہے اور ہمارے لیے قرآن کافی ہے" حاضرین میں سے بعض نے کہا کہ" رسول اللہ ۖ بہکی باتیں کررہے ہیں (نعوذ باللہ) روایت میں ھجر کا لفظ ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں-
یہ واقعہ بظاہر تعحب انگیز ہے ایک معترض کہ سکتا ہے کہ اس سے زیادہ اور کیا گستاخی اور سرکشی ہوگی کہ رسول اللہ ۖ بستر مرگ پر ہیں اور امت کے درد و غمخوری کے لحاظ سے فرماتے ہیں کہ " لاؤ میں تمہیں ھدایت نامہ لکھ دوں جو تم کو گمراہی سے محفوظ رکھے" یہ طاہر ہے کا گمراہی سے بچانے کے لیے جو ھدایت ہوگی وہ منصب نبوت کے لحاظ سے ہوگی اور اس لیے اس میں سہو و خطا کا احتمال نہیں ہوسکتا، باوجود اس کے حضرت عمر رض بے پروائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ ضرورت نہیں ہم کو فرآن کافی ہے- طرہ یہ کہ بعض راویتوں میں ہے کہ حضرت عمر رض ہی نے رسول اللہ ۖ کے اس ارشاد کو ہذیان سے تعبیر کیا تھا- (نعوذ باللہ)"
“الفاروق“علامہ شبلی نعمانی سے اقتباس
Categories:
Urdu - اردو
0 comments:
Post a Comment
براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.