کیا خلیفہ دوم عمر بن خطاب زمانہ ِ جاہلیت میں اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کیا کرتے تھے ؟
زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کی تاریخ ، انسان کو آج بھی پریشان کر دیتی ہے۔ جاہل عرب بے عزتی اور مفلسی کے ڈر سے کہ شاید لڑکی کبھی جنگ میں دشمنوں کے ہاتھ لگ جائے ، لڑکیوں کو کمسنی میں زندہ درگور کر د یتے تھے اور ان افراد میں سے جو لڑکیوں زندہ دفن کردیتے تھے خلیفہ دوم عمر بن خطاب بھی تھے
طبرانى نے معجم كبير میں سند صحیح کے ساتھ نقل کیا ہے کہ عمر بن خطابنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے سامنے یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کیا کرتے تھے :
863 حدثنا عَبْدَانُ بن أَحْمَدَ ثنا الْحُسَيْنُ بن مَهْدِيٍّ الأُبُلِّيُّ ثنا عبد الرَّزَّاقِ أنا إِسْرَائِيلُ ثنا سِمَاكُ بن حَرْبٍ قال سَمِعْتَ النُّعْمَانَ بن بَشِيرٍ يقول سمعت عُمَرَ بن الْخَطَّابِ يقول وَسُئِلَ عن قَوْلِهِ وإذا الموؤودة سئلت قال جاء قَيْسُ بن عَاصِمٍ إلى رسول اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وسلم قال إني وَأَدَتُ ثَمَانِيَ بناتٍ لي في الْجَاهِلِيَّةِ
قال اعتق عن كل وَاحِدَةٍ منها رَقَبَةً قلت إني صَاحِبُ إِبِلٍ قال اهْدِ إن شِئْتَ عن كل وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ بَدَنَةً
.
نعمان بن بشير کہتے ہیں کہ : میں نے عمر بن خطاب سے آيت «وإذا الموؤودة سئلت» کی تفسیر سنی کہ وہ کہتے ہیں کہ : قیس بن عاصم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے سوال کیا کہ :میں نے زمانہ جاہلیت میں 8 بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیاتھا اب کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : ہر ایک لڑکی کے بدلے ایک غلام آزاد کرو ۔میں {عمر } نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سوال کیا کہ : میں چوبان ہوں اور اونٹ میرے پاس ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا ہر ایک لڑکی کے بدلے ایک اونٹ ہدیہ دو
الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفى360هـ)، المعجم الكبير، ج 18 ص 337، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ – 1983م.
هيثمى اس سند روایت کی بارے میں کہتے ہیں :
رواه البزار والطبراني ورجال البزار رجال الصحيح غير حسين بن مهدي الأيلي وهو ثقة .
اس روایت کو بزار اور طبرانی نے نقل کیا ہے اور اسکے تمام راوی صحیح روایت کے راوی ہیں سوائے حسین بن مہدی کہ وہ ثقہ ہے ۔
الهيثمي، ابوالحسن نور الدين علي بن أبي بكر (متوفاى 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 7 ص 134 ، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت – 1407هـ.
نووى شافعى نےكتاب المجموع میں لکھا ہے :
وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي وَأَدْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ
فَقَالَ : أَعْتِقْ عَنْ كُلِّ مَوْؤُودٍ رَقَبَةً .
والموؤودةُ البنتُ المقتولةِ عندما تَوَلَّدَ ، كان أهلُ الجاهليةِ يفعلونَ ذلك مخافةَ العارِ والفقرِ.
عمر بن خطاب سے روايت ہے کہ : وہ کہتے ہیں :اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ میں نے زمانہ ِ جاہلیت میں ، اپنی بیٹیوں زندہ دفن کردیا تھا {اب
کیا کروں ؟} آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : ہر زندہ دفن کی جانے والی بیٹی کے بدلے ایک غلام آزاد کرو۔
" مؤوده " سے مراد وہ لڑکی ہے جسے دلادت کے وقت قتل کر دیا جاتا تھا ۔ زمان جاہلیت میں لوگ بے عزتی اور فقر کے خدشہ کی وجہ سے یہ کام کرتے تھے ۔
النووي الشافعي، محيي الدين أبو زكريا يحيى بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام (متوفاى676 هـ)، المجموع، ج 19 ، ص 187 ، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.
ماوردى بصرى شافعى نے بھی كتاب الحاوى الكبير میں لکھا ہے
:
وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي وَأَدْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ. فَقَالَ : أَعْتِقْ عَنْ كُلِّ مَوْؤُودٍ رَقَبَةً .
وَذَلِكَ أَنَّ الْعَرَبَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَتْ تَحْفِرُ تَحْتَ الْحَامِلِ إِذَا ضَرَبَهَا الطَّلْقُ حُفَيْرَةً يَسْقُطُ فِيهَا وَلَدُهَا إِذَا وَضَعَتْهُ ، فَإِنْ كَانَ ذَكَرًا أَخْرَجُوهُ مِنْهَا ، وَإِنْ كَانَ أُنْثَى تُرِكَتْ فِي حُفْرَتِهَا ، وَطُمَّ التُّرَابُ عَلَيْهَا حَتَّى تَمُوتَ ، وَهَذَا قَتْلُ عَمْدٍ ، وَقَدْ أُوجِبَتْ فِيهِ الْكَفَّارَةُ.
عمر بن خطاب سے نقل ہوا ہے کہ: اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ میں نے زمانہ ِ جاہلیت میں ، اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا تھا {اب کیا کروں ؟} آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : ہر لڑکی کے عوض ایک غلام آزاد کرو
اس کی وجہ یہ تھی کہ جاہلیت میں عرب ، حاملہ عورت کے نیچے گڑھا بناتے تھے جب عورت وضع حمل کرتی تھی وہ مولود اس میں جا گرتا تھا اگر لڑکا ہوتا تھا تو اسے باہر نکال لیتے تھے اور اگر لڑکی ہوتی تو اسے اسی میں دفن کر دیتے تھے تاکہ مر جائے یہ کام قتل عمد شمار ہوتا ہے اور {دوسرے احکام کے ساتھ ساتھ} کفارے کا باعث بنتا ہے ۔
الماوردي البصري الشافعي، أبو الحسن علي بن محمد بن حبيب (متوفى450هـ)، الحاوي الكبير في فقه مذهب الإمام الشافعي وهو شرح مختصر المزني، ج
13 ص 67 ، تحقيق الشيخ علي محمد معوض - الشيخ عادل أحمد عبد الموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - لبنان، الطبعة: الأولى، 1419 هـ -1999م.
مجمد امين شنقيطى متوفي1393هـ نے أضواء البيان میں اور تميمى حنبلى متوفي1225هـ نےالفواكه العذاب میں لکھا ہے :
وقد جاءَ عن عمرَ رضي الله عنه قولُه : أمرانِ في الجاهليةِ . أحدُهما : يُبْكِيْنِي والآخرُ يُضْحِكُنِي .
أما الذي يبكيني : فقد ذَهبتُ بابنةٍ لي لِوَأْدِها ، فكنتُ أحفَرُ لها الحفرةَ وتَنْفُضُ الترابَ عن لِحْيَتِي وهي لا تدري ماذا أريدُ لها ، فإذا تَذَكّرتُ ذلك بَكَيْتُ .
والأخرى : كنت أصْنَعُ إلهًا من التمرِ أضَعُهُ عند رأسي يَحْرُسُنِي لَيلاً ، فإذا أصْبَحْتُ مُعَافًى أكلتُه ، فإذا تَذَكرت ذلك ضَحِكْتُ من نَفْسِي .
عمر بن خطاب سے نقل ہوا ہے کہ زمانہ جاہلیت کی دو یادیں ایسی ہیں کہ ایک مجھے رلاتی ہے اوردوسری ہنساتی ہے
وہ یاد جو رلاتی ہے وہ یہ ہے کہ میں اپنی بیٹی کو زندہ درگور کر رہا تھا اور وہ میری داڑھی پر مٹی ڈال رہی تھی لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ میں اسکے ساتھ کیا کرنے والا ہوں جب بھی اسے یاد کرتا ہوں رو پڑتا ہوں
اور دوسری یاد جسے میں یاد کرکے ہنستا ہوں وہ یہ ہے میں خدا {بت} کوکھجور سے بناتا تھا اور رات میں اپنے سرانے رکھ لیا کرتا تھا جب صبح بھوکا اٹھتا تھا تو اسے کھا لیتا تھا جب بھی اس بات کو یاد کرتا ہوں تو ہنسے بنا نہیں رہ پاتا ہوں ۔
الجكني الشنقيطي، محمد الأمين بن محمد بن المختار (متوفى 1393هـ.)، أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن، ج 8 ص 439، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر. - بيروت. - 1415هـ - 1995م.
التميمي الحنبلي، حمد بن ناصر بن عثمان آل معمر (متوفاى 1225هـ)، الفواكه العذاب في الرد علي من لم يحكم السنة والكتاب، ج 9 ص 80 ، طبق برنامه الجامع الكبير.
نکات :
اول: ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ادعا کرنا کتنا مضحکہ خیز ہے اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد کوئی نبی ہوتا توہ وہ عمر ہوتے ۔
دوم : درایت سے ثابت ہوتا ہے عمر کا جناب محسن کو شہید کرنا، نا ممکن بات نہیں ہے
زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کی تاریخ ، انسان کو آج بھی پریشان کر دیتی ہے۔ جاہل عرب بے عزتی اور مفلسی کے ڈر سے کہ شاید لڑکی کبھی جنگ میں دشمنوں کے ہاتھ لگ جائے ، لڑکیوں کو کمسنی میں زندہ درگور کر د یتے تھے اور ان افراد میں سے جو لڑکیوں زندہ دفن کردیتے تھے خلیفہ دوم عمر بن خطاب بھی تھے
طبرانى نے معجم كبير میں سند صحیح کے ساتھ نقل کیا ہے کہ عمر بن خطابنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے سامنے یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کیا کرتے تھے :
863 حدثنا عَبْدَانُ بن أَحْمَدَ ثنا الْحُسَيْنُ بن مَهْدِيٍّ الأُبُلِّيُّ ثنا عبد الرَّزَّاقِ أنا إِسْرَائِيلُ ثنا سِمَاكُ بن حَرْبٍ قال سَمِعْتَ النُّعْمَانَ بن بَشِيرٍ يقول سمعت عُمَرَ بن الْخَطَّابِ يقول وَسُئِلَ عن قَوْلِهِ وإذا الموؤودة سئلت قال جاء قَيْسُ بن عَاصِمٍ إلى رسول اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وسلم قال إني وَأَدَتُ ثَمَانِيَ بناتٍ لي في الْجَاهِلِيَّةِ
قال اعتق عن كل وَاحِدَةٍ منها رَقَبَةً قلت إني صَاحِبُ إِبِلٍ قال اهْدِ إن شِئْتَ عن كل وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ بَدَنَةً
.
نعمان بن بشير کہتے ہیں کہ : میں نے عمر بن خطاب سے آيت «وإذا الموؤودة سئلت» کی تفسیر سنی کہ وہ کہتے ہیں کہ : قیس بن عاصم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے سوال کیا کہ :میں نے زمانہ جاہلیت میں 8 بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیاتھا اب کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : ہر ایک لڑکی کے بدلے ایک غلام آزاد کرو ۔میں {عمر } نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سوال کیا کہ : میں چوبان ہوں اور اونٹ میرے پاس ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا ہر ایک لڑکی کے بدلے ایک اونٹ ہدیہ دو
الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفى360هـ)، المعجم الكبير، ج 18 ص 337، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ – 1983م.
هيثمى اس سند روایت کی بارے میں کہتے ہیں :
رواه البزار والطبراني ورجال البزار رجال الصحيح غير حسين بن مهدي الأيلي وهو ثقة .
اس روایت کو بزار اور طبرانی نے نقل کیا ہے اور اسکے تمام راوی صحیح روایت کے راوی ہیں سوائے حسین بن مہدی کہ وہ ثقہ ہے ۔
الهيثمي، ابوالحسن نور الدين علي بن أبي بكر (متوفاى 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 7 ص 134 ، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت – 1407هـ.
نووى شافعى نےكتاب المجموع میں لکھا ہے :
وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي وَأَدْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ
فَقَالَ : أَعْتِقْ عَنْ كُلِّ مَوْؤُودٍ رَقَبَةً .
والموؤودةُ البنتُ المقتولةِ عندما تَوَلَّدَ ، كان أهلُ الجاهليةِ يفعلونَ ذلك مخافةَ العارِ والفقرِ.
عمر بن خطاب سے روايت ہے کہ : وہ کہتے ہیں :اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ میں نے زمانہ ِ جاہلیت میں ، اپنی بیٹیوں زندہ دفن کردیا تھا {اب
کیا کروں ؟} آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : ہر زندہ دفن کی جانے والی بیٹی کے بدلے ایک غلام آزاد کرو۔
" مؤوده " سے مراد وہ لڑکی ہے جسے دلادت کے وقت قتل کر دیا جاتا تھا ۔ زمان جاہلیت میں لوگ بے عزتی اور فقر کے خدشہ کی وجہ سے یہ کام کرتے تھے ۔
النووي الشافعي، محيي الدين أبو زكريا يحيى بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام (متوفاى676 هـ)، المجموع، ج 19 ، ص 187 ، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.
ماوردى بصرى شافعى نے بھی كتاب الحاوى الكبير میں لکھا ہے
:
وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي وَأَدْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ. فَقَالَ : أَعْتِقْ عَنْ كُلِّ مَوْؤُودٍ رَقَبَةً .
وَذَلِكَ أَنَّ الْعَرَبَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَتْ تَحْفِرُ تَحْتَ الْحَامِلِ إِذَا ضَرَبَهَا الطَّلْقُ حُفَيْرَةً يَسْقُطُ فِيهَا وَلَدُهَا إِذَا وَضَعَتْهُ ، فَإِنْ كَانَ ذَكَرًا أَخْرَجُوهُ مِنْهَا ، وَإِنْ كَانَ أُنْثَى تُرِكَتْ فِي حُفْرَتِهَا ، وَطُمَّ التُّرَابُ عَلَيْهَا حَتَّى تَمُوتَ ، وَهَذَا قَتْلُ عَمْدٍ ، وَقَدْ أُوجِبَتْ فِيهِ الْكَفَّارَةُ.
عمر بن خطاب سے نقل ہوا ہے کہ: اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ میں نے زمانہ ِ جاہلیت میں ، اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا تھا {اب کیا کروں ؟} آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا : ہر لڑکی کے عوض ایک غلام آزاد کرو
اس کی وجہ یہ تھی کہ جاہلیت میں عرب ، حاملہ عورت کے نیچے گڑھا بناتے تھے جب عورت وضع حمل کرتی تھی وہ مولود اس میں جا گرتا تھا اگر لڑکا ہوتا تھا تو اسے باہر نکال لیتے تھے اور اگر لڑکی ہوتی تو اسے اسی میں دفن کر دیتے تھے تاکہ مر جائے یہ کام قتل عمد شمار ہوتا ہے اور {دوسرے احکام کے ساتھ ساتھ} کفارے کا باعث بنتا ہے ۔
الماوردي البصري الشافعي، أبو الحسن علي بن محمد بن حبيب (متوفى450هـ)، الحاوي الكبير في فقه مذهب الإمام الشافعي وهو شرح مختصر المزني، ج
13 ص 67 ، تحقيق الشيخ علي محمد معوض - الشيخ عادل أحمد عبد الموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - لبنان، الطبعة: الأولى، 1419 هـ -1999م.
مجمد امين شنقيطى متوفي1393هـ نے أضواء البيان میں اور تميمى حنبلى متوفي1225هـ نےالفواكه العذاب میں لکھا ہے :
وقد جاءَ عن عمرَ رضي الله عنه قولُه : أمرانِ في الجاهليةِ . أحدُهما : يُبْكِيْنِي والآخرُ يُضْحِكُنِي .
أما الذي يبكيني : فقد ذَهبتُ بابنةٍ لي لِوَأْدِها ، فكنتُ أحفَرُ لها الحفرةَ وتَنْفُضُ الترابَ عن لِحْيَتِي وهي لا تدري ماذا أريدُ لها ، فإذا تَذَكّرتُ ذلك بَكَيْتُ .
والأخرى : كنت أصْنَعُ إلهًا من التمرِ أضَعُهُ عند رأسي يَحْرُسُنِي لَيلاً ، فإذا أصْبَحْتُ مُعَافًى أكلتُه ، فإذا تَذَكرت ذلك ضَحِكْتُ من نَفْسِي .
عمر بن خطاب سے نقل ہوا ہے کہ زمانہ جاہلیت کی دو یادیں ایسی ہیں کہ ایک مجھے رلاتی ہے اوردوسری ہنساتی ہے
وہ یاد جو رلاتی ہے وہ یہ ہے کہ میں اپنی بیٹی کو زندہ درگور کر رہا تھا اور وہ میری داڑھی پر مٹی ڈال رہی تھی لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ میں اسکے ساتھ کیا کرنے والا ہوں جب بھی اسے یاد کرتا ہوں رو پڑتا ہوں
اور دوسری یاد جسے میں یاد کرکے ہنستا ہوں وہ یہ ہے میں خدا {بت} کوکھجور سے بناتا تھا اور رات میں اپنے سرانے رکھ لیا کرتا تھا جب صبح بھوکا اٹھتا تھا تو اسے کھا لیتا تھا جب بھی اس بات کو یاد کرتا ہوں تو ہنسے بنا نہیں رہ پاتا ہوں ۔
الجكني الشنقيطي، محمد الأمين بن محمد بن المختار (متوفى 1393هـ.)، أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن، ج 8 ص 439، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر. - بيروت. - 1415هـ - 1995م.
التميمي الحنبلي، حمد بن ناصر بن عثمان آل معمر (متوفاى 1225هـ)، الفواكه العذاب في الرد علي من لم يحكم السنة والكتاب، ج 9 ص 80 ، طبق برنامه الجامع الكبير.
نکات :
اول: ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ادعا کرنا کتنا مضحکہ خیز ہے اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد کوئی نبی ہوتا توہ وہ عمر ہوتے ۔
دوم : درایت سے ثابت ہوتا ہے عمر کا جناب محسن کو شہید کرنا، نا ممکن بات نہیں ہے
Categories:
Urdu - اردو
0 comments:
Post a Comment
براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.