ترویج اذان: اھل سنت كی نظر میں
1)
ابو داؤود راوی ھیں كہ مجھ سے عباد بن موسیٰ ختلی اور زیاد بن ایوب نے
روایت كی ھے (جب كہ ان دونوں میں سےعباد كی روایت زیادہ مكمل ھے)یہ دونوں
كھتے ھیں كہ ھم سے ھشیم نےابو بشیر سے روایت نقل كی ھے كہ زیاد راوی ھیں كہ
ھم سے ابو عمیر بن انس نے اور ان سے انصار كے ایك گروہ نے روایت كی ھے، كہ
نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو یہ فكر ھوئی كہ نماز كے وقت لوگوں كو
كیسے جمع كیا جائے۔ بعض لوگوں نے مشورہ دیا كہ نماز كے وقت ایك پرچم بلند
كردیا جائے۔ جب لوگ اس كو دیكھیں گے تو ایك دوسرے كو نماز كے لئے متوجہ
كردیں گے۔ آپ كو یہ مشورہ پسند نھیں آیا۔ بعض صحابہ نے كھا كہ سنكھ بجایا
جائے۔ آپ كو یہ بات بھی پسند نھیں آئی، اور فرمایا كہ یہ یھودیوں كا طریقۂ
كار ھے۔ كچھ لوگوں نے عرض كیا: گھنٹیاں بجائی جائیں۔ آپ نے فرمایا كہ یہ
نصاریٰ كی روش ھے۔
اس
كے بعد عبد اللہ بن زید (بن عبداللہ) اپنے گھر چلے گئے در حالیكہ ان كو
وھی فكر لاحق تھی جو رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو تھی۔ پس ان كو
خواب میں اذان كی تعلیم دی گئی؟۔
راوی
كھتا ھے كہ وہ اگلے دن صبح كو رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس
آئے اور عرض كی كہ یا رسول اللہ! میں خواب و بیداری كے عالم میں تھا كہ
كوئی میرے پاس آیا اور مجھے اذان سكھائی۔ راوی كھتا ھے كہ عمر بن خطاب، ان
سے پھلے خواب میں اذان دیكھ چكے تھے لیكن بیس دن تك انھوں نے كسی كو اس كی
خبر نھیں كی، اس كے بعد رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو بتایا، تو آپ
(ص) نے فرمایا كہ تم نے پھلے كیوں نھیں بتایا؟ تو كھنے لگے كہ عبد اللہ بن
زید نے مجھ سے پھلے آپ كو بتا دیا لھذا مجھے ذكر كرنے میں شرم محسوس ھوئی۔
اس كے بعد رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! كھڑے
ھوجاؤ اور جو تم سے عبد اللہ بن زید كھیں اس كو انجام دو۔ اس طرح بلال (رض)
نے اذان دی۔ ابو بشیر كھتے ھیں: مجھے ابو عمیر نے خبر دی ھے كہ انصار یہ
گمان كرتے تھے كہ اس دن اگر عبد اللہ بن زید مریض نہ ھوتے تو نبی اكرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم انھیں كو مؤذن بناتے۔
2)
محمد بن منصور طوسی نے یعقوب سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے محمد بن
اسحاق سے، انھوں نے محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی سے، انھوں نے محمد بن
عبداللہ بن زید بن عبداللہ سے روایت نقل كی ھے كہ مجھ سے عبداللہ بن زید نے
كھا كہ جب رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناقوس (گھنٹی) بجانے كا
حكم دیا اور فرمایا كہ نماز كے وقت ناقوس بجایا كرو تاكہ لوگ جمع ھوجائیں
تو میں نے خواب میں دیكھا كہ ایك شخص ھاتھ میں ناقوس لئے ھوئے میرے گرد چكر
لگا رھا ھے، میں نے اس سے كھا: اے بندۂ خدا! یہ ناقوس بیچتے ھو؟ اس نے
كھا كہ تم اس كا كیا كرو گے؟ میں نے كھا كہ اس كے ذریعہ لوگوں كو نماز كے
لئے مطلع كروں گا۔ وہ كھنے لگا: كیا میں اس سے اچھی چیز بتاؤں؟ میں نے كھا:
ھاں، بتاؤ۔ اس نے كھا كہ (نماز كے وقت لوگوں كو جمع كرنے كے لئے) یہ كلمات
كھا كرو:
"اللہ
اكبر، اللہ اكبر، اللہ اكبر، اللہ اكبر، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد
ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ،
حی علی الصلاة، حی علی الصلاة، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح، اللہ اكبر،
اللہ اكبر، لا الٰہ الا اللہ، "
راوی كھتا ھے كہ پھر وہ تھوڑی دیر كے لئے خاموش ھوا اور كھا: جب نماز كے لئے كھڑے ھوجاؤ تو یہ كھو:
"
اللہ اكبر، اللہ اكبر، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان لا الٰہ الا
اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، حی علی الصلاة،
حی علی الصلاة، حی علی الفلاح، حی الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت
الصلاة، اللہ اكبر، اللہ اكبر، لا الٰہ الا اللہ۔ "
جب صبح ھوئی تو میں رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس گیا اور اپنا خواب سنایا۔
آپ
(ص) نے فرمایا: "انشاء اللہ یہ خواب سچا ھے۔ بلال كے ساتھ جاؤ اور جو كچھ
خواب میں دیكھا ھے وہ ان كو سكھاؤ تاكہ وہ اس كے ذریعہ لوگوں كو نماز كے
لئے بلائیں۔ كیونكہ وہ تم سے زیادہ خوش لحن ھیں۔" میں بلال كے ساتھ گیا،
اور ان كو بتاتا گیا وہ اذان دیتے گئے۔ عمر بن خطاب اپنے گھر میں بیٹھے
ھوئے تھے، جیسے ھی انھوں نے اس آواز كو سنا، دوڑے ھوئے آئے۔ وہ اتنی عجلت
میں تھے كہ ان كی ردا زمین پر گھسٹ رھی تھی، وہ آئے اور رسول اكرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے كھا: "اس خدا كی قسم جس نے آپ كو حق كے ساتھ مبعوث كیا
ھے، میں نے بھی یھی خواب دیكھا ھے، جو عبد اللہ بن زید نے دیكھا تھا۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فللّٰہ الحمد (تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ھیں۔) 4
ھی روایت ابن ماجہ نے مندرجہ ذیل دو سندوں سے ذكر كی ھے۔
3)
ھم سے ابو عبید محمد بن میمون مدنی نے، ان سے محمد بن سلمہ الحرانی نے، ان
سے محمد بن ابراھیم تیمی نے، انھوں نے محمد بن عبداللہ بن زید سے اور
انھوں نے اپنے والد سے روایت كی ھے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نماز كے وقت لوگوں كو اكٹھا كرنے كے لئے ناقوس كے بارے میں حكم دینے كے لئے
سوچ رھے تھے، اور اسی كی طرف مائل تھے كہ عبد اللہ بن زید كو خواب میں
اذان سكھائی گئی…… الخ۔
4)
ھم سے محمد بن خالد بن عبد اللہ واسطی نے، ان سے ان كے والد نے، ان سے عبد
الرحمان بن اسحاق نے، ان سے زھری نے، ان سے سالم نے، ان سے ان كے والد نے
روایت كی ھے كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے مشورہ كیا
كہ نماز كے لئے لوگوں كو جمع كرنے كے لئے كیا كیا جائے؟ كچھ لوگوں نے
"سنكھ" كی پیشكش كی۔ آپ كو یہ رائے پسند نہ آئی۔ كیو نكہ سنكھ یھودیوں سے
مخصوص ھے۔ بعض نے "ناقوس" كا تذكرہ كیا۔ مگر ناقوس نصاریٰ كی روش ھونے كی
وجہ سے آپ كو یہ مشورہ بھی مناسب نھیں لگا۔ اسی رات عمر بن خطاب اور انصار
كے ایك شخص عبد اللہ بن زید كو خواب میں اذان كی تعلیم دی گئی۔
زھری
كا بیان ھے كہ صبح كی اذان میں بلال نے "الصلاة خیر من النوم" كا اضافہ
كردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنی رضا مندی كا
اظھار بھی فرما دیا۔
ترمذی نے یہ روایت مندرجہ ذیل سند كے ذریعہ نقل كی ھے:
5)
ھم سے سعد بن یحییٰ بن سعید اموی نے، ان سے ان كے والد نے، انھوں نے محمد
بن اسحاق سے، انھوں نے محمد بن حارث تیمی سے، انھوں نے محمد بن عبد اللہ بن
زید سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت كی ھے كہ جب صبح ھوئی تو ھم رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس گئے، اور خواب كے بارے میں آپ سے
بتایا…… الخ۔
6)
ترمذی كھتے ھیں: اس حدیث كو ابراھیم بن سعد نے محمد بن اسحاق سے، زیادہ
بھتر اور كامل طور پر نقل كیا ھے۔ اس كے بعد ترمذی كھتے ھیں: عبد اللہ ابن
زید سے مراد ابن عبدر بہ ھیں، اور ھمارے نزدیك اس نے رسول اكرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے جو بھی روایت نقل كی ھیں، ان میں سے صرف یھی ایك حدیث،
جو اذان كے بارے میں ھے، صحیح ھے۔
یہ
روایتیں ھم نے "صحاح ستہ" اور بعض مخصوص "سبب صحاح" جیسے سنن دارمی یا
دارقطنی، سے نقل كی ھیں، كیونكہ ان كتابوں كو جو اھمیت حاصل ھے وہ كسی
دوسری سنن كو حاصل نھیں۔ مثلاً سنن دارمی یا دارقطنی یا وہ روایتیں جو ابن
سعد نے اپنی طبقات یا بیھقی نے اپنی سنن میں نقل كی ھیں۔ ان كتابوں كی خاص
اھمیت اور منزلت كی وجہ سے ھم نے ان كو دوسری مشھور سنن سے جدا ركھا ھے۔
اب
ھم حقیقت كو واضح كرنے كے لئے ان روایات كے بارے میں متن اور سند كے
اعتبار سے گفتگو كریں گے، اس كے بعد اس سلسلہ كی باقی روایات كا تذكرہ كریں
گے۔
ھمارے نزدیك یہ تمام روایات كئی وجھوں سے اپنے مدعا پر دلیل بننے كی صلاحیت نھیں ركھتی۔
پھلی وجہ: ان روایات كا منصب رسالت سے سازگار نہ ھونا
خداوند
عالم نے اپنے رسول كو مبعوث كیا تاكہ وہ لوگوں كے ساتھ نماز كو اس كے وقت
میں قائم كریں اور اس كا لازمہ یہ ھے كہ خداوند عالم اس كو انجام دینے كی
كیفیت سے بھی آگاہ كرے۔
لھٰذا
نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا اس سلسلہ میں بھت دنوں (یا ایك روایت
كے مطابق بیس دن) تك حیران و پریشان رھنا كیا معنیٰ ركھتا ھے، كہ وہ اس
ذمہ داری كو ادا كرنے كے طریقے سے نا واقف ھوں جو ان كے كاندھوں پر آچكی
ھے؟؟ اور اپنے مقصود كو حاصل كرنے كے لئے ھر كس و ناكس سے مدد مانگتے
پھریں۔ جب كہ نص قرآنی (كان فضل اللہ علیك عظیماً) 5 كے مطابق سب پر آپ كی
فوقیت مسلم ھے۔ یھاں پر فضل سے مراد علمی برتری ھے جو سیاق آیت (و علّمك ما
لم تكن تعلم) 6 سے واضح ھے۔ اور پھر نماز و روزہ عبادتی امور ھیں، جنگ و
جدال كی طرح نھیں كہ جن كے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اپنے بعض اصحاب سے مشورہ فرمایا كرتے تھے۔ اور یہ مشورہ بھی اس لئے نھیں
ھوتا تھا كہ آپ بھتر طریقہ نھیں جانتے تھے، بلكہ یہ لوگوں كو متوجہ كرنے
اور ان كی تشویق كے لئے ھوتا تھا۔ جیسا كہ خداوند عالم كا ارشاد ھے (ولو
كنت فظّاً غلیظ القلب لا نفضوا من حولك فاعف عنھم واستغفرلھم وشاورھم فی
الامر فاذا عزمت فتوكل علی اللہ) 7 "اے رسول…… اگر تم بد مزاج اور سخت دل
ھوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس سے بھاگ كھڑے ھوتے۔ لھذا اب انھیں معاف كردو،
اور ان كے لئے استغفار كرو اور جنگی امور میں ان سے مشورہ كرو اور جب ارادہ
كرلو تو اللہ پر بھروسہ كرو۔"
كیا
یہ شرم كی بات نھیں كہ دینی امور میں عوام كے خواب و خیالات كو مصدر قرار
دیا جائے؟ اور وہ بھی اذان و اقامت جیسی اھم عبادتوں كے لئے!! كیا یہ رسول
اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی شان میں گستاخی اور ان پر بھتان نھیں ھے؟
معلوم
ھوتا ھے كہ یہ روایت عبداللہ بن زید كے قبیلہ والوں نے گڑھی ھے، اور اس
خواب كو خوب مشھور كیا، تاكہ فضیلت ان كے قبیلہ كے نام ھوجائے۔ لھذا ھم بعض
مسندات میں دیكھتے ھیں كہ اس حدیث كے راوی وھی ھیں۔ اور اس سلسلہ میں جس
نے بھی ان پر اعتماد كیا، وہ ان سے حسن ظن كی بنیاد پر كیا ھے۔
دوسری وجہ: روایات میں بنیادی اختلاف
وہ
روایتیں جو اذان كی تشریع اور آغاز كے سلسلہ میں وارد ھوئی ھیں، ان میں
سرے سے ھی اختلاف اور تضاد پایا جاتا ھے۔ جو مندرجہ ذیل ھے:
الف)
پھلی یعنی "سنن ابو داؤد" كی روایت كے مطابق عمر ابن خطاب نے عبد اللہ ابن
زید سے بیس دن پھلے خواب دیكھا، لیكن چوتھی یعنی "ابن ماجہ" كی روایت كے
مطابق انھوں نے اسی رات خواب دیكھا جس رات عبد اللہ بن زید نے دیكھا تھا۔
ب)
اذان، عبداللہ ابن زید كے خواب كے ذریعہ شروع ھوئی۔ اور عمر ابن خطاب نے
جب اذان كو سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس گئے اور كھا:
میں نے بھی یھی خواب دیكھا تھا، لیكن شرم كی وجہ سے آپ سے تذكرہ نھیں كیا۔
ج)
اذان كو عمر ابن خطاب نے رواج دیا، نہ كہ ان كے خواب نے۔ اس لئے كہ انھوں
نے خود اذان كو ایجاد كیا جیسا كہ ترمذی نے اپنی سنن میں ذكر كیا ھے:
مسلمان جب مدینہ آئے… (یھاں تك كہ وہ كھتے ھیں)… اور بعض لوگوں نے كھا:
سنكھ سے استفادہ كیا جائے۔ جیسا كہ یھودی كرتے ھیں۔ عمر ابن خطاب نے كھا كہ
كسی سے اذان دینے كے لئے كیوں نھیں كھتے؟ لھذا رسول اكرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا: یا بلال! قم فناد بالصلاة" اے بلال! اٹھو اور نماز كے
لئے دعوت دو یعنی اذان كھو۔
ھاں
ابن حجر نے "نداء بالصلاة" (نماز كے لئے اذان دینا) 8 سے اذان نھیں بلكہ
"الصلاة جامعة" كی تكرار مراد لی ھے۔ لیكن ابن حجر كی اس بات پر كوئی واضح
دلیل نھیں پائی جاتی ھے۔
د)
اذان كو خود رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع كیا۔ بیھقی كی
روایت ھے: … لوگوں نے ناقوس بجانے یا آگ روشن كرنے (كے ذریعہ نماز كی طرف
بلانے) كا مشورہ دیا تو حضور (ص) نے بلال كو حكم دیا كہ اذان كو شفعاً (ھر
فقرہ كو دوبار) اور اقامت كو وتراً (ھر فقرہ كو ایك بار) كھو۔ بیھقی كا
بیان ھے كہ بخاری نے محمد بن عبد الوھاب اور مسلم نے اسحاق بن عمار سے یھی
روایت نقل كی ھے۔ 9
ان تعارضات اور اختلافات كے ھوتے ھوئے بھلا ان روایات پر كیسے اعتماد كیا جاسكتا ھے؟
تیسری وجہ: خواب: ایك نھیں بلكہ چودہ اشخاص نے دیكھا
حلبی
كی روایت سے یہ ظاھر ھوتا ھے كہ اذان كا خواب صرف عبد اللہ ابن زید یا عمر
بن خطاب سے ھی مخصوص نھیں، بلكہ عبد اللہ بن ابوبكر نے بھی اسی طرح كے
خواب دیكھنے كا دعویٰ كیا ھے۔ اور یہ بھی كھا جاتا ھے كہ انصار میں سے سات
آدمیوں، اور ایك دوسرے قول كے مطابق چودہ لوگوں نے اذان خواب میں دیكھنے كا
ادعا كیا ھے۔ 10
كیا
كوئی صاحب عقل ان روایات، بلكہ خرافات كو قبول كرسكتا ھے؟؟ ارے بھائی!
شریعت اور اسلامی احكام كوئی بازیچہ اطفال نھیں! جو خوابوں اور خیالوں سے
تیار كر لئے جائیں۔ اور اگر اسلام كی یھی حقیقت ھے تو پھر ایسے اسلام كو
سلام ھے۔ اس سلسلہ میں حقیقت یہ ھے كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
احكام شریعت كو وحی كے ذریعہ حاصل فرمایا كرتے تھے، نہ كہ ھر كس و ناكس كے
خواب سے۔
چوتھی وجہ: بخاری سے منقول روایت اور دوسری روایات كے درمیان تعارض
بخاری
نے صراحت كے ساتھ روایت نقل كی ھے كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے مجلس مشاورت میں بلال (رض) كو یہ حكم دیا كہ نماز كے لئے لوگوں كو بلاؤ،
اور حضرت عمر اس وقت وھاں موجود نھیں تھے۔ خود ابن عمر راوی ھیں كہ مسلمان
جب مدینہ آئے تو نماز كے وقت، نماز كے لئے متوجہ كرنے اور اس كی طرف بلانے
والے كی ضرورت كا احساس كر رھے تھے۔
ایك
دن اس سلسلہ میں گفتگو كرنے لگے۔ بعض افراد نے "نصاریٰ" كی طرح ناقوس
بجانے كا مشورہ دیا۔ بعض نے كھا كہ یھودیوں كی طرح قرن یا سینگ سے استفادہ
كیا جائے۔ عمر بولے: كسی كو نماز كی دعوت دینے كے لئے كیوں نھیں بھیجتے؟
رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! اٹھو اور لوگوں كو
نماز كے لئے بلاؤ۔ 11
اور
وہ صریحی روایت جو خواب كے بارے میں ھیں ان كے مطابق نبی كریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے بلال (رض) كو اذان كا حكم، فجر كے ھنگام اس وقت دیا جب
كہ ابن زید نے اذان كے سلسلہ میں اپنا خواب حضور سے بیان كیا۔ اور عبد اللہ
بن زید كا خواب مجلس مشاورت كے كم از كم ایك رات بعد قابل تصور ھے۔
اور
جب نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلال (رض) كو اذان كا حكم دے رھے تھے
تو حضرت عمر وھاں موجود نھیں تھے، بلكہ جب اذان دی گئی تو وہ اپنے گھر میں
تھے۔ وہ دوڑتے ھوئے آئے اس حالت میں، كہ ان كے كپڑے زمین پر گھسٹ رھے تھے
اور رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے كھنے لگے كہ یا رسول اللہ! قسم
ھے اس پروردگار كی جس نے حق كے ساتھ آپ كو مبعوث كیا، یھی خواب میں نے بھی
دیكھا ھے۔
اور
ھمارے پاس ایسا كوئی قرینہ نھیں جس كی روشنی میں یہ كھا جاسكے كہ بخاری كی
روایت میں "نداء بالصلاة" سے مراد "الصلاة جامعہ" كی تكرار ھے اور خواب كی
روایتیں اذان كے سلسلہ میں ھیں۔ اور اگر كوئی اس طرح كی بات كھے بھی تو یہ
بغیر كسی دلیل كے ھوگا۔
دوسرے
یہ كہ اگر نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب بلال (رض) كو یہ حكم
دیتے كہ الصلاة جامعہ كو با آواز بلند كھو تو مسئلہ ھی حل ھوجاتا، اور
خصوصاً اگر اس كی تكرار كا حكم دیتے، تو حیرانی و پریشانی كی بات ھی نہ رہ
جاتی۔
لھذا
یہ اس بات كی دلیل ھے، كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز كی
دعوت دینے كا جو حكم دیا اس سے مراد یھی معروف اذان شرعی تھی۔ 12
یہ
چار مذكورہ وجوھات، احادیث كے مضمون كی تحقیق كا تقاضہ كرتی ھیں۔ اور یہ
اشكالات مذكورہ، احادیث كے غیر قابل قبول ھونے كے لئے كافی ھیں۔ لیكن پھر
بھی ھم ان كی اسناد كے بارے میں گفتگو كرتے ھیں۔ (تاكہ ھماری بات كی اور
وضاحت ھوجائے) ان میں سے بعض كی سندیں موقوف ھیں، اور ان كا سلسلہ رسول
اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تك نھیں پھونچتا۔ اور بعض، مسند تو ھیں مگر
ان كے راوی یا تو مجھول ھیں یا غیر موثق ھیں یا ضعیف۔ اور اسی وجہ سے علم
رجال میں انھیں كوئی اھمیت نھیں دی گئی ھے۔ اب ھم ان تمام چیزوں كو آپ كے
سامنے ترتیب وار، وضاحت كے ساتھ بیان كر رھے ھیں۔
پھلی روایت
جس كو ابو داؤد نے نقل كیا ھے، ضعیف ھے۔كیونكہ :
1)
یہ روایت ایك، بلكہ كئی نا معلوم افراد سے منقول ھے، كیونكہ اس كی سند میں
بعض راویوں كے نام كے بجائے اس طرح كے كلمات آئے ھیں: "انصار میں سے ان كے
بعض خاندان والے" یا "یا انصار كے ایك گروہ نے ان سے روایت كی ھے۔"
2)
یہ روایت ابو عمیر بن انس كے كچھ خاندانی رشتہ داروں سے منقول ھے۔ جیسا كہ
ابن حجر كھتے ھیں: "روایت ھلال اور اذان كی روایت" كو ابو عمیر كے خاندانی
رشتہ داروں نے، جن كا تعلق انصار و اصحاب نبی (ص) سے تھا، نقل كیا ھے۔
اور
ابن سعد كھتے ھیں كہ یہ موثق راوی تھا، لیكن اس سے كم احادیث نقل ھوئی
ھیں۔ ابن عبد البر رقمطراز ھیں: یہ مجھول اور غیر معروف ھے، اور اس كا قول
دلیل نھیں بن سكتا۔ 13 مروی كا بیان ھے كہ اس نے صرف دو عنوان كے تحت
احادیث بیان كی ھیں۔ یا چاند دیكھنے كے سلسلہ میں یا اذان كے بارے میں۔
دوسری روایت
اس روایت كی سند میں ایسے راویوں كا تذكرہ ھے جن كا قول قابل قبول نھیں، وہ مندرجہ ذیل ھیں:
الف)
محمد بن ابراھیم بن حارث خالد تیمی، ابو عبداللہ (سن وفات تقریباً 120
ھجری): ابو جعفر عقیلی نے عبد اللہ بن احمد بن حنبل كا قول نقل كیا ھے كہ
وہ كھتے ھیں: میں نے اپنے والد سے سنا (انھوں نے محمد بن ابراھیم تیمی كا
تذكرہ كرتے ھوئے فرمایا) كہ اس كی احادیث میں اشكال ھے، اس نے بھت سی غیر
قابل قبول احادیث نقل كی ھیں۔ 14
ب) محمد بن اسحاق بن یسار بن خیار: اھل سنت اس كی روایت پر اعتماد نھیں كرتے۔ (اگر چہ سیرۂ ابن ھشام كی اساس یھی ھے)
احمد
بن ابی خیثمہ كھتے ھیں كہ یحییٰ بن معین سے اس (محمد بن اسحاق) كے بارے
میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا كہ میرے نزدیك ضعیف اور غیر قابل قبول
ھے۔
ابوالحسن
میمونی كا بیان ھے كہ میں نے یحییٰ بن معین كو كھتے ھوئے سنا ھے كہ محمد
بن اسحاق ضعیف ھے۔ اور نسائی كھتے ھیں كہ وہ قوی نھیں ھے۔ 15
ج)
عبد اللہ بن زید: اس كے بارے میں اتنا ھی كھنا كافی ھے كہ اس نے بھت كم
احادیث كی روایت كی ھے۔ ترمذی اس كے بارے میں رقمطراز ھیں: حدیث اذان كے
علاوہ جو بھی حدیث اس نے نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت كی ھے
وہ صحیح نھیں ھے۔ حاكم كھتے ھیں: حقیقت یہ ھے كہ وہ جنگ احد میں قتل كردیا
گیا تھا۔
اور
اس كی تمام روایات منقطعہ (جس كی سند نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تك
نھیں پھونچتی) ھیں۔ ابن عدی كا بیان ھے: حدیث اذان كے علاوہ اس نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو بھی حدیث بیان كی ھے وہ صحیح نھیں ھے۔
16 ترمذی نے بخاری سے روایت كی ھے كہ حدیث اذان كے علاوہ اس سے مروی اور
كسی حدیث كے بارے میں ھم نھیں جانتے۔ 17
حاكم
كا بیان ھے: عبداللہ بن زید وہ شخصیت ھیں، جنھیں خواب میں اذان سكھائی
گئی۔ اور یكے بعد دیگرے فقھاء اسلام اسے قبول كرتے رھے لیكن صحیحین میں اس
كو نقل نھیں كیا گیا۔ كیونكہ اس كی سند میں اختلاف پایا جاتا ھے۔ 18
تیسری روایت
اس
كی سند "محمد بن اسحاق بن یسار، اور محمد بن ابراھیم تیمی، پر مشتمل ھے۔
اور آپ ان كے حالات سے واقف ھوچكے ھیں۔ نیز یہ بھی جان چكے ھیں كہ عبداللہ
بن زید بھت كم روایت بیان كرنے والا تھا۔ اور اس كی تمام روایات منقطعہ
ھیں۔
چوتھی روایت
اس كی سند میں مندرجہ ذیل راوی پائے جاتے ھیں:
1۔
عبد الرحمٰن بن اسحاق بن عبد اللہ مدنی: یحییٰ بن سعید قطان كھتے ھیں: میں
نے مدینہ میں اس كے (عبدالرحمٰن بن اسحاق) كے بارے میں معلوم كیا تو مجھ
سے كسی نے بھی اس كی تعریف نھیں كی۔ اس بارے میں علی بن مدنی كا بھی یھی
كھنا ھے۔
بلكہ
علی تو یھاں تك كھتے ھیں كہ جب سفیان سے عبدالرحمٰن بن اسحاق كے بارے میں
سوال كیا گیا تو میں نے اس كو یہ كھتے ھوئے سنا كہ وہ فرقۂ قدریہ 19 میں
سے تھا۔ مدینہ والوں نے اسے مدینہ سے باھر نكال دیا تھا، وہ ھمارے پاس
"مقتل ولید" میں آیا تو ھم نے اس كو اپنا ھم نشین بنایا۔ ابوطالب كھتے ھیں:
میں نے احمد بن حنبل سے اس كے بارے میں پوچھا تو انھوں نے كھا كہ اس نے
ابو زناد سے بھت سی غیر قابل قبول روایات نقل كی ھیں۔
احمد
بن عبداللہ العجلی كا بیان ھے: وہ ضعیف احادیث نقل كرتا تھا۔ ابو حاتم كا
قول ھے: وہ ایسی احادیث نقل كرتا تھا جن كے اوپر اعتماد نھیں كیا جاسكتا۔
بخاری تحریر كرتے ھیں: اس كے حافظہ پر اعتماد نھیں كیا جاسكتا۔ اور مدینہ
میں موسیٰ زمعی كے علاوہ اس كا كوئی شاگرد بھی نھیں تھا۔ موسیٰ زمعی نے اس
سے ایسی روایت بھی نقل كی ھیں جن میں اضطراب پایا جاتا ھے۔
دارقطنی رقمطراز ھیں: وہ ضعیف ھے اور اس پر "قدری" ھونے كا الزام ھے۔
ابن عدی كھتے ھیں: اس كی احادیث میں بعض ایسی چیزیں ھیں جو نادرست ھیں۔ اور غلط بیانی پر مشتمل ھیں۔ 20
2۔
محمد بن عبداللہ واسطی: جمال الدین مزی اس كے بارے میں رقمطراز ھیں كہ ابن
معین نے اس كو "لاشی" (جس كی كوئی اھمیت نھیں) سے تعبیر كیا ھے۔ اور اس كی
ان روایتوں كا انكار كیا ھے جو اس نے اپنے باپ سے نقل كی ھیں۔ ابو حاتم كا
بیان ھے كہ میں نے یحییٰ بن معین سے اس كے بارے میں سوال كیا تو انھوں نے
كھا: وہ بھت برا اور جھوٹا آدمی ھے۔ اس نے بھت سی ناقابل قبول اور جھوٹی
روایتیں نقل كی ھیں۔ ابو عثمان سعید بن عمر بردعی كھتے ھیں كہ میں نے
"ابازرعہ" سے محمد بن خالد كے بارے میں سوال كیا۔ وہ بولے: برا انسان ھے۔
ابن حیان نے كتاب "الثقاة" میں ذكر كیا ھے: وہ خطا كار اور مخالف حق تھا۔
21
شوكانی نے اس كی روایت كو نقل كرنے كے بعد تحریر كیا ھے كہ اس روایت كی اسناد بھت ضعیف ھیں 22
Categories:
Urdu - اردو
0 comments:
Post a Comment
براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.