• Misyar Marriage

    is carried out via the normal contractual procedure, with the specificity that the husband and wife give up several rights by their own free will...

  • Taraveeh a Biad'ah

    Nawafil prayers are not allowed with Jama'at except salatul-istisqa' (the salat for praying to Allah to send rain)..

  • Umar attacks Fatima (s.)

    Umar ordered Qunfuz to bring a whip and strike Janabe Zahra (s.a.) with it.

  • The lineage of Umar

    And we summarize the lineage of Omar Bin Al Khattab as follows:

  • Before accepting Islam

    Umar who had not accepted Islam by that time would beat her mercilessly until he was tired. He would then say

Saturday, February 25, 2012

Umar told his wife that women are like toys, you play with them and then leave them - روایت ابن شبہ پر اعتراض کا تحقیقی جائزہ فن اصول حدیث و علم الرجال کی روشنی میں

Famous historian and great scholar of hadeeth, umar bin sheba wrote in his history book, tareekh madina munawara. Our topic of discussion in this narration is that part where umar told his wife that women are like toys, you play with them and then leave them but before going into it, we will see the chain of narrators and discuss that in detail insha-Allah. This is Urdu Article, English will be available soon, Insha-Allah

السلام علیکم
قارئین کرام

محترم ناصر حسن بھائی نے چند دنوں قبل فیس بک پر ابن شبہ کی تاریخ سے ایک روایت پوسٹ کری تھی میں برادر ناصر کا شکر گذار ہوں کہ انہوں نے بندے کی توجہ اس روایت کیطرف مبذول کرائی روایت کی سند پر انقطاع کا اعتراض کیا گیا ھے کہ یہ روایت منقطع ھے چنانچہ ھم اس فنی و تحقیقی گفتگو میں یہ ثابت کریں گے کہ یہ روایت مطلقا منقطع نہی ھے بلکہ عند الجمھور مرسل ھے اور مرسل روایت ائمہ ثلاثہ"ابو حنیفہ،مالک،احمد بن حنبل"کے نزدیک لائق احتجاج اور قابل استدلال ھے


مؤرخ و امام اور محدث کبیر عمر بن شبہ نے اپنی کتاب"تاریخ المدينة المنورة" میں یہ روایت نقل کری ھے

حدثنا موسى بن إسماعيل قال، حدثنا حماد بن سلمة قال، حدثنا ثابت، عن هلال بن أمية: أن عمر رضي الله عنه استعمل عياض بن غنم على الشام، فبلغه، أنه اتخذ حماما، واتخذ نوابا، فكتب إليه أن يقدم عليه، فقدم، فحجبه ثلاثا، ثم أذن له، ودعا بجبة صوف فقال: البس هذه، وأعطاه كنف الراعي وثلاثمائة شاة، وقال: انعق بها، فنعق بها، فلما جاوز هنيهة قال: أقبل، فأقبل يسعى حتى أتاه، فقال: اصنع بها كذا وكذا، اذهب. فذهب حتى إذا تباعد ناداه يا عياض أقبل، فلم يزل يردده حتى عرقه في جبته، قال: أوردها علي يوم كذا وكذا، فأوردها لذلك اليوم، فخرج عمر رضي الله عنه إليه فقال: انزع عليها. فاستقى حتى ملا الحوض فسقاها، ثم قال، انعق بها فإذا كان يوم كذا فأوردها، فلم يزل يعمل به حتى مضى شهران، قال: فاندس إلى امرأة عمر رضي الله عنها وكان بينه وبينها قرابة، فقال: سلي أمير المؤمنين فيم وجد علي ؟ فلما دخل عليها قالت: يا أمير المؤمنين فيم وجدت على عياض ؟ قال يا عدوة الله، وفيم أنت وهذا، ومتى كنت تدخلين بيني وبين المسلمين ؟ إنما أنت لعبة يلعب بك، ثم تتركين

تاریخ المدینة المنورة//جلد،2//صفحہ،21//دارالکتب العلمیہ بیروت

مذکورہ بالا روایت میں ہمارا محل کلام " کردار فاروقی کا عکاس "وہ جملہ ٹھرا جسمیں خلیفہ ثانی نے اپنی زوجہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم [عورت] ایک کھلونے کی مانند ہو جس کیساتھ کھیلنے کے بعد اسکو چھوڑ دیا جاتاھے اور پھر فاروق اعظم نے اپنے کردار و عمل سے بھی اسکی تایئید کری تاکہ عدل فاروقی کا تقاضہ پورا ہو سکے کہ قول و فعل میں تضاد عدل کےمنافی ھے لیکن اس پر گفتگو سے قبل آتے ہیں روایت کے سلسلہ سند اور راویوں کی طرف تاکہ روایت کی صحت کا اثباتی جائزہ لیا جاسکے


روایت کی اسنادی حیثیت علم اصول حدیث کی روشنی میں

روایت کی سند اگرچہ خدشہ انقطاع سے خالی نہی ھے جیسا کہ اعتراض کیا گیا ھے کیونکہ تابعی ثابت بن اسلم البنانی نے صحابی رسول ہلال بن امیہ انصاری کا زمانہ نہی پایا بالفرض عطاء بن عجلان جو کہ متروک ہے اسکی روایت کو بھی اگرصحیح مان لیا جائےتب بھی زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوگا کہ حضرت معاویہ کے دور حکومت تک ہلال بن امیہ زندہ رھے سماع پھر بھی ثابت نہ ہوگا کیونکہ ثابت بن اسلم کا سن ولادت 41 ھجری بنتا ھے

چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں
وأخرج ابن شاهين، من طريق عطاء بن عجلان، عن مكحول، عن عكرمة بن هلال بن أميّة- أنه أتى عمر فذكر قصّة اللّعان مطوّلة. وهذا لو ثبت لدلّ على أنّ هلال بن أميّة عاش إلى خلافة معاوية حتى أدرك عكرمة الرواية عنه،ولکن عطاء بن عجلان متروک

الاصابة في تمييز الصحابة//جلد،6//صفحہ،428//طبعه دار الكتب العلميه

لیکن روایت پر انقطاع سند کا اعتراض وارد کرکے یہ ثابت کرنا کہ روایت قابل احتجاج و استدلال نہی ھے یہ قول فن اصول حدیث سے کم علمی یا تجاھل عارفانہ پر دلالت کرتا ھے کیونکہ اس روایت پر علی الاطلاق حدیث منقطع کا اطلاق کرنا درست نہی ھے بلکہ ہمارا یہ دعوی ھے کہ یہ روایت جمہور محدثین کے نزدیک انکی بیان کردہ تعریفات کی روشنی میں حدیث مرسل کے زمرے میں آتی ھے اور مرسل روایت سے استدلال ائمہ ثلاثہ [ابو حنیفہ، مالک، احمد بن حنبل] و دیگر کے نزدیک درست ھے


منقطع اور مرسل روایت کی تعریف میں اختلاف

روایت کی سند اور راویوں پر گفتگو شروع کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ھے کہ قارئین کی توجہ مبذول کرائی جائے اس اختلاف کیطرف جو حدیث منقطع اور مرسل کی تمییز میں فقہاء و محدثین اور اصولیین کے درمیان واقع ہوا ھے اس سے قبل تمھید کے طور پر ھم یہاں ذکر کرتے چلیں کہ خبر واحد کی ثبوت اور عدم ثبوت کے لحاظ سے دو قسمیں ہیں

خبر مقبول یعنی جو روایت قابل قبول ہو

خبر مردود جو روایت مردود ہو یعنی غیر مقبول

پھر خبر مردود کو رد کرنے کے اسباب زیادہ ہیں لیکن اصولی طور پر یہ اسباب دو قسم پر منقسم ہیں
پہلا سبب ھے سقوط از سند یعنی سند سے کوئی راوی ساقط ہو تو روایت مردود ہوتی ھے
دوسرا سبب ھے طعن در راوی یعنی کہ راوی کی عدالت و ثقاہت پر جرح کی گئی ہو تو روایت مردود ہوتی ھے


حدیث منقطع اور مرسل کی تمییز میں اصولیین اور خطیب بغدادی وغیرہ کا مسلک

ہماری گفتگو کا موضوع روایت کے مردود ہونے کا پہلا سبب ھے کہ جس روایت کو سند سے کسی راوی کے ساقط ہونے کیوجہ سے رد کیا جائے اب سقوط از سند کسی بھی قسم کا ہو یعنی سند کے کسی بھی حصہ سے راوی ساقط ہو چاھے سند کی ابتداء سے، سند کے درمیان سے، یا سند کے آخری حصہ سے، پھر ایک راوی ساقط ہو یا دو یا زیادہ، یہ تمام اقسام سقوط کی ہیں ان میں سے سقوط کی کوئی بھی قسم اگر سند میں پائی جائے گی تو وہ روایت منقطع ہوگی لیکن منقطع کی یہ تعریف اصولیین فقھاء اور بعض محدثین کے نزدیک ھے جن میں خطیب بغدادی اور ابن عبد البر شامل ہیں گویا کہ ان حضرات کے نزدیک منقطع اور مرسل میں کوئی فرق نہی ھے جبکہ جمھور محدثین کے نزدیک منقطع اور مرسل میں فرق ھے
یعنی کہ منقطع اور مرسل روایت کی تعریف اور اس کے اطلاق میں محدثین و فقھاء کے درمیان اختلاف ھے اسی اختلاف کو فن اصول حدیث کی مستند ترین کتب کی روشنی میں قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہوئے پہلے خطیب بغدادی اور حافظ ابن عبد البر اور فقھاء کا مسلک پیش کرینگے جنکے نزدیک منقطع اور مرسل ایک ھی ہیں کیونکہ یہ فریق منقطع اور مرسل میں تمییز کا قائل نہی ھے چنانچہ امام نووی اسی اختلاف کو بیان کرتے ہوئے شرح مسلم کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں

واما المرسل فھو عند الفقھاء واصحاب الاصول والخطیب الحافظ ابی بکر البغدادی وجماعة من المحدثین ما انقطع اسناده علی أی وجه کان انقطاعه فھو عندھم بمعنی المنقطع وقال جماعات من المحدثین أو أکثرھم لا یسمی مرسلا

یعنی مرسل کی تعریف فقھاء و اصولیین اور محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک یہ ھے کہ جس روایت کی سند میں انقطاع ہو اور وہ انقطاع کسی بھی قسم کا ہو بہر حال ان کے نزدیک مرسل روایت منقطع کے معنی میں ہی ھے برخلاف جمھور محدثین کے کہ ان کے نزدیک منقطع روایت کو مرسل نہی مانا جاتا
مقدمہ شرح صحیح مسلم//جلد،1//صفحہ،30// طبعہ قاھرہ مصر

حافظ زین الدین عبد الرحیم عراقی کی فن اصول حدیث میں کتاب جسکا اصل نام ھے "نظم الدرر فی علم الاثر" یہ کتاب "ألفیة العراقی" کے نام سے معروف و مشھور ھے اور منظوم کتاب ھے اسکی شرح مصنف نے بذات خود بھی کری ھے لیکن سب سے زیادہ جامع اور عمدہ شرح اس کتاب کی حافظ محمد بن عبد الرحمان السخاوی نے کری ھے جس کا نام ھے "فتح المغیث فی شرح ألفیة الحدیث" اس میں بھی حافظ سخاوی نے اس اختلاف کو وضاحت کیساتھ بیان کیا ھے وہ لکھتے ہیں

المرسل ما سقط راو من سندہ سواء کان فی اوله أو آخره أو بینھما واحد او اکثر....بحیث یدخل فیه المنقطع والمعضل والمعلق، وھو ظاھر عبارة الخطیب حیث اطلق الانقطاع...والمعروف فی الفقہ واصوله ان [ذالک کله] ای المنقطع والمعضل یسمی مرسلا، قال والیه ذھب من اھل الحدیث الخطیب و قطع به
یعنی مرسل وہ روایت ھے جس کی سند سے کوئی راوی ساقط ہو چاھے سند کی ابتداء سے یا درمیان سے یا پھر سند کے آخر سے اور راوی ایک ساقط ہو یاایک سے زیادہ کسی بھی قسم کا کا سقوط ارسال کے زمرے میں ھی آتا ھے جس میں منقطع معضل اور معلق روایت بھی شامل ہوگئیں [عموم انقطاع کیوجہ سے] اور یہی [عموم] خطیب بغدادی کی عبارت سے ظاہر بھی ھےکیونکہ ان کے نزدیک منقطع روایت علی الاطلاق ھے [جو مرسل کو بھی شامل ھے] اور فقھاء و اصولیین کے نزدیک یہی معروف ھے کہ [سقوط از سند] کی تمام اقسام یعنی منقطع اور معضل وغیرھما بھی مرسل کہلاتی ہیں جیسا کہ محدثین
میں سے خطیب کا مسلک ھے اور یہی انکا قطعی قول ھے
فتح المغیث بشرح الفیة الحدیث//جلد1//صفحہ154// دارالکتب العلمیه بیروت

حافظ ابن رجب حنبلی نے امام ترمذی کی کتاب العلل کی عمدہ ترین شرح کری ھے جس کا انکار کم از کم اس فن پر بحث کرنیوالا عالم اور محقق قطعی نہی کرسکتا شرح العلل میں خطیب وغیرہ کا مسلک بیان کرتے ہوئے ابن رجب حنبلی رقمطراز ہیں
أما الخطيب البغدادي فقد أطلق المرسل على ما انقطع إسناده مطلقا
خطیب بغدادی نے اس روایت پر مرسل کا اطلاق کیا ھے جسکی سند میں کسی بھی قسم کا انقطاع ہو
شرح علل الترمذي//صفحہ 183// طبعہ مكتبة الرشد رياض

حافظ ابن الصلاح کی کتاب جو کہ "مقدمہ ابن الصلاح" کے نام سے معروف ھے یہ کتاب فن اصول حدیث کی معرکۃ الارآء اور بنیادی کتب میں سے ایک ھے جس
کی طرف متأخرین نے مآخذ کے طور پر رجوع کیا ھے جو اس کتاب کی اھمیت کا اندازہ لگانے کے لیئے کافی ھےحافظ ابن الصلاح نے ان الفاظ کیساتھ فریق مذکور کا مسلک نقل کیا ھے لکھتے ہیں
والمعروف فی الفقه واصوله أن کل ذالک یسمی مرسلا والیه ذھب من اھل الحدیث ابو بکر الخطیب و قطع به
یعنی انقطاع [سقوط از سند] کی تمام اقسام اصولیین و فقھاء کے نزدیک مرسل کہلاتی ہیں یہی قطعی قول اور مسلک محدثین میں سے خطیب وغیرہ کا ھے
معرفۃ انواع علم الحدیث//صفحہ35// طبعہ دارالکتاب العربی بیروت

حافظ ابن کثیر دمشقی نے ابن الصلاح کے مقدمہ کی تلخیص کری ھے اختصار علوم الحدیث کے نام سے جسکی شرح شیخ احمد شاکر نے "الباعث الحثیث" کے نام سے کری ھے اور شیخ ناصر الدین البانی نے اس پر تعلیقات لگائی ہیں حافظ ابن کثیر نے بھی خطیب وغیرہ کے مسلک کو بیان کیا ھے کہ انکے نزدیک منقطع اور مرسل مترادف ہیں فرماتے ہیں
ومنھم من قال المنقطع مثل المرسل وھو کل مالا یتصل اسناده
یعنی محدثین میں سے بعض [خطیب] کا کہنا یہ ھیکہ منقطع روایت مرسل کیطرح ھے کہ جسکی سند متصل نہ ہو [یعنی سند میں اتصال نہ ہو انقطاع ہو اور انقطاع مطلق ھے چاھے کسی بھی قسم کا ہو]۔
اختصار علوم الحدیث//صفحہ164//طبعہ مكتبة المعارف رياض

امام نووی کی کتاب "التقریب والتیسیر" اصول حدیث کی مستند کتب میں سے ایک ھے اس کتاب کی نہایت عمدہ شرح علامہ جلال الدین سیوطی نے کری ھے اس شرح کی افادیت اور جامعیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ھے کہ انکی کتاب "تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی" مدارس کے درس نظامی میں باقاعدہ طور پر پڑھائی جاتی ھے
علامہ سیوطی رقمطراز ہیں
المنقطع الصحیح الذی ذھب الیه الفقھاء والخطیب وابن عبد البر وغیرھم من المحدثین ان المنقطع ما لم یتصل اسنادہ علی أی وجه کان انقطاعه سواء کان الساقط منه الصحابی او غیره فھو والمرسل واحد
یعنی منقطع کی تعریف میں صحیح قول فقھاء و محدثین میں سے خطیب بغدادی اور ابن عبد البر کا یہ ھے کہ جسکی سند متصل نہ ہو اب چاھے انقطاع کسی بھی قسم کا ہو سند میں راوی صحابی ساقط ہو یا صحابی کے علاوہ کوئی بھی راوی ساقط ہو وہ روایت منقطع ھے اور [ان حضرات کے نزدیک] منقطع اور مرسل ایک ھی ہیں
تدریب الراوی شرح تقریب النووی//صفحہ،181// طبعہ احیاء التراث العربی


منقطع پر مرسل کا اطلاق

مذکورہ بالا عبارات میں جو مسلک خطیب بغدادی اور ابن عبد البر سمیت بعض دیگر محدثین و فقھاء کا منقطع اور مرسل کی تعریف کی روشنی میں بیان کیا گیا اسکا خلاصہ یہ نکلتا ھیکہ ان حضرات کے نزدیک منقطع اور مرسل میں فرق نہی ھے بلکہ منقطع اور مرسل مترادف ہیں ان دونوں میں کوئی تمییز نہی ھے یہی وجہ ھے کہ اس فریق کے محدثین نے اکثر ان روایات پر مرسل کا ھی اطلاق کیا ھے جو انکے نزدیک منقطع تھیں چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اسی طرف اشارہ کیا ھے کہ جمھور محدثین تو منقطع اور مرسل میں تمییز کے قائل ہیں لیکن بعض محدثین جو ان دونوں اقسام میں تمییز کے قائل نہی ہیں وہ منقطع اور مرسل کے مترادف ہونے کیوجہ سے منقطع روایت پر بھی مرسل ھی کا اطلاق کرتے ہیں
حافظ ابن حجر کی کتاب "نخبة الفکر فی مصطلح أھل الاثر" اس فن کی مختصر اور جامع کتاب ھے جسکی شرح خود حافظ نے "نزھة النظر في توضيح نخبة الفكر" کے نام سے کری ھے جو نخبة الفکر کی دیگر تمام شروحات سے ممتاز ھے
حافظ ابن حجر نے منقطع پر مرسل کے اطلاق کو ان الفاظ کیساتھ بیان کیا ھے

وقریب من ھذا اختلافھم فی المنقطع والمرسل ھل ھما متغایران او لا؟ فاکثر المحدثین علی التغایر لکنه عند اطلاق الاسم واما عند استعمال الفعل المشتق فیستعملون الارسال فقط فیقولون ارسله فلان سوآء کان ذالک مرسلا او منقطعا، ومن ثمة اطلق غیر واحد ممن لم یلاحظ مواقع استعمالھم علی کثیر من المحدثین انھم لا یغایرون بین المرسل والمنقطع
فرماتے ہیں: منقطع اور مرسل ایک ہیں یا جدا جدا؟ اس مسئلہ میں اکثر محدثین دونوں میں تغایر [تمییز] کے قائل ہیں لیکن یہ اختلاف صرف تعریف کی حد تک ھے ورنہ تو دیگر محدثین بھی [جو تمییز کے قائل نہی ہیں] ارسال [مرسل] کا لفظ ھی استعمال کرتے ہیں چاھے روایت منقطع ہو یا مرسل کیونکہ یہ محدثین منقطع اور مرسل میں فرق نہی کرتے
نزھة النظر فی توضیح نخبة الفکر// صفحہ66

حافظ سخاوی نے منقطع پر مرسل کے اطلاق کو مثالوں کیساتھ بیان کیا ھے کہ امام بخاری امام ابو داود اور ترمذی سمیت بعض دیگر ائمہ فن منقطع روایت پرمرسل کا اطلاق کیا کرتے تھے اور پھر اسکی چند مثالیں بھی پیش کری ہیں جو ہم نقل کررہے ہیں حافظ سخاوی لکھتے ہیں
وممن اطلق المرسل علی المنقطع من ائمتنا أبو زرعة و أبو حاتم ثم الدارقطنی ثم البیھقی بل صرح البخاری فی حدیث لابراھیم بن یزید النخعی عن أبی سعید الخدری بانه مرسل لکون ابراھیم لم یسمع من أبی سعید و کذا صرح ھو و أبوداود فی حدیث لعون بن عبد اللہ بن عتبة بن مسعود بانه مرسل لکونه لم یدرک ابن مسعود والترمذی فی حدیث لابن سیرین عن حکیم بن حزام بانه مرسل وانما رواه ابن سیرین عن یوسف بن ماھک عن حکیم وھو الذی مشی علیه أبو داود فی مراسیله فی آخرین
فرماتے ہیں: ائمہ حدیث میں سے جن لوگوں نے منقطع پر مرسل کا اطلاق کیا ھے ان میں امام ابوزرعہ، امام ابوحاتم رازی، امام دارقطنی، اور حافظ بیھقی شامل ہیں جبکہ امام بخاری نے تو ابراھیم نخعی کی روایت جو انہوں نے ابوسعید خدری سے نقل کری ھے اس پر صراحت کیساتھ مرسل کا اطلاق کیا ھے جبکہ ابراھیم نخعی کا سماع صحابی رسول ابو سعید خدری سے ثابت نہی ھے اسیطرح امام بخاری اور ابو داود نے عون بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود کی روایت جو انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کری ھے اس پر مرسل کا اطلاق کیا ھے حالانکہ عون بن عبد اللہ کا سماع حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہی ھے اسیطرح امام ترمذی نے محمد ابن سیرین کی روایت جو انہوں نے حکیم بن حزام سے نقل کری ھے اس پر مرسل کا اطلاق کیا ھے حالانکہ محمد بن سیرین نے وہ روایت یوسف بن ماھک سے اور یوسف نے حکیم سے روایت کیاھے
فتح المغیث شرح الفیة الحدیث//جلد1//صفحہ155//طبعہ دارالکتب العلمیہ

اسیطرح حافظ محمد بن عبد الرحمان مبارکپوری شرح ترمذی کے مقدمہ میں لکھتے ہیں
واستعمل الترمذی لفظ المرسل بمعنی المنقطع فی کثیر من المواضع وکذالک غیره من المحدثین استعملوا المرسل بمعنی المنقطع
فرماتے ہیں: امام ترمذی نے کافی مقامات پر مرسل کو منقطع کے معنی میں استعمال کیا ھے [اور منقطع پر مرسل کا اطلاق کیا] اسیطرح انکے علاوہ دیگر محدثین نے دونوں کے ہم معنی ہونے کیوجہ سے منقطع روایت کیلیئے مرسل کا لفظ استعمال کیا ھے۔
مقدمہ تحفة الاحوذی شرح جامع الترمذی// صفحہ393// طبعہ قدیمی کتب خانہ


امام حاکم اور جمھور محدثین کا مسلک
فریق اول کا مسلک تفصیل کیساتھ بیان ہوچکا اب آتے ہیں جمھور محدثین کے مسلک کیطرف کہ جو انقطاع سند میں اطلاق کے قائل نہی ہیں بلکہ ان کے نزدیک منقطع اور مرسل میں فرق ھے چنانچہ اب ھم جمھور محدثین کا نقطہ نظر بیان کرینگے کہ ان حضرات کے نزدیک منقطع اور مرسل کی تعریف و تمییز میں میں حد فاصل کیا ھے
منقطع کی تعریف
فن اصول حدیث کی سب سے پہلی کتاب "المحدث الفاصل بین الراوی والواعی" ھے جسکے مصنف ابو محمد حسن رامہرمزی متوفی سن360ھجری ہیں اس کے بعد دوسری کتاب امام حاکم نیشاپوری کی ھے "معرفة علوم الحدیث" اس کتاب کا شمار بلا شک فن کے اولین ماخذ کے طور پر ہوتا ھے چنانچہ امام حاکم نے منقطع کی تعریف ان الفاظ میں بیان کری ھے
والنوع الثالث من المنقطع ان یکون فی الاسناد روایة راو لم یسمع من الذی یروی عنه الحدیث قبل الوصول الی التابعی الذی ھو موضع الارسال ولا یقال لھذا النوع من الحدیث مرسل انما یقال له منقطع
یعنی منقطع یہ ھے کہ سند میں کوئی راوی اپنے سے اوپر والے ایسے راوی سے حدیث بیان کرے جس سے اس نے روایت سنی نہ ہو [یعنی سماع ثابت نہ ہو] لیکن یہ انقطاع مطلق نہی ھے بلکہ تابعی سے پہلے پہلے انقطاع ہونا چاھیئے [تابعی کے بعد نہی] کیونکہ تابعی موضع ارسال ھے لھذا ایسی روایت کو مرسل نہی بلکہ منقطع کہا جائیگا
معرفة علوم الحدیث// صفحہ28// طبعہ دارالکتب العلمیہ بیروت

امام حاکم نے منقطع کی تعریف میں "التابعی الذی ھو موضع الارسال" کا جملہ استعمال کرکے منقطع کی تعریف کو جامع اور مانع کردیا یہ جملہ منقطع اور مرسل میں حد فاصل کی حیثیت رکھتا ھے یعنی اگر تابعی سے پہلے پہلے سند میں کوئی انقطاع ھے تو روایت منقطع ہوگی اور تابعی کے بعد [جو کہ سند کا آخری حصہ ھے] اگر کوئی راوی ساقط ھے تو اس روایت پر منقطع کا اطلاق نہی ہوگا بلکہ وہ روایت مرسل ہوگی چنانچہ امام حاکم کے بعد آنیوالے ائمہ فن نے انکی بیان کردہ تعریف کی اسی معنی میں وضاحت کری ھے لیکن ہم یہاں اختصار کے پیش نظر امام نووی کی توضیح نقل کرینگے
علامہ نووی لکھتے ہیں
فان انقطع قبل التابعی واحد او اکثر قال الحاکم وغیره من المحدثین لا یسمی مرسلا بل یختص المرسل بالتابعی عن النبی فان سقط قبله فھو منقطع

یعنی سند میں اگر تابعی سے پہلے [راوی کے سقوط یا عدم سماع کیوجہ سے] انقطاع ہو تو وہ روایت امام حاکم و دیگر محدثین کے نزدیک منقطع ھے کیونکہ مرسل تابعی کیساتھ خاص ھے [تابعی صغیر ہو یا کبیر برابر ھے ائمہ کی تصریح کیمطابق]۔
التقریب والتیسیر لمعرفة سنن البشیر النذیر// صفحہ34// طبعہ دارالکتاب العربی


مرسل کی تعریف

امام حاکم نیشاپوری مرسل کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
فان مشائخ الحدیث لم یختلفوا فی ان الحدیث المرسل ھو الذی یرویه المحدث باسانید متصلة الی التابعی
فرماتے ہیں: مشائخ حدیث [جمھور] کے نزدیک بلا اختلاف مرسل وہ حدیث ھے جس کا سلسلہ سند تابعی تک متصل ہو ۔
معرفة علوم الحدیث// صفحہ25// طبعہ دارالکتب العلمیہ بیروت
یعنی مصنف سے لیکر تابعی تک سند میں کوئی انقطاع نہ ہو تو وہ روایت مرسل ھے اگرچہ تابعی کے بعد اتصال نہ پایاجائے جیساکہ اس تعریف کی تایید اور وضاحت حافظ ابن حجر عسقلانی کی بیان کردہ تعریف سے بھی ہوتی ھے
حافظ مرسل کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں
والثانی ھو ما سقط فی آخره من بعد التابعی ھو المرسل
یعنی وہ حدیث جس کی سند کے آخری حصے سے تابعی کے بعد کوئی راوی ساقط ہو وہ مرسل ھے
نزھة النظر شرح نخبة الفکر//صفحہ399// طبعہ قدیمی کتب خانہ


خلاصہ کلام
امام حاکم اور حافظ ابن حجر کی بیان کردہ تعریفات کی روشنی میں انقطاع اور ارسال کا فرق واضح ہوگیا جسکی سند میں تابعی سے پہلے راوی ساقط ہو وہ منقطع ھے اور اگر تابعی تک سند متصل ہو تابعی کے بعد انقطاع ہو تو وہ مرسل ھے زیر بحث روایت امام حاکم اور حافظ ابن حجر و دیگر جمھور محدثین کے نزدیک انکی بیان کردہ تعریف کی روشنی میں مرسل ھے کیونکہ ابتداء سند [مصنف ابن شبہ] سے لیکر ثابت بن اسلم البنانی تک سند متصل ھے اور ثابت بن اسلم بالاتفاق جلیل القدر تابعی ہیں اگر انکا سماع صحابی رسول ہلال بن امیہ سے ثابت نہ بھی ہو تب بھی روایت کے مرسل ہونے کیوجہ سے اسکی حجیت ساقط نہی ہوتی کیونکہ مرسل سے استدلال اور احتجاج ائمہ ثلاثہ [ابوحنیفہ،مالک،احمد بن حنبل] کے نزدیک صحیح ھے


مرسل کا حکم
امام حاکم کی ایک تصنیف "الاکلیل" بھی اسی فن سے متعلق ھے لیکن یہ کتاب کافی مختصر تھی اسلیئے اس پر امام حاکم نے خطبہ لکھا جو "المدخل الی معرفة کتاب الاکلیل" کے نام سے معروف ھے
امام حاکم مرسل کی تعریف اور حکم کے باب میں رقمطراز ہیں
فالقسم الاول منھا المراسیل وھو قول الامام التابعی او تابع التابعی قال رسول اللہ [ص] وبینه وبین رسول اللہ [ص] قرن او قرنان، ولا یذکر سماعه فیه من الذی سمعه [والمعتمد ما قاله الحاکم فی المعرفة] فھذہ احادیث صحیحة عند جماعة ائمة اھل الکوفة کابراھیم بن یزید النخعی وحماد بن ابی سلیمان و أبی حنیفة النعمان بن ثابت و أبی یوسف یعقوب بن ابراھیم القاضی و أبی عبد اللہ محمد بن الحسن الشیبانی فمن بعدھم من ائمتھم محتج بھا عند جماعتھم
کہتے ہیں: مرسل سے مراد تابعی یا تبع تابعی کا قول ھے جو وہ رسول اللہ [ص] سے نقل کرے جبکہ اسکے اور رسول اللہ [ص] کے درمیان ایک یا دو واسطوں کا فاصلہ ہو لیکن راوی ان [واسطوں] کا ذکر نہ کرے جس سے اس نے حدیث سنی ہو [کتاب کے محقق احمد بن فارس السلوم اس تعریف کے شرح میں کہتے ہیں کہ مستند تعریف مرسل کی وہ ہی ھے جو امام حاکم نے اپنی کتاب "معرفة علوم الحدیث" میں بیان کری ھے یعنی صرف تابعی روایت کرے نہ کہ تبع تابعی] مرسل کا حکم یہ ھے کہ مرسل احادیث صحیح ہیں اہل کوفہ کی ایک جماعت کے نزدیک جن میں ابراھیم نخعی حماد بن ابی سلیمان امام ابو حنیفہ امام ابو یوسف امام محمد اور انکے بعد آنیوالے دیگر ائمہ شامل ہیں ان سب حضرات کے نزدیک مرسل قابل احتجاج ھے۔
المدخل الی معرفة کتاب الاکلیل// صفحہ108// طبعہ دارابن حزم بیروت

حافظ ابو نعیم اصفھانی نے حاکم کی کتاب "معرفة علوم الحدیث" پر کچھ قواعد کا اضافہ کیا انکی کتاب "المستخرج علی معرفة علوم الحدیث" کے نام سے ھے انکے بعد خطیب بغدادی کا نام آتا ھے جنہوں نے علل حدیث کے اکثر فنون پر تصانیف لکھیں انکی تصانیف میں سے "الکفایة فی علم الروایة" فن اصول حدیث میں حد درجہ استناد رکھتی ھے
حکم مرسل کے باب میں خطیب رقمطراز ہیں
وقد اختلف العلماء فی وجوب العمل بما ھذه حاله فقال بعضھم انه مقبول ویجب العمل به اذا کان المرسل ثقة عدلا وھذا قول مالک و أھل المدینة و أبی حنیفة و أھل العراق وغیرھم
کہتے ہیں: مرسل روایت پر عمل کی بابت علماء میں اختلاف ھے بعض علماء کہتے ہیں کہ مرسل مقبول ھے اور اس پر عمل کرنا واجب ھے جبکہ ارسال کرنیوالا راوی ثقہ اور عادل ہو اور یہ قول امام مالک، امام ابو حنیفہ، اہل مدینہ اور اہل عراق کا ھے
الکفایة فی علم الروایة// صفحہ333// طبعہ دارالکتب العلمیہ بیروت

حافظ ابن رجب حنبلی مرسل سے استدلال کے باب میں لکھتے ہیں
وقد استدل کثیر من الفقھاء بالمرسل وھو الذی ذکره اصحابنا انه الصحیح عن الامام احمد وھو قول أبی حنیفة واصحابه واصحاب مالک ایضا
فرماتے ہیں کہ فقھاء کی بڑی جماعت نے مرسل روایات سے استدلال کیا ھے اور یہی [مرسل سے استدلال کا] قول ہمارے اصحاب نے امام احمد بن حنبل سے نقل کیا ھے اور یہی صحیح قول ھے اور یہی قول امام ابوحنیفہ اور انکے اصحاب اور مالکیہ کا بھی ھے
شرح علل الترمذی// صفحہ116// طبعہ دارالکتب العلمیہ بیروت

حافظ ذھبی کی کتاب "الموقظة فی علم مصطلح الحدیث" فن اصول کی مستند اور مختصر کتب میں سے ایک ھے علامہ ذھبی نے مرسل سے احتجاج کی تخصیص فرمائی ھے کہ ارسال کرنیوالا راوی کم از کم متوسط طبقے کا تابعی ہو ملاحظہ ہو
نعم و ان صح الاسناد الی تابعی متوسط الطبقة کمراسیل مجاھد و ابراھیم والشعبی فھو مرسل جید لا باس به
یعنی اگر تابعی تک سند صحیح [متصل] ہو اور تابعی بھی متوسط طبقے کا ہو جیسے کہ مجاھد، ابراھیم نخعی، اور شعبی کی مراسیل ہیں تو اس طبقے کی مراسیل اچھی [صحیح] ہیں ان [سے استدلال کرنے] میں کوئی حرج نہی ھے
الموقظة فی علم مصطلح الحدیث// صفحہ39// طبعہ مکتب المطبوعات الاسلامیہ بیروت

شیخ طاہر بن صالح الدمشقی الجزائری جو کہ مصر کے محققین میں سے نامور محقق گذرے ہیں انکی کتاب "توجیه النظر الی علم الاثر" کا شمار نہ صرف فن کی جامع کتب میں ہوتا ھے بلکہ عصر حاضر کے محدثین علماء بھی اسکی افادیت کے معترف ہیں
مصنف اہل کوفہ کے نزدیک حکم مرسل کے باب میں رقمطراز ہیں
واما مشائخ اھل الکوفة فان عندھم ان کل حدیث ارسله أحد من التابعین أو أتباع التابعین أو من بعدھم من العلماء فانه یقال له مرسل وھو محتج به
فرماتے ہیں کہ اہل کوفہ [جنمیں احناف ودیگر فقھاء شامل ہیں] کے مشائخ کے نزدیک تابعی، تبع تابعی، اور انکے بعد والے علماء کی مراسیل قابل احتجاج ہیں

توجیه النظر الی علم الاثر// صفحہ166// مطبوعہ مصر


تابعین کا مرسل کی قبولیت پر اجماع
خلاصہ حکم مرسل کا مذکورہ بالا حوالہ جات کی روشنی میں یہ ھے کہ ابراھیم نخعی امام ابو حنیفہ امام مالک و دیگر مشائخ و فقھاء کوفہ و مدینہ اور امام احمد بن حنبل [صحیح تر قول کیمطابق] ان حضرات کے نزدیک مرسل روایت حجت ھے جس سے استدلال درست ھے اسکے علاوہ بھی علامہ سیوطی نے تدریب الراوی میں حکم مرسل کے باب میں دس مختلف اقوال نقل کیئے ہیں جنکی تفصیل ہمارا محل کلام نہی ھے البتہ امام مالک وغیرہ کے نزدیک جو شرائط مرسل سے احتجاج کرنے کیلیئے مذکورہ بالا حوالہ جات میں بیان کی گئی ہیں کہ ارسال کرنیوالا راوی ثقہ ہو اور تدریب الراوی میں یہ شرط بھی ھے کہ ارسال بھی ثقہ سے کرتا ہو اسلیئے کہ ثقہ تابعی جب تک کسی ثقہ سے کوئی بات نہ سنے براہ راست رسول اللہ کیطرف منسوب نہی کرتا تھا اسیوجہ سے حضرات تابعین کے متعلق منقول ھیکہ وہ مرسل پر نکیر نہی کیا کرتے تھے اور ابن جریر کے قول کیمطابق تو مرسل کی قبولیت پر تابعین کا اجماع تھا اسیطرح تابعین کے بعد ائمہ نے بھی دوسری صدی تک مرسل پر کوئی نکیر نہی کی یہاں تک کہ امام شافعی پہلے تھے جنہوں نے مرسل پر نکیر کی
چنانچہ علامہ سیوطی رقمطراز ہیں
وقال ابن جریر أجمع التابعون بأسرھم علی قبول المرسل ولم یأت عنھم انکاره ولا عن أحد من الائمة بعدھم الی رأس المئتين قال ابن عبد البر کأنه یعنی ان الشافعی اول من رده
تدریب الراوی//صفحہ 171//طبعہ دار احیاء التراث العربی
اسیطرح حافظ ذھبی کی تصریح کردہ شرط کہ ارسال کرنیوالا راوی متوسط طبقے کا تابعی ہو تب مرسل روایت حجت ہوگی اب آیا یہ شرائط زیر بحث روایت میں موجود ہیں یا نہی؟ اس کے لیئے ہم علم الرجال کی روشنی میں سلسلہ سند کے راویوں کا جائزہ لیتے ہیں لیکن یہ بات واضح رھے کہ یہ بیان کردہ شرائط احناف کے نزدیک نہی ہیں کیونکہ انکے نزدیک تبع تابعی کی مرسل بھی حجت ھے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا


روایت کی اسنادی حیثیت علم رجال کی روشنی میں

روایت کا سلسلہ سند یہ ھے
حدثنا موسى بن إسماعيل قال حدثنا حماد بن سلمة قال حدثنا ثابت عن هلال بن أمية۔
صحابی رسول ھلال بن امیہ سے تابعی ثابت بن اسلم البنانی کا سماع ثابت نہ ہونے کیوجہ سے یہ روایت چونکہ مرسل بن جاتی ھے جس سے استدلال واحتجاج کرنے کیلیئے شرائط کیمطابق ضروری ھے کہ ثابت بن اسلم نہ صرف خود ثقہ ہوں بلکہ ارسال بھی ثقہ سے ہی کرتے ہوں اور ظاہر ھے کہ ثابت بن اسلم سے روایت کرنیوالے حماد بن سلمہ اور ان سے روایت کرنیوالے موسی بن اسماعیل کا ثقہ ہونا بھی اس مرسل روایت کی قبولیت کی شرائط میں سے ایک ھےجنکا ہم بالترتیب ذکر کرینگے

ثابت بن اسلم البنانی
یہ سند کے مرکزی راوی ہیں انکا شمار بصرہ کے جلیل القدر تابعین اور محدثین میں ہوتا ھے اور صحابہ میں سے انس بن مالک، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن زبیر جیسے مکثرین فی الحدیث صحابہ سے روایات نقل کری ہیں ثابت بن اسلم البنانی کی توثیق مسلم اور متفق ھے امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ ثابت اور قتادہ میں سے کون زیادہ اثبت ھے فرمایا ثابت حدیث میں زیادہ اثبت ھیں اسیطرح ابو حاتم رازی فرماتے ہیں کہ انس بن مالک کے اصحاب میں سے زھری کے بعد ثابت زیادہ اثبت ہیں اور پھر قتادہ امام نسائی اور عجلی نے بھی ثابت کی توثیق کری ھے
چنانچہ حافظ مزی انکی توثیق کے باب میں نقل کرتے ہیں
وقال ابو طالب سالت احمد بن حنبل قلت ثابت اثبت او قتادة؟ قال ثابت یتثبت فی الحدیث، وقال احمد بن عبد اللہ العجلی ثقة رجل صالح، وقال النسائی ثقة، وقال ابو حاتم اثبت اصحاب انس الزھری ثم ثابت ثم قتادة
تھذیب الکمال فی اسماء الرجال//جلد 2//صفحہ 149//دارالکتب العلمیہ بیروت
اگرچہ اس حوالہ کے بعد مزید کسی دلیل کی ضرورت نہی رہتی ثابت بن اسلم کی ثقاہت اور بزرگی کو بیان کرنے کیلیئے لیکن اپنے استدلال، اور ثابت بن اسلم کے ارسال کو شرط مذکور کیمطابق کمال درجہ تقویت بخشنے کیلیئے ضروری ھے کہ امام الجرح والتعدیل حافظ ابن عدی الجرجانی کا فیصلہ کن قول نقل کیا جائے جسکے بعد کسی قسم کا ابہام باقی نہ رھے
ابن عدی رقمطراز ہیں
وثابت البناني من تابعي أهل البصرة وزهادهم ومحدثيهم وقد كتب عَن الأئمة والثقات من النَّاس وأروى النَّاس عَنْهُ حَمَّاد بْن سلمة وما هُوَ إلا ثقة صدوق وأحاديثه أحاديث صالحة مُسْتَقِيمَةٌ إِذَا رَوَى عَنْهُ ثِقَةٌ وله حديث كثير، وَهو من ثقات المسلمين وما وقع فِي حديثه من النكرة فليس ذاك مِنْهُ إِنَّمَا هُوَ من الراوي عَنْهُ لأنه قد روى عَنْهُ جماعة ضعفاء ومجهولين، وإِنَّما هُوَ فِي نفسه إِذَا روى عَمَّن هُوَ فوقه من مشايخه فهو مستقيم الحديث ثقة۔
فرماتے ہیں کہ ثابت البنانی اھل بصرہ کے تابعین میں سے ہیں جنکا شمار بصرہ کے زاھد ترین لوگوں اور محدثین میں ہوتا ھے ائمہ اور مستند لوگوں سے روایات قلمبند کری ہیں اور ثابت بن اسلم سے سب سے زیادہ روایت کرنیوالے راوی حماد بن سلمہ ہیں جو کہ ثقہ اور صدوق ہیں، اور ثابت بن اسلم کی احادیث اچھی اور معتمد ہیں بشرطیکہ کوئی ثقہ راوی ان سے نقل کرے، اور ثابت بن اسلم سے کثیر احادیث مروی ہیں، ثابت ثقہ مسلمین میں سے ہیں اور جو انکی بعض روایات میں نکارت پائی جاتی ھے [یعنی ثابت کی جو بعض منکر روایات ہیں] وہ ثابت کیطرف سے نہی ہوتی بلکہ اسکی وجہ یہ ھیکہ چونکہ ثابت سے ضعیف اور مجھول راویوں نے بھی روایات نقل کری ہیں اسلیئے ان روایات میں نکارت ہوتی ھے ورنہ بذات خود ثابت بن اسلم جب اپنے سے اوپر والے شیوخ میں سے کسی سے بھی روایت نقل کرتے ہیں تو ثقاہت کیساتھ مستند روایت نقل کرتے ہیں
الکامل فی ضعفاء الرجال//جلد،2 صفحہ،308// طبعہ دارالکتب العلمیہ بیروت
ابن عدی کی تعدیل وتوثیق سے یہ امر بالکل واضح ہوگیا کہ جب ثابت سے کوئی حماد بن سلمہ جیسا ثقہ راوی روایت کرے تو وہ روایت قابل اعتماد اور صالح ہوتی ھے ہاں اگر ان سے کوئی ضعیف یا مجھول راوی روایت کرے تو وہ منکر کے زمرے میں آسکتی ھے لیکن ثابت بذات خود اپنے سے اوپر ثقہ سے ھی روایات لیتے ہیں یہ تو ہوئی پہلی شرط اور دوسری شرط کی تصریح حافظ ذھبی نے کی تھی کہ متوسط طبقے کے تابعی کی مراسیل جید ہیں ان سے احتجاج میں کوئی حرج نہی ھے جیسے شعبی، مجاھد اور ابراھیم نخعی وغیرھم ۔۔ ابراھیم نخعی کا شمار ابن حجر نے طبقہ خامسہ [پانچویں] میں کیا ھے جبکہ ثابت بن اسلم البنانی کا شمار طبقہ رابعہ [چوتھے] میں کیا ھے لہذا ثابت بن اسلم بدرجہ اولی ابراھیم نخعی سے مقدم ٹھرے
چنانچہ حافظ لکھتے ہیں
ابراھیم بن یزید بن قیس بن الاسود النخعی ابو عمران الکوفی الفقیه ثقة، الا انہ یرسل کثیرا، من الخامسة۔

ثابت بن اسلم البنانی بضم الموحدة ونونین مخففین أبو محمد البصری، ثقة،عابد، من الرابعة۔

تقریب التھذیب// جلد1//صفحہ69//صفحہ145//طبعہ قدیمی کتب خانہ

حماد بن سلمه
حماد بن سلمہ کی توثیق اگرچہ ابن عدی کے قول سے واضح ھے لیکن پھر بھی تشفی کیلیئے ہم فن اسماء الرجال کے بانیان اور ماہرین فن جرح وتعدیل میں سے یحیی بن سعید القطان، امام احمد بن حنبل، یحیی بن معین اور متاخرین میں سے علامہ ذھبی کی توثیق و تعدیل نقل کیئے دیتے ہیں حافظ ذھبی لکھتے ہیں
حماد بن سلمة بن دينار الامام العلم، أبو سلمة البصري.
عن أبي عمران الجونى، وثابت، وابن أبي مليكة، وعبد الله بن كثير الدارى، وخلق.وعنه مالك، وشعبة، وسفيان، وابن مهدي، وعارم، وعفان، وأمم. وكان ثقة, وقال يحيى القطان: حماد بن سلمة، عن زياد الاعلم.وقيس بن سعد ليس بذاك.وقال أحمد ويحيى: ثقة,
ميزان الاعتدال//جلد 1 صفحه 590// ,طبعه دار احياء الكتب العلميہ

موسی بن اسماعیل المنقری
آخری راوی ہیں موسی بن اسماعیل المنقری انکی کنیت ابو سلمہ التبوذکی ھے ان سے امام بخاری، مسلم، ابو داود، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ جیسے جلیل القدر محدثین نے روایات لی ہیں
تھذیب الکمال فی اسماء الرجال//جلد10 صفحہ،147 // طبعہ دارالکتب العلمیہ بیروت

حافظ ابن حجر عسقلانی نے نہ صرف انکو ثقہ اور ثبت کہا ھے جو کہ تعدیل کے اعلی مراتب میں سے ایک ھے بلکہ ابن خراش کے اس قول کو بھی رد کیا ھے جسمیں انہوں نے موسی بن اسماعیل کیطرف بعض لوگوں کی جرح منسوب کی ھے چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ ابن خراش کا یہ قول التفات کے لائق ھی نہی ھے
ملاحظہ ہو
موسی بن اسماعیل المنقری مشھور بکنیته وباسمه ثقة، ثبت، من صغار التاسعة ولا التفات الی قول ابن خراش تکلم الناس فیه
تقریب التھذیب//جلد2 صفحہ،220 // طبعہ قدیمی کتب خانہ کراچی

امام الجرح والتعدیل ابو حاتم الرازی نے بھی موسی بن اسماعیل المنقری کی توثیق وتعدیل کو یحیی بن معین اور ابو الولید الطیالسی سے نقل کیا ھے اور حماد بن سلمہ کو موسی بن اسماعیل کے شیوخ میں ذکر کیا ھے جس سے سماع کی تصریح واضح ہوجاتی ھے کہ موسی بن اسماعیل کا سماع حماد بن سلمہ سے ثابت اور مسلم امر ھے ابو حاتم رازی لکھتے ہیں
موسى بن اسماعيل أبو سلمة النقرى التبوذكى روى عن شعبة وحماد بن سلمة وابان العطار ووهيب بن خالد روى عنه أبي وأبو زرعة.نا عبد الرحمن نا الحسين بن الحسن قال سألت يحيى بن معين عن ابى سلمة التبوذكى فقال: ثقة مأمون.نا عبد الرحمن قال سمعت أبي يقول سمعت يحيى بن معين واثنى على ابى سلمة فقال: كان كيسا، وكان الحجاج بن المنهال رجلا صالحا وابو سلمة اتقنهما.نا عبد الرحمن قال سمعت ابى يقول سمعت أبا الوليد الطيالسي يقول: موسى بن اسماعيل ثقة صدوق.
الجرح والتعدیل//جلد8،صفحہ157 // طبعہ دارالکتب العلمیہ بیروت


تفصیلی بحث کا اجمالی خلاصہ
سلسلہ سند پر فنی و تحقیقی بحث کی تفصیل کا اجمالی خلاصہ یہ نکلتا ھیکہ موسی بن اسماعیل سے لیکر ثابت بن اسلم البنانی تک سند متصل ھے اور راویوں کی عدالت و ثقاہت بغیر کسی ابہام وتردد کے ثابت ھے اور ثابت کا ھلال بن امیہ سے انقطاع موجب ارسال ھے اور مرسل سے احتجاج و استدلال درست ھے جیسا کہ ثابت ھوچکا
روایت کا متن : إنما أنت لعبة يلعب بك، ثم تتركين
سلسلہ سند پر مدلل گفتگو کے بعد اب آتے ہیں روایت کے متن کے اس حصہ کیطرف جو محل استدلال اور حضرت عمر کا اپنی اہلیہ سے فرمان ھے ۔ إنما أنت لعبة يلعب بك ثم تتركين ۔ کہ تم ایک کھلونے کیطرح ہو جس سے کھیلا جاتا ھے اور پھر چھوڑ دیا جا تا ھے۔ حضرت عمر کا یہ فرمان ثم تترکین صرف زبانی کلامی دعوی نہی ھے بلکہ فاروق اعظم نے خود اپنے عمل سے اپنے قول کی تصدیق بھی فرمائی ھے اب ہم قولی روایت [ثم تترکین] کی تایئید میں حضرت عمر کی اس عملی روایت [ثم ترکھا] کو ابن سعد سے نقل کرینگے کہ جسمیں حضرت عمر کے ذاتی فعل کا ذکر ھے جو انکے ذاتی قول کو ثابت کرنے کیلیئے کافی ھے ۔
ابن سعد نقل کرتے ہیں
اخبرنا عفان بن مسلم حدثنا حماد بن سلمۃ اخبرنا علی بن زید أن عاتكة بنت زيد كانت تحت عبد الله بن أبى بكر فمات عنها واشترط عليها أن لا تزوج بعده فتبتلت وجعلت لا تزوج وجعل الرجال يخطبونها وجعلت تأبى فقال عمر لوليها اذكرنى لها فذكره لها فأبت عمر أيضا فقال عمر زوجنيها فزوجه إياها فأتاها عمر فدخل عليها فعاركها حتى غلبها على نفسها فنكحها فلما فرغ قال أف أف أف أفف بها ثم خرج من عندها وتركها لا يأتيها فأرسلت إليه مولاة لها أن تعال فإنى سأتهيأ لك
الطبقات الکبری//جلد،8 صفحہ،208 //طبعہ دارالکتب العلمیہ بیروت

عبارت کا ترجمہ ھم کرینگے تو شکوہ ہوگا اسلیئے روایت کا ترجمہ مولانا راغب رحمانی صاحب کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔

عاتکہ عبد اللہ بن ابی بکر صدیق کے نکاح میں تھیں عبد اللہ فوت ہوگئے اور عاتکہ سے شرط کر گئے کہ میرے بعد نکاح نہ کرنا چنانچہ وہ دنیا کی تارکہ بن گیئں اور کسی سے نکاح نہی کیا لوگ پیام لے لے کر آتے تھے مگر آپ انکار کردیا کرتی تھیں حضرت عمر نے آپکے ولی سے کہا انکے پاس میرا ذکر کرنا انہوں نے عمر کا ذکر کیا آپ نے انکار کردیا، حضرت عمر نے آپکے ولی سے کہا: ان سے میرا نکاح کردیجیئے، چنانچہ ولی نے آپ کا حضرت عاتکہ سے نکاح کرادیا، خلوت ہوئی انہوں نے ھمبستری سے انکار کیا عمر نے زبردستی ان سے صحبت کی، فارغ ہوکر بولے: تھو تھو تھو، ان پر تھو تھو کی اور انکے پاس سے چلے گئے اور انہیں چھوڑ گئے اور آنا جانا بند کردیا انہوں نے اپنی آزاد کردہ لونڈی بھیج کر کہلوایا کہ آپ تشریف لے آئیں میں آپکے لیئے تیاری کروں گی
طبقات ابن سعد//جلد،8 صفحہ،345 // طبعہ نفیس اکیڈمی اردوبازار کراچی

یہ روایت بھی احناف کے نزدیک مرسل ھے اگرچہ علی ابن زید متکلم فیہ راوی ہیں لیکن خواستگاری کے میدان میں شجاعت فاروقی کے کارنامے کتب تاریخ میں عام ہیں یہاں تک کہ عقد ام کلثوم کے باب میں حضرت کی بیباکیوں کے چرچے ابن شبہ کی اس روایت سے کہیں زیادہ مشہور ہیں اب ھم اپنی اس تحریر کے آخری حصہ میں کتاب اور صاحب کتاب کی توثیقات کو بالترتیب نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ قاری کے ذہن و قلب میں اس روایت کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی شک و شبہ اور ابہام باقی نہ رھے


کتاب کے مصنف عمر ابن شبة النميري البصري
آخری راوی موسی بن عقبہ سے یہ روایت ثقہ محدث و مؤرخ امام عمر ابن شبہ نے اپنی کتاب تاریخ المدینة المنورة میں نقل کری ھے عمر ابن شبہ کے صادق اللھجة ہونے پر کسی کو کوئی کلام نہی ھے انکی صداقت بالاجماع مسلم ھے اتمام حجت کے طور پر ھم مصنف کی توثیق و تعدیل کو بالترتیب علامہ ذھبی اور حافظ ابن حجر کی زبانی نقل کرینگے علامہ ذھبی نے ان کو ثقہ کہا ھے اور ابن ماجہ اور امام الجرح والتعدیل ابو حاتم رازی جیسے مستند ائمہ حدیث کو عمر بن شبہ سے روایت نقل کرنیوالوں میں ذکر کیا ھے اور خود عمر ابن شبہ بھی یحیی بن سعید القطان سے روایت کیا کرتے تھے جو کہ علم الرجال کے باقاعدہ طور پر نہ صرف پہلے مدون بھی ہیں بلکہ ان کا شمار فن رجال کے بانیان میں شعبة بن الحجاج کے بعد سر فھرست کیا جاتا ھے
چنانچہ علامہ ذھبی لکھتے ہیں
عمر بن شبة أبو زيد النميري ذو التصانيف، عن القطان و عبد الوھاب الثقفی، وعنه ابن ماجة وابن أبي حاتم وابن مخلد، ثقة۔
الکاشف فی معرفة من لہ روایة فی الکتب الستة//جلد2//صفحہ104// طبعہ دارالکتب العلمیہ بیروت

حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی عمر بن شبة کو صدوق کہا ھے اور ان کو گیارھویں طبقے کے حفاظ اور محدثین میں شمار کیا ھے ان کا انتقال سن 262 ھجری میں ہوا ملاحظہ ہو
عمر بن شبة بفتح المعجمة و تشديد الموحدة ابن عبيدة بن زيد النميري بالنون مصغرا أبو زيد بن أبي معاذ البصري، نزيل بغداد، صدوق، له تصانيف من كبار الحادية عشرة مات سنة اثنتين و ستين
تقریب التھذیب//جلد1//صفحہ719// طبعہ قدیمی کتب خانہ


کتاب تاریخ المدینة المنورة کی توثیق
عمر ابن شبہ کی کتاب تاریخ المدینۃ المنورة کی تاریخی حیثیت و اھمیت اور علمی منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ھے کہ عصر حاضر میں سلفی محققین بھی ابن شبہ کی تاریخ کیطرف رجوع کرتے نظر آتے ہیں جیساکہ ابن طاہر برزنجی نے "صحیح و ضعیف تاریخ طبری" میں ابن شبہ کی صحیح الاسناد روایات سے جا بجا استدلال کیا ھے کیونکہ ابن شبہ نہ صرف مؤرخ ہیں بلکہ ثقه محدث ہونے کیساتھ ساتھ انکی سیرت اور تاریخ میں علمی بصیرت کا اعتراف بھی حافظ ذھبی نے کیا ھے
چنانچہ ذھبی رقمطراز ہیں
عمر بن شبة ابن عبيدة الحافظ العلامة الأخباري الثقة أبو زيد النميري البصري صاحب التصانيف،، وكان بصيرا بالسير والمغازي وأيام الناس صنف تاريخا للبصرة و كتابا في أخبار المدينة وغير ذالك۔
تذكرة الحفاظ//جلد2//صفحہ517// طبعہ داراحیاء التراث العربی بیروت
متأخرین میں سے علامہ ذھبی کے علاوہ متقدمین أئمہ حدیث اور ماہرین فن رجال میں سے علامہ خطیب بغدادی اور حافظ ابن حبان نے بھی عمر ابن شبہ کی تاریخ میں جانکاری کو انکی ثقاہت کیساتھ بیان کیا ھے
حافظ ابن حبان لکھتے ہیں
عمر بن شبة بن عبيدة بن زيد بن رابطة النميري، مستقيم الحديث و كان صاحب أدب و شعر و أخبار و معرفة بتاريخ الناس۔
الثقات//صفحہ786// طبعہ مکتبہ نزار مصطفی الباز مکۃ المکرمۃ

خطیب انکی توثیق اور سیرت نگاری کے باب میں رقمطراز ہیں
وكان ثقة عالما بالسير و أيام الناس و له تصانيف كثيرة
تاریخ بغداد//جلد11//صفحہ208// طبعہ دارالکتب العلمیہ بیروت

عمر ابن شبہ کی حدیث و تاریخ میں علمی حیثیت اور اھمیت ایک مسلم امر ھے لیکن ھم انکی کتاب تاریخ المدینۃ المنورة کی توثیق حافظ ذھبی کی زبانی نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو اس کتاب کی تاریخی اھمیت اور ابن شبہ کی فنی امامت کو ثابت کرنے کیلیئے ایک قول فیصل کی حیثیت رکھتی ھے چنانچہ علامہ ذھبی نے عمر بن شبہ کے ترجمے میں پہلے نہ صرف امام دار قطنی وغیرہ سے انکی توثیق کو نقل کیا ھے بلکہ خود انکی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے عمر بن شبہ کی کتاب تاریخ المدینۃ المنورة کے نصف حصے کا مطالعہ کیا انکی یہ کتاب پڑھنے کے بعد میں نے نتیجہ نکالا کہ یہ کتاب تاریخ المدینۃ المنورة عمر بن شبہ کے امام ہونے کا تقاضہ کرتی ھے
حافظ ذھبی کی زبانی ملاحظہ ہو
عمر بن شبة بن عبدة بن زيد بن رائطة الأخباري،، وثقه الدارقطني و غير واحد، قلت صنف تاريخا كبيرا للبصرة لم نره و كتابا في أخبار المدينة رأيت نصفه يقضي بامامته
سیر أعلام النبلاء//جلد2//صفحہ2904// طبعہ بیت الأفکار الدولیة بیروت

قارئین کرام
یوں ہمارا مقالہ مکمل ہوا قارئین کے استفادہ کیلیئے تحریر میں دیئے گئے تمام ھی حوالہ جات کے اسکین بالترتیب دستیاب ہیں جو آپ نیچے دیئے گئے لنک پر ملاحظہ کرسکتے ہیں آخر میں تمام ھی مومنین سے التماس دعاء۔
والسلام
طالب دعاء
اسماعیل دیوبندی
Book Scans can be viewed here
http://www.shiaforums.com/vb/members/ismaeel-deobandi/albums/1/
http://www.shiaforums.com/vb/members/ismaeel-deobandi/albums/2/

Categories:

0 comments:

Post a Comment

براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.

Popular Posts (Last 30 Days)

 
  • Recent Posts

  • Mobile Version

  • Followers