سب سے پہلے یہ واضح ہونا چاہئے کہ
صحابی کہتے کسے ہیں۔ صحابی ہر وہ
انسان ہے جس نے رسول اللہ (ص) کو اپنی زندگی میں کبھی بھی،ایمان کی حالت میں دیکھا
ہو۔ اسکا مطلب ہے کہ اگر رسول اللہ (ص) آج کسی بازار میں تشریف لے آیئں تو دودھ
والے سے لےکر وہاں کھڑے ہر رکشہ والے تک بلکہ وہاں موجود ہر مسلمان جسے انکا دیدار
نسیب ہو، وہ صحابیوں کی فہرست میں شامل ہوجائے گا۔ اس میں ففضیلت کیا ہے؟ لحاظہ
صحابی عام انسان تھے اور بیشتر نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ شراب نوشی اور بت
پرستی میں گزارا تھا۔ وہ گناہوں سے پاک نہیں تھے اسلئے اپنے اعمال کے لئے جوابدہ
بھی ہونگے۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ کوئی شیعہ "صحابی" یا امہات المومنین پر
لعنت نہیں بھیجتا۔ میرا نام عمّار ہے اور یہ محمد (ص) کے نمایاں ساتھی عمّار یاسر
کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ہم عمّار، سلمان فارسی، ابو زر، مقداد جسے لوگوں سے محبت
کرتے ہیں۔ کیا یہ محمد (ص) کے صحابی نیہں تھے؟ ہم امالمومنین حضرت خدیجہ (ر)، حضرت
ام سلمہ (ر)، حضرت ماریہ قطبیہ (ر) سے محبت کرتے ہیں اور ان کی بے انتہا عزت کرتے
ہیں۔ کیا یہ محمد (ص) کی اہلیہ نہیں تھیں؟ ہاں کچھ صحابی ہیں جو ہمارے نزدیک محترم
نہیں ہیں کیونکہ ہمیں رسول(ص) نے ہی اچھوں سے تعلق اور بروں سے بےتعلقی اختیار کرنے
کی تعلیم دی ہے۔
توّلا اور تبّرا ہے کیا؟ توّلا کے لفظی معنٰی ہیں "ادا کرنا"
اور تبّرا سے مراد ہے "علیحدہ ہونا" ۔ شیعت میں تبرّا کی اساس توّلا میں ہے۔
کیسے، یہ توّلا کے معنٰی سمجھانے کے بعد بتایا جائگا۔
توّلا، مطلت "ادا کرنا" پر کیا ادا کرنا
یہ ہی وہ چیز ہے جس کی اللہ اپنے ان
بندوں کو جو ایمان لاتے ہیں اور اچھے عمل کرتے ہیں خشخبری دیتا ہے۔
کہہ دے (محمد) "میں تم
سے اسکی کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے
(قریبی) رشتے کی محبت کے۔" اور جو عمدہ کمائی کرتا ہے‘
اس کے لیے ہم اس میں عمدہ اضافہ کر دیتے ہیں۔ اللہ بخشنے والا‘ قدردان ہے۔
Quran [42:23]
اگرچہ زیادہ تر معلم اس بات پر اتیفاق کرتے ہیں کہ اس آیت میں رشتہے
سے مراد اہلا لبیعت ہیں پر کچھ اس بات کی تردید کر
کے متبادل معنٰی دیتے ہیں۔ کچھ ترجمہ ہی مختلف طریقے سے کرتے ہیں۔ البتہ ترجمے کی
طرف ہم بعد میں ائیں گے۔ مندرجہ ذیل ان لوگوں کا خیال ہے جن کے نزدیک اہل البیعت کی
محبت دین کا حصّہ نہیں ہے۔
یہ ہی وہ ہے جس کی بشارت اللہ
تعالٰی اپنے بندوں کو دے رہا ہے جو ایمان لائے اور سنت کے مطابق عمل کئے‘ تو کہہ دے
کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی‘ جو شخص کوئی نیکی
کرے ہم اسکے لئے اسکی نیکی میں اور حسن بڑھا دینگے‘ بے شک اللہ تعالٰی بہت بخشنے
والا اور بہت قدردان ہے۔
Quran [42:23], Translation by Ibn e Kathir
اوپر کی آیتوں میں جنت کی نعمتوں کا
ذکر کرکے بیان فرما رہا ہے کہ ایماندار نیکوکار بندوں کو اس کی بشارت ہو۔
بھر اپنے
نبی (ص) سے فرماتا ہے قریش کے مشرکین سے کہہ دو کہ اس تبلیغ پر اور اس تمہاری خیر
خواہی پر میں تم سے کچھ طلب تو نہیں کر رہا۔ تمہاری بھلائی تو ایک طرف رہی تم اپنی
برائی سے ہی ہٹ جاؤ اور مجھے رب کی رسالت ہی پہچانے دو اور قرابت داری کے رشتے کو
سامنے رکھ کر میری ایذا رسائی سے ہی رک جاؤ تو یہی بہت ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ
حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو
حضرت سیعد بن جبیر (رض) نے
کہا کہ اس سے مراد قرابت آل محمد (ص) ہے۔ یہ سن کر آپ (رض) نے فرماےا کہ تم نے
عجلت سے کام لیا۔ سنو قریش کے جس قدر قبیلے تھے سب کے ساتھ حضور (ص) کی رشتہ داری
تھی تو مطلب یہ ہے کہ تم اس رشتہ داری کا لحاض رکھو جو مجھ میں اور تم میں ہے۔
Tafsir Ibn e Kathir, Tafsir of Surah 42 Verse 23
ابن کثیر کی تفسیر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ
-
رسول اللہ (ص) کی قریش کے تمام قبایئل کے ساتھ رشتہ داری تھی۔
-
رسول اللہ (ص) نے انسے اس رشتے کی بنا پر آپ (ص) کے ساتھ مہربان ہونے کی التجا کی۔
-
یہ تفسیر ابن عباس سے مروی کی جاتی ہے جبکہ سعد بن جبیر کے مطابق اس آیت میں رسوال اللہ (ص) کے اہل البیعت سے محبت کا زکر ہے۔
یہ رسول اللہ (ص) کے قریبی رشتہ داروں کی اہمیت کو کم کرنے کی بہت
ہی کمزور/ ضعیف کوشش ہے۔ اگر زیر بحث آیت کو غور سے پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ
آیت میں "قرباء" یا "قریبی" رشتہ داروں کا ذکر ہے۔
ذَلِكَ
الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي
الْقُرْبَى وَمَن
يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ
Quran [42:23]
Quran [42:23]
قریش محمد (ص) کے قریبی رشتہ دار نیہں تھے، بنو ھاشم تھے۔ اور
بنو ھاشم انکی (ص) پوری جدوجہد میں سب سے مخلص مددگار رہے (ابو لہب کے علاوہ)۔ تو
جب پہلے ہی رسول اللہ (ص) کے قریبی رشتہ انکی معاشی اور اخلاقی مدد کو حاضر تھے تو
وہ (ص) کیوں انسے مہربان ہونے کی درخواست کریں گے؟
ابن کثیر کی تفسیر کے مطابق رسول اللہ (ص) نے کفار کو اپنے ساتھ
ہمدرد رہنے کی گزارش کی تاکہ کفار انھیں (ص) اسلام کا پیغام، جسے سننا بھی انکے لیے
ناگزیر تھا، آرام سے پہچانے دیں۔ دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ آیت کی ابتدا میں
مومنوں سے کلام کیا گیا ہے نا کہ کفار سے۔ آیت میں مومنوں کے لیے انعامات کا ذکر ہے۔
لہٰزا یہ سوچنا کہ رسول اللہ (ص) مومنوں سے بات کرتے کرتے بیچ میں کفار سے مخاطب
ہوگئے نا معقول ہے۔
کیا رسول(ص) کو علم نہیں کہ جو کافر اپ(ص) کی بات سننے کا روادار
نہیں، وہ اپ (ص) کو اجرت کیوں دے گا؟ اپ کی اجرت کا حق تو اس پر بنتا ہے جس نے اپ
کی محنت سے کچھ پایا ہو، یعنی اسلام قبول کرل یا ہو کیوں کر اسلام اپ(ص) کی محنت کا
دوسرا نام ہے۔
اس لئے جو اجرت رسول(ص) نے مانگی، وہ مسلمانوں سے تھی جو کہ رسول(ص)
کہ فرماں بردار تھے۔ یہ اجرت رسول(ص) کے قربیٰ سے محبت کی تھی جیسے کہ ابن کثیر نے
اپنی تفسیر میں سعید بن جبیر سے روایت بھی کی ہے۔
اب یہ آیات پڑھیں
اے ایمان والو! اپنے باپوں اور اپنے
بھایئوں کو‘ اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کرتے ہوں‘ رفیق نہ بناؤ۔ اور
تم میں جو انھیں رفیق بناتے ہیں وہ ہی ظالم ہیں۔
Quran [9:23]
اللہ تعالٰی کافروں سے ترک موالات
کا حکم دیتا ہے۔ ان کی دوستیوں سے روکتا ہے گوہ وہ ماں باپ ہوں‘ بہن بھائی ہوں‘
بشرط یہ کہ وہ کفر کو اسلام پر ترجیح دیں۔ اور آیت میں ہے اللہ پر اور قیامت پر
ایمان لانے والوں کو ہر گز اللہ اور رسول اللہ (ص) کے دشمنوں سے دوستی کرنے والا
نہیں پائے گا
Tafsir Ibn e Kathir, Tafsir of Surah 9, Verse 23
ایک طرف تو علماء اور قرآن کی تشریح کرنے والے کفار سے دوستی رکھنے،
ان سے مدد مانگنے کے یا انکے ساتھ ہمدردی کرنے کے خلاف ہیں۔ اور دوسری طرف انھی
علماء کے مطابق رسول اللہ (ص) نے کفار سے ہمدردی کرنے کی اپیل کی۔ کوئی تک
بنتا ہے؟
یا تو (محمد) ان سے اجرت مانگتا ہے
اور وہ تاوان کے بوجھ تلے دببے جا رہے ہیں؟
Quran [52:40]
Quran [52:40]
کہہ دے "جو اجر میں تم سے مانگتا
ہوں وہ تمھارے لیئے ہے۔ میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے‘ اور وہ ہر بات کو دیکھتا ہے۔"
Quran [34:47]
آیت 34:47 اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے کوئی اجر/
معاوضہ طلب کیا تھا۔ بحرحال یہ رسول اللہ (ص) کے ذاتی فائدے کے لئے نہیں ہے بلکہ
ہماری ہی فلاح کے لئے ہے۔ یہ اجر/ معاوضہ اسلام کی دعوت
کو قبول کرنا نہیں ہو سکتا کیوں کر یہ اجرت رسول(ص) مانگ ہی ان لوگوں سے رہے ہیں
جنہوں نے اسلام کی دعوت قبول کر لی ہو۔ کافروں سے رسول(ص) اجرت کیوں مانگے گے؟ یہ اجر/ معاوضہ انکے قربٰی سے محبت ہے۔ اور یہ
ہی اللہ کا حکم ہے جو ہماری ہی بھلائی کے لئے ہے۔
یہ ہی بات ہمیں اس زیر بحث آیۃ کی معقول تفسیر تک پہنچاتی ہے، جسے
جناب مودودی بیان تو کرتے ہیں مگر اس سے اتیفاق نہیں کرتے۔
تیسرا گروہ "قربٰٰی کو اقارب (رشتہ
داروں) کے معنٰٰٰی میں لیتا ہے، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ "میں تم سے اس
کام پر کوئی اجر اس ک سوا نہیں چاہتا کہ تم میرے اقارب سے محبت کرو"۔ پھر اس گروہ
کے بعض حضرات اقارب سے تمام بنی عبد المطلب مراد لیتے ہیں‘ اور بعض اسے صرف حضرت
علی و فاطمہ اور ان کی اولاد تک محدود رکھتے ہیں۔ یہ تفسیر سعید بن جبیر اور عمرو
بن شعیب سے منقول ہے۔ اور بعض روایات میں یہ ہی تفسیر ابن عباس اور حضرت علی بن
حسین (زین العابدین) کی طرف منسوب کی گئی ہے۔
Tafsir Abul Ala Madudi, Tafsir of Surah 42, Verse 23
آقا مہدی پویا کی تفسیر کے مطابق
آیت پڑہ کر یہ سمجھ میں اتا ہے کہ رسول اللہ (ص) کو کوئی
معاوضہ/اجر طلب کرنے کا حکم ہوا، وہ بھی سب سے نہیں بلکہ صرف مومنوں سے - وہ جو
اللہ کی طرف کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ معاوضہ ایمان والوں کے اپنے فائدے کے لئے
ہے اور کسی بھی طرح رسول اللہ (ص) کے ذاتی فائدے کے لئے نہیں ہے۔
عربی میں لفظ ارحام (خون کے رشتے) کی جگہ
قربٰی (قریبی) استعمال کیا گیا ہے، یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ صرف رشتہ میں قربت نہیں
بلکہ کردار اور مقام میں نزدیکی بھی ضروری ہے۔ چنانچہ اس آیت کی بنیاد پر اہل
البیعت سے محبت ایمان کا نہایت اہم حصہ بن جاتا ہے، ایک ایسی شرط جس کے بنا کتنے
بھی نیک اعمال اور عبادت بیکار ہیں۔
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ
انگریزی مضمون میں موجود ھے۔
Tafsir Aqa Mahdi Puya, Tafsir of Surah 42, verse 23
اس اجر/معاوضے کی اہمیت اتنی ہے کہ پچھلے تمام انبیاء نے اپنی خدمات
کے عیوض کچھ طلب نہیں کیا تھا۔
اور میں تم سے اس کی کوئی اجرت نہیں مانگتا‘ میری اجرت تو جہانوں کے
رب پر ہے۔
Quran [26:127]
Quran [26:127]
ہمارے نبی (ص) نے کچھ معاوضہ طلب کیا ۔ جبکہ انکی خدمت و مشکت کا
بدلہ صرف اللہ تعالٰی کے پاس ہے۔ جو اجر/ معاوضہ انہوں نے ہم سے مانگا، وہ ہماری ہی
بھلائی کے لیئے ہے ہمارے ہی فائدے کے لیئے ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہہ دے "میں
تم سے اس کی کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے (قریبی) رشتے کی محبت کے"۔ اور جو
عمدہ کمائی کرتا ہے‘ اس کے لئی ہم اس میں عمدہ اضافہ کر دیتے ہیں۔ اللہ
بخشنے والا‘ قدردان ہے۔"
Quran [42:23]
بہرکیف توّلا محمد (ص) کو انکی خدمات کا معاوضہ/بدلا دینا ہے، جو کہ
انکے قربٰی سے محبت ہے۔ یہاں ہم اس بحث میں نہیں پڑینگے کہ انکے قربٰی کون ہیں
کیونکہ حقیقت عیاں ہےکہ اہل البیعت، وہ لوگ جن پر ہم روز
درود بھیجتے ہیں،
ان سے محبت
ایک طریقہء عبادت ہے اور نبی پاک (ص) اور انکے اہل البیعت سے محبت ہر ایمان والے کے
ایمان کا بنیادی جز ہے۔
ہم آج ان سے کیسے محبت کر سکتے ہیں? میرے مطابق
-
۔ انکے نقش قدم پر چل کر۔
-
۔ انکے مقصد حیات (حق کی پیروی اور باطل سے لڑائی)، کو آگے بڑھا کر۔
-
۔ جن لوگوں سے انہوں نے محبت کی، ان سے محبت کر کے۔
-
۔ جن لوگوں نے ان کے حقوق پامال کئے، انکو ناپسند کر کے۔
-
۔ جن دنوں/تاریخوں پر انہوں نے خشی منائی، ان پر جشن منا کر۔
-
۔ ان کی شہادت/وفات کی تاریخوں کا احترام کر کے۔
-
۔ انکی تعریف کر کے، ان پر درود و سلام بھیج کر اور انہیں اپنی محفلوں میں یاد کر کے۔
یہ میری فہرست ہے۔ آپ ان (ع) سے اپنے طریقے سے محبت کر سکتے ہیں۔
بہرحال سچی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر مجھے اپنی والدہ سے محبت ہے تو ان کے دشمنوں
سے نفرت ہوگی۔ میں ایسے ہر انسان سے تعلق
قطع کر لونگا جس نے ان کی جان ، مال یا عزت
کو نقصان پہنچایا ہو۔ اس مخصوص مثال کے حساب سے اپنی ماں کے دشمنوں سے نفرت کا
احساس میرا تبّرا ہوگا، توّلا کا ایک بڑا حصہ۔
یورپ/ ڈینمارک/ میں محمد (ص) کے خاکے بنائے گئے۔ اگر
میرے پاس ایک درخواست/ عرضی آئے جو ان خاکوں
کی حمایت کرتی ہو، کہ ایسے خاکے بنانے چاہئے
تو میرے خیال میں اس عرضی پر میرے دستخط کا مطلب اپنے لئے جہنم میں جگہ مطیئن کرنا
ہوگا۔ اس عرضی پر میرے دستخط کا مطلب ہوگا کہ مجھے ایسی کسی بھی حرکت پر کوئی
اعتراض نہیں بلکہ اگر موقع اور وسائل میسر ہوئے تو میں بھی یہ ہی کام کروں گا۔
اسی طرح اگر میں ان خاکوں کے خلاف کسی عرضی پر دستخط کروں تو یہ ان
کے بنانے والوں سے علیحدگی کا اعلان ہوگا۔ کیونکہ میں محمد (ص) سے محبت کرتا ہوں اس
لئے میرا تبّرا مجھے اس ہر انسان کے خلاف جانے کا اور اس ہر انسان کو
ناپسند کرنے
کا پابند کرتی ہے جو ان (ص) کی بے حرمتی کریں۔
بلاشبہ، تبّرا کا مطلب گالیاں بکنا اور لعنت دینا نہیں ہے۔ میں
تسلیم کرتا ہوں کہ انتہا پسند اور جاہل ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ چار دیواری میں بیٹھ
کر کسی کو برا بھلا کہنا تو بے انتہا آسان ہے، مگر ان برایئوں
سے خود بچنا جن کی وجہ سے ہم
کسی کو برا کہتے ہیں بے انتہا دشوار ہے۔
درحقیقت تبّرا کی روح کچھ مخصوص حرکات/ افعال/ اعمال پر اعتراض کرنا
ہے، جو ان لوگوں کے خلاف کئے گئے جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔ اگر میں یزید سے نفرت
کرتا ہوں، اس کے ان مظالم کی وجہ سے جو اس نے امام حسیں (ع) پر ڈھائے تو اصولاً
مجھے یزید میں موجود ہر شر/ برائی سے نفرت ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس اگر وہ بریئاں
جو یزید میں تھیں، مجھ میں بھی موجود ہوں تو اس کے خلاف میرا تبّرا میری عبادت نہیں
میری منافقت ہوگی۔ حقیقتاً یزید پر بھیجی گئی ہر لعنت کو مجھے اس میں موجود گندگی
کو پہچاننے کی صلاحیت دینی چاہیے، تاکہ میں خود اس گندگی سے دور رہ سکوں۔
اسی طرح اگر میں فرعون اور ہٹلر کی عزت کرنا شروع کر دوں تو یہ عزت
یا تو میری بے عقلی کا ثبوت ہوگی یا ضعیف ایمان کی یا برے اعمال کی۔ کیونکر اگر میں
ایسے انسان کو محترم مانتا ہوں جو
چالیس ہزار بچوں کے قتال کا زمہ دار تھا اور میں خود
کو اس سے علیحدہ نہیں کرتا
، مجھے اس کے اس عمل سے کوئی
نفرت نہیں اور میں نے
اس کے حق میں عرضی پر دستخط کر
دیتا ہوں تو میں اللہ کی نافرمانی کا سزاوار بن جاتا ہوں، کیوں کر اللہ عدل کرنے
والوں کو دوست رکھتا ہے۔۔
ہم رسول اللہ (ص) سے محبت رکھنے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ یہ ہی محبت ہے
جو ہمیں مجبور کرتی ہے کہ جب بھی ابولہب اور ابوجہل کا نام لیا
جاتا ہے تو ہمارے ماتھے
پر ناپسندیدگی کی شکنت
اجاتی ہے اور ہم ان لعینوں کے لئے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار
کرتے ہیں۔۔
حج اسلام کا ستون ہے۔ حج
پر مسلمان کیا سوچ کر پتھر کے ستونوں کو پتھر مارتے ہیں؟ پتھر کے ستون شیطان کی
نشاندہی کرتے ہیں۔ ان کو پتھر مارنا انسان کی شیطان سے نفرت کا اظہار نہیں بلکہ
شیطانیت سے نفرت کا اظہار ہے۔ یہ شیطان کے خلاف، اس کی اللہ سے بغاوت کے لئے،
ابراہیم(ع) کو اکسانے کے لئے انسان کا تبًرا ہوتا ہے۔۔ جب ایک مسلمان رمی کے دوران
شیطان کو پتھر مارتا ہے، تو ہر پتھر اس وعدے کی گواہی دیتا ہے جو یہ انسان اپنے
ساتھ کرتا ہے کہ وہ شیطان کے راستے سے علیحدگی اختیار کر لے گا۔ یہ بات عقل کے
خیلاف ہے کہ ایک دن اپ شیطان کو پتھر ماریں اور اگلے دن خود بھی ویسے ہی کام کرنے
شروع کر دیں۔ اگر اپ ایسا کرتے ہیں تو اپ اپنے اپ کو خود رمی کا سزاوار ٹھہرائیں گے۔
اگر اپ نے شیطان کو اس کی حرکتوں کی وجہ سے پتھر مارے اور اگر ویسی ہی حرکت اپ میں
بھی پائ جاے تو اپ بھی ان پتھروں کے اتنے ہی حقدار ہوںگے۔ یہ ہے تبرا کی طاقت، کہ
انسان برے کی برائ پہچان جاے اور اس سے دور رہے۔
اگر انسان برے سے نفرت کرنے کی طاقت رکھتا ہے، تو برائ سے بھی دوری
اختیار کر لے گا، ورنہ سب منافقت ہے۔
اب صحابہ سے نفرت اور ان پر لعنت بھیجنے کی طرف آتے ہیں۔
میں
پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں کہ
شیعہ رسول اللہ (ص) کے ساتھیوں کی قدر کرتے ہیں۔ ہاں،
ہم خود کو کچھ مخصوص لوگوں سے علیحدہ ضرور کرتے ہیں وہ ان لوگوں
کے کچھ مخصوص افعال
کی وجہ سے ہے۔ ان مخصوص لوگوں کو خلاف کچھ بولنا، کسی بھی طرح سے رسول اللہ
(ص) کی
شان میں گستاخی نہیں ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ میرے سنی برادران رسول اللہ
(ص) اور
ان کے اہل البیعت کو تو معصوم نہیں مانتے مگر وہ کچھ اسی طرح کی فضیلت
صحابہ کو دیتے ہیں۔ میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ میرے سنی دوستوں کے
نزدیک صحآبہ کچھ غلط کر ہی نہیں سکتے تھے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی
صحابی سے
کبھی کوئی غلطی یا گناہ سرزد ہوا یا انہوں نے اللہ کی خلاف ورزی کی یا ان
میں کوئی
برائی موجود تھی، تو انکی ان غلطیوں، گناہوں یا برایئوں کو کوسنا کیوں برا
ہے؟ انتہا پسندوں کے نزدیک جو بھی کسی صحابی کے لئے کچھ لغو بکے وہ کافر
ہے، انکے نزدیک
چونکہ شیعہ صحابہ پر لعنت بھیجتے ہیں، اسلئے وہ کافر ہیں اور واجب قتل ہیں۔
مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اللہ تعالٰی نے
خود لعنت کی ہے؟
اے لوگو جنہیں کتاب دی گئی
تھی ! اس پر ایمان لاؤ جو ہم نے نازل کیا ہے اور اس کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس
ہے‘ اس سے پہلے کہ ہم چہروں کو بگاڑ کر انھیں پیچھے کی طرف موڑ دیں‘ یا لوگوں پر
لعنت کریں جیسے ہم نے سبت والوں پر لعنت کی تھی۔ اور اللہ کاحکم تو پورا ہو
کر رہتا ہے۔
Quran [4:47]
چنانچہ جو کوئی بھی اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے، لعنت کا
مستحق ہے۔ اللہ تعالٰی خود ان پر لعنت
بھیجتا ہے ۔
اور جو کسی مومن کو جان
بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب
ہوگا اور وہ اس پر لعنت کریگا‘ اور اس نے اس کے لئے بڑا عزاب تیار کر رکھا
ہے۔
Quran [4:93]
اگر کوئی شخص، چاہے صحابی ہو یا کوئی بھی، کسی ایمان والے کا جان کر
قتل کرتا ہے تو اس پر لعنت ہے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
ان کے بارے میں کیا
رویہ اختیار کرنا چاہیے جن پر اللہ کی لعنت ہو؟ کیا ان سے محبت یا عقیدت رکھنا اللہ
کی نافرمانی نہیں ہو گی کہ ہم ان سے محبت رکھتے ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے؟
ان پر کیا اللہ کی لعنت نہیں ہو گے جنہوں نے رسول(ص) کی نافرمانی کی یا ان کا دل
دکھایا یا مولیٰ علی کے خلاف بغاوت کی؟
تمام مسلمان اس بات پر بھی اتیفاق کرتے ہیں کہ رسول االلہ (ص) کی
وفات کے بعد کچھ اصحاب اور
اہل البیعت (وہ لوگ جن کے لئے
آیۃ تطہیر نازل ہوئی) کے
درمیان تنازع ہوئے۔
ہم محمد (ص) سے محبت کرتے ہیں کیا ہم ان لوگوں سے نفرت کا اظہار نہ
کریں جنھوں نے ان کو دیوانہ کہا؟ ہم جناب فاطمہ زہرا (ع) سے محبت کرتے ہیں، کیا ہم
ان لوگوں سے نفرت کا اظہار نہ کریں جنھوں نے انھیں غصہ دلایا؟ ہم امام علی (ع) سے
محبت کرتے ہیں، کیا ہم ان لوگوں سے نفرت کا اظہار نہ کریں
جنھوں نے ان سے جنگ کی
اور ان کے خلاف کھڑے ہوئے؟ ہم امام حسن (ع) اور امام حسین(ع) سے محبت کرتے ہیں،
کیا ہم ان کا خون بہانے والوں سے نفرت نہ کریں، جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول (ص)
کی بھی لعنت پائی؟
وحابیوں اور انتہا پسندوںکے نزدیک کسی بھی صحابی یا ام المومنین
کو برا کہنا یا ان کو گالی دینا اپ کو دین کے دائرے سے خارج کر دیتی ہے۔ کیا
یہ سنیوں کا ان اصحاب کے ساتھ توًلا نہیں اور اس کی وجہ سے شیعوں سے نفرت تبًرا
نہیں؟ اگر شیعہ اہل ال بعیت کو ہر ایک پر ترجیح دے دیں تو کافر؟
اگر کسی صحابی کو گالی
دینا اپ کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے، تو ان لوگوں کے بارے میں کیا کہیں گے جنہوں
نے صحابیون کے خلاف تلوار اٹھای، جنگ کی؟ بیشک جنگ کرنا گالی دینے سے بہت بڑا عمل
ہے۔ اور ان لوگوں کا کیا مقام ہے جنھوںنے حضرت علی (ع) سے جنگ کی جو
نبی کریم (ص) کے چچا ذاد بھائی، داماد، خلیفہ راشد اور اولین صحابہ میں سے تھے؟
اگر علی(ع) کو گالی دینے
والا اسلام سے باہر ہے، تو ان کے خلاف تلوار اٹھانے والا بھی تو کافر ہوا۔ ہم بھی
تو یہی شور کر رہے ہیں۔ اور اگر علی(ع) کے خلاف جنگ کرنے والے کو برا کہنے کے بجاے
اپ اس کی حرمت کی حفاظت کرتے ہیں تو یہ منافقت ہے۔
رسول(ص) کے خلاف جنگ کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ کیا
نفس ار رسول علی (مباحلہ) کے خلاف جنگ کرنے
والوں پر اللہ اپنی رحمت کرے گا؟
شیعہ رسول اللہ (ص) کے صحابیوں پر لعنت نہیں بھیجتے بلکہ ان لوگوں
کو کوستے ہیں جنہوں نے نبی اکرم (ص) اور ان کے اہل البیعت
کو ستایا۔۔ اور شیعوں
کے اس فعل کا مقصد خود کو ان لوگوں سے علیحدہ کرنا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ ایسا کرنے
سے اسلام کے کسی ستون کی خلاف ورذی ہوتی ہے۔ ہوتی ہے کیا؟
لعنت بھیجنے سے میری مراد ان لوگوں سے خود کو الگ کر کے، ان کو وہ
عزت و احترام نہ دینا ہے جو دوسرے صحابہ اور ام المامنین کو دی جاتی ہے۔ لعنت دینے
سے میرا مطلب گالیاں دینا نہیں ہے، کیونکہ یہ اما علی (ع) کا طریقہ نہیں تھا۔ آج جو
لوگ چند صحابہ اور رسول اللہ (ص) کی اہلیہ کو گالیاں
دیتے ہیں، وہ ایسا اپنے ذاتی
جزبات، انتہاپسندی اور جہالت کی وجہ سے کرتے ہیں۔ حقیغی معنوں میں رسول اللہ (ص)
اور انکے اہل البیعت سے محبت کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ان سے محبت کا مطلب ان کی
مکمل پیروی کرنا ہے۔ اور ان کے دشمنوں سے نفرت کرنا بہت آسان ہے کیونکہ ہم اس نفرت
کے معنٰٰی صرف زبان سے برے الفاظ ادا کرنا ہی سمجھتے ہیں۔
ہمارا تبّرا امام علی (ع) کے دشمنوں کے لئے یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر
ہم اس وقت ہوتے تو ہم ان کے ساتھ میدان جنگ میں انکے دشمنوں کے خلاف کھڑے ہوتے۔
ہمارا تبّرا، ان لوگوں کے لئے جنہوں نے رسول اللہ (ص) کو دیوانہ کہا، یہ ثابت کرتا
ہے کہ اگر ہم اس وقت ہوتے تو اس فعل کی بھرپور مزمت کرتے اور اس واقعہ کو روکنے کی
پوری کوشش کرتے۔
ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
نزدیک مستقبل میں ایسے عامر ہونگے جن کے
اچھے عمل تم کو پسند آیئں گے اور جن کے برے اعمال تمہیں برے لگیں گے۔ وہ جو ان کے
برے اعمال کو جانچ کر (انہیں ہاتھ یا زبان سے روکنے کی کوشش کرے) الزام سے عاری ہے،
وہ جو انکے برے اعلام سے نفرت کرے (دل میں، مگر انہیں ہاتھ سے روکنے کی طاقت/ ہمت
نہ رکھتا ہو) وہ بھی محفوظ ہے (جہاں تک اللہ کے عزاب کا تعلق ہے)۔ مگر وہ جو انکے
برے اعمال کو درست جانے اور انکی نقل کرے، روحانی طور پر برباد ہے۔ لوگوں نے
رسول اللہ (ص) سے دریافت کیا: کیا ہم ان سے نہ لڑیں؟ انہوں (ص) نے فرمایا: نہیں، جب
تک وہ اپنی نمازیں ادا کرتے ہوں۔
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے Sahih Muslim Book 020, Number 4569
یہ روایت کا مُستند ترجمہ نہیں ھے۔ مُستند ترجمہ انگریزی مضمون میں موجود ھے Sahih Muslim Book 020, Number 4569
غور کیجئے کہ حدیث کے مطابق جو کوئی کسی برے کام کو ہاتھ یا زبان سے روکنے کی کوشش کرے یا دل میں اس کام کو برا جانے، وہ اللہ کے عزاب سے محفوظ ہے۔ لیکن، وہ لوگ جو کسی برے فعل کو درست مانیں، تباہ ہیں۔ اگر آپ کسی غیر معصوم صحابی کے کسی برے عمل کو درست جانتے ہیں تو دراصل آپ اللہ کے عدل پہ شک کرتے ہیں کیونکر صحابی ہونا اپنے آپ میں کوئی فضیلت نہیں ہے بلکہ ایمان رکھنا اور اسکے مطابق عمل کرنا ہے۔
توّلا سے مراد ہر اس چیز سے محبت کرنا ہے جس سے اللہ کے رسول (ص)اور
ان کے اہل البیعت نے محبت کی۔ ان دنوں پر خوشی منانا ہے جن پر وہ خوش ہوئے۔ جن دنوں/
تاریخوں پر وہ دکھی ہوئے، ان پر ان کے غم کا زریک بننا ہے۔ شیعا محرم اور صفر میں
کوئی موسیقی نہیں سنتے کیونکر ان ہی دو ماہ میں ہی اہل البیعت اپنے مشکل ترین دور
سے گزرے۔ ہم ان تاریخوں پر جشن مناتے ہیں جن پر رسول (ص) کی کسی بھی اولاد کی ولادت
ہوئی اور ہم انکے دوستوں اور ساتھیوں سے محبت کرتے ہیں۔
اہل البیعت سے محبت کا دوسرا تقاضہ تبّرا ہے۔ جسکے ضوابط پورے کرتے
ہوئے ہم شیعہ اپنے آپ کو اہل البیعت کے دشمنوں سے اور ان پر مظالم ڈھانے والوں سے
بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ زیارت وارثہ میں ہم
امام حسیں (ع) پر ظلم کرنے والوں پر
اور ان لوگوں پر جنھوں نے یہ واقعہ دیکھا اور سنا اور
اس واقعے سے رازی رہے، لعنت
بھیجتے ہیں۔
میں دوبارہ کہونگا کہ اسکا مطلب انہیں بھری محفل میں گالیاں دینا
نہیں ہے کیونکر یہ شایان علی (ع) کی تہذیب کے خلاف ہے۔ تبّرا صرف چند مخصوص لوگوں
سے قطع تعلق نہیں ہے بلکہ ان تمام برائیوں کے خلاف اعلان جنگ ہے جو ان اشخاص میں
موجود تھیں۔
پس اگر آپ محمد (ص) اور آل محمد (ص) سے محبت کرتے ہیں تو انکے نقش
قدم پر چلیں، برائی کے خلاف کھڑے ہوں اور اپنے اندر کی برائیوں سے جنگ کریں۔ اللہ کی لعنت، اللہ کے دشمنوں پر، رسول
اللہ (ص) کے دشمنوں پر اور اہل البیعت کے دشمنوں پر کافی
ہے۔
Categories:
Urdu - اردو
0 comments:
Post a Comment
براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.