سوال : عورت کو ایک وقت میں تین طلاق دینے سے متعلق عمر بن خطاب کا کیا نظریہ تھا؟ کیا یہ نظریہ قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سنت کے مطابق تھا؟
جواب : ابن عباس سے نقل ہوا ہے : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ، ابوبکر اور عمر کی حکومت کے شروع کے دوسالوں میں ایک وقت میں تین طلاقیں ، ایک طلاق شمار ہوتی تھی، لیکن عمر نے کہا : ”ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لھم فیہ اناة، فلو امضیناہ علیھم ، فامضاہ علیھم“ (۱) ۔جن کاموں میں لوگوں کو صبر سے کام لینا چاہئے ان کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور ہم سے درخواست کرتے ہیں کہ ہم اس کو تصویب اور دستخط کردیں، اے کاش کہ ہم اس پر دستخط کرتے، پھر اس کو ان کے لئے تصویب اور دستخط کردئیے قرآن کریم صراحت کے ساتھ کہتا ہے : ”الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان “ ۔ طلاق(ایسی طلاق جس میں رجوع کیا جاسکتا ہے) دو مرتبہ دی جائے گی،(اور ہر مرتبہ )نیکی کے ساتھ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے (اس کے ساتھ صلح و دوستی کرے) یا حسنِ سلوک کے ساتھ آزاد کردے ۔یہاں تک کہ ”فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ“ (۲) ۔ (اگر دو مرتبہ طلاق اور دو مرتبہ رجوع کرنے کے بعد) تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو عورت مرد کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ دوسرا شوہر کرے اوراس کے ساتھ ہمبستری کرے ۔
اس آیت میں خداوند عالم دو طلاقوں کو ضروری سمجھتا ہے اورحرمت کو تیسری طلاق کے محقق ہونے کے بعد قرار دیتا ہے اور یہ تین طلاقیں، ”لفظ تین “ کو تکرار(یعنی مرد یہ کہے کہ میں نے تجھ کو تین مرتبہ طلاق دیدی ہے) یا صیغہ طلاق کوبلا فاصلہ تین مرتبہ تکرار کرنے سے واقع نہیں ہوتی ۔
۱۔ پہلی قسم (لفظ ”تین“ کو تین بار تکرار کرنے )میں طلاق اس لئے واقع نہیں ہوگی کیونکہ یہ ایک طلاق ہے اور صیغہ طلاق میں لفظ تین کو استعمال کرنے سے تین طلاقیں واقع نہیں ہوںگی،اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھنا شرط ہے ، لہذااگر کوئی پوری نماز میں ایک مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھے اور نماز ختم کرنے کے بعد لفظ پانچ یا دس کی قید کا اضافہ کرے (اور کہے کہ میں نے پانچ مرتبہ یا دس مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ لیا) توکوئی بھی یہ نہیں کہے گہ کہ اس نے پانچ مرتبہ یا دس مرتبہ سورہ فاتحہ کی تکرار کی ہے ۔
اور جن احکام میں بھی تکرار اور عدد کی شرط ہے اس میں اسی طرح ہے : جیسے رمی جمرات میں سات مرتبہ پتھر مارنا واجب ہے اور ایک مرتبہ میں سات پتھر مارنا کافی نہیں ہے ،یا لعان کے مسئلہ میں چارمرتبہ شہادت کو ایک مرتبہ شہادت کو ”چار“ کی قید سے ادا کرنا کافی نہیں ہے بلکہ اصل شہادت کو چار مرتبہ اس کی طرف سے تکرار کرے ۔
۲۔ دوسری قسم (ایک وقت میں صیغہ طلاق کو تکرار کرنے)میں طلاق پہلے ہی صیغہ میں حاصل ہوجائے گی اور عقد ختم ہوجائے گا اور میاں بیوی ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے اور عقد ازدواج باقی نہیں رہ جائے گا لہذا دو مرتبہ یا تین مرتبہ صیغہ طلاق کو جاری کرنا لغو ہوگا،کیونکہ جس عورت کو طلاق ہوگئی ہے اس کو دو مرتبہ طلاق دینے کے کوئی معنی نہیں ہے اور ختم شدہ عقد دوبارہ ختم نہیں ہوگا اور یہاں پر جو تکرار کی شرط ہے وہ اس طرح حاصل نہیں ہوگی ،بلکہ طلاق اس وقت تکرار ہوگی جب ہر عقد کے بعد ایک طلاق دی جائے ، چاہے یہ عقد ، مرد کے رجوع کرنے سے ہی کیوں نہ واقع ہو ورنہ بعد والی طلاق لغو ہوگی ، پس پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی فرمایش کے مطابق ”لا طلاق الا بعد نکاح“۔ طلاق ، شادی کے بغیر صحیح نہیں ہے اور اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ اور ”لا طلاق قبل نکاح“ ۔ شادی سے پہلے کوئی طلاق نہیں ہے ۔ ”ولا طلاق لمن لا یملک“ (۳) ۔ جو شخص (عورت سے بوس و کنارکا)مالک نہیں ہے وہ طلاق نہیں دے سکتا، جب تک ان کے درمیان عقد ازدواج اور بیوی و شوہر کا رابطہ نہ ہو ، دوسری طلاق لغو اور بے معنی ہوگی ۔
احکام القرآن میں جصاص نے کہا ہے (۴) : طلاق کی آیت : ”الطلاق مرتان“ (جس طلاق میں رجوع ہے) وہ دو مرتبہ ہے ۔
اولا : حکم دیتا ہے کہ طلاقوں کے درمیان فاصلہ ہونا چاہئے ۔ ثانیا : حکم رجوع کو بیان کرتے وقت رجوع تین طلاق سے کم میں واقع نہیں ہوگا کیونکہ خداوند عالم فرماتا ہے : ”الطلاق مرتان“ اور ”الطلاق مرتان “ اقتضاء کرتا ہے کہ طلاقوں کے درمیان فاصلہ ہونا چاہئے، کیونکہ اگر کوئی بغیر فاصلہ کے دو مرتبہ صیغہ طلاق جاری کرے تو یہ صحیح نہیں ہے اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دو مرتبہ طلاق واقع ہوگئی ہے،اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر کسی شخص کو دو روپیہ ایک ساتھ دئیے جائیں تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے تمہیں دو مرتبہ پیسہ دئیے تھے مگریہ کہ اس کو دو مرتبہ پیسہ دئیے جائیں اور پھر کہا جائے کہ میں نے اس کو دو مرتبہ پیسہ دئیے ہیں ۔
سنت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم): ابن ماجہ اپنی ”سنن“ میں ایک صحیح روایت محمود بن لبید سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو خبر دی گئی کہ ایک مرد نے ایک وقت میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدی ہیں، آنحضرت (ص) بہت زیادہ ناراض ہوئے اور کھڑے ہوگئے پھر آپ نے فرمایا: ”ایلعب بکتاب اللہ و انا بین اظھرکم“ ؟ (۵) ۔ کیا میرے ہوتے ہوئے تمہارے درمیان (اور میرے سامنے) کتاب خدا سے مزاق ہوتی ہے ؟ اس وقت ایک مرد کھڑا ہوا اور عر ض کیا ، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کیا میں اس کو قتل کردوں؟ (۶) ۔
_________________
1 ـ مسند أحمد 1 : 314 ]1/516 ،ح 2870[ ; صحیح مسلم 1 : 574 ]3/276 ، ح 15 ، کتاب الطلاق[ .
2 ـ بقره : 229 ـ 230 .
3 ـ سنن دارمى 2 : 161 ; سنن أبی داود 1 : 342 ]2/258 ، ح 2190[ .
4 ـ أحکام القرآن 1 : 447 ]1/378[ .
5 ـ سنن ابن ماجه، ج 1، ص 631; سنن ابى داود، ج 1، ص 342; سنن دارمى، ج 2، ص 161; مستدرک حاکم ج 2 ص 24.
6 ـ شفیعى شاهرودى، گزیده اى جامع از الغدیر، ص 537.
جواب : ابن عباس سے نقل ہوا ہے : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ، ابوبکر اور عمر کی حکومت کے شروع کے دوسالوں میں ایک وقت میں تین طلاقیں ، ایک طلاق شمار ہوتی تھی، لیکن عمر نے کہا : ”ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لھم فیہ اناة، فلو امضیناہ علیھم ، فامضاہ علیھم“ (۱) ۔جن کاموں میں لوگوں کو صبر سے کام لینا چاہئے ان کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور ہم سے درخواست کرتے ہیں کہ ہم اس کو تصویب اور دستخط کردیں، اے کاش کہ ہم اس پر دستخط کرتے، پھر اس کو ان کے لئے تصویب اور دستخط کردئیے قرآن کریم صراحت کے ساتھ کہتا ہے : ”الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان “ ۔ طلاق(ایسی طلاق جس میں رجوع کیا جاسکتا ہے) دو مرتبہ دی جائے گی،(اور ہر مرتبہ )نیکی کے ساتھ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے (اس کے ساتھ صلح و دوستی کرے) یا حسنِ سلوک کے ساتھ آزاد کردے ۔یہاں تک کہ ”فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ“ (۲) ۔ (اگر دو مرتبہ طلاق اور دو مرتبہ رجوع کرنے کے بعد) تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو عورت مرد کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ دوسرا شوہر کرے اوراس کے ساتھ ہمبستری کرے ۔
اس آیت میں خداوند عالم دو طلاقوں کو ضروری سمجھتا ہے اورحرمت کو تیسری طلاق کے محقق ہونے کے بعد قرار دیتا ہے اور یہ تین طلاقیں، ”لفظ تین “ کو تکرار(یعنی مرد یہ کہے کہ میں نے تجھ کو تین مرتبہ طلاق دیدی ہے) یا صیغہ طلاق کوبلا فاصلہ تین مرتبہ تکرار کرنے سے واقع نہیں ہوتی ۔
۱۔ پہلی قسم (لفظ ”تین“ کو تین بار تکرار کرنے )میں طلاق اس لئے واقع نہیں ہوگی کیونکہ یہ ایک طلاق ہے اور صیغہ طلاق میں لفظ تین کو استعمال کرنے سے تین طلاقیں واقع نہیں ہوںگی،اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھنا شرط ہے ، لہذااگر کوئی پوری نماز میں ایک مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھے اور نماز ختم کرنے کے بعد لفظ پانچ یا دس کی قید کا اضافہ کرے (اور کہے کہ میں نے پانچ مرتبہ یا دس مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ لیا) توکوئی بھی یہ نہیں کہے گہ کہ اس نے پانچ مرتبہ یا دس مرتبہ سورہ فاتحہ کی تکرار کی ہے ۔
اور جن احکام میں بھی تکرار اور عدد کی شرط ہے اس میں اسی طرح ہے : جیسے رمی جمرات میں سات مرتبہ پتھر مارنا واجب ہے اور ایک مرتبہ میں سات پتھر مارنا کافی نہیں ہے ،یا لعان کے مسئلہ میں چارمرتبہ شہادت کو ایک مرتبہ شہادت کو ”چار“ کی قید سے ادا کرنا کافی نہیں ہے بلکہ اصل شہادت کو چار مرتبہ اس کی طرف سے تکرار کرے ۔
۲۔ دوسری قسم (ایک وقت میں صیغہ طلاق کو تکرار کرنے)میں طلاق پہلے ہی صیغہ میں حاصل ہوجائے گی اور عقد ختم ہوجائے گا اور میاں بیوی ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے اور عقد ازدواج باقی نہیں رہ جائے گا لہذا دو مرتبہ یا تین مرتبہ صیغہ طلاق کو جاری کرنا لغو ہوگا،کیونکہ جس عورت کو طلاق ہوگئی ہے اس کو دو مرتبہ طلاق دینے کے کوئی معنی نہیں ہے اور ختم شدہ عقد دوبارہ ختم نہیں ہوگا اور یہاں پر جو تکرار کی شرط ہے وہ اس طرح حاصل نہیں ہوگی ،بلکہ طلاق اس وقت تکرار ہوگی جب ہر عقد کے بعد ایک طلاق دی جائے ، چاہے یہ عقد ، مرد کے رجوع کرنے سے ہی کیوں نہ واقع ہو ورنہ بعد والی طلاق لغو ہوگی ، پس پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی فرمایش کے مطابق ”لا طلاق الا بعد نکاح“۔ طلاق ، شادی کے بغیر صحیح نہیں ہے اور اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ اور ”لا طلاق قبل نکاح“ ۔ شادی سے پہلے کوئی طلاق نہیں ہے ۔ ”ولا طلاق لمن لا یملک“ (۳) ۔ جو شخص (عورت سے بوس و کنارکا)مالک نہیں ہے وہ طلاق نہیں دے سکتا، جب تک ان کے درمیان عقد ازدواج اور بیوی و شوہر کا رابطہ نہ ہو ، دوسری طلاق لغو اور بے معنی ہوگی ۔
احکام القرآن میں جصاص نے کہا ہے (۴) : طلاق کی آیت : ”الطلاق مرتان“ (جس طلاق میں رجوع ہے) وہ دو مرتبہ ہے ۔
اولا : حکم دیتا ہے کہ طلاقوں کے درمیان فاصلہ ہونا چاہئے ۔ ثانیا : حکم رجوع کو بیان کرتے وقت رجوع تین طلاق سے کم میں واقع نہیں ہوگا کیونکہ خداوند عالم فرماتا ہے : ”الطلاق مرتان“ اور ”الطلاق مرتان “ اقتضاء کرتا ہے کہ طلاقوں کے درمیان فاصلہ ہونا چاہئے، کیونکہ اگر کوئی بغیر فاصلہ کے دو مرتبہ صیغہ طلاق جاری کرے تو یہ صحیح نہیں ہے اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دو مرتبہ طلاق واقع ہوگئی ہے،اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر کسی شخص کو دو روپیہ ایک ساتھ دئیے جائیں تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے تمہیں دو مرتبہ پیسہ دئیے تھے مگریہ کہ اس کو دو مرتبہ پیسہ دئیے جائیں اور پھر کہا جائے کہ میں نے اس کو دو مرتبہ پیسہ دئیے ہیں ۔
سنت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم): ابن ماجہ اپنی ”سنن“ میں ایک صحیح روایت محمود بن لبید سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو خبر دی گئی کہ ایک مرد نے ایک وقت میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدی ہیں، آنحضرت (ص) بہت زیادہ ناراض ہوئے اور کھڑے ہوگئے پھر آپ نے فرمایا: ”ایلعب بکتاب اللہ و انا بین اظھرکم“ ؟ (۵) ۔ کیا میرے ہوتے ہوئے تمہارے درمیان (اور میرے سامنے) کتاب خدا سے مزاق ہوتی ہے ؟ اس وقت ایک مرد کھڑا ہوا اور عر ض کیا ، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کیا میں اس کو قتل کردوں؟ (۶) ۔
_________________
1 ـ مسند أحمد 1 : 314 ]1/516 ،ح 2870[ ; صحیح مسلم 1 : 574 ]3/276 ، ح 15 ، کتاب الطلاق[ .
2 ـ بقره : 229 ـ 230 .
3 ـ سنن دارمى 2 : 161 ; سنن أبی داود 1 : 342 ]2/258 ، ح 2190[ .
4 ـ أحکام القرآن 1 : 447 ]1/378[ .
5 ـ سنن ابن ماجه، ج 1، ص 631; سنن ابى داود، ج 1، ص 342; سنن دارمى، ج 2، ص 161; مستدرک حاکم ج 2 ص 24.
6 ـ شفیعى شاهرودى، گزیده اى جامع از الغدیر، ص 537.
Categories:
Urdu - اردو
0 comments:
Post a Comment
براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.