حال ہی میں اسلام کی صحیح تاریخ سے نابلد شخص نے سیستان اور بلوچیستان کے علاقہ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ ) کی دختر گرامی سے متعلق ایک مقالہ لکھا اور اس کا نام رکھا ”فاطمہ زہرا (علیھا السلام) کی شہادت کا افسانہ“۔ اس مقالہ میں جناب فاطمہ زہرا (س) کے فضائل و مناقب لکھنے کے بعد اس نے کوشش کی ہے کہ آپ کی شہادت اور آپ کے ساتھ جو بے حرمتی کی گئی اس سے انکار کرے اور دیگر بعض لوگ اپنی تقریروں میں اس بات کی تاکید کرتے ہیں۔
چونکہ اس مقالہ کے ایک حصہ میں تاریخ اسلام کی واضح طور سے تحریف کی گئی ہے لہذا ہم نے سوچا کہ اس تحریف کے ایک حصہ میں حقائق کو واضح طور سے بیان کیا جائے تاکہ ثابت ہوجائے کہ اسلام کی اس بزرک شخصیت خاتون کی شہادت ایک ایسی حقیقت ہے جو انکار ناپذیر ہے اور اگر انہوں نے ایسی بحث کا آغاز نہ کیا ہوتا تو ہم ان حالات میں ایسی باتیں نہ لکھتے۔
اس مقالہ میں ہم مندرجہ ذیل باتوں کو بیان کریں گے:
۱۔ حضرت زہرا (علیھا السلام)، رسول خدا (صلی ا للہ علیہ و آلہ) کے کلام میں
۲۔ آپ کے گھر کا احترام قرآن و سنت کی روشنی میں
۳۔ آپ کے گھر کی بے احترامی
امید ہے کہ ان تین نکات کی وضاحت کے بعد مقالہ لکھنے والا حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم کرلے گااور اپنے لکھے ہوئے سے نادم و پشیمان ہوگا اور اپنے اس کام کی اصلاح کرے گا۔
اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ اس مقالے کے تمام مطالب اہل سنت کے مشہور مآخذوں سے لئے گئے ہیں۔
۱۔ حضرت زہرا (علیھا السلام) کا مرتبہ رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کلمات میں
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بیٹی کا مرتبہ بہت بلند و بالا ہے ،آپ کے متعلق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بہت ساری حدیثیں ہیں جو اس بات پر دلیل ہیں کہ آپ تمام گناہوں سے پاک و پاکیزہ اورمعصوم ہیںلہذاپیغمبر اکرم (ص)، آپ کے متعلق فرماتے ہیں : فاطمہ بضعة منی فمن اغضبھااغضبنی(۱) فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ بغیر کہے یہ بات معلوم ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو ناراض کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ ان کو اذیت دی گئی اور ایسے شخص کی سزا قرآن مجید میں یہ بیان ہوئی ہے :
والذین یوذون رسول اللہ لھم عذاب الیم (۲) جو رسول خدا کو اذیت پہنچائیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
اور ان کی فضیلت اور عصمت کے اوپر اس سے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان کی مرضی کو خدا کی مرضی اور ان کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی تعبیر فرمایا ہے آپ (ص) فرماتے ہیں :
یا فاطمہ ان اللہ یغضب لغضبک و یرضی لر ضاک (۳) میری بیٹی فاطمہ یہ جان لو کہ خدا تمہارے ناراض ہونے سے ناراض اور تمہارے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے۔
اتنا بڑا مرتبہ و منزلت رکھنے کی وجہ سے آپ دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں، اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آپ کے متعلق فرمایا:
یا فاطمة ! الا ترضین ان تکون سیدة نساء العالمین، و سیدة نساء ھذہ الامة و سیدة نساء المومنین(۴)۔
میری بیٹی فاطمہ کیا تم اس کرامت سے جو خدا نے تمہیں عطا کی ہے خوش ہو کہ تم دنیاکی عورتوں،اس امت اور مومن عورتوں کی سردار ہو۔
۲۔ قرآن و سنت میں آپ کے گھر کا احترام
محدثین بیان کرتے ہیں جس وقت یہ آیہ مبارکہ”فی بیوت اذن اللہ ان ترفع و یذکر فیھا اسمہ“(۵) پیغمبر اکرم پر نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس آیت کو مسجد میں تلاوت کیا ، اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا : اے رسول گرامی! اس اہم گھر سے مراد کونسا گھر ہے؟
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: پیغمبروں کے گھر!
ابوبکر نے حضرت علی و فاطمہ (علیھما السلام) کے گھر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ کیا یہ گھر انہی گھروں میں سے نہیں ہے؟
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جواب دیا: ہاں ان میں سے سب سے زیادہ نمایاں یہی گھر ہے(۶)۔
آپ کے گھر کی بے حرمتی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ ) نو (۹)مہینے تک اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر پر تشریف لاتے تھے، ان کو اور ان کے شوہر نامدار کو سلام کرتے تھے(۷) اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے”انما یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا (۸)۔
وہ گھر جو نور الہی کا مرکز ہے اور خدا نے اس کو بلند درجہ عطا فرمایا ہے اس کا بہت زیادہ احترام ہے۔
جی ہاں ! ایسا گھر جس میں اصحاب کساء رہتے ہوں اور خدا اس گھر کو عظمتوں کے ساتھ یاد کررہا ہو، اس گھر کاتمام دنیا کے مسلمانوں کو احترام کرنا چاہئے۔
اب دیکھنا چاہئے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ ) کی رحلت کے بعد اس گھر کا کتنا احترام کیا گیا ہے؟ کس طرح اس گھر کے احترام کو ختم کیا گیا اور وہ لوگ خود واضح طور سے اس کا اعتراف کرتے ہیں؟ یہ بے احترامی کرنے والے کون لوگ تھے اور ان کا ہدف و مقصد کیا تھا؟
۳۔ آپ کے گھر کی بے احترامی
ان تمام احکام کی بار بار تاکید کرنے کے بعد افسوس کہ بہت سے لوگوں نے اس کے احترام سے چشم پوشی کرلی اور اس کی بے احترامی کی جبکہ یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جس سے چشم پوشی کی جائے۔
اس سے متعلق اہل سنت کی کتابوں سے چند روایات کو ہم یہاں پر بیان کرتے ہیں تاکہ یہ بات روشن ہوجائے کہ حضرت زہر(علیھا السلام) کے گھر کی بے حرمتی اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات تاریخی اورحقیقی ہیں ، نہ ایک افسانہ! اور دوسری بات یہ کہ خلفاء کے زمانے میں اہل بیت(علیہم السلام) کے فضایل و مناقب لکھنے سے سخت منع کیا جاتا تھا لیکن اس بناء پر کہ ”ہر چیز کی حقیقت خودا س چیز کی حفاظت کرتی ہے“ یہ حقیقت بھی تاریخی اور حدیثی کتابوں میں زندہ اور محفوظ ہے ، ہم یہاں پر دلایل کو زمانے کی ترتیب کے ساتھ پہلی صدی سے شروع کریں گے اور عصر حاضر کے موْلفین تک پہونچائیں گے۔
الف) اہل سنت کے مشہور محدث ،ابن ابی شیبہ کی کتاب ”المصنف“
ابوبکر بن ابی شیبہ (۲۳۵۔۱۵۹) کتاب المصنف کے موْلف صحیح سند سے اس طرح نقل کرتے ہیں:
انہ حین بویع لابی بکر بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کان علی و الزبیر یدخلان علی فاطمة بنت رسول اللہ، فیشاورونھا و یرتحعون فی امرھم۔ فلما بلغ ذلک عمر بن الخطاب خرج و دخل علی فاطمة، فقال: یا بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ )و اللہ ما احد احب الینا من ابیک و ما من احد احب الینا بعد ابیک منک، و ایم اللہ ما ذاک بمانعی ان اجتمع ھوْلاء النفر عندک ان امرتھم ان یحرق علیھم البیت“۔
جس وقت لوگ ابوبکر کی بیعت کررہے تھے، علی اور زبیرحضرت فاطمہ زہرا کے گھر میں گفتگو اور مشورہ کررہے تھے اور یہ بات عمر بن خطاب کو معلوم ہوگئی۔ وہ حضرت فاطمہ کے گھر آیااور کہا : اے رسول کی بیٹی، سب سے محبوب انسان ہمارے نزدیک تمہارے والدگرامی تھے اور ان کے بعد اب تم سب سے زیادہ محترم ہو لیکن خدا کی قسم یہ محبت اس بات کے لئے مانع یا رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ یہ لوگ تمہارے گھر میں جمع ہوں اور میں اس گھر کو ان لوگوں کے ساتھ جلانے کا حکم نہ دوں۔
اس جملہ کو کہہ کر باہر چلا گیا جب حضرت(علی علیہ السلام) اور زبیر گھر میں واپس آئے تو حضرت فاطمہ زہرا نے حضرت علی اور زبیرسے کہا : عمر یہاں آیا تھا اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر تم دوبارہ اس گھر میں جمع ہوئے تو تمہارے گھر کو ان لوگوں کے ساتھ آگ لگادوں گا ، خدا کی قسم ! اس نے جو قسم کھائی ہے وہ اس کو انجام دے کر رہے گا (۹)۔
دوبارہ وضاحت کرتا ہوں کہ یہ واقعہ المصنف نامی کتاب میں صحیح سند کے ساتھ نقل ہوا ہے۔
ب) اہل سنت کے دوسرے بزرگ محدث، بلاذری کی کتاب”انساب الاشراف“
مشہور مولف اور تاریخ نگار ،احمد بن یحیی بن جابر بلاذری(م ۲۷۰) اس تاریخی واقعہ کو اپنی کتاب انساب الاشراف میں اس طرح نقل کرتا ہے:
”ان ابابکر ارسل الی علی یرید البیعة فلم یبایع، فجاء عمر و معہ فتیلة! فلقیتہ فاطمة علی الباب فقالت فاطمہ: یابن الخطاب، اتراک محرقا علی بابی؟ قال : نعم، و ذلک اقوی فیما جاء بہ ابوک...“(۱۰)۔
ابوبکر نے حضرت علی (علیہ السلام) کو بیعت کیلئے بلوایا، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے بیعت کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد عمر ، مشعل لے کر وہاں سے نکلا اور حضرت فاطمہ کے گھر کے دروازے کے سامنے حضرت فاطمہ کے سامنے کھڑا ہوگیا، حضرت فاطمہ (س) نے کہا : اے خطاب کے بیٹے، کیا تم ہمارے گھر میں آگ لگا دو گے؟ ! عمر نے کہا : ہاں ، یہ کام اس چیز کی مدد کرے گا جس کے لئے تمہارے والد مبعوث ہوئے تھے!۔
ج) ابن قتیبہ اور کتاب ”الامامة والسیاسة“
مشہور مورخ عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری(۲۱۲۔۲۷۶)تاریخ اسلام کا سب سے زیادہ لکھنے والا انسان اور کتاب تاویل مختلف الحدیث اور ادب الکاتب وغیرہ کا موْلف ہے(۱۱)وہ ”الامامة والسیاسة“ میں اس طرح لکھتا ہے:
ان ابابکر(رض)تفقد قوما تخلفوا عن بیعتہ عند علی کرم اللہ وجہہ فبعث الیھم عمر فجاء فناداہم و ھم فی دار علی، فابوا ان یخرجوا فدعا بالحطب و قال : والذی نفس عمر بیدہ لتخرجن او لاحرقنھا علی من فیھا، فقیل لہ : یا ابا حفص ان فیھا فاطمة فقال، وان!(۱۲)۔
ابوبکر نے ان لوگون کی جستجو کی جو ان کی بیعت کے منکر ہو کر حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں جمع ہوگئے تھے اورپھر عمر کو انہیں بلانے کے لئے بھیجا، وہ حضرت علی(علیہ السلام) کے گھر کے دروازہ پر آیا اور سب کو آواز لگائی کہ باہر آجاؤ، اور وہ لوگ گھر سے باہر نہیں نکلے، اس وقت عمر نے لکڑیاں منگوائیں او رکہا: خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر باہر نہیں آؤ گے تو میں گھر کو آگ لگا دوں گا۔ کسی نے عمر سے کہا: اے حفص کے باپ(عمر کی کنیت) اس گھر میں پیغمبر(ص) کی بیٹی فاطمہ (س) ہیں ، عمر نے کہا : کوئی بات نہیں۔
ابن قتبیہ نے اس واقعہ کو بہت دردناک بیان کیا ہے وہ کہتا ہے :
ثم قام عمرفمشی معہ جماعة حتی اتوا فاطمة فدقوا الباب فلما سمعت اصواتھم نادت یا علی صوتھا یا ابتاہ یا رسول اللہ ماذا لقینا بعدک من ابن الخطاب و ابن ابی القحافة فلما سمع القوم صوتھا و بکائھا انصرفوا و بقی عمر و معہ قوم فاخرجوا علیا فمضوا بہ الی ابی بکر فقالوا لہ بایع، فقال: ان انا لم افعل فمہ؟ فقالوا : اذا واللہ الذی لا الہ الا ھو نضرب عنقک...!(۱۳)۔
عمرایک گروہ کے ساتھ حضرت فاطمہ کے گھر آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا، جس وقت حضرت فاطمہ نے ان کی آواز سنی تو بلند آواز سے کہا : اے رسول خدا تمہارے بعد ، خطاب اور ابو قحافہ کے بیٹے نے کیا کیا مصیبتیں ہمارے اوپر ڈالی ہیں، جو لوگ عمر کے ساتھ آئے تھے انہوں نے جب حضرت فاطمہ کی آواز اور ان کے رونے کی آواز کو سنا تو واپس چلے گئے، لیکن عمر کچھ لوگوں کے ساتھ وہیں کھڑا رہا اور پھر وہ حضرت علی کو گھر سے باہر لے آئے اور ابوبکر کے پاس لے گئے اور ان سے کہا : بیعت کرو، علی(علیہ السلام) نے کہا : اگر بیعت نہ کروں تو کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا : اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، تمہیں قتل کردیں گے...۔
تاریخ کا یہ حصہ شیخین کے چاہنے والوں کے لئے بہت سخت اور ناگوار ہے ، لہذا بہت سے لوگوں نے ابن قتیبہ کی اس کتاب سے انکار کردیا جبکہ ابن ابی الحدید، فن تاریخ کا استاد، اس کتاب کو ابن قتیبہ ہی کی بتاتا ہے اور ہمیشہ اس سے مطالب کو نقل کرتا ہے ، افسوس اس کتاب میں بہت زیادہ تحریف ہوچکی ہے اور اس کے بہت سے مطالب کو چھاپتے وقت حذف کردئیے ہیں جب کہ وہ سب مطالب ، ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ میں موجود ہیں۔
زرکلی نے بھی اپنی کتاب الاعلام میں اس کتاب کو ابن قتیبہ ہی کی کتابوں میں سے شمار کیا ہے اور مزید کہتا ہے کہ اس کتاب کے متعلق بہت سے علماء کا خاص نظریہ ہے یعنی وہ دوسروں کی طرف شک و تردید کی نسبت دیتا ہے اپنی طرف نہیں(۱۴)، الیاس سرکیش نے بھی اس کتاب کو ابن قتیبہ ہی کے ایک کتاب جانا ہے(۱۵)۔
د)طبری اور اس کی تاریخ
مشہورموٴ رخ محمد بن جریر طبری(م۳۱۰) اپنی کتاب میں آپ کے گھر کی بے احترامی کے متعلق اس طرح بیان کرتا ہے :
اتی عمر بن الخطاب منزل علی و فیہ طلحة والزبیر و رجال من المھاجرین، فقال واللہ لاحرقن علیکم او لتجرجن الی البیعة، فخرج علیہ الزبیر مصلتا بالسیف فعثر فسقط السف من یدہ، فوثبوا علیہ فاخذوہ (۱۶)۔
عمر بن خطاب، حضرت علی کے گھر آیا جبکہ طلحہ، زبیر اور کچھ مہاجرین وہاں پر جمع تھے، اس نے ان کی طرف منہ کرکے کہا: خدا کی قسم اگر بیعت کیلئے باہر نہیں آؤ گے تو اس گھر میں آگ لگا دوں گا ، زبیر تلوار کھینچ کر باہر نکلا، اچانک اس کو ٹھوکر لگ گئی اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی پھر تو دوسرے لوگوں نے اس کے اوپر حملہ کردیا اور اس کو پکڑ لیا۔
تاریخ کے اس حصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ کی بیعت رعب و وحشت اور دھمکی دے کر لی جاتی تھی، لیکن اس بیعت کا کیا فائدہ ہے اس کا فیصلہ خود قاری محترم کے اوپر ہے۔
ھ) ابن عبد ربہ اور کتاب ”العقد الفرید“
شہادب الدین احمد معروف بہ ابن عبد ربہ اندلسی، کتاب ”العقد الفرید“ (م ۴۶۳) کے مولف نے اپنی کتاب میں سقیفہ کی تاریخ سے متعلق وضاحت کی ہے اور جن لوگوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی اس عنوان کے تحت لکھتا ہے :
فاما علی والعباس والزبیر فقعدوا فی بیت فاطمة حتی بعث الیھم ابوبکر، عمر بن الخطاب لیخرجھم من بیت فاطمة وقال لہ: ان ابوا فقاتلھم، فاقبل یقیس من ناز ان یضرم علیمھم الدار، فلقیتہ فاطمة فقال : یا ابن الخطاب اجئت لتحرق دارنا؟! قال: نعم، او تدخلوا فیما دخلت فیہ الامة!(۱۷)۔
علی ، عباس اور زبیر حضرت فاطمہ کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو بکر نے عمر بن خطاب کو بھیجا تاکہ ان کو حضرت فاطمہ کے گھر سے باہر نکالے اور اس سے کہا : کہ اگر باہر نہ آئیں تو ان سے جنگ کرو! عمر بن خطاب تھوڑی سی لکڑیاں لے کر حضرت فاطمہ کے گھر کی طرف چلا تاکہ گھر کو آگ لگائے اچانک حضرت فاطمہ سے سامنا ہوا ، پیغمبر اکرم (ص) کی بیٹی نے کہا : اے خطاب کے بیٹے کیا ہمارے گھر کو آگ لگانے آئے ہو؟ اس نے جواب دیا : ہاں ، مگر یہ کہ جس چیز کو امت نے قبول کرلیا ہے تم بھی اس کو قبول کر لو!
یہاں تک اس بحث کی وضاحت کی گئی ہے جس میں بے حرمتی کا ارادہ کیا گیا ہے اب اس مقالہ کے دوسرے حصہ سے بحث کرتے ہیں جس میں بیان کیا جائے گا کہ انہوں نے اپنے اس برے ارادہ کو عملی جامہ بھی پہنا یا ہے تاکہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ اس سے مراد ڈرانا اوردھمکانا تھا تا کہ علی(علی علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو بیعت کیلئے مجبور کریں اور ایسی دھمکی کو عملی جامہ نہیںپہنانا چاہتے تھے۔حملہ ہوگیا!
یہاں تک ان لوگوں کی باتوں کو بیان کیا گیا ہے جنہوں نے خلیفہ اور اس کے دوستوں کی بری نیت کی طرف اشارہ کیا ہے ، وہ گروہ جو اس واقعہ کو اچھی طرح یالکھنا نہیں چاہتے تھے یا نہیںلکھ سکے، جب کہ بہت سے علماء ایسے ہیں جنہوں نے اصل واقعہ یعنی حضرت زہرا (س) کے گھر پر حملہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور اب ہم حضرت فاطمہ (س) کے گھر پر حملہ اور اس کی بے احترامی کے متعلق دلیلیں بیان کرتے ہیں(اور اس حصہ میں مآخذ و منابع کو بیان کرنے میں زمانے کی ترتیب کو رعایت کریں گے)۔
و) ابوعبید او رکتاب ”الاصول“
ابوعبید، قاسم بن سلام (م۲۲۴) کتاب الاموال جس پر اہل سنت کے فقہاء اعتماد کرتے ہیں،میں لکھتا ہے : عبدالرحمن بن عوف کہتا ہے : جب ابوبکر بیمار تھا تو میں اس کی عیادت کیلئے گیا اس نے بہت سی باتیں کرنے کے بعد کہا : اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ان کو انجام نہ دیتا اور تین کام جو انجام نہیں دئیے ان کو انجام دیتا اسی طرح آرزو کرتا ہوں کہ پیغمبر اکرم سے تین چیزوں کے بارے میں سوال کرتا جن میں سے ایک کو میں انجام دے چکا ہوں اور آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا ”وددت انی لم اکشف بیت فاطمة و ترکتہ و ان اغلق علی الحرب “ ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ وہ جنگ ہی کیلئے بند کیاگیا تھا (۱۸)۔
ابوعبیدہ جب اس جگہ پہنچتے ہیں تو ”لم یکشف بیت فاطمة و ترکتہ“ کے جملہ کی جگہ کو”کذا و کذا“ لکھ کر کہتے ہیں کہ میں ان کو بیان نہیں کرنا چاہتا۔
ابوعبید نے اگرچہ مذہبی تعصب یا کسی اور وجہ سے حقیقت کو نقل نہیں کیا ہے لیکن کتاب الاموال کے محققین نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے : جس جملہ کو حذف کردیا گیا ہے وہ کتاب میزان الاعتدال(جس طرح بیان ہواہے)میں بیان ہوا ہے اس کے علاوہ طبرانی نے اپنی معجم میں او رابن عبد ربہ نے عقدالفرید اور دوسرے افراد نے اس جملہ کو بیان کیا ہے(ملاحظہ فرمائیں)۔
ز)طبرانی اور ”معجم الکبیر“
ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی(۲۶۰۔۳۶۰)جن کو ذہبی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں معتبر سمجھتے ہیں(۱۹) کتاب المعجم الکبیرمیںجو کہ کئی مرتبہ چھپ چکی ہے ابوبکر، اس کے خطبہ اور اس کی وفات کے متعلق لکھتا ہے :
ابوبکر نے مرتے وقت کچھ چیزوں کی تمنا کی اور کہا : اے کاش تین کاموں کو انجام نہ دیتا، تین کاموں کو انجام دیتا اورتین کاموں کے متعلق پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کرتا: ”اما الثلاث اللائی وددت انی لم افعلھن، فوددت انی لم اکن اکشف بیت فاطمة و ترکتہ، ...
وہ تین کام جن کی میں آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا ان میں سے ایک حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی ہے کہ اے کا ش میں ان کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیتا (۲۰)۔
ان تعبیروں سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ عمر کی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا گیا اور گھر کو زبردستی(یا آگ لگانے کے ذریعہ) کھولا گیا۔
ح) ابن عبد ربہ اور ”عقد الفرید“ کا ایک بار پھر جائزہ
ابن عبد ربہ اندلسی ، کتاب العقد الفرید(م ۴۶۳) کا موْلف اپنی کتاب میں عبدالرحمن بن عوف سے نقل کرتا ہے :
جب ابوبکر بیمار تھا تو میں اس کی عیادت کیلئے گیا اس نے کہا : اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ، ان کو انجام نہ دیتاان تین کاموں میں سے ایک کام یہ ہے ”وددت انی لم اکشف بیت فاطمة عن شئی وان کانوا اغلقوہ علی الحرب “ ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ انہوں نے جنگ کرنے ہی کے لئے اس دروازہ کوکیوں نہ بند کر رکھا ہو (۲۱)۔
آئندہ کی بحثوں میں بھی ان لوگوں کے نام اور ان شخصیتوں کی عبارات کو بیان کیا جائے گا جنہوں نے خلیفہ کی اس بات کو نقل کیا ہے
ط) کتاب ”الوافی بالوفیات“میں نظام کی گفتگو
ابراہیم بن سیار نظام معتزلی(۱۶۰۔۲۳۱)جو نظم و نثر میں اپنے کلام کے حسن کی وجہ سے نظام کے نام سے مشہور ہے اس نے اپنی مختلف کتابوں میں حضرت فاطمہ کے گھر پر حاضر ہونے کے بعد والے واقعہ کو نقل کیا ہے وہ کہتا ہے :
ان عمرضرب بطن فاطمة یوم البیعة حتی القت المحسن من بطنھا۔
عمر نے جس روز ابوبکر کی بیعت لی اس روز حضرت فاطمہ کے شکم مبارک پرایک ضرب ماری، ان کے شکم میں جو بچہ تھا جس کا نام محسن تھا وہ ساقط ہوگیا!(۲۲)۔
ی)مبرد اور کتاب ”کامل“
ابن ابی الحدید لکھتا ہے : محمد بن یزید بن عبدالاکبر بغدادی(۲۱۰۔۲۸۵)مشہور ادیب اور لکھنے والا ، مشہور کتابوں کا مالک، اپنی کتاب الکامل میں عبدالرحمن بن عوف سے خلیفہ کی آرزووں کی داستان کو نقل کرتا ہے اور اس طرح یاد دہانی کراتا ہے :
وددت انی لم اکن کشفت عن بیت فاطمة و ترکتہ و لو اغلق علی الحرب(۲۳)۔
ک)مسعودی اور ”مروج الذہب“
مسعودی (متوفی ۳۲۵) اپنی کتاب مروج الذہب میں لکھتا ہے : جس وقت ابوبکر احتضار کی حالت میں تھا اس نے یہ کہا :
اے کاش تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ان کو انجام نہ دیتاان میں سے ایک کام یہ ہے ”فوددت انی لم اکن فتشت فاطمة و ذکر فی ذلک کلاما کثیرا “ ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اس نے اس سلسلہ میں اور بہت سی باتیں بیان کی ہیں(۲۴)۔
مسعودی اگر چہ اہل بیت سے محبت رکھتا ہے لیکن یہاں پر اس نے خلیفہ کی باتوں کو بیان نہیں کیا ہے اور کنایہ کے ساتھ آگے بڑھ گیا ہے البتہ سبب کو خدا جانتا ہے لیکن اس کے بندے بھی اجمالی طور سے جانتے ہیں(۲۵)۔
م)عبدالفتاح عبدالمقصود اور کتاب ”امام علی“
اس نے حضرت فاطمہ کے گھر پر حملہ سے متعلق اپنی کتاب میں دو جگہ بیان کیا ہے اور ہم اس میں سے ایک کو نقل کرنے پراکتفاء کرتے ہیں :
عمر نے کہا : والذی نفس عمر بیدہ، لیخرجن او لاحرقنھا علی من فیھ...! قالت لہ طائفة خافت اللہ و رعت الرسول فی عقبہ: یا اباحفص، ان فیھا فاطمة...! فصاح: لایبالی و ان...! و اقترب و قرع الباب، ثم ضربہ و اقتحمہ... و بدالہ علی... و رن حینذیک صوت الزھراء عند مدخل الدار... فانی ھی الا طنین استغاثة(۲۶)۔
اس کی قسم جس کے قبضہ میں عمر کی جان ہے یا گھر سے باہر نکل جاؤ یا اس گھر کے رہنے والوں سمیت اس میں آگ لگا دوں گا۔
کچھ لوگ جو خدا سے ڈرتے تھے اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ) کی وفات کے بعد آپ کا احترام کرتے تھے انہوں نے کہا: اے حفصہ کے باپ، اس گھر میں فاطمہ بھی ہیں، اس نے بغیر کسی کی پروا کئے ہوئے پکارا: ہوا کرے! اس کے بعد دروازے کو کھٹکھٹایا اور پھر گھر میں داخل ہوگیا، علی علیہ السلام ظاہر ہوگئے... حضرت زہرا کی آواز گھر میں گونجی... یہ ان کے نالہ و شیون کی آواز تھی!
اس بحث کو دوسری حدیث کے ذریعہ جس کو مقاتل بن عطیہ نے اپنی کتاب میں ”الامامة والخلافة“ میں بیان کیا ہے ختم کرتے ہیں(اگر چہ ابھی بہت کچھ کہنا باقی ہے!)۔
وہ اس کتاب میں اس طرح لکھتا ہے :ان ابا بکر بعد ما اخذ البیعة لنفسہ من الناس بالارھاب والسیف والقوة ارسل عمر و قنفذ و جماعة الی دار علی و فاطمة(علیھما السلام)و جمع عمر الحطب علی دار فاطمة و احرق باب الدار(۲۷)...
جس وقت ابو بکر لوگوں سے رعب و وحشت اور تلوار کے زور پر بیعت لے رہا تھا ، عمر ، قنفذ اور ایک گروہ کو حضرت علی و فاطمہ (علیھما السلام) کے گھر کی طرف بھیجا ، عمر نے لکڑیاں جمع کرکے گھر میں آگ لگا دی۔
اس روایت کے ذیل میں اور بھی بہت سی تعبیریں ہیں جن کو بیان کرنے سے قلم عاجز ہے۔
نتیجہ:
ان سب واضح دلیلوں کے باوجود جو اہل سنت کی کتابوں سے نقل ہوئی ہیں پھر بھی بہت سے لوگ اس واقعہ کو ”افسانہ شہادت“ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس تلخ و ناگوار حادثہ کو جعلی بتاتے ہیں اگر یہ لوگ اس واقعہ کے انکار پر اصرار نہ کرتے تو ہم بھی اس سے زیادہ اس کی وضاحت نہ کرتے۔
سوئے ہوئے افراد کو ان حقائق کے ذریعہ بیدار کیا جائے تاکہ تاریخی حقیقت کو تعصبات کے اندر نہ چھپایا جائے اور اس کا انکار نہ کریں۔
وما علینا الا البلاغ
چونکہ اس مقالہ کے ایک حصہ میں تاریخ اسلام کی واضح طور سے تحریف کی گئی ہے لہذا ہم نے سوچا کہ اس تحریف کے ایک حصہ میں حقائق کو واضح طور سے بیان کیا جائے تاکہ ثابت ہوجائے کہ اسلام کی اس بزرک شخصیت خاتون کی شہادت ایک ایسی حقیقت ہے جو انکار ناپذیر ہے اور اگر انہوں نے ایسی بحث کا آغاز نہ کیا ہوتا تو ہم ان حالات میں ایسی باتیں نہ لکھتے۔
اس مقالہ میں ہم مندرجہ ذیل باتوں کو بیان کریں گے:
۱۔ حضرت زہرا (علیھا السلام)، رسول خدا (صلی ا للہ علیہ و آلہ) کے کلام میں
۲۔ آپ کے گھر کا احترام قرآن و سنت کی روشنی میں
۳۔ آپ کے گھر کی بے احترامی
امید ہے کہ ان تین نکات کی وضاحت کے بعد مقالہ لکھنے والا حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم کرلے گااور اپنے لکھے ہوئے سے نادم و پشیمان ہوگا اور اپنے اس کام کی اصلاح کرے گا۔
اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ اس مقالے کے تمام مطالب اہل سنت کے مشہور مآخذوں سے لئے گئے ہیں۔
۱۔ حضرت زہرا (علیھا السلام) کا مرتبہ رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کلمات میں
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بیٹی کا مرتبہ بہت بلند و بالا ہے ،آپ کے متعلق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بہت ساری حدیثیں ہیں جو اس بات پر دلیل ہیں کہ آپ تمام گناہوں سے پاک و پاکیزہ اورمعصوم ہیںلہذاپیغمبر اکرم (ص)، آپ کے متعلق فرماتے ہیں : فاطمہ بضعة منی فمن اغضبھااغضبنی(۱) فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ بغیر کہے یہ بات معلوم ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو ناراض کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ ان کو اذیت دی گئی اور ایسے شخص کی سزا قرآن مجید میں یہ بیان ہوئی ہے :
والذین یوذون رسول اللہ لھم عذاب الیم (۲) جو رسول خدا کو اذیت پہنچائیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
اور ان کی فضیلت اور عصمت کے اوپر اس سے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان کی مرضی کو خدا کی مرضی اور ان کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی تعبیر فرمایا ہے آپ (ص) فرماتے ہیں :
یا فاطمہ ان اللہ یغضب لغضبک و یرضی لر ضاک (۳) میری بیٹی فاطمہ یہ جان لو کہ خدا تمہارے ناراض ہونے سے ناراض اور تمہارے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے۔
اتنا بڑا مرتبہ و منزلت رکھنے کی وجہ سے آپ دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں، اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آپ کے متعلق فرمایا:
یا فاطمة ! الا ترضین ان تکون سیدة نساء العالمین، و سیدة نساء ھذہ الامة و سیدة نساء المومنین(۴)۔
میری بیٹی فاطمہ کیا تم اس کرامت سے جو خدا نے تمہیں عطا کی ہے خوش ہو کہ تم دنیاکی عورتوں،اس امت اور مومن عورتوں کی سردار ہو۔
۲۔ قرآن و سنت میں آپ کے گھر کا احترام
محدثین بیان کرتے ہیں جس وقت یہ آیہ مبارکہ”فی بیوت اذن اللہ ان ترفع و یذکر فیھا اسمہ“(۵) پیغمبر اکرم پر نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس آیت کو مسجد میں تلاوت کیا ، اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا : اے رسول گرامی! اس اہم گھر سے مراد کونسا گھر ہے؟
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: پیغمبروں کے گھر!
ابوبکر نے حضرت علی و فاطمہ (علیھما السلام) کے گھر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ کیا یہ گھر انہی گھروں میں سے نہیں ہے؟
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جواب دیا: ہاں ان میں سے سب سے زیادہ نمایاں یہی گھر ہے(۶)۔
آپ کے گھر کی بے حرمتی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ ) نو (۹)مہینے تک اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر پر تشریف لاتے تھے، ان کو اور ان کے شوہر نامدار کو سلام کرتے تھے(۷) اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے”انما یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا (۸)۔
وہ گھر جو نور الہی کا مرکز ہے اور خدا نے اس کو بلند درجہ عطا فرمایا ہے اس کا بہت زیادہ احترام ہے۔
جی ہاں ! ایسا گھر جس میں اصحاب کساء رہتے ہوں اور خدا اس گھر کو عظمتوں کے ساتھ یاد کررہا ہو، اس گھر کاتمام دنیا کے مسلمانوں کو احترام کرنا چاہئے۔
اب دیکھنا چاہئے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ ) کی رحلت کے بعد اس گھر کا کتنا احترام کیا گیا ہے؟ کس طرح اس گھر کے احترام کو ختم کیا گیا اور وہ لوگ خود واضح طور سے اس کا اعتراف کرتے ہیں؟ یہ بے احترامی کرنے والے کون لوگ تھے اور ان کا ہدف و مقصد کیا تھا؟
۳۔ آپ کے گھر کی بے احترامی
ان تمام احکام کی بار بار تاکید کرنے کے بعد افسوس کہ بہت سے لوگوں نے اس کے احترام سے چشم پوشی کرلی اور اس کی بے احترامی کی جبکہ یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جس سے چشم پوشی کی جائے۔
اس سے متعلق اہل سنت کی کتابوں سے چند روایات کو ہم یہاں پر بیان کرتے ہیں تاکہ یہ بات روشن ہوجائے کہ حضرت زہر(علیھا السلام) کے گھر کی بے حرمتی اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات تاریخی اورحقیقی ہیں ، نہ ایک افسانہ! اور دوسری بات یہ کہ خلفاء کے زمانے میں اہل بیت(علیہم السلام) کے فضایل و مناقب لکھنے سے سخت منع کیا جاتا تھا لیکن اس بناء پر کہ ”ہر چیز کی حقیقت خودا س چیز کی حفاظت کرتی ہے“ یہ حقیقت بھی تاریخی اور حدیثی کتابوں میں زندہ اور محفوظ ہے ، ہم یہاں پر دلایل کو زمانے کی ترتیب کے ساتھ پہلی صدی سے شروع کریں گے اور عصر حاضر کے موْلفین تک پہونچائیں گے۔
الف) اہل سنت کے مشہور محدث ،ابن ابی شیبہ کی کتاب ”المصنف“
ابوبکر بن ابی شیبہ (۲۳۵۔۱۵۹) کتاب المصنف کے موْلف صحیح سند سے اس طرح نقل کرتے ہیں:
انہ حین بویع لابی بکر بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کان علی و الزبیر یدخلان علی فاطمة بنت رسول اللہ، فیشاورونھا و یرتحعون فی امرھم۔ فلما بلغ ذلک عمر بن الخطاب خرج و دخل علی فاطمة، فقال: یا بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ )و اللہ ما احد احب الینا من ابیک و ما من احد احب الینا بعد ابیک منک، و ایم اللہ ما ذاک بمانعی ان اجتمع ھوْلاء النفر عندک ان امرتھم ان یحرق علیھم البیت“۔
جس وقت لوگ ابوبکر کی بیعت کررہے تھے، علی اور زبیرحضرت فاطمہ زہرا کے گھر میں گفتگو اور مشورہ کررہے تھے اور یہ بات عمر بن خطاب کو معلوم ہوگئی۔ وہ حضرت فاطمہ کے گھر آیااور کہا : اے رسول کی بیٹی، سب سے محبوب انسان ہمارے نزدیک تمہارے والدگرامی تھے اور ان کے بعد اب تم سب سے زیادہ محترم ہو لیکن خدا کی قسم یہ محبت اس بات کے لئے مانع یا رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ یہ لوگ تمہارے گھر میں جمع ہوں اور میں اس گھر کو ان لوگوں کے ساتھ جلانے کا حکم نہ دوں۔
اس جملہ کو کہہ کر باہر چلا گیا جب حضرت(علی علیہ السلام) اور زبیر گھر میں واپس آئے تو حضرت فاطمہ زہرا نے حضرت علی اور زبیرسے کہا : عمر یہاں آیا تھا اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر تم دوبارہ اس گھر میں جمع ہوئے تو تمہارے گھر کو ان لوگوں کے ساتھ آگ لگادوں گا ، خدا کی قسم ! اس نے جو قسم کھائی ہے وہ اس کو انجام دے کر رہے گا (۹)۔
دوبارہ وضاحت کرتا ہوں کہ یہ واقعہ المصنف نامی کتاب میں صحیح سند کے ساتھ نقل ہوا ہے۔
ب) اہل سنت کے دوسرے بزرگ محدث، بلاذری کی کتاب”انساب الاشراف“
مشہور مولف اور تاریخ نگار ،احمد بن یحیی بن جابر بلاذری(م ۲۷۰) اس تاریخی واقعہ کو اپنی کتاب انساب الاشراف میں اس طرح نقل کرتا ہے:
”ان ابابکر ارسل الی علی یرید البیعة فلم یبایع، فجاء عمر و معہ فتیلة! فلقیتہ فاطمة علی الباب فقالت فاطمہ: یابن الخطاب، اتراک محرقا علی بابی؟ قال : نعم، و ذلک اقوی فیما جاء بہ ابوک...“(۱۰)۔
ابوبکر نے حضرت علی (علیہ السلام) کو بیعت کیلئے بلوایا، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے بیعت کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد عمر ، مشعل لے کر وہاں سے نکلا اور حضرت فاطمہ کے گھر کے دروازے کے سامنے حضرت فاطمہ کے سامنے کھڑا ہوگیا، حضرت فاطمہ (س) نے کہا : اے خطاب کے بیٹے، کیا تم ہمارے گھر میں آگ لگا دو گے؟ ! عمر نے کہا : ہاں ، یہ کام اس چیز کی مدد کرے گا جس کے لئے تمہارے والد مبعوث ہوئے تھے!۔
ج) ابن قتیبہ اور کتاب ”الامامة والسیاسة“
مشہور مورخ عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری(۲۱۲۔۲۷۶)تاریخ اسلام کا سب سے زیادہ لکھنے والا انسان اور کتاب تاویل مختلف الحدیث اور ادب الکاتب وغیرہ کا موْلف ہے(۱۱)وہ ”الامامة والسیاسة“ میں اس طرح لکھتا ہے:
ان ابابکر(رض)تفقد قوما تخلفوا عن بیعتہ عند علی کرم اللہ وجہہ فبعث الیھم عمر فجاء فناداہم و ھم فی دار علی، فابوا ان یخرجوا فدعا بالحطب و قال : والذی نفس عمر بیدہ لتخرجن او لاحرقنھا علی من فیھا، فقیل لہ : یا ابا حفص ان فیھا فاطمة فقال، وان!(۱۲)۔
ابوبکر نے ان لوگون کی جستجو کی جو ان کی بیعت کے منکر ہو کر حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں جمع ہوگئے تھے اورپھر عمر کو انہیں بلانے کے لئے بھیجا، وہ حضرت علی(علیہ السلام) کے گھر کے دروازہ پر آیا اور سب کو آواز لگائی کہ باہر آجاؤ، اور وہ لوگ گھر سے باہر نہیں نکلے، اس وقت عمر نے لکڑیاں منگوائیں او رکہا: خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر باہر نہیں آؤ گے تو میں گھر کو آگ لگا دوں گا۔ کسی نے عمر سے کہا: اے حفص کے باپ(عمر کی کنیت) اس گھر میں پیغمبر(ص) کی بیٹی فاطمہ (س) ہیں ، عمر نے کہا : کوئی بات نہیں۔
ابن قتبیہ نے اس واقعہ کو بہت دردناک بیان کیا ہے وہ کہتا ہے :
ثم قام عمرفمشی معہ جماعة حتی اتوا فاطمة فدقوا الباب فلما سمعت اصواتھم نادت یا علی صوتھا یا ابتاہ یا رسول اللہ ماذا لقینا بعدک من ابن الخطاب و ابن ابی القحافة فلما سمع القوم صوتھا و بکائھا انصرفوا و بقی عمر و معہ قوم فاخرجوا علیا فمضوا بہ الی ابی بکر فقالوا لہ بایع، فقال: ان انا لم افعل فمہ؟ فقالوا : اذا واللہ الذی لا الہ الا ھو نضرب عنقک...!(۱۳)۔
عمرایک گروہ کے ساتھ حضرت فاطمہ کے گھر آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا، جس وقت حضرت فاطمہ نے ان کی آواز سنی تو بلند آواز سے کہا : اے رسول خدا تمہارے بعد ، خطاب اور ابو قحافہ کے بیٹے نے کیا کیا مصیبتیں ہمارے اوپر ڈالی ہیں، جو لوگ عمر کے ساتھ آئے تھے انہوں نے جب حضرت فاطمہ کی آواز اور ان کے رونے کی آواز کو سنا تو واپس چلے گئے، لیکن عمر کچھ لوگوں کے ساتھ وہیں کھڑا رہا اور پھر وہ حضرت علی کو گھر سے باہر لے آئے اور ابوبکر کے پاس لے گئے اور ان سے کہا : بیعت کرو، علی(علیہ السلام) نے کہا : اگر بیعت نہ کروں تو کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا : اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، تمہیں قتل کردیں گے...۔
تاریخ کا یہ حصہ شیخین کے چاہنے والوں کے لئے بہت سخت اور ناگوار ہے ، لہذا بہت سے لوگوں نے ابن قتیبہ کی اس کتاب سے انکار کردیا جبکہ ابن ابی الحدید، فن تاریخ کا استاد، اس کتاب کو ابن قتیبہ ہی کی بتاتا ہے اور ہمیشہ اس سے مطالب کو نقل کرتا ہے ، افسوس اس کتاب میں بہت زیادہ تحریف ہوچکی ہے اور اس کے بہت سے مطالب کو چھاپتے وقت حذف کردئیے ہیں جب کہ وہ سب مطالب ، ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ میں موجود ہیں۔
زرکلی نے بھی اپنی کتاب الاعلام میں اس کتاب کو ابن قتیبہ ہی کی کتابوں میں سے شمار کیا ہے اور مزید کہتا ہے کہ اس کتاب کے متعلق بہت سے علماء کا خاص نظریہ ہے یعنی وہ دوسروں کی طرف شک و تردید کی نسبت دیتا ہے اپنی طرف نہیں(۱۴)، الیاس سرکیش نے بھی اس کتاب کو ابن قتیبہ ہی کے ایک کتاب جانا ہے(۱۵)۔
د)طبری اور اس کی تاریخ
مشہورموٴ رخ محمد بن جریر طبری(م۳۱۰) اپنی کتاب میں آپ کے گھر کی بے احترامی کے متعلق اس طرح بیان کرتا ہے :
اتی عمر بن الخطاب منزل علی و فیہ طلحة والزبیر و رجال من المھاجرین، فقال واللہ لاحرقن علیکم او لتجرجن الی البیعة، فخرج علیہ الزبیر مصلتا بالسیف فعثر فسقط السف من یدہ، فوثبوا علیہ فاخذوہ (۱۶)۔
عمر بن خطاب، حضرت علی کے گھر آیا جبکہ طلحہ، زبیر اور کچھ مہاجرین وہاں پر جمع تھے، اس نے ان کی طرف منہ کرکے کہا: خدا کی قسم اگر بیعت کیلئے باہر نہیں آؤ گے تو اس گھر میں آگ لگا دوں گا ، زبیر تلوار کھینچ کر باہر نکلا، اچانک اس کو ٹھوکر لگ گئی اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی پھر تو دوسرے لوگوں نے اس کے اوپر حملہ کردیا اور اس کو پکڑ لیا۔
تاریخ کے اس حصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ کی بیعت رعب و وحشت اور دھمکی دے کر لی جاتی تھی، لیکن اس بیعت کا کیا فائدہ ہے اس کا فیصلہ خود قاری محترم کے اوپر ہے۔
ھ) ابن عبد ربہ اور کتاب ”العقد الفرید“
شہادب الدین احمد معروف بہ ابن عبد ربہ اندلسی، کتاب ”العقد الفرید“ (م ۴۶۳) کے مولف نے اپنی کتاب میں سقیفہ کی تاریخ سے متعلق وضاحت کی ہے اور جن لوگوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی اس عنوان کے تحت لکھتا ہے :
فاما علی والعباس والزبیر فقعدوا فی بیت فاطمة حتی بعث الیھم ابوبکر، عمر بن الخطاب لیخرجھم من بیت فاطمة وقال لہ: ان ابوا فقاتلھم، فاقبل یقیس من ناز ان یضرم علیمھم الدار، فلقیتہ فاطمة فقال : یا ابن الخطاب اجئت لتحرق دارنا؟! قال: نعم، او تدخلوا فیما دخلت فیہ الامة!(۱۷)۔
علی ، عباس اور زبیر حضرت فاطمہ کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو بکر نے عمر بن خطاب کو بھیجا تاکہ ان کو حضرت فاطمہ کے گھر سے باہر نکالے اور اس سے کہا : کہ اگر باہر نہ آئیں تو ان سے جنگ کرو! عمر بن خطاب تھوڑی سی لکڑیاں لے کر حضرت فاطمہ کے گھر کی طرف چلا تاکہ گھر کو آگ لگائے اچانک حضرت فاطمہ سے سامنا ہوا ، پیغمبر اکرم (ص) کی بیٹی نے کہا : اے خطاب کے بیٹے کیا ہمارے گھر کو آگ لگانے آئے ہو؟ اس نے جواب دیا : ہاں ، مگر یہ کہ جس چیز کو امت نے قبول کرلیا ہے تم بھی اس کو قبول کر لو!
یہاں تک اس بحث کی وضاحت کی گئی ہے جس میں بے حرمتی کا ارادہ کیا گیا ہے اب اس مقالہ کے دوسرے حصہ سے بحث کرتے ہیں جس میں بیان کیا جائے گا کہ انہوں نے اپنے اس برے ارادہ کو عملی جامہ بھی پہنا یا ہے تاکہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ اس سے مراد ڈرانا اوردھمکانا تھا تا کہ علی(علی علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو بیعت کیلئے مجبور کریں اور ایسی دھمکی کو عملی جامہ نہیںپہنانا چاہتے تھے۔حملہ ہوگیا!
یہاں تک ان لوگوں کی باتوں کو بیان کیا گیا ہے جنہوں نے خلیفہ اور اس کے دوستوں کی بری نیت کی طرف اشارہ کیا ہے ، وہ گروہ جو اس واقعہ کو اچھی طرح یالکھنا نہیں چاہتے تھے یا نہیںلکھ سکے، جب کہ بہت سے علماء ایسے ہیں جنہوں نے اصل واقعہ یعنی حضرت زہرا (س) کے گھر پر حملہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور اب ہم حضرت فاطمہ (س) کے گھر پر حملہ اور اس کی بے احترامی کے متعلق دلیلیں بیان کرتے ہیں(اور اس حصہ میں مآخذ و منابع کو بیان کرنے میں زمانے کی ترتیب کو رعایت کریں گے)۔
و) ابوعبید او رکتاب ”الاصول“
ابوعبید، قاسم بن سلام (م۲۲۴) کتاب الاموال جس پر اہل سنت کے فقہاء اعتماد کرتے ہیں،میں لکھتا ہے : عبدالرحمن بن عوف کہتا ہے : جب ابوبکر بیمار تھا تو میں اس کی عیادت کیلئے گیا اس نے بہت سی باتیں کرنے کے بعد کہا : اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ان کو انجام نہ دیتا اور تین کام جو انجام نہیں دئیے ان کو انجام دیتا اسی طرح آرزو کرتا ہوں کہ پیغمبر اکرم سے تین چیزوں کے بارے میں سوال کرتا جن میں سے ایک کو میں انجام دے چکا ہوں اور آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا ”وددت انی لم اکشف بیت فاطمة و ترکتہ و ان اغلق علی الحرب “ ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ وہ جنگ ہی کیلئے بند کیاگیا تھا (۱۸)۔
ابوعبیدہ جب اس جگہ پہنچتے ہیں تو ”لم یکشف بیت فاطمة و ترکتہ“ کے جملہ کی جگہ کو”کذا و کذا“ لکھ کر کہتے ہیں کہ میں ان کو بیان نہیں کرنا چاہتا۔
ابوعبید نے اگرچہ مذہبی تعصب یا کسی اور وجہ سے حقیقت کو نقل نہیں کیا ہے لیکن کتاب الاموال کے محققین نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے : جس جملہ کو حذف کردیا گیا ہے وہ کتاب میزان الاعتدال(جس طرح بیان ہواہے)میں بیان ہوا ہے اس کے علاوہ طبرانی نے اپنی معجم میں او رابن عبد ربہ نے عقدالفرید اور دوسرے افراد نے اس جملہ کو بیان کیا ہے(ملاحظہ فرمائیں)۔
ز)طبرانی اور ”معجم الکبیر“
ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی(۲۶۰۔۳۶۰)جن کو ذہبی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں معتبر سمجھتے ہیں(۱۹) کتاب المعجم الکبیرمیںجو کہ کئی مرتبہ چھپ چکی ہے ابوبکر، اس کے خطبہ اور اس کی وفات کے متعلق لکھتا ہے :
ابوبکر نے مرتے وقت کچھ چیزوں کی تمنا کی اور کہا : اے کاش تین کاموں کو انجام نہ دیتا، تین کاموں کو انجام دیتا اورتین کاموں کے متعلق پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کرتا: ”اما الثلاث اللائی وددت انی لم افعلھن، فوددت انی لم اکن اکشف بیت فاطمة و ترکتہ، ...
وہ تین کام جن کی میں آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا ان میں سے ایک حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی ہے کہ اے کا ش میں ان کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیتا (۲۰)۔
ان تعبیروں سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ عمر کی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا گیا اور گھر کو زبردستی(یا آگ لگانے کے ذریعہ) کھولا گیا۔
ح) ابن عبد ربہ اور ”عقد الفرید“ کا ایک بار پھر جائزہ
ابن عبد ربہ اندلسی ، کتاب العقد الفرید(م ۴۶۳) کا موْلف اپنی کتاب میں عبدالرحمن بن عوف سے نقل کرتا ہے :
جب ابوبکر بیمار تھا تو میں اس کی عیادت کیلئے گیا اس نے کہا : اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ، ان کو انجام نہ دیتاان تین کاموں میں سے ایک کام یہ ہے ”وددت انی لم اکشف بیت فاطمة عن شئی وان کانوا اغلقوہ علی الحرب “ ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ انہوں نے جنگ کرنے ہی کے لئے اس دروازہ کوکیوں نہ بند کر رکھا ہو (۲۱)۔
آئندہ کی بحثوں میں بھی ان لوگوں کے نام اور ان شخصیتوں کی عبارات کو بیان کیا جائے گا جنہوں نے خلیفہ کی اس بات کو نقل کیا ہے
ط) کتاب ”الوافی بالوفیات“میں نظام کی گفتگو
ابراہیم بن سیار نظام معتزلی(۱۶۰۔۲۳۱)جو نظم و نثر میں اپنے کلام کے حسن کی وجہ سے نظام کے نام سے مشہور ہے اس نے اپنی مختلف کتابوں میں حضرت فاطمہ کے گھر پر حاضر ہونے کے بعد والے واقعہ کو نقل کیا ہے وہ کہتا ہے :
ان عمرضرب بطن فاطمة یوم البیعة حتی القت المحسن من بطنھا۔
عمر نے جس روز ابوبکر کی بیعت لی اس روز حضرت فاطمہ کے شکم مبارک پرایک ضرب ماری، ان کے شکم میں جو بچہ تھا جس کا نام محسن تھا وہ ساقط ہوگیا!(۲۲)۔
ی)مبرد اور کتاب ”کامل“
ابن ابی الحدید لکھتا ہے : محمد بن یزید بن عبدالاکبر بغدادی(۲۱۰۔۲۸۵)مشہور ادیب اور لکھنے والا ، مشہور کتابوں کا مالک، اپنی کتاب الکامل میں عبدالرحمن بن عوف سے خلیفہ کی آرزووں کی داستان کو نقل کرتا ہے اور اس طرح یاد دہانی کراتا ہے :
وددت انی لم اکن کشفت عن بیت فاطمة و ترکتہ و لو اغلق علی الحرب(۲۳)۔
ک)مسعودی اور ”مروج الذہب“
مسعودی (متوفی ۳۲۵) اپنی کتاب مروج الذہب میں لکھتا ہے : جس وقت ابوبکر احتضار کی حالت میں تھا اس نے یہ کہا :
اے کاش تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ان کو انجام نہ دیتاان میں سے ایک کام یہ ہے ”فوددت انی لم اکن فتشت فاطمة و ذکر فی ذلک کلاما کثیرا “ ۔ اے کاش حضرت فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اس نے اس سلسلہ میں اور بہت سی باتیں بیان کی ہیں(۲۴)۔
مسعودی اگر چہ اہل بیت سے محبت رکھتا ہے لیکن یہاں پر اس نے خلیفہ کی باتوں کو بیان نہیں کیا ہے اور کنایہ کے ساتھ آگے بڑھ گیا ہے البتہ سبب کو خدا جانتا ہے لیکن اس کے بندے بھی اجمالی طور سے جانتے ہیں(۲۵)۔
م)عبدالفتاح عبدالمقصود اور کتاب ”امام علی“
اس نے حضرت فاطمہ کے گھر پر حملہ سے متعلق اپنی کتاب میں دو جگہ بیان کیا ہے اور ہم اس میں سے ایک کو نقل کرنے پراکتفاء کرتے ہیں :
عمر نے کہا : والذی نفس عمر بیدہ، لیخرجن او لاحرقنھا علی من فیھ...! قالت لہ طائفة خافت اللہ و رعت الرسول فی عقبہ: یا اباحفص، ان فیھا فاطمة...! فصاح: لایبالی و ان...! و اقترب و قرع الباب، ثم ضربہ و اقتحمہ... و بدالہ علی... و رن حینذیک صوت الزھراء عند مدخل الدار... فانی ھی الا طنین استغاثة(۲۶)۔
اس کی قسم جس کے قبضہ میں عمر کی جان ہے یا گھر سے باہر نکل جاؤ یا اس گھر کے رہنے والوں سمیت اس میں آگ لگا دوں گا۔
کچھ لوگ جو خدا سے ڈرتے تھے اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ) کی وفات کے بعد آپ کا احترام کرتے تھے انہوں نے کہا: اے حفصہ کے باپ، اس گھر میں فاطمہ بھی ہیں، اس نے بغیر کسی کی پروا کئے ہوئے پکارا: ہوا کرے! اس کے بعد دروازے کو کھٹکھٹایا اور پھر گھر میں داخل ہوگیا، علی علیہ السلام ظاہر ہوگئے... حضرت زہرا کی آواز گھر میں گونجی... یہ ان کے نالہ و شیون کی آواز تھی!
اس بحث کو دوسری حدیث کے ذریعہ جس کو مقاتل بن عطیہ نے اپنی کتاب میں ”الامامة والخلافة“ میں بیان کیا ہے ختم کرتے ہیں(اگر چہ ابھی بہت کچھ کہنا باقی ہے!)۔
وہ اس کتاب میں اس طرح لکھتا ہے :ان ابا بکر بعد ما اخذ البیعة لنفسہ من الناس بالارھاب والسیف والقوة ارسل عمر و قنفذ و جماعة الی دار علی و فاطمة(علیھما السلام)و جمع عمر الحطب علی دار فاطمة و احرق باب الدار(۲۷)...
جس وقت ابو بکر لوگوں سے رعب و وحشت اور تلوار کے زور پر بیعت لے رہا تھا ، عمر ، قنفذ اور ایک گروہ کو حضرت علی و فاطمہ (علیھما السلام) کے گھر کی طرف بھیجا ، عمر نے لکڑیاں جمع کرکے گھر میں آگ لگا دی۔
اس روایت کے ذیل میں اور بھی بہت سی تعبیریں ہیں جن کو بیان کرنے سے قلم عاجز ہے۔
نتیجہ:
ان سب واضح دلیلوں کے باوجود جو اہل سنت کی کتابوں سے نقل ہوئی ہیں پھر بھی بہت سے لوگ اس واقعہ کو ”افسانہ شہادت“ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس تلخ و ناگوار حادثہ کو جعلی بتاتے ہیں اگر یہ لوگ اس واقعہ کے انکار پر اصرار نہ کرتے تو ہم بھی اس سے زیادہ اس کی وضاحت نہ کرتے۔
سوئے ہوئے افراد کو ان حقائق کے ذریعہ بیدار کیا جائے تاکہ تاریخی حقیقت کو تعصبات کے اندر نہ چھپایا جائے اور اس کا انکار نہ کریں۔
وما علینا الا البلاغ
مآخذ
۱۔ فتح الباری نے صحیح بخاری کی شرح ج۷، ص ۸۴ میں لکھا ہے اور بخاری نے بھی اس حدیث کوعلامات نبوت کے حصہ میں ج۶، ص ۴۹۱ اور مغازی کے آخر میں ج ۸ ص ۱۱۰ پر اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔
۲۔ سورہ توبہ، آیت ۶۱۔
۳۔ مستدرک حاکم، ج ۳ ص۱۵۴۔ مجمع الزوائد، ج۹ ص ۲۰۳۔ اور حاکم نے مستدرک میں کچھ حدیثیں بیان کی ہیں جن میں تمام شرائط پائے جاتے ہیں اور ان کوصحیح ہونے کے اعتبار سے بخاری اور مسلم نے ضروری سمجھا ہے۔
۴۔ مستدرک حاکم، ج۳ ص۱۵۶۔
۵۔ سورہ نور، آیت ۳۶۔ (خدا کانور) ان گھروں میں روشن ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے۔
۶۔رسول اللہ نے اس آیت کو پڑھا ( فی بیوت اذن اللہ ان ترفع و یذکر فیھا اسمہ) کو پڑھا تو ایک شخص کھڑا ہوگیا : اور اس نے کہا : وہ کونسا گھر ہے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)؟ آپ نے فرمایا : انبیاء کا گھر، تو ابو بکر کھڑا ہوا اور کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ): کیا یہی وہ گھر ہے (حضرت علی اور فاطمہ (علیہما السلام) کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اپ نے فرمایا: ہاں ۔ (در المنثور، ج۶ ص۲۰۳۔تفسیر سورہ نور، روح المعانی، ج۱۸ ص۱۷۴۔
۷۔ در المنثور ج ۶ ص۶۰۶۔
۸۔ سورہ احزاب، آیت ۳۳۔
۹۔ مصنف ابن ابی شیبة، ج۸ ص۵۷۲، کتاب المغازی۔
۱۰۔ انساب الاشراف، ج۱ ص۵۸۶، طبع دار المعارف، قاہرہ۔
۱۱۔ الاعلام زرکلی، ج۴ ص۱۳۷۔
۱۲۔ الامامة والسیاسة ابن قتیبہ، ص۱۲، مطبوعہ مکتبة تجاریہ کبری، مصر۔
۱۳۔ وہی حوالہ، ص۱۳۔
۱۴۔ معجم المطبوعات العربیة، ج۱ ص ۲۱۲۔
۱۵۔ الاعلام زرکلی، ج۴ ص۱۳۷(مطبوعہ دار العلم للملایین، بیروت)۔
۱۶۔ تاریخ طبری، ج۲ ص۴۴۳، مطبوعہ بیروت۔
۱۷۔ عقد الفرید، ج۴ ص۹۳، مطبوعہ مکتبة ھلال۔
۱۸۔ الاموال، حاشیہ ۴، مطبوعہ نشرکلیات ازھریہ۔ ص ۱۴۴، مطبوعہ بیروت۔ ابن عبد ربہ نے بھی اس کو عقد الفرید میںج ۴ ص ۹۳پر نقل کیا ہے ۔
۱۹۔ میزان الاعتدال ج۲ ص۱۹۵۔
۲۰۔ معجم الکبیر طبرانی، ج۱ ص۶۲ ح ۳۴، تحقیق حمدی عبدالمجید سلفی۔
۲۱۔ عقد الفرید، ج۴ ص۹۳، مطبوعہ مکتبة الھلال۔
۲۲۔ الوافی بالوفیات، ج ۶ ص۱۷، شمارہ ۲۴۴۴، شہرستانی کی ملل و نحل، ج۱ ص۵۷ مطبوعہ دار المعرفة،بیروت۔ نظام کے ترجمہ میں کتاب”بحوث فی الملل و النحل“ ج ۳ ص ۲۴۸۔ ۲۵۵۔
۲۳۔ شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید، ج ۲ ص ۴۶و ۴۷ مطبوعہ مصر۔
۲۴۔ مروج الذہب، ج ۲ ص۳۰۱، مطبوعہ دار الاندلس، بیروت۔
۲۵۔ میزان الاعتدال، ج ۱ ص۱۳۹، شمارہ ۵۵۲۔
۲۶۔ الامامة و الخلافة، ص ۱۶۰ ۔۱۶۱ ، تالیف، مقاتل بن عطیة جو کہ قاہرہ کی یونیورسٹی عین الشمس کے استاد ڈاکٹر حامد داؤد کے مقدمہ میں چھپی ہے(مطبوعہ
بیروت، موسسہ البلاغ)۔
تحقيق حمدى عبدالمجيد سلفى.
21. عقد الفريد، ج
Categories:
Urdu - اردو
0 comments:
Post a Comment
براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.