ابن عباس سے نقل ہوا ہے : شریح قاضی نے عمر بن خطاب سے مشکل مسئلہ کا حل دریافت کیا ، اس کے چہرہ کا رنگ متغیر ہوگیا اور غصہ کی حالت میں ادھر سے ادھر کررہے تھے ،خلاصہ یہ کہ وہ اس مسئلہ کو حل نہیں کرسکے ، یہاں تک کہ تمام اصحاب کو بلایا اور مسئلہ کو ان کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اس کا راہ حل بیان کرو ، ان سب نے کہا : ” یاامیر المومنین ! انت المفزع و انت المنزع“ ۔ اے امیر المومنین تم سب کی پناہ گا ہ ہواور تم ہی منبع و مآخذ ہو ۔ عمر اس بات سے غصہ ہوگئے اور کہا : ”اتقو اللہ و قولوا قولا سدیدا یصلح لکم اعمالکم“۔ خدا سے ڈرو اور ایسی بات کہو جو تمہارے لئے فائدہ مند ہو ۔ سب نے کہا : اے امیر المومنین ! ہمارے پاس تمہارے سوال کا جواب نہیں ہے ۔ عمر نے کہا : ”اما واللہ انی لاعرف ابا بجدتھا و ابن بجدتھا، واین مفزعھا و این منزعھا “ لیکن خدا کی قسم ایسے شخص کو پہچانتا ہوں جو علم و دانش کا چشمہ اور حلال مشکلات ہے
(اور تمام مسائل کو جانتا ہے ) اور اس مسئلہ کا جواب بھی اچھی طرح جانتا ہے، سب نے کہا : شاید تمہاری مراد علی ابن ابی طالب ہیں؟ اس نے کہا : للہ ھو و وھل طفحت حرة بمثلہ و ابرعتہ؟! انھضوابنا الیہ“۔ جی ہاں میری مراد وہی ہیں،کیا کوئی ایسی ماں ہے جس نے ایسا بچہ کو جنم دیا ہو اور ایسا کامل انسان، معاشرہ کے حوالہ کیا ہو؟ ! لہذا کھڑے ہوجاؤ ،ان کے پاس چلتے ہیں، ان سب نے کہا : کیا تم ان کے پاس جانا چاہتا ہو؟! تم حکم کرو کہ وہ تمہارے پاس آئیں،عمر نے کہا : ”ھیھات ھنالک شجنة من بنی ھاشم ، و شجنة من الرسول، و اثرة من علم یوتی لھا ولایاتی، فی بیتہ یوتی الحکم، فاعطفوا نحوہ“۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اس گھر میں بنی ہاشم کی ایک شاخ ہے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شاخ ہے اور ان کے پاس علم کی بہت سی نشانیاں ہیں جن کے پاس ہمیں خود جانا چاہئے، وہ کسی کے پاس نہیں جاتے اور حکمت ان ہی کے گھر سے ملے گی لہذا ان کے پاس چلو ۔ تمام اصحاب ، عمر کے ساتھ حضرت علی (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور سب نے دیکھا کہ وہ ایک دیوار کے پاس کھڑے ہیں اور اس آیت کی تلاوت کررہے ہیں :”ایحسب الانسان ان یترک سدی“ (۱) ۔ کیا انسان خیال کرتا ہے کہ اس کو بے ہدف چھوڑ دیا گیا ہے ؟! اس کے بعد اس کی تکرار کرتے ہیں اور گریہ کرتے ہیں ، عمر نے شریح سے کہا : جو مسئلہ تم نے مجھ سے نقل کیا ہے اس کو اباالحسن سے نقل کرو ۔
شریح نے کہا : میں مسند قضاوت پر تھا کہ یہ شخص میرے پاس آیا اور کہا : ایک شخص نے ایک آزاد عورت جس کا مہر بہت زیادہ تھا اور ایک ام الولد عورت (ام الولد عورت اس کنیز کو کہتے ہیں جس کے اپنے مولا سے کوئی اولاد ہو) کو میرے حوالہ کیا اور کہا : میرے واپس آنے تک ان کو نفقہ دیتے رہنا ، پہلی رات دونوں عورتوں کے یہاں ولادت ہوگئی ، ایک کے لڑکی اور ایک کے لڑکا متولد ہوا اور ان میں سے ہر ایک زیادہ میراث لینے کی وجہ سے ادعا کرتی ہے کہ لڑکا اس کا ہے اور لڑکی سے دونوں انکار کرتی ہیں ۔ امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا : تم نے ان دونوں کے درمیان کس طرح فیصلہ کیا: شریح نے کہا : اگر میں ان کے درمیان فیصلہ کرسکتاتو آپ کے پاس نہ آتا ، امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے درخت کا ایک پتہ اٹھایا اورشرح کو دکھا کرفرمایا: اس مسئلہ میں قضاوت کرنا اس درخت کے پتہ سے آسان ہے ،اس کے بعد ایک برتن منگایا اور ان عورتوں میں سے ایک عورت سے فرمایا: اپنے دودھ کو اس برتن میں نکالو ، اس کے بعد آپ نے اس کا وزن کیا ، پھر دوسری عورت سے کہا : اس نے بھی اپنا دودھ اس برتن میں نکالا ، آپ نے پھر اس کا بھی وزن کیا تو آپ نے دیکھا کہ دوسری عورت کے دودھ کا وزن پہلی عورت کے دودھ سے آدھا ہے ،اس کے بعد آپ نے دوسری عورت سے فرمایا: تم اپنی لڑکی کو اٹھا لو اور پہلی سے کہا تم اپنے لڑکے کو اٹھا لو ۔ اس کے بعدشریح سے فرمایا: ”اما علمت ان لبن الجاریة علی النصف من لبن الغلام؟ و ان میراثھا نصف میراثہ؟ و ان عقلھا نصف عقلہ؟ و ان شھادتھا نصف شھادتہ؟ و ان دیتھا نصف دیتہ؟ وھی علی النصف فی کل شیء“۔ کیا تم نہیں جانتے کہ لڑکی کا دودھ کا وزن لڑکے کے دودھ سے آدھا ہے ؟ اور لڑکی کی میراث بھی لڑکے کی میراث سے آدھی ہے؟ اوراس کی عقل بھی لڑکے کی عقل سے آدھی ہے ؟ اور اس کی شہادت (گواہی) بھی لڑکے کی شہادت سے آدھی ہے ؟ اور اس کی دیت بھی لڑکے کی دیت سے آدھی ہے؟ اور سب چیز میں آدھی ہے ،اس وقت عمر کو بہت زیادہ تعجب ہوا اور اس نے کہا: ” ابا حسن لا ابقانی اللہ لشدة لست لھا ولا فی بلد لست فیہ“ (۲) ۔ یا ابوالحسن ! خداوندعالم کبھی بھی مجھے تمہارے بغیر کسی چیز میں مبتلا نہ کرے اور جس شہر میں آپ نہ ہو مجھے اس شہر میں اکیلا نہ چھوڑے(۳) ۔
__________________
۱۔ سورہ قیامت ، آیت ۳۶۔
۲۔ کنز العمال ۳ : ۱۷۹، ۵/ ۸۳۰،ح ۱۴۵۰۸۔
۳۔ شفیعی شاھرودی ، گزیدہ ای جامع از الغدیر، ص ۵۳۶
(اور تمام مسائل کو جانتا ہے ) اور اس مسئلہ کا جواب بھی اچھی طرح جانتا ہے، سب نے کہا : شاید تمہاری مراد علی ابن ابی طالب ہیں؟ اس نے کہا : للہ ھو و وھل طفحت حرة بمثلہ و ابرعتہ؟! انھضوابنا الیہ“۔ جی ہاں میری مراد وہی ہیں،کیا کوئی ایسی ماں ہے جس نے ایسا بچہ کو جنم دیا ہو اور ایسا کامل انسان، معاشرہ کے حوالہ کیا ہو؟ ! لہذا کھڑے ہوجاؤ ،ان کے پاس چلتے ہیں، ان سب نے کہا : کیا تم ان کے پاس جانا چاہتا ہو؟! تم حکم کرو کہ وہ تمہارے پاس آئیں،عمر نے کہا : ”ھیھات ھنالک شجنة من بنی ھاشم ، و شجنة من الرسول، و اثرة من علم یوتی لھا ولایاتی، فی بیتہ یوتی الحکم، فاعطفوا نحوہ“۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اس گھر میں بنی ہاشم کی ایک شاخ ہے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شاخ ہے اور ان کے پاس علم کی بہت سی نشانیاں ہیں جن کے پاس ہمیں خود جانا چاہئے، وہ کسی کے پاس نہیں جاتے اور حکمت ان ہی کے گھر سے ملے گی لہذا ان کے پاس چلو ۔ تمام اصحاب ، عمر کے ساتھ حضرت علی (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور سب نے دیکھا کہ وہ ایک دیوار کے پاس کھڑے ہیں اور اس آیت کی تلاوت کررہے ہیں :”ایحسب الانسان ان یترک سدی“ (۱) ۔ کیا انسان خیال کرتا ہے کہ اس کو بے ہدف چھوڑ دیا گیا ہے ؟! اس کے بعد اس کی تکرار کرتے ہیں اور گریہ کرتے ہیں ، عمر نے شریح سے کہا : جو مسئلہ تم نے مجھ سے نقل کیا ہے اس کو اباالحسن سے نقل کرو ۔
شریح نے کہا : میں مسند قضاوت پر تھا کہ یہ شخص میرے پاس آیا اور کہا : ایک شخص نے ایک آزاد عورت جس کا مہر بہت زیادہ تھا اور ایک ام الولد عورت (ام الولد عورت اس کنیز کو کہتے ہیں جس کے اپنے مولا سے کوئی اولاد ہو) کو میرے حوالہ کیا اور کہا : میرے واپس آنے تک ان کو نفقہ دیتے رہنا ، پہلی رات دونوں عورتوں کے یہاں ولادت ہوگئی ، ایک کے لڑکی اور ایک کے لڑکا متولد ہوا اور ان میں سے ہر ایک زیادہ میراث لینے کی وجہ سے ادعا کرتی ہے کہ لڑکا اس کا ہے اور لڑکی سے دونوں انکار کرتی ہیں ۔ امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا : تم نے ان دونوں کے درمیان کس طرح فیصلہ کیا: شریح نے کہا : اگر میں ان کے درمیان فیصلہ کرسکتاتو آپ کے پاس نہ آتا ، امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے درخت کا ایک پتہ اٹھایا اورشرح کو دکھا کرفرمایا: اس مسئلہ میں قضاوت کرنا اس درخت کے پتہ سے آسان ہے ،اس کے بعد ایک برتن منگایا اور ان عورتوں میں سے ایک عورت سے فرمایا: اپنے دودھ کو اس برتن میں نکالو ، اس کے بعد آپ نے اس کا وزن کیا ، پھر دوسری عورت سے کہا : اس نے بھی اپنا دودھ اس برتن میں نکالا ، آپ نے پھر اس کا بھی وزن کیا تو آپ نے دیکھا کہ دوسری عورت کے دودھ کا وزن پہلی عورت کے دودھ سے آدھا ہے ،اس کے بعد آپ نے دوسری عورت سے فرمایا: تم اپنی لڑکی کو اٹھا لو اور پہلی سے کہا تم اپنے لڑکے کو اٹھا لو ۔ اس کے بعدشریح سے فرمایا: ”اما علمت ان لبن الجاریة علی النصف من لبن الغلام؟ و ان میراثھا نصف میراثہ؟ و ان عقلھا نصف عقلہ؟ و ان شھادتھا نصف شھادتہ؟ و ان دیتھا نصف دیتہ؟ وھی علی النصف فی کل شیء“۔ کیا تم نہیں جانتے کہ لڑکی کا دودھ کا وزن لڑکے کے دودھ سے آدھا ہے ؟ اور لڑکی کی میراث بھی لڑکے کی میراث سے آدھی ہے؟ اوراس کی عقل بھی لڑکے کی عقل سے آدھی ہے ؟ اور اس کی شہادت (گواہی) بھی لڑکے کی شہادت سے آدھی ہے ؟ اور اس کی دیت بھی لڑکے کی دیت سے آدھی ہے؟ اور سب چیز میں آدھی ہے ،اس وقت عمر کو بہت زیادہ تعجب ہوا اور اس نے کہا: ” ابا حسن لا ابقانی اللہ لشدة لست لھا ولا فی بلد لست فیہ“ (۲) ۔ یا ابوالحسن ! خداوندعالم کبھی بھی مجھے تمہارے بغیر کسی چیز میں مبتلا نہ کرے اور جس شہر میں آپ نہ ہو مجھے اس شہر میں اکیلا نہ چھوڑے(۳) ۔
__________________
۱۔ سورہ قیامت ، آیت ۳۶۔
۲۔ کنز العمال ۳ : ۱۷۹، ۵/ ۸۳۰،ح ۱۴۵۰۸۔
۳۔ شفیعی شاھرودی ، گزیدہ ای جامع از الغدیر، ص ۵۳۶
Categories:
Urdu - اردو
0 comments:
Post a Comment
براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.