اس
موضوع کی تشریح میں مختصر بیان یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق
رجعی دے [یعنی ایسی طلاق جس کی عدت میں مرد بغیر نکاح کے اس عورت کی طرف
رجوع کرسکتا ہے ] اور عدت میں رجوع کرنے کے بعد دوبارہ طلاق دیدے
اور
پھر رجوع کر لے اور تیسری دفعہ پھر طلاق دیدے تو اب اس عورت کی طرف رجوع
کا حق نہیں ہے لیکن اگر چاہتا ہے کہ وہ عورت اس کے لئے حلال ہوجائے تو
ضروری ہے کہ کوئی دوسرا شخص عدت کے بعد اس سے نکاح کرے اسکے بعد طلاق دے
تو عدت گزارنے کے بعد پہلا شخص اس سے عورت سے شادی کر سکتا ہے
یہاں
فقہ جعفری کا حکم [جو کہ قرآن اور سنت سے اخذ کیا گیا ہے ]یہ ہے کہ ان
تین طلاق میں ہر ایک الگ ہونی چاہئے یعنی ایک ہی دفعہ میں تین طلاق
نہیں دے سکتا ہے اور کوئی اس طرح سے طلاق دے تو فقط ایک ہی طلاق شمار ہوگی
۔
اب ہم صحاح ستہ کی روایات کا جائزہ لیتے ہیں :
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر اور دور خلافت عمر کے دو سال تک تین طلاق ایک ہی شمار کی جاتی تھیں سو عمر بن خطاب نے کہا :لوگ اس میں جلد بازی کرتے ہیں جس میں انھیں مہلت دی گئی ہے
پس اگر ہم تین ہی نافذ کردیں تو مناسب ہوگا چنانچہ انہوں نے تین طلاق ہی واقعہ ہو جانے کا حکم دے دیا۔"
كَانَ
الطَّلاَقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَبِى
بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ طَلاَقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَةً
فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِى
أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ
عَلَيْهِمْ. فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ.
یعنی
:طلاق رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانہ میں ابو بکر کی کے زمانے
میں اور عمر کے خلافت کے ابتدائی دو سال تک تین طلاقیں، ایک طلاق شمار
ہوتی تھی پھر عمر بن خطاب نے کہا لوگ اس کام میں جلدی کرتے ہیں جس میں
انھیں مہلت دی گئی ہے پس انھوں نے نافذ کردی ۔
صحیح مسلم جلد ۴ ، ص ۱۸۳ ۔ باب طلاق
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ لوگوں کی جلد بازی کی وجہ سے عمر نے حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی سنت کے برخلاف یہ حکم جاری کیا
کیا لوگوں کی جلد بازی حکم خدا کی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے؟
رسول اکرم صلی اللہ نے اس بدعت کی اپنی زندگی میں شدید مذمت کر دی تھی
أُخْبِرَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ
امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ
أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ حَتَّى قَامَ
رَجُلٌ وَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَقْتُلُهُ
یعنی
:حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی آدمی سے متعلق یہ خبر دی
گئی کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی وقت میں دے ڈالی ہیں۔ یہ
بات سن کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے اور غصہ میں
فرمانے لگے کہ کیا کتاب اللہ سے کھیل ہو رہا ہے۔ حالانکہ میں ابھی تم
لوگوں کے درمیان موجود ہوں۔ یہ بات سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے
لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کو قتل کر ڈالوں؟۔"
سنن النسائی ج ۱۱ ، ص ۷۹
غور
کیجئے کہ : جسطرح کا حکم عمر نے دیا ہے اس سے حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ
غضبناک ہوئے اور اس کو کتاب خدا سے کھیلنے کے مترادف قرار دیا۔جو کہ قرآن
میں ذکر ہوا ہے :الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔ پس آیت مذکور کے اعتبار سے طلاق کا ایک دوسرے سے جدا ہونا ضروری ہے تاکہ دوبار طلاق دینا کہا جائےکوایک ہی وقت میں
دوسری اور تیسری طلاق دینے کو دوسری مرتبہ اور تیسری مرتبہ طلاق دینا نہیں کہا جاتا ہے
اور بعد کی آیت میں آیا ہے کہ اگر عورت کو تیسری طلاق تو وہ اس پر حلال نہیں ہوگی مگر یہ کہ کوئی دوسرا مرد اس سے شادی کرلے ۔
Categories:
Arabic - العربية
,
Urdu - اردو
0 comments:
Post a Comment
براہ مہربانی شائستہ زبان کا استعمال کریں۔ تقریبا ہر موضوع پر 'گمنام' لوگوں کے بہت سے تبصرے موجود ہیں. اس لئےتاریخ 20-3-2015 سے ہم گمنام کمینٹنگ کو بند کر رہے ہیں. اس تاریخ سے درست ای میل اکاؤنٹس کے ضریعے آپ تبصرہ کر سکتے ہیں.جن تبصروں میں لنکس ہونگے انہیں فوراً ہٹا دیا جائے گا. اس لئے آپنے تبصروں میں لنکس شامل نہ کریں.
Please use Polite Language.
As there are many comments from 'anonymous' people on every subject. So from 20-3-2015 we are disabling 'Anonymous Commenting' option. From this date only users with valid E-mail accounts can comment. All the comments with LINKs will be removed. So please don't add links to your comments.